مولانا وحیدالدین خان برائے نیو ایج اسلام
انسانی سماج کو ایک بہتر سماج بنانے کے لیے جو تعمیری اصول ہیں، انھیں اصولوں کو اخلاقی اقدار (moral values) کہا جاتا ہے۔ اِن اخلاقی اقدار کو اختیار کرنے سے انسانی سماج بہتر سماج بنتا ہے، اور ان کو چھوڑنے سے انسانی سماج برباد ہو کر رہ جاتا ہے۔ سماج کو اگر ٹرین سے تشبیہ دی جائے تو اخلاقی اقدار گویا ریل کی وہ پٹریاں ہیں، جن کے اوپر سماجی ٹرین بھٹکے بغیر اپنا سفر کامیابی کے ساتھ طے کرتی ہے۔
یہ اخلاقی اقدار بنیادی طورپر یہ ہیں— امن، انصاف، محبت، سچائی، رواداری، خیر خواہی، عدم ِتشدد، صبر ،تواضع، عالمی اخوت اور اخلاقی سلوک، وغیرہ۔ یہ اخلاقی اقدار اتنے زیادہ مسلّم ہیں کہ تمام مذہبی اور روحانی نظاموں میں یکساں طورپر ان کی خصوصی تعلیم دی گئی ہے، اور ان کو انسانی ترقی کے لیے ضروری قرار دیا گیا ہے۔
اقدارکا یہی مجموعہ ہے، جس کو اخلاق کہا جاتا ہے۔ یہی اخلاقی اصول انسان کے اندر اعلیٰ شخصیت بناتے ہیں۔ انھیں اخلاقی اصولوں کی پیروی سے کوئی سماج بہتر سماج بنتا ہے۔ انھیں اخلاقی اصولوں کی پیروی سے وہ سماجی مقاصد حاصل ہوتے ہیں، جن کو ہم انسانیت کی فلاح کے لیے ضروری سمجھتے ہیں۔
خدا نے اِن اقدار کو انسان کی فطرت میں اخلاقی حِس (moral sense) کے طور پر ودیعت کردیا ہے۔ ہر انسان اِن اخلاقی اصولوں کا شعور پیدائشی طورپر رکھتا ہے۔ تمام مذہبی اور روحانی نظام اِس کی تلقین کرتے ہیں۔ اسی کے ساتھ خدا نے کائنات کو اِس طرح بنایا ہے کہ وہ انسان کے لیے گویا ایک اخلاقی ماڈل بن گئی ہیں۔ جو چیز انسان کو خود اپنے ارادے کے تحت عمل میں لانا ہے، وہ چیز بقیہ کائنات میں خدا کے براہِ راست کنٹرول کے تحت زیر عمل آرہی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ انسان اور کائنات دونوں کا اخلاقی نظام ایک ہے۔ بقیہ کائنات میں اس کا نام قانونِ فطرت (law of nature) ہے، اور انسانی دنیا میں اس کو اخلاقی اقدار (moral values) کہاجاتا ہے۔
انسان اور کائنات دونوں کو ایک خدا نے پیدا کیا ہے۔ دونوں کی کارکردگی کے لیے اس نے ایک ہی قانون مقرر کیا ہے ۔ فرق صرف یہ ہے کہ بقیہ کائنات میں یہ قانون براہِ راست طورپر خود خدا نے نافذ کررکھا ہے۔ لیکن انسان کو خدا نے یہ عزت دی ہے کہ اس کو آزاد اور خود مختار بنایا ہے۔ بہتر انسانی سماج بنانے کا راز یہ ہے کہ انسان اسی خدائی قانون کو خود اپنے ارادے سے اپنی زندگی میں نافذ کرے۔
خلامیں اَن گنت ستارے ہیں۔ ہر ایک نہایت تیزی کے ساتھ وسیع خلا میں گردش کررہے ہیں۔ لیکن ان کے درمیان کبھی ٹکراؤ نہیں ہوتا۔ اِس کا راز یہ ہے کہ ہر ستارہ اور سیارہ اپنے اپنے مقرر مدار(orbit) پر گردش کرتا ہے۔ کوئی ستارہ دوسرے ستارے کے مدار میں داخل نہیں ہوتا۔ گردش کا یہ انضباطی اصول، ستاروں کے درمیان ٹکراؤ ہونے نہیں دیتا۔ یہی اصول، انسان کو اپنی زندگی میںاختیار کرنا ہے۔ ہر ایک کو چاہیے کہ وہ اپنی سرگرمیوں کو اپنے دائرے کے اندر محدود رکھے۔ اس کے بعد انسانی سماج میں کوئی ٹکراؤ نہیں ہوگا۔ یہی فارمولا پیس فُل سماجی تعلقات کا واحد فارمولا ہے۔
ہوائیں چلتی ہیں، تو وہ نہایت تیزی کے ساتھ میدان سے گذرتی ہیں۔ یہاں سر سبز پودے ہوتے ہیں۔ یہ پودے ہواؤں کے طوفان میں نہیں ٹوٹتے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ وہ ہوا کے مقابلے میں کبھی نہیں اکڑتے۔ جب ہو اکا جھونکا آتا ہے، تو پودا فوراً جھک کر ہوا کو گزرنے کا موقع دے دیتا ہے۔ یہی طریقہ انسان کو بھی اختیار کرنا چاہیے۔ انسان کو چاہیے کہ وہ سماجی زندگی میں اکڑ کا انداز اختیار کرنے کےبجائے سمجھوتہ اور ایڈجسٹ مینٹ کا طریقہ اختیار کرے۔
پہاڑوں پر برف پگھلتی ہے، اور اس سے چشمے جاری ہوجاتے ہیں۔ چشمے کے راستے میں بار بار پتھر آتے ہیں، مگر چشمہ ایسا نہیں کرتا کہ پہلے وہ پتھر کو اپنے راستے سے ہٹائے ،اور پھر اس کے بعد اپنا سفر جاری کرے۔ بلکہ وہ مُڑ کر پتھر کے کنارے کی طرف سے اپنا راستہ بنا لیتا ہے، اور آگے کی طرف رواں ہوجاتا ہے۔ یہی طریقہ انسان کو بھی اختیار کرنا چاہیے۔ انسان کو چاہیے کہ وہ ٹکراؤ کو اوائڈ کرکے اپنا راستہ بنائے۔ نہ کہ وہ رُکاوٹ سے ٹکراؤ شروع کردے۔
درخت انسان کے لیے آکسیجن نکالتا ہے، اور ہوا اس کو لے کر اُسے انسان تک پہنچاتی ہے۔ لیکن درخت اور ہوا اپنے اس عمل کے لیے انسان سے اس کی کوئی قیمت نہیں مانگتے ۔ایسا ہی انسان کو کرنا چاہیے۔ انسان کو چاہیے کہ وہ دوسروں کے لیے نفع بخش بنے، اور اپنے اس عمل کے لیے لوگوں سے کسی قیمت کا تقاضا نہ کرے۔
گائے خدا کی ایک زندہ انڈسٹری ہے۔ گائے کو اس کا مالک گھاس کھلاتا ہے، لیکن گائے اس کے بدلے میںاپنے مالک کو دودھ لوٹاتی ہے۔ وہ دوسروں سے غیر دودھ (non-milk)کو لیتی ہے، اور پھر ان کو اپنی طرف سے دودھ (milk) کا تحفہ واپس کرتی ہے۔ اسی طرح انسان کو چاہیے کہ جب بھی اس کو کسی سے منفی تجربہ ہو، تواس کے جوا ب میں وہ اس کے ساتھ مثبت سلوک کی روش اختیا رکرے۔
کسی مقام پر چڑیاں بیٹھی ہوئی ہوں، اور وہ زمین پر پڑے ہوئے دانے چُگ کر خوش خوش اس کو کھارہی ہوں۔ ایسی حالت میں آپ ان کی طرف ایک کنکر پھینک دیں۔ اس کے بعد آپ دیکھیں گے کہ چڑیاں اُڑ کر درخت کی شاخ پر پہنچ گئیں، اور دوبارہ وہاں چہچہانے لگیں۔ نفرت اور شکایت جیسی چیز کسی چڑیاکے دل میں کبھی جگہ نہیں پاتی۔ یہی طریقہ انسان کا ہونا چاہیے۔ انسان کو بھی ایسا بننا چاہیے کہ جب کوئی شخص اس کو ستائے، یا اس کو کوئی نقصان پہنچائے، تو وہ نفرت اور شکایت کو اپنے دل میں جگہ نہ دے۔ وہ منفی حالات کے باوجود اپنے آپ کو مثبت نفسیات پر قائم رکھے۔
دنیا کی تمام چیزیں قابلِ پیشین گوئی کردار (predictable character) کی حامل ہیں۔ اِس مادّی دنیا میں کوئی بھی چیز ایسی نہیں جو اِس معاملے میں استثنا کی حیثیت رکھتی ہو۔ مثلاً ستارے ہمیشہ اپنی مقرر رفتار پر پوری حتمیت کے ساتھ قائم رہتے ہیں۔ ببول کے بیج سے ہمیشہ ببول کا درخت نکلتا ہے، اور انگور کے بیج سے ہمیشہ انگور کا درخت، وغیرہ۔ یہی کردار انسان کا بھی ہونا چاہیے۔ انسان کو بھی اسی طرح قابلِ پیشین گوئی کردار کا حامل ہونا چاہیے۔ قابلِ پیشین گوئی کردار یہ ہے کہ کسی صورتِ حال میں ایک حقیقی انسان سے جو امید کی جائے، وہ ہمیشہ اُس پر پورا اُترے۔
سورج مسلسل طورپر روشنی اور حرارت سپلائی کرتا ہے۔ اِس معاملے میں وہ اپنے اور غیر کے درمیان کوئی تفریق نہیں کرتا۔ وہ سب کو یکساں طورپر روشنی اور حرارت کا خزانہ پہنچاتا رہتا ہے۔ یہی کردار انسان کا بھی ہونا چاہیے۔ انسان کو چاہیے کہ وہ ہر ایک کے لیے نفع بخش بنے۔ اپنوں کے لیے بھی اور غیروں کے لیے بھی۔ دوستوں کے لیے بھی اور دشمنوں کے لیے بھی۔ خوش گوار تعلق والوں کے لیے بھی اور ناخوش گوار تعلق والوں کے لیے بھی۔ یہی کسی انسان کے لیے اعلیٰ معیاری اخلاق ہے۔
شہد کی مکھی اپنے مقام سے اُڑ کر جنگل میں جاتی ہے۔ یہاں بہت سی مختلف قسم کی چیزیں ہیں۔ مثلاً لکڑی، کانٹا، جھاڑی اور گھاس، وغیرہ۔ لیکن شہد کی مکھی انتخابی طریقہ اختیار کرتی ہے۔ وہ ہر دوسری چیز سے اعراض کرکے سیدھے اُس پھول تک پہنچتی ہے، جہاں سے اس کو میٹھا رس لینا ہے۔ یہی انتخابی طریقہ انسان کو بھی اختیار کرنا چاہیے۔ اس کو سماج میں اِس طرح رہنا چاہیے کہ وہ غیر مطلوب چیزوں سے اعراض کرے، اور وہ ہر ناپسندیدہ چیز سے دور رہتے ہوئے اپنے مطلوب تک پہنچ جائے۔
انسان اور بقیہ کائنات میں ایک فرق ہے۔ وہ یہ کہ بقیہ کائنات نے جس کردار کو مجبورانہ طورپر اختیار کررکھا ہے، اُسی کردار کو انسان خود اپنی آزادی کے تحت اختیار کرے۔بقیہ کائنات مجبورانہ اخلاق کی مثال ہے۔ مگر انسان کو اختیارانہ کردار کا نمونہ بننا ہے۔ اِس کا سبب یہ ہے کہ بقیہ کائنات کے لیے نہ کوئی انعام ہے، اور نہ کوئی سزا۔ لیکن انسان کے لیے خدا کا قائم کردہ قانون یہ ہے کہ جو شخص اِس مطلوب کردار کو اختیار نہ کرے، وہ خدا کی طرف سے سزا پائے گااور جو شخص اپنی آزادی کا صحیح استعمال کرتے ہوئے اس مطلوب کردار کا حامل بن جائے، اس کو خدا کی طرف سے ابدی انعام کا مستحق قرار دیا جائے گا۔ یہ امتیازی انعام اِس کائنات میں صرف انسان کے لیے مقدر ہے۔ کیوں کہ انسان خود اپنے اختیار سے وہ مطلوب روش اختیار کرتا ہے، جس کو بقیہ کائنات مجبورانہ طورپر اختیار کیے ہوئے ہے۔
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/morality-guarantor-safe-human-journey/d/121842
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism