مولانا شاہ نواز خان
31 مئی ، 2013
اسلام میں شوہروں کو حکم ہے کہ وہ اپنی بیوی کے ساتھ حسن معاشرت اختیار کریں، حسن ِ معاشرت کا بنیادی پہلو یہ ہے کہ شوہر اپنی شریک حیات پر ذہنی و جسمانی تشدد سے مکمل اجتناب کرے لیکن سماج میں ایسے کئی جاہل اور ظالم مرد ہیں جو اپنی کمزور نا تواں بیوی کو جانور وں کی طرح سے مارتے پیٹتے ہیں اور اس کو اپنا حق سمجھتے ہیں ۔ یہ بات کس طرح مناسب ہوسکتی ہے کہ مرد ایک طرف تو اپنی بیوی سےذہنی سکون و جسمانی لذت حاصل کرے، پرُکیف لمحات گزارے اور دوسری طرف اس کے ساتھ اس قدر وحشیانہ بے درد انہ سلوک کرے؟ یہ ایک انتہائی غیر انسانی اور غیر مہذب حرکت ہے، اس موضوع سے متعلق سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی چند ہدایات ملاحظہ فرمائیں :
حضرت عبدا للہ بن ز معہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ‘‘ کوئی شخص اپنی بیوی کو غلام کی طرح بے دردی سے مارے اور پھر دن کے آخری حصہ میں اس سے جماع کرے۔’’ ایک روایت میں یوں ہے کہ ( آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ) تم میں سے ایک شخص ارادہ کرتا ہے اور اپنی بیوی کو غلام کی طرح مارتا ہے حالانکہ ( یہ نہیں سوچتا کہ ) شاید وہ اسی دن کے آخری حصے میں اس سے ہم بستر ہو، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ریح خارج ہونے پر ہنسنے والوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ تم میں سے کوئی شخص اس چیز پر کیوں ہنستا ہے جس کو وہ خود بھی کرتا ہے۔’’ ( بخاری )
انسان کا کسی ایسی عجیب بات پر ہنسنا تو اچھا معلوم ہوتا ہے جو عام طور پر نہ پائی جاتی ہو لیکن جب ایک چیز خود اپنے اندر موجود ہے تو پھر جب وہ دوسرے سے سرزد ہوتی ہے تو اس پر ہنسنے کا کوئی موقع نہیں ہے، حدیث پاک سےمعلوم ہوا کہ اگر کسی شخص کی ریح خارج ہوجائے تو اس سے تغافل کیا جائے تاکہ وہ شخص خجالت اور شرمندگی محسوس کر کے کبید خاطر نہ ہو۔
حضرت حکیم ابن معاویہ قشیری اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم میں سے کسی کی بیوی کا اس کے شوہر پر کیا حق ہے؟ آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ‘‘ جب تم کھاؤ اس کو بھی کھلاؤ جب تم پہنو اس کو بھی پہناؤ (یعنی جس طرح تم کھاؤ پہنو اسی طرح اپنی بیوی کو بھی کھلاؤ پہناؤ) ، اُس کے منہ پر نہ مارو نہ اس کو برُا کہو او رنہ کہو کہ اللہ تیرا برُا کرے اور اُس سے صرف گھر کے اندر ہی علیحدگی اختیار کرو۔’’ ( ابو داؤد)
تشریح: مطلب یہ ہے کہ اگر بیوی کی کسی نافرمانی یا اس کی کسی بات پر ناراضگی کی وجہ سے اس سے جدائی اختیار کرنے ہی میں مصلحت ہو تو ہمیشہ کے لیے جدائی اختیار کرنے کی بجائے یہ زیادہ بہتر ہے کہ اپنے بستر پر اس سے جدائی اختیار کر لو یعنی ان کے ساتھ لیٹنا چھوڑ دو تاکہ وہ تمہارےاس طرز عمل کو اپنے حق میں سزا سمجھ کر راہِ راست پر آجاۓ ا ور ہمیشہ کی جدائی یعنی طلاق کی نوبت نہ آئے ۔ چنانچہ قرآن کریم میں اس بات کو یوں فرمایا گیا ‘‘ وَالّتی تخافون الایہ ( سورہ نساء آیت 34)مفہوم یہ ہے کہ ‘‘ جو عورتیں ایسی ہو ں کہ تم کو ان کی بد دماغی ( یعنی نا فرمانی ) کا احتمال و خوف ہوتو ان کو (پہلے) زبانی نصیحت کرو اور (پھر) اُن کو اُن کے لیٹنے کی جگہوں میں تنہا چھوڑ دو ( یعنی ان کے پاس مت لیٹو) اور (پھر اعتدال و شریعت کی حد میں رہتےہوئے ) ان کو مار سکتے ہو۔’’
اپنی بیویوں کو مارنے والے اچھے انسان نہیں ہیں:
حضرت ایاس ابن عبد اللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ‘‘ خدا کی بندیوں ( یعنی اپنی بیویوں) کو نہ مارو’’ ،پھر ( اس حکم کے کچھ دنوں بعد ) حضرت عمر رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عر ض کیا کہ ( آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چونکہ عورتوں کو مارنے سے منع فرمایا ہے اس لیے ) عورتیں اپنے خاوند وں پر دلیر ہوگئی ہیں،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو مارنے کی اجازت عطا فرمادی ، اس کے بعد بہت سی عورتیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کے پاس جمع ہوئیں اور اپنے خاوند کی شکایت کی ( کہ وہ ان کومارتے ہیں ) رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ( کو جب یہ معلوم ہوا تو ) فرمایا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کے پاس بہت سی عورتیں اپنے خاوند کی شکایت لے کر آئی ہیں، یہ لوگ( جو اپنی بیویوں کو مارتے ہیں) تم میں سےبہتر لوگ نہیں ہیں ’’۔(ابو داؤد)
تشریح: مندرجہ بالا آیت اور حدیث پاک سے اس بات کی گنجائش معلوم ہوتی ہے کہ بعض شکلوں میں مرد کو اپنی بیوی کو مارنے کی اجازت ہے۔ محدیثین نے اس ضمن میں تشریح کی ہے کہ شریعت نے بحیثیت شوہر کےمرد کو جو حقوق عطا کی ہیں اگر بیوی ان حقوق و معالات میں شوہر کے حکم کی پابندی نہ کرے اور شوہر کے کہنے سننے کا اس پر کوئی اثر نہ ہوتا تو یعنی زبانی نصیحت و تنبیہ کاکوئی اثر بیوی قبول نہ کرے اور شوہر کو یقین ہوجائے کہ اب بغیر سختی کے کام نہیں بنے گا تو ا س کو مارنا مباح ہے لیکن چہرے پر نہ مارے، بے رحمی سے نہ مارے ،بہت زیادہ نہ مارے، مارنے کامقصد بیوی کو شدید چوٹ پہنچا نا یا زخمی کردینا نہ ہو بلکہ اپنی شدید ناراضگی کا اظہار مقصود ہو او ربہر حال صبر و تحمل کرنا او رنہ مارنا ہی بہتر اور افضل ہے۔
بیوی اگر بے حیائی ،بدکاری اور فواحش کا ارتکاب کرتی ہے تو تادیب و تنبیہ کے پیش نظر مارنا جائز ہے۔
فتاویٰ قاضی خان میں ہے کہ چار صورتوں میں ہاتھ اٹھانے کی گنجائش ہے (1)شوہر زینت و آرائش کرنے کا حکم دیتا ہو اور بیوی اس پر عمل نہ کرے۔(2) شوہر اپنی فطری ضرورت کے لیے بیوی کو بلائے او ربیوی کو کوئی مجبوری نہ ہونے کے باوجود اس کو قبول نہ کرے (3) شوہر کی اجازت کے بغیر اور اپنے کسی جائز حق کے بغیر گھر سے باہر نکلنے ۔ یہ تین صورتیں تو متفق ہیں (4) بیوی نماز نہ پڑھے، غسل حاجت واجب ہو اور نہ کرے۔ حیض سے پاک ہوجائے اور غسل نہ کرے، صحیح یہی ہے کہ اس پر بھی شوہر کو شرعی حدود میں رہتے ہوئے سرزنش کرنے کی اجازت ہے، کیونکہ بیوی کو دین پر قائم رکھنا شوہر کا فریضہ ہے اور قوام ہونے کی حیثیت سے وہ اس سلسلہ میں عند اللہ جواب دہ ہے۔
فحش گو اور زبان دراز بیوی کا حکم :
حضرت لقیط ابن صبر ہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میری ایک عورت ہے جس کی زبان میں کچھ ہے یعنی وہ زبان دراز اور فحش گو ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( اگر تم اس کی زبان درازی اور فحش گوئی کی ایذاء پر صبر نہیں کرسکتے تو بہتر یہ ہے کہ ) تو اس کو طلاق دےدو( گو یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حکم بطور اباحت دیا) میں نے عرض کیا کہ ( ا سکےبطن سے میرے ہاں اولاد ہے اور اس کے ساتھ ( پرانی رفاقت اور ) صحبت ہے ( اس لیے اس کو طلاق دینا بھی میرے لیے مشکل ہے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ‘‘ تو پھر اس کو حکم کرو یعنی اس کو زبان درست کرنے اور اپنی عادات و اطوار ٹھیک کرنے کی ) نصیحت کرو، اگر اس میں کچھ بھی بھلائی ہوگی تو وہ تمہاری نصیحت کو قبول کر لے گی اور اس کو باندی کی طرح نہ مارو ۔’’ ( ابو داؤد)
بیوی کی کجی و ٹیڑھے پن پر صبر کرنا اور اس سے چشم پوشی کرنا اس وقت تک مناسب ہوگا جب تک کہ کوئی گناہ لازم نہ آئے لیکن گناہ معصیت کی حدود میں پہنچ جائے تو اس پر صبر کرنا اور تغافل و چشم پوشی با لکل مناسب نہیں ہوگی ۔
دیوث پر جنت حرام ہے :
بعض شوہر اپنی بیوی کو غیر مردوں کے سامنے لے جاتے ہیں بلکہ ان سے مصافحے کراتے ہیں اور اسے ماڈرن تہذیب و سوسائٹی کا حصہ مانتےہیں ، کبھی بیوی آزادی نسواں کے نام پر روشن خیالی کے دعوے کی وجہ سے غیر محرموں سے اختلاط کرتی ہے تو ایسا شوہر جو اپنی بیوی کے بے پردہ غیروں کے سامنے جانے یا غیر محرموں سےمیل جول پر روک نہیں لگا تا او راس کو پسند یا برداشت کر لیتا ہے ایسے شخص کو حدیث پاک میں دیوث کہا گیا ہے جس پر جنت حرام ہے چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ‘‘ تین شخصوں پر اللہ نے جنت حرام فرما دی ہے ( 1) جو شراب پیتا رہتا ہے (2) جو ماں باپ کو تکلیف دیتا رہتا ہے (3) جو اپنے گھر والوں میں ناپاک کام (زنا اور اس کی طرف بلانے والی چیزوں مثلاً بے پردگی ، غیر مردوں سے میل جول وغیرہ ) کو برقرار رکھتا ہے ۔’’ ( نسائی و احمد )
31 مئی ، 2013 بشکریہ : روز نامہ اردو ٹائمس ، ممبئی
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/wife-beating-uncivilized-act-/d/12041