مولانا سید حیدر عباس
12 ستمبر 2016
حج کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ اتحاد عالم کا پیام ہے۔ دنیابھر سےمسلمان سعودی عرب کے شہر مکہ پہنچتے ہیں او رکچھ دن کےلئے منیٰ مسلمانان عالم کا ایک عالمگیر شہر بن جاتا ہے جس میں ہر رنگ ، نسل، جنس، عمر، مسلک او رملک کےلوگ ہوتےہیں ۔ سب کے لباس ایک جیسے ہوتے ہیں ، سب ایک جیسی عبادت انجام دیتے ہیں اور سب کندھے سےکندھا ملاکر مناسک حج ادا کرتے ہیں ۔ کسی اور مذہب میں اس قسم کی اجتماعی فرض عبادت کا تصور نہیں ہے جیسا حج بیت اللہ کی شکل میں مسلمانوں کے پاس ہے۔حج اتحاد کا پیغام دیتا ہے اور اگر یہ پیغام اتحاد زندگیوں میں داخل نہ ہوسکے تو حج پر جانا بس سعودی عرب کا سفر بن کر رہ جاتا ہے۔ اس بار کا حج اس پس منظر میں ایک منفرد ونوعیت کا حامل ہے۔ اس بار حج میں لاکھوں ایرانی شامل نہیں ہیں ۔ سعودی عرب میں شیعہ عالم شیخ نمر کی پھانسی کے بعد تہران میں سعودی سفارتخانے پر ہوئے حملے کے بعد سعودی عرب نے ایران سے اور ایران نے سعودی سے سفارتی رشتے توڑ لئے تھے ۔ ایسے میں عازمین کو ویزہ ملنا ممکن نہیں تھا ۔
حالانکہ دونوں ممالک کاکہنا ہے کہ ایرانی عازمین کو خصوصی ویزہ کےلئے مذاکرات ہوئے مگر فریق مخالف کی ہٹ دھرمی کے سبب حل نہ نکل سکا ۔ فی الحال ہم اس بحث میں نہیں پڑتے کہ غلطی کس کی رہی ، یہاں ہمارا موضوع گفتگو دوسری چیز ہے۔ حج کے موقع پر آئے بعض بیانات نے زخموں کو اور گہرا کردیا۔ سعودی عرب کے مفتی اعظم نے ایرانی رہبر اعلیٰ کے ایک بیان کے جواب میں جو کچھ کہا وہ ناقابل یقین ہے۔ ایرانی رہبر کے ذریعہ سعودی حکام کے حج انتظامات کو سنبھالنے میں ناکام ہونے کے بیان پر اپنے فوری رد عمل میں سعودی عرب کے مفتی اعظم شیخ عبدالعزیز الشیخ نےکہاکہ ایرانی رہبر اعلیٰ اور ایرانی شیعہ ،مسلمان ہی نہیں ہیں ۔ انہوں نےکہا کہ ایرانی سنیوں کے دشمن ہیں ۔ سعودی مفتی اعظم نےایرانی شیعوں اور ایرانی رہبر اعلیٰ کو مجوسی کی اولاد جیسے نازیبا القاب سے نوازا۔ بزرگ مفتی اعظم ایسا بیان دیں گے اس پر مجھ سمیت بہت سوں کو اب تک یقین نہیں ہے لیکن سعودی عرب کی سرکاری میڈیا نے بھی جب یہ بیان شائع کیا تو اس پر یقین کرنا پڑا کہ سعودی مفتی اعظم نے اس قسم کی باتیں کہی ہیں ۔ سعودی مفتی اعظم کو جو بات اس قدردل کولگ گئی وہ کوئی ایسی بات ہر گز نہ تھی جس پر اتنا غصہ کیا جائے ۔
