مولانا وحیدالدین خان
04 فروری 2014
مکالمہ کا اسلام سے ایک اٹوٹ رشتہ ہے۔اسلام ایک دعوتی مشن ہے۔اور دعوتی مشن خود میں ایک مکالمہ ہے۔ دعوتی مشن میں لوگوں کے ساتھ ربط پیدا کرنے اور ان کے ساتھ گفتگو کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ دعوتی مشن لوگوں پر دوسروں کی فکر کو ضروری قرار دیتا ہے۔ دعوتی سرگرمیوں کے بغیر آپ کا وجود تنہاہے۔ لیکن جب آپ دعوت کو اپنا ایک مشن بنا لیتے ہیں تو آپ بے شمار لوگوں کے ساتھ ربط میں آجاتے ہیں اور جب بہت سارے لوگ ایک ساتھ جمع ہوں تو پھر فطری طور پر مکالمے کا آغاز ہوتا ہے۔
قرآن نے دعوت کے لیے ایک انتہائی عملی منہج فراہم کیا ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ ہم فریقین کے درمیان مشترکہ اقدار تلاش کریں اور اسے ہی گفتگو اور مکالمہ کی ابتدائی بنیاد بنائیں، اس اصول کو قرآن میں اس طرح بیان کیا گیا ہے: ‘‘آپ فرما دیں: اے اہلِ کتاب! تم اس بات کی طرف آجاؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان یکساں ہے، (وہ یہ) کہ ہم اﷲ کے سوا کسی کی عبادت نہیں کریں گے اور ہم اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے اور ہم میں سے کوئی ایک دوسرے کو اﷲ کے سوا رب نہیں بنائے گا، پھر اگر وہ روگردانی کریں تو کہہ دو کہ گواہ ہو جاؤ کہ ہم تو اﷲ کے تابع فرمان (مسلمان) ہیں’’۔ (3:64)
اسلامی تاریخ کے ابتدائی ادوار میں ہمیں مکالمہ کی ایک عملی شکل کا بھی پتہ ملتا ہے۔ اس مکالمہ کا انعقاد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں کیا گیا تھا۔ مسجد نبوی میں منعقد ہونے والے اس مکالمہ میں تین مذاہب کے نمائندوں نے شرکت کی تھی۔ ان تینوں مذہبی نمائندوں کا تعلق بالترتیب اسلام، یہودیت اور عیسائیت سے تھا، دراصل یہ ایک سہ رخی مکالمہ تھا۔
مکالمہ کا مقصد لوگوں کے مذہب کو تبدیل کرنا نہیں ہے بلکہ مکالمہ ایک ذاتی تجربہ ہے۔ ہر انسان اسی اعتقاد کے ساتھ زندگی گزارتا ہے کہ وہ سچے راستے پر ہے۔ مکالمہ کا مقصد مذہبی بقائے باہم اور مذہبی رواداری کی راہیں تلاش کرنا ہے۔ مکالمہ کا مقصد اختلافات اور تنوعات کا مٹانا نہیں ہے اور نہ ہی کسی ایسے معاشرے کی تعمیر کرنا ہے جہاں بالکل ہی کوئی اختلاف نہ ہو۔ جو لوگ تمام اختلافات اور تنوعات کو یکسر ختم کرنا چاہتے ہیں وہ ایک خیالی دنیا میں گم ہیں۔ خیالی دنیا کا وجود صرف ذہن میں ہی ہو سکتا ہے حقیقی دنیا سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ اختلافات اس کائنات فطرت کا حصہ ہیں۔ انہیں ختم کرنا یا مٹانا بالکل نا ممکن ہے۔
مکالموں کا مقصد حقیقی باہمی تعلیم و تعلم ہے اور یہی ہونا بھی چاہیے۔ مکالمہ مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان سماجی رشتوں میں اصلاح پیدا کرنے، اجتماعی طور پر معاشرے میں امن اور ہم آہنگی کو فروغ دینے اور ایک دوسرے کے تعلقات کو بہتر طریقے سے سمجھنے کا ایک اہم ذریعہ بھی ہے۔ مکالمہ دعوت کے لیے بھی ضروری ہے۔ دوسروں کے ساتھ ایک دوستانہ تعلق پیدا کر کے ہی ہم ایک ہم اپنے مذہب کی تعلیمات کو دوسروں تک پہنچا سکتے ہیں۔ لیکن اس کا مقصد اختلافات کو ختم کرنا اور لوگوں کا مذہب تبدیل کرنا نہیں ہے۔
ایک مرتبہ کسی نے مجھ سے پوچھا کہ ‘‘چونکہ اسلام ایک دعوتی اور تبلیغی مذہب ہے اور مسلمانوں کو دعوت و تبلیغ کرنے کا حکم دیا گیا ہے، لہٰذا مسلمان فطری طور پر مکالمہ کرنا پسند نہیں کر سکتے۔ انہوں نے کہا کہ اگر مسلمانوں کا یہ ماننا ہے دوسرے مذاہب غلط اور فاسد ہیں تو اس صوررت میں وہ دوسرے مذاہب کے پیروکاروں کے ساتھ ہم آہنگی قائم نہیں کر سکتے۔ اس بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
میرا جواب یہ ہے کہ ہر انسان کا ایک مقصد ہے ۔ سیکولر لوگوں کا بھی ایک مقصد ہے۔ یہ چیز انسانی جبلت میں داخل ہے۔ انسانوں کی ایک فطرت یہ بھی ہے کہ ہر انسان خود کے بارے میں یہ گمان رکھتا ہے کہ وہ سچے راستے پر ہے۔ اس یقین کے بغیر اس دنیا میں زندگی بسر کرنا ناممکن ہے۔ اس سے لوگوں میں اعتماد کی سطح بڑھتی ہے اور اس مضبوطی کے بغیر انسان اپنی توانائی کے ساتھ کچھ بھی نہیں کر سکتا۔ لیکن دعوت اور مکالمہ کے درمیان کوئی تصاد نہیں ہے۔ دعوت بھی ایک مکالمہ ہے اس لیے کہ کسی ایک مذہب کو اختیار کرنا لوگوں کا اپنا فیصلہ ہے۔ مذہب تبدیل کرنا مکالمہ کا صحیح مقصد نہیں ہے۔
مکالمہ کا مقصد لوگوں کو اپنے مذہب قبول کرنے پر مجبور کرنا درست نہیں ہے۔ مکالمہ اگر مباحثہ نہ ہو تو اس سے ہمیشہ دانشورانہ عروج غور و فکر میں گہرائی و گیرائی حاصل ہوتی ہے۔ اس سے رواداری کو بھی فروغ ملتا ہے جو کہ مکالمہ کی روح ہے۔ مکالمہ کا مقصد اس دنیا کو بدلنا نہیں ہے بلکہ باہمی تعلیم و تعلم کا ایک سلسلہ قائم کرنا ہے۔ اور باہمی تعلیم و تعلم کا ایک سلسلہ قائم کرنا بہر صورت ممکن ہے اگر چہ اختلافات پائے جائیں تب بھی۔
ایک اسلامی نقطہ نظر سے کسی دوسرے مذہب کا احترام کرنے کا مطلب ان کی مذہب کی سچائی اور صداقت کو قبول کرنا نہیں ہے، بلکہ دوسرے مذہب کا احترام کرنا ایک عملی حکمت کا مظاہرہ ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اس دنیا میں مذہبی اور سیکولر دونوں معاملات میں اختلافات کا یکسر ختم ہو جانا ایک ناممکن امر ہے۔ ایسی صورت حال میں بس ایک ہی راستہ بچ جاتا ہے اور وہ ہے کہ بین المذاہب مکالمہ کا قیام کیا جائے اور ساتھ ہی ساتھ باہمی احترام کا بھی طریقہ اختیار کیا جائے۔
جب ہم دوسرے مذاہب کے احترام کی بات کرتے ہیں تو اس کا کیا مطلب ہوتا ہے؟ کیا اس کا مطلب ان مذاہب کا احترام کرنا ہے، ان مذاہب سے تعلق رکھنے والوں کے ان کے اپنے اپنے مذہب پر عمل کرنے کے ان کے حقوق کا احترام کرنا ہے یا اللہ کی ایک مخلوق ہونے کی حیثیت سے ان مذاہب کے پیروکاروں کا احترام کرنا ہے؟
دوسروں کا احترام کرنا کوئی مذہبی مسئلہ نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق اخلاقیات سے ہے، یہاں تک کہ صرف ایک ہی مذہب میں بے شمار اختلافات پائے جاتے ہیں۔ رواداری اور احترام باہمی کے بغیر صرف ایک ہی مذہب کے پیر و کاروں کے درمیان ہم آہنگی قائم کرنا ناممکن ہے۔ لہٰذا یہ صرف ایک بین المذاہب تعلقات کا ہی سوال نہیں ہے۔ بلکہ یہ ایسا مسئلہ ہے جس کا تعلق مذہب کے داخلی تعلقات سے ہے۔ ان دونوں صورتوں میں مختلف نظریات کے حامل لوگوں کو یکساں احترام سے نوازنا ضروری ہے۔
صحیح معنوں میں مکالمہ کا قیام کرنے کے لیے فرقہ وارانہ افکار سے آزاد ہونا ضروری ہے۔ اگر آپ فرقہ واریت پر منبی تفوق پرستی کے نظریات سے آزاد ہیں تب آپ کا کسی مکالمہ میں شریک ہونا بجا ہے۔
(انگریزی سے ترجمہ: مصباح الہدیٰ، نیو ایج اسلام)
URL for English article:
https://newageislam.com/islamic-ideology/dialogue-dawah/d/35586
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/dialogue-dawah-/d/56097