مولانا سید محمد رابع حسنی
ندوی
9 اپریل 2021
انسانی زندگی کوروشنی
دینے والے ذات باری تعالیٰ کے کلام کے نزول کا اصل آغازجن آیات سے کیا گیا ان
میں علم کی اہمیت کو مقدم رکھا گیا،اسی کے ساتھ ساتھ علم کو اس کائنات کے خالق
ومالک کے نام سے جوڑنے کا حکم دیا گیا ہے، تاکہ علم کا صحیح فائدہ ظاہر ہو اور رب
العالمین کی رحمت وکرم حاصل ہو ۔ علم کی نعمت وہ نعمت ہے، جس کے ذریعہ انسان کودیگر مخلوقات پر فوقیت عطاہوئی، یہ
خصوصیت کسی اورمخلوق کوحاصل نہیں، چنانچہ اس مخلوق انسانی کے پیدا کرنے کے تذکرہ
کے ساتھ اس کی علمی خصوصیت کا تذکرہ کیا گیا:
’’اور اس وقت کو یادکرو جب
تمہارے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین
پر اپنا نائب بنانے والاہوں ،تو انہوں نے
کہا: تو اس میں ایسے کو بنائے گا جو اس میں فساد برپا کرے گا اور خون بہائے گا
درآنحالیکہ ہم تیری حمد کی تسبیح اور پاکی بیان کرتے رہتے ہیں ۔ (اللہ نے)
فرمایا: یقیناً میں وہ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے ،اور اللہ نے آدم کو اسم
سکھلادیئے کل کے کل، پھر انہیں فرشتوں کے سامنے پیش کیا، پھر فرمایا: بتلاؤ تو ان
کے اسم اگر تم صحیح القول ہو، ان سب نے کہا: اے اللہ تیری ذات پاک ہے، ہمیں تو صرف
اتنا ہی علم ہے جتنا تونے ہمیں سکھارکھا ہے، پورے علم وحکمت والا تو تو ہی ہے،
اللہ تعالیٰ نے آدم سے فرمایا: تم ان کے نام بتادو، جب انہوں نے بتادیئے توفرمایا
کہ کیا میں نے تم سے کہانہ تھا کہ آسمانوں اور زمین کی چھپی ہوئی چیزیں مَیں ہی
جانتا ہوں اور میرے علم میں ہے جو تم ظاہر
کررہے ہو اور جو تم چھپاتے ہو۔‘‘(سورۃ البقرۃ: ۳۰-۳۳)
اورقرآن مجید کے نزول کے
آغاز کے موقع کی پہلی آیت ہی میں علم اورحصول علم کا تذکرہ کیاگیا۔فرمایا:
’’پڑھئے اپنے رب کے نام سے جس نے کائنات کو پیدا کیا، جس نے آدمی
کوگوشت کے لوتھڑے سے پیدا کیا، پڑھئے آپ کا رب بہت کریم ہے، وہ جس نے انسان کو
قلم کے ذریعہ علم سکھایا، وہ جس نے انسان کو وہ باتیں سکھائیں جو اسے معلوم نہ تھیں۔ ‘‘ (سورہ اقرأ:
۱۔ ۵)
اس میں اس بات کی ہدایت
کی گئی ہے کہ پڑھو اورعلم حاصل کرو جو قلم کے ذریعہ تم کوحاصل ہورہاہے اورعلم رب العالمین کا وہ عظیم عطیہ ہے جواس نے انسان
کو عطا کیاہے، چنانچہ اس دنیا میں ترقی و تمدن کی جو بہاریں اور ترقیات اورسربلندیاں نظرآرہی ہیں وہ انسان
کے پڑھنے ہی کا نتیجہ ہیں یعنی قرآن کی نازل ہونے والی پہلی آیت میں اس کی تلقین
کی گئی، البتہ اس قرآنی تلقین میں یہ تاکید کی گئی ہے کہ اللہ کے نام سے پڑھو جس
نے سب کوپیدا کیاہے، یہیں سے انسانوں کے
دوگروہ ہوجاتے ہیں، ایک اللہ کے نام سے پڑھنے والا اور دوسرا اللہ کے نام کو چھوڑ
کر پڑھنے والا، یعنی ایک زندگی کی تاریکیوں میں اللہ کے نام کی روشنی لے کر چلنے
والا اوردوسرا زندگی کے گھٹاٹوپ اندھیروں میں ہاتھ پیرمارنے والا۔
’’یاوہ ایسے ہیں جیسے بڑے
گہرے سمندر میں اندرونی اندھیرے کہ اس کو
ایک بڑی لہر نے ڈھانک لیا ہو، اس لہر کے اوپر دوسری لہر، اس کے اوپر بادل[ ہے غرض]
اوپر تلے بہت سے اندھیرے ہی اندھیرے ہیں کہ اگر کوئی ایسی حالت میں اپنا ہاتھ
نکالے اور دیکھنا چاہے تو دیکھنے کا احتمال بھی نہیں اور جس کو اللہ ہی نور [
ہدایت] نہ دے اس کو [ کہیں سے بھی] نورنہیں
میسر ہوسکتا۔‘‘ (سورۂ نور: ۴۰)
زندگی کے گھٹاٹوپ اندھیرے
میں محض اپنے دیکھنے اور سننے یا اندازہ سے سمجھنے کا طریقہ اختیار کرنے کے ذریعہ
انسانوں کو اس دنیا کے فائدوں کے جاننے اور ان سے فائدہ اٹھانے کی طاقت تو دی گئی
ہے جس سے وہ دنیاوی زندگی کے ظاہری فائدے تو اٹھائے گا لیکن زندگی کا جب دوسرا
دورشروع ہوگا تواس کے پاس وہاں کے فائدہ
کاکچھ نہ ہوگا، اس لئے کہ اللہ کے نام کی
بنا پر وہاں ملنے والے فائدوں سے وہ محروم ہوگا، جبکہ وہاں کے ہمیشہ قائم رہنے
والے دورمیں صرف اللہ کے نام سے ملنے والے فائدے ہی کام دیں گے۔
’’سو بعض آدمی (جو کہ کافر ہیں ) ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ اے ہمارے پرور دگار ہم کو جو
کچھ دینا ہو دنیا میں دیدیجئے اور ایسے
شخص کو آخرت میں کوئی حصہ نہ ملے گا اور بعض آدمی جو کہ مومن ہیں ایسے ہیں جو کہ کہتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار
ہم کو دنیا میں بھی بہتری عنایت کیجئے اور آخرت میں بھی بہتری دیجئے اور ہم کو
عذاب دوزخ سے بچائیے ایسے لوگوں کو دونوں جہان میں بڑا حصہ ملے گا بدولت ان کے عمل
کے اور اللہ تعالی جلد ہی حساب لینے والے ہیں ۔‘‘(سورۃ البقرۃ: ۲۰۰-۲۰۲)
کائنات میں انسان کو جو بھی مل رہا ہے وہ اللہ کے نام سے
ہی مل رہا ہے، صرف دنیا چاہنے والوں کو دنیا مل رہی ہے، اور آخرت کی بھی فکر کرنے
والے کو آخرت کا بھی فائدہ ملے گا۔
اللہ نے انسان
کودونوں جہانوں کے فائدے دینے والے علم کے
سلسلہ میں سب سے بڑا رہنما اور ناصح قرآن مجید کی صورت میں عطا فرمایا ہے۔ یہ اس کا اپنے برگزیدہ فرشتہ کے
ذریعہ اتارا ہوا بڑا جامع ہدایات رکھنے والا رہبر اور کامیاب ضابطۂ حیات ہے، اس
کی اہمیت اور عظمت خود قرآن مجید کی پہلی آیت میں ظاہرکردی گئی ہے، یہ وہ نعمت
ہے جس کی مددسے انسان ہمیشہ ہمیش کی کامیابی حاصل کرسکتا ہے ، اس سے حاصل کردہ علم
وہ عظیم علم ہے جس کے فیض سے محرومی میں
ہمیشہ ہمیش کی محرومی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کے
فائدہ کاعلم عطا کرکے انسان کو دیگر مخلوقات کے مقابلہ میں بہتر صلاحیتوں کا حامل
انسان بنایا، اور خاص طور پر اس کو حاصل کرنے اور بڑھانے کی صلاحیت دے کر مفید تر
مخلوق بننے کا موقع عطا فرمایا۔ علم وہ ذریعہ ہے جس سے ایک انسان دوسرے
انسانوں کے حالات اور تجربات سے واقف
ہوتاہے اور نقصان و نفع کے جو تجربات
دوسروں کو ہوتے ہیں ، ان کو جانتا اور عقل کے ذریعہ اپنے حالات میں ان کی باتوں سے
فائدہ اٹھاتااور نقصان سے بچتاہے۔ اس سلسلہ میں
انسانی عقل علم کوبڑھانے اور اس سے مفید کام لینے کی بھی مددپہنچائی جاتی
ہے، اور یہ دونوں صفتیں یعنی علم اور عقل اللہ تعالیٰ نے انسان کو بطور خاص عطا
فرمائی ہیں جن کے ذریعہ انسان دوسری مخلوقات پر فائق ثابت ہوتا ہے۔ پھر اس علم کو
ایک سے دوسرے تک پہنچانے کے لئے انسانی کلام ذریعہ بنتاہے، اس طرح کلام انسانی بھی
خالق کائنات رب العالمین کی طرف سے انسانوں کو عطا کردہ تیسری عظیم نعمت ہے، جس کے
ذریعہ ایک فرد کے علم کا اظہار دوسرے افراد کے سامنے ہوتاہے، اور وہ اپنے واردات
اور حالات کو دوسرے کے سامنے ظاہرکرتاہے۔
اس سلسلہ میں قلم کا ذریعہ
معلومات کو اور وسیع اور طویل المدت بناتا ہے، یہ قلم ہی ہے جو صدیوں کی حاصل کردہ
معلومات کو وسیع طریقہ سے دوسروں کے لئے قابل استفادہ بنادیتاہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی اس نعمت کی طرف اس طرح
اشارہ فرمایا ہے: ’’جس نے قلم سے تعلیم دی اور انسان کو ان چیزوں کی تعلیم دی جن
کو وہ نہ جانتا تھا۔‘‘(سورۃ العلق) اس سلسلہ میں یہ بات ضرور جاننے کی ہے کہ انسان
کو علم، کلام اور قلم کی یہ نعمت بلاوجہ نہیں عطا کی گئی، بلکہ انسان کو دوسری
مخلوقات کے مقابلہ میں امتیازی کام یعنی زمین پر اجتماعی نظام کو صحیح طور پر
چلانے کی ذمہ داری دینی تھی، اس لئے انسان کو اس کے یہ وسائل عطا فرمائے۔
قرآن مجید جس وقت نازل
ہوا وہ دراصل انسانی زندگی کے ترقی کردہ اور علاقائی دائروں سے نکل کر عالمی دائرہ میں داخل ہونے اور اسی
کے مطابق وسائل اور ذرائع حاصل کرلینے کا دور شروع ہونے جارہاتھا، اس دورسے پہلے
کی زندگی میں انسان اس زمین پراپنے علاقائی اور طبقاتی دائروں میں اپنی خواہش اور
پسند کے مطابق طاقت آزمائی کے ذرائع سے کام لیتارہا تھا،اور علم کو صرف اپنے
ظاہری اورمادی مقاصد کے لئے استعمال کر رہا تھا، وہ اس سلسلہ میں علم کوجو اس کو
اس کے پروردگار کی طرف سے وحی الٰہی کے طور پر انبیاء علیہم السلام کے ذریعہ دیا
جاتارہا تھا، عام طور پر نظر اندازکر دیتاتھا۔ اب اللہ تعالیٰ کے آخری نبی کے
ذریعہ اس کی رہنمائی زیادہ جامع اور وسیع سطح سے اس علم کی طرف کی جارہی تھی، جو
اس کی مادی ترقیات سے آگے اور انسانی مخلوق سے مطلوبہ کام ومقام کے لائق بنانے
میں مدددے اور اس کی اصل کامیابی و ہدایت
کا ذریعہ بنے۔
انسان کو اس کی کامیاب
زندگی کی راہ بتانے کے لئے قرآن مجید میں
نوع بنوع انداز اختیار کئے گئے ہیں ، کہیں تو سابقہ قوموں کی کج روی اور اس
کے ہولنا ک نتائج کا ذکر کیا گیا ہے ، اور کہیں
اس کو آسمانی ہدایات کی طرف متوجہ کیا گیاہے، جن سے انسان ہولناک نتائج سے
بچ سکتا ہے۔ انسان کو اس نظام عالم کے
خالق کی وسیع اور مکمل نگرانی اور انسان کو اس کی ضروری معلومات مشاہدہ کے اسلوب
میں بیان کی گئی ہیں کہ معمولی سمجھ کا
آدمی بھی بآسانی بات سمجھ سکتاہے کہ یہ پورا نظام اس ذات واحد سے جڑا ہواہے، جس
نے انسان کو ترقی اور غیر معمولی کارکردگی کی صلاحیت اس لئے دی ہے کہ وہ اس نظام
کو اس کی مرضی کے مطابق چلائے۔ یہی نکتہ ہے جسے عام طور پر انسان سمجھ نہیں پاتا
یا سمجھنا نہیں چاہتا۔
اس میں کہیں زمینی نعمتوں
کا آسان اسلوب میں ذکر کیا گیاہے، کہیں اس کو انسانی صلاحیتوں سے صحیح کام لینے کی طرف توجہ دلائی
گئی ہے، کہیں اس کے مزاج کی ان کیفیات کی نشاندہی ہے جن کو وہ اپنے تجربہ اور عقل
کے ذریعہ پوری طرح نہیں سمجھ سکا ہے۔ اسی طرح انسانی زندگی کی وہ متنوع خصوصیات جو
اس کی زندگی کو مفید بناسکیں ان کو اور اصل کامیابی کا جو راز ہے اس کو مؤثر
طریقے سے بتایاگیاہے، اور یہ سب علم کی اس قسم کی باتیں ہیں جو انسان کو وحی الٰہی کی رہنمائی میں عظیم
منصب و مقام تک پہنچاتی ہیں، اصل خطرات سے ڈراتی ہیں اور اصل کامیابی کے مقاصد تک
رہنمائی کرتی ہیں ۔
اسی کے لحاظ سے
فرمایاگیاہے کہ :
’’اللہ سے اس کے وہی بندے ڈرتے ہیں جو جاننے والے ہیں بلاشبہ اللہ تعالیٰ غالب
گناہوں کوخوب بخشنے والا ہے۔‘‘(سورہ فاطر:۲۸)
یہ علم قرآن مجید کی
روشنی میں وہ حقیقی علم ہے، جس میں انسان
کی اصل کامیابی رکھی گئی ہے ، رہا وہ علم جس کو آدمی صرف اپنے غورو فکراور اندازے
سے حاصل کرتاہے اس کو قرآن کی اصطلاح میں ظن سے تعبیر کیا گیاہے، اور ظاہر ہے کہ
وہ علم جو انسانی زندگی کے اچھے یا برے ہونے کے واقعی نتائج پر مشتمل ہے، اس کے
حاصل ہونے پر انسان کے لئے اس سے گریز کسی طرح صحیح نہیں ہوسکتا۔ اس کے جاننے پر وہ اپنے رب کی جزاء یا
سزا سے واقعتاً خائف ہوگا، اور پھر اس خوف کی بناء پر اپنی زندگی کو اس کے حکم کے
مطابق بنائے گا۔ دنیا کا جدید دور جو انسانی تاریخ کا علم عام ہوجانے کا دور ہے،
اس میں انسان کو اصل کامیابی دلانے والے
علم پر خصوصی توجہ کرنے کی ضرورت بتائی گئی ہے، جوقرآن مجید میں نئے عہد کو اس
نئے عہد کے نبی آخر الزمان کے ذریعے عطا کیا گیا۔
(حوالہ: قرآن مجید انسانی زندگی کا رہبر کامل)
9 اپریل 2021،بشکریہ:انقلاب، نئی دہلی
URL: hhttps://www.newageislam.com/urdu-section/the-quran-comprehensive-guide-/d/124676
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism