نیو ایج اسلام کے لئے مولانا وحید الدین خان
28 فروری 2015
قرآن کی آیات (51:56-60) ملاحظہ فرمائیں:
‘‘اور میں نے جنّات اور انسانوں کو صرف اسی لئے پیدا کیا کہ وہ میری بندگی اختیار کریں، نہ میں اُن سے رِزق (یعنی کمائی) طلب کرتا ہوں اور نہ اس کا طلب گار ہوں کہ وہ مجھے (کھانا) کھلائیں، بیشک اﷲ ہی ہر ایک کا روزی رساں ہے، بڑی قوت والا ہے، زبردست مضبوط ہے (اسے کسی کی مدد و تعاون کی حاجت نہیں)، پس ان ظالموں کے لئے (بھی) حصۂ عذاب مقرّر ہے ان کے (پہلے گزرے ہوئے) ساتھیوں کے حصۂ عذاب کی طرح، سو وہ مجھ سے جلدی طلب نہ کریں، سو کافروں کے لئے اُن کے اُس دِن میں بڑی تباہی ہے جس کا اُن سے وعدہ کیا جا رہا ہے۔’’
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی عبداللہ ابن عباس کے ایک شاگرد مجاہد نے مندرجہ بالا آیت میں لفظ ‘‘لیعبدون’’ کی تفسیر جملہ ‘‘لیعرفون’’ سے کی ہے۔ یعنی جملہ 'تاکہ وہ میری عبادت کریں' سے مراد یہ ہے کہ ' تا کہ انہیں میری معرفت حاصل ہو'۔
اس سے ہمیں یہ پتہ چلتا ہے کہ قرآن کی اس آیت میں عبادت سے مراد عبادت کی ظاہری صورت اور ہیئت نہیں بلکہ یہاں عبادت سے روح 'عبادت' مراد ہے۔ اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ عبادت کی روح کو ہی خدا کی معرفت کہا جاتا ہے۔
اب ہمیں یہ جانا ہے کہ 'معرفت' آخر ہے کیا؟ اور لوگوں کوکس معرفت کی ضرورت ہے؟
معرفت سے مراد اپنے اور خالق کے درمیان موجود حقیقی رشتے کو دریافت کرناہے۔ اس رشتے کے دو پہلو ہیں: ایک کا تعلق انسان سے ہے اور دوسرے کا تعلق خالق سے ہے۔ بالفاظ دیگر اس امر کو دریافت کرنا معرفت ہے کہ انسان مکمل طور پر بے بس ہے اور خدا ہی مختار کل ہے، اور حقیقی معنوں میں خدا ہی دینے والا ہے اور انسان بس لینے والا ہے۔
آنے والی آیات ہمیں عبادت کی حقیقت بتاتی ہیں: "نہ میں اُن سے رِزق (یعنی کمائی) طلب کرتا ہوں اور نہ اس کا طلب گار ہوں کہ وہ مجھے (کھانا) کھلائیں، بیشک اﷲ ہی ہر ایک کا روزی رساں ہے، بڑی قوت والا ہے، زبردست مضبوط ہے ۔" اس آیت کے دو حصے ہیں۔ پہلا حصہ ہے: "نہ میں اُن سے رِزق (یعنی کمائی) طلب کرتا ہوں " جس کا مطلب یہ ہے کہ انسان رزق کے لئے مکمل طور پر خدا پر منحصر ہے، بالفاظ دیگر انسان یک طرفہ طور پر حاصل کرنے والا ہے، اور خدا یک طرفہ طور پر عطا کرنے والا ہے۔
قرآن مجید کی مذکورہ بالا آیات کا آخری حصہ ہے: "سو کافروں کے لئے اُن کے اُس دِن میں بڑی تباہی ہے جس کا اُن سے وعدہ کیا جا رہا ہے" جس سے اس بات کا علم ہوتا ہے کہ خالق اور بندے کے درمیان تعلق کو دریافت کرنا کوئی عام بات نہیں ہے۔ یہ مسئلہ ثواب اور عذاب کے ابدی قانون سے منسلک ہے۔ اس کا مطلب یہ ہےکہ اگر آپ واقعی اپنی تخلیق کے مقصد کو پورا کرتے ہیں تو جنت آپ کے لئے ہے۔ اور اگر آپ اس امتحان میں ناکام رہتے ہیں تو آپ کا ٹھکانہ جہنم ہے۔
URL for English article:
https://newageislam.com/islam-spiritualism/man-created/d/101751
URL for this article: https://newageislam.com/urdu-section/man-created-/d/101875