ایرانی رہبر اعلیٰ آیۃ اللہ علی خامنہ ی نے جو کچھ کہا اس کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے بیان بیٹھے بیٹھائے نہیں دیا بلکہ گزشتہ برس حج میں مچی بھگدڑ کے نتیجہ میں ہلاک سینکڑوں ایرانیوں کے اہل خانہ سے ملاقات کے دوران دیا۔اس بیان میں انہوں نے کہا کہ اگر وہ (سعودی عرب) سچ کہتے ہیں کہ وہ اس سانحے کے سلسلے میں بے قصور ہیں تو اس بات کی اجازت دیں کہ ایک بین الاقوامی فیکٹ فائنڈگ کمپنی اس سانحے کی سنجیدہ اور تفصیلی تحقیقات انجام دے۔ ایرانی رہبر کے اس بیان کے وہ جواب ہوسکتے تھے ۔ پہلا تو یہ کہ سعودی حکام کہہ دیتے کہ ہم بین الاقوامی فیکٹ فائنڈنگ کمپنی کو دورے کی اجازت دیتے ہیں ، اس سے یہ فائدہ بھی ہوتا کہ اگر واقعی بھگدڑ ایرانی حاجیوں کے شرارت تھی تو سارا بھید دنیا پر کھل جاتا اور ایران کو شرمندگی کا سامنا ہوتا، اس طرح سعودی حکام نے نہ جانے کیوں تفتیش کاروں کو آنے کی اجازت نہیں دی ۔ اس کا دوسرا جواب یہ تھا کہ سعودی حکام کہہ دیتے کہ حج کا موسم چل رہا ہےفی الحال ایسی ٹیم کادورہ ممکن نہیں بعد میں دیکھیں گے ۔ مگر یہاں ان دونوں میں سے کچھ نہیں کہا گیا بلکہ سعودی مفتی سیدھے ایرانیوں کا شجرہ کھنگالنے پراتر آئے ۔ ایرانی رہبر نے اپنے بیان میں یہ نہیں کہا کہ حج کے انتظامات سعودی حکام سے لے لئے جائیں بلکہ انہوں نے سعودی حکام کو اس انتظام میں نا اہل بتایا ۔ ہوسکتا ہے ، سعودی حکام واقعی بھگدڑ والے معاملے میں بے قصور ہوں۔
ذرا دیر کو ہم بھی مان لیتے ہیں کہ ایرانی حاجیوں کی شرارت سے ہی بھگدڑ مچی ( جس میں خود سینکڑوں ایرانی ہی ہلاک ہوگئے ) ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ سعودی مفتی اعظم جو کچھ فرما رہے ہیں وہ وقتی طور پر غیض و غضب کا نتیجہ ہے یا واقعی یہ ان کا مسلک ہے؟ ۔ میں جہاں تک سمجھتا ہوں، سعودی اعظم ایسے ہی کوئی بات نہیں کہہ سکتے ۔ وہ سعودی عرب کے مفتی اعظم ہیں ، ہر سال وہ حج کا خطبہ دیتے آئے ہیں ۔ دنیا بھر کے دسویوں لاکھ اہلحدیث افراد ان کی تعظیم کرتےہیں ۔ ایسے میں وہ کچھ بھی یونہی کہہ جائیں، مشکل ہیں ۔ اب اگر واقعی ان کا ماننا ہے کہ ایرانی کافر اور مجوسی ہیں تو ان سے ایک سوال کیا جاسکتا ہے ہے۔گزشتہ سال تک ہر برس لاکھوں ایرانی حج کےلئے مکہ مکرمہ آتے رہے ۔ وہ خانہ کعبہ میں آتے تھے، مدینہ میں مسجد نبوی کےاندر آتے تھے ، حج کےمناسک میں شریک ہوتے تھے، حجر اسوہ کو بوسہ دیتے تھے، خانہ کعبہ کو چھوتے تھے ،غلاف کعبہ سے خود کو مس کرتے تھے، مسجد نبوی میں حضور کی چوکھٹ او رجالی پکڑ کر زیارت کرتے تھے۔ یہ سب وہ اس مکہ میں کرتے تھے جہاں غیر مسلموں کا داخلہ ممنوع ہے؟ اس مدینہ میں کرتے تھے جہاں نبی اکرم کےحرم میں غیر مسلم کسی طرح بھی داخل نہیں ہوسکتا ۔
سوال یہ ہے کہ ان لاکھوں غیر مسلم ایرانیوں کے حرمین شریفین میں آنے دینے کےلئے کون گنہ گار ہوا؟۔ اگر واقعی ایرانی کافر ہیں تو کیا اس شخص کی گردن نہیں پکڑی جانی چاہئے جو لاکھوں کی تعداد میں ان غیرمسلموں کو حرمین شریفین میں آنے دیتا رہا؟۔ کیا ایران سے ڈر اس اجازت کا سبب تھا یا پھر سفارتکاری کے لحاظ میں یہ کام ہونے دیا گیا؟ ۔دور کیوں جائیں ، خود سعو دی عرب مفتی اعظم ہر سال حج کا خطبہ دیتے تھے ۔ اگر سعودی حکومت شرم لحاظ میں ایرانی غیر مسلموں کو نہیں روک پا رہی تھی تو ان کو شرعی حکم بتانے سے کون سی چیز روکے ہوئے تھی؟۔کیا کسی خطبہ حج میں اشارتاً ہی سہی سعودی کے مفتی اعظم نے فرمایا کہ ہمارے درمیان غیر مسلم ، مسلمانوں کا بھیس بنا کر آرہے ہیں انہیں روکا جانا چاہئے؟ ۔ اگر سعودی مفتی بھی یہ سب ہوتے دیکھتے رہے اور خاموش رہے تو کیا یہ عمل ان کے شایان شان ہے؟۔ لگے ہاتھ یہ سوال بھی کیا جاسکتا ہے کہ اور کون کون سے ملک ہیں جہاں سے مسلمانوں کے بھیس میں غیر مسلم حج کرنے آرہے ہیں اور خادم الحرمین کی شرما حضوری یا لحاظ ان غیر مسلموں کو روکنے میں آڑے آرہا ہے؟۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ حج جیسی عبادت کو سعودی عرب او رایران کے سفارتی جھگڑوں کی بھینٹ نہیں چڑھا یا جانا چاہئے ۔ سفارتی کھینچ تان کے نتیجہ میں اگر لاکھوں مسلمان حج کا فریضہ انجام دینے سے رہ جائیں تو جو ہونا ہوگا ۔ اس ساری بحث میں تکلیف دہ یہ نہیں کہ ایرانی حج نہیں کرسکے ۔ دل دکھانے والی بات یہ ہے کہ وہ بزرگ علماء جو بین الاقوامی حیثیت کے مالک ہیں ان کی طرف سے اس قسم کی باتیں میڈیا میں سامنے آئیں ۔ سعودی مفتی اعظم کو خود غور فرمانا چاہئے کہ وہ ہر سال حج کے خطبہ میں امن اور اسلام کے آفاقی پیغام کی بات کرتے تھے تو مغربی ممالک کے اخبارات کہاں ان کے اس پیغام کی کوریج کرتے تھے؟۔اسی مغربی میڈیا نے جو حج کا خطبہ محض ایک لائن میں شائع کرتا آیا ہے،ایرانیوں کو کافر قرار دینے والے سعودی مفتی اعظم کے بیان کو مزے لے لےکر چھا پ رہا ہے۔ بھارت میں ہی انگریزی اور ہندی اخبارات نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کے حوالے سےاس بیان کو خوب اچھالا ۔ ایران اور سعو دی عرب کی حکومتوں کو جب تک اچھا لگے وہ سفارتی تنازعہ کوطول دے سکتے ہیں لیکن علماء اور سرکردہ بزرگوں کو ایسی بات نہیں نکلنی چاہئے جو مسلمانوں کی جگ ہنسائی کا سبب بنے اور خود ان علماء اور بزرگوں کی شان پر حرف لائے ۔
12 ستمبر، 2016 بشکریہ : اخبار مشرق ، نئی دہلی
URL: