مولانا وحیدالدین خان برائے نیو ایج اسلام
قرآن کی ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے یا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا إِنْ تَتَّقُوا اللَّہَ یَجْعَلْ لَکُمْ فُرْقاناً (8:29)۔ یعنی اے ایمان والو، اگر تم اللہ سے ڈرو گے تو وہ تمہارے لیے فرقان عطا کرے گا۔ فرقان کا لفظی مطلب ہے فرق کرنے والا۔ یہ لفظ جب دین کے معاملے میں بولا جائے، تو اس سے مراد ہوگا حق اور باطل کےدرمیان فرق کرنے والا۔ اس معاملے میں تقویٰ کا رول یہ ہے کہ تقویٰ آدمی کے اندر حساسیت (sensitivity)پیدا کرتا ہے۔متقی انسان حق اور ناحق کے معاملے میں بے حد حساس (sensitive) بن جاتا ہے۔
مفسر طبری نے فرقان کا مطلب ان الفاظ میں بیان کیا ہے فُرْقَانٌ یُفَرِّقُ فِی قُلُوبِہِمْ بَیْنَ الْحَقِّ وَالْبَاطِلِ، حَتَّى یَعْرِفُوہُ وَیَہْتَدُوا بِذَلِکَ الْفُرْقَانِ (تفسیر الطبری،13/490)۔ یعنی فرقان وہ چیز ہے، جس سے انسان کے دلوں میں حق اور باطل کے درمیان فرق کیا جاتا ہے، یہاں تک کہ وہ اس کی معرفت حاصل کرتے ہیں، اور اس فرقان کے ذریعے ہدایت حاصل کرتے ہیں۔
فرقان کا مطلب بصیرت یا معیار (criterion) ہے۔ بصیرت کسی آدمی میں وہ اندرونی روشنی پیدا کرتی ہے کہ وہ ظاہری پہلوؤں سے دھوکا کھائے بغیر ہر بات کو اس کے اصل روپ میں دیکھ سکے،وہ ادھر ادھر کے مغالطوں میں الجھے بغیر اصل حقیقت تک پہنچ جائے۔ فرقان کا یہ معاملہ ہر ایک کے ساتھ پیش آتا ہے، خواہ وہ ایک مذہبی آدمی ہو یا ایک تاجر اور ڈاکٹر اور انجینئر۔ فرقان اصلاً ایک انفرادی صفت ہے، یعنی حق و باطل میں امتیازکی یہ صفت ابتدا میں فرد مومن میں پیدا ہوتی ہے۔ پھر بڑھ کر وہ گروہِ مومن کی جماعتی صفت بن جاتی ہے۔ یہ صفت اس بات کی ضامن ہے کہ فردِ مومن یا جماعتِ مومن ہر حال میں سچے راستے پر قائم رہے۔ کوئی خارجی واقعہ اس کو حق کے راستے سے ہٹانے والا نہ بنے۔
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ یہ صفت کسی آدمی کے اندر تقویٰ کے ذریعے پیدا ہوتی ہے۔ تقویٰ سے آدمی کے اندر اللہ کا ڈر پیدا ہوتا ہے۔ یہ ڈر ایک صاحبِ ایمان کو اللہ کے معاملے میں بہت زیادہ محتاط (cautious) بنا دیتاہے۔ یہ صفت آدمی کو حق و باطل کے معاملے میں بہت زیادہ حساس بنادیتی ہے۔ وہ ہر معاملے میں بہت زیادہ جان لیتا ہے کہ کہاں وہ حق پر قائم ہے، اور کہاں وہ حق سے تجاوز (deviate) کرنے والا بن گیا ہے۔ اس معاملے میں اس کی حساسیت اس کے لیے ایک ایسی داخلی صفت بن جاتی ہے، جو اس کو ہر موقعے پر چوکنا کردے۔ وہ حق سے بھٹکنے کے قریب پہنچ کر اس سے باخبر ہوجائے، اور دوبارہ حق کے راستے پر آجائے۔
سائنسی ترازو (scientific balance) بے حد دِقت (precision)کے ساتھ دو چیزوں میں وزن کے فرق کو بتادیتا ہے۔ اسی طرح تقویٰ سے بننے والا فرقان گویا حق و باطل کا سائنٹفک ترازو ہے۔ وہ ادنیٰ فرق کے بغیر یہ بتادیتا ہے کہ کس چیز میں حق کا پہلو کتنا ہے، اور باطل کا پہلو کتنا ہے۔ اس معاملے کا ایک اظہار انسان کے کلام میں ہوتا ہے۔ جن لوگوں کے اندر مبنی بر تقویٰ فرقان نہ بنا ہو، وہ الفاظ بولیں گے، لیکن ان کے الفاظ گہری معنویت سے خالی ہوتے ہیں۔ ان کے کلام میں وضوح (clarity) نہیں ہوتا۔ ان کے کلام میں لوگوں کو کوئی ٹیک اوے (takeaway) نہیں ملتا۔ ان کمیوں سے پاک صرف وہ کلام ہوتا ہے، جو صحیح معنوں میں کلام ِفرقان ہو۔
اگر آدمی کے اندر فرقان موجود ہو، تو اس کے اندر کرائٹیرین (criterion) موجود ہوگا، اس کے اندروہ حساسیت پائی جائےگی، جو اس کے کلام کو چھانٹ کر اس قابل بنائے گی کہ وہ صرف وہ بات کہے، جو حقیقتِ واقعہ کے عین مطابق ہو۔ جس کلام میں باطل کا ادنیٰ شائبہ بھی موجود ہو،تو صاحبِ فرقان انسان کا نفیس ذوق اس کو قبول کرنے سے انکار کردے گا۔
قرآن کی مذکورہ آیت میں فرقان سے مراد معنوی تفریق ہے۔ دوسرے لفظوں میں متعلق (relevant) اور غیرمتعلق (irrelevant) کے فرق کا جاننا۔ تقویٰ کا رول اس معاملے میں یہ ہے کہ اللہ سے خوف کی بنا پر آدمی کے اندر حساسیت پیدا ہوتی ہے۔ وہ اس میں مانع بن جاتی ہے کہ وہ حق کے معاملے میں متعلق اور غیر متعلق بات کو ملا دے۔ وہ صرف الفاظ کو جانے، وہ اس بات کو نہ جانے کہ ایک قسم کی بات، اور دوسری قسم کی بات میں کیا فرق ہے۔ یہی معنوی تفریق یا معنوی امتیاز کا دوسرا نام فرقان ہے۔
معنوی تفریق کے لیے داخلی حساسیت کے علاوہ کوئی اور چیز مؤثر نہیں بن سکتی۔ اس داخلی حساسیت کا واحد راز تقویٰ، یعنی اللہ کا خوف ہے۔ جس آدمی کے اندر اللہ کی پکڑ کا ڈر پیدا ہوجائے، تو وہ اس سے بچے گا کہ وہ ایسی کوئی بات کہے، جو اللہ کے یہاں قابلِ قبول نہ ہو۔ مثلاً قرآن میں اس نوعیت کی ایک مثال وہ ہے، جو اس آیت میں بیان کی گئی ہے إِنَّمَا الْبَیْعُ مِثْلُ الرِّبَا وَأَحَلَّ اللَّہُ الْبَیْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا (2:275)۔یعنی انھوں نے کہا کہ تجارت کرنا بھی ویسا ہی ہے جیسا سود لینا۔ حالاں کہ اللہ نے تجارت کو حلال ٹھہرایا ہے، اور سود کو حرام کیا ہے۔دونوں میں یہ فرق ہے کہ تجارت میںآدمی کسی کو کچھ دے کر اس سے کچھ لیتاہے، جب کہ رِ با (usury) میں آدمی کسی حاجت مند کا استحصال (exploit) کرتا ہے۔
اصل یہ ہے کہ تقویٰ کے نہ ہونےسے انسان کے اندر سے حساسیت ختم ہوجاتی ہے، اور جب حساسیت نہ ہو، تو وہ اسی قسم کی بات بولنے لگتا ہے۔ مثلاً لوہا اور روئی کے درمیان مادی فرق ہوتا ہے، اس فرق کو وہ ہاتھ سے چھو کر جان لیتا ہے۔ لیکن معنوی فرق اس سے مختلف ہے۔ معنوی فرق کو وہی انسان جان سکتا ہے، جو اللہ سے ڈرتا ہے، اور اللہ کے سامنے پیش ہونے سے کانپتا ہے۔ مادی فرق کو انسان ہاتھ سے چھو کر جان سکتا ہے۔ لیکن معنوی فرق کا مسئلہ پہچان کا ہے۔ یہ پہچان صرف داخلی حساسیت کے ذریعے حاصل ہوتی ہے۔
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/furqan-/d/121748
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism