نیو ایج اسلام کے لئے مولانا وحید الدین خان
قرآن کریم کا فرمان ہے:
‘‘قسم ہے انجیر کی اور زیتون کی، اور طور سِینِین کی، اور اس امن والے شہر کی، یقیناً ہم نے انسان کو بہترین صورت میں پیدا کیا، پھر اسے نیچوں سے نیچا کر دیا، لیکن جو لوگ ایمان ﻻئے اور (پھر) نیک عمل کیے تو ان کے لئے ایسا اجر ہے جو کبھی ختم نہ ہوگا۔’’ (95:1-6)
اس آیت میں 'انجیر'، 'زیتون'، 'کوہ سینا' اور 'یہ محفوظ زمین' تمام علامتی الفاظ ہیں۔ اس سلسلے میں اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ زمین اپنی تمام تر سر سبز و شاداب پھلدار درختوں، سبز پہاڑوں اور شاندار بستیوں کے ساتھ ایک حقیقت کی گواہی دیتی ہے کہ یہ روئے زمین ایک غیر معمولی سیارہ ہے۔ اس پوری وسیع و عریض کائنات میں ایسے کسی اور سیارے کا وجود نہیں ہے۔ اور یہی وہ سیارہ ہے جس پر انسان بستے ہیں جو ایک ایسی مخلوق ہیں کہ جن کی طرح پوری کائنات میں ایسی کوئی مخلوق نہیں ہے۔
اس غیر معمولی انفرادیت اور خصوصیت کے باوجود اس دنیا کو ایک عجیب تضاد سے سجایا گیا ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ ایک انسان اگر چہ اس کائنات میں اشرف المخلوقات ہے لیکن اس دنیا میں اسے جن حالات میں زندگی بسر کرنا ہے وہ اس کے لئے "پست اور کوتاہ ہے کوتاہ تر ہیں"۔
یہ خصوصیت اور یہ تضاد ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ یہ ایک توضیح طلب امر ہے۔ ایک مناسب توضیح کے بغیر یہ ایک ناقابل بیان امر ہے۔
قرآن اس سوال کا جواب فراہم کرتا ہے، جیسا کہ سابقہ آیات میں اس کا اشارہ ملتا ہے۔ قرآن کا فرمان ہے کہ جو لوگ ایمان لاتے ہیں اور نیک عمل کرتے ہیں انہیں اس دنیا اور آخرت میں لازوال اجر سے نوازا جائے گا۔ یہاں 'ایمان لانے' سے مراد حقیقت کا ادراک کرنا اور 'اعمال صالحہ' سے مراد اس دریافت شدہ حقیقت کے مطابق عمل کرنا ہے۔ جو لوگ اس کی گواہی دیتے ہیں وہ برے انجام سے بچ جائیں گے اور انہیں خالق کائنات کے عظیم انعامات کا مستحق سمجھا جائے گا۔
URL for English article: https://newageislam.com/islam-spiritualism/exceptional-world/d/101692
URL for this article: https://newageislam.com/urdu-section/exceptional-world-/d/101717