مولانا سید محمد واضح رشید حسنی ندوی
13 فروری، 2016
ملکوں اور تحریکوں کے قائدین وقتاً فوقتاً اسلام کے بارے میں شکوک و شبہات کرتے رہتے ہیں ، اور عالم اسلام اور اسلامی تحریکوں کے بارے میں ایسے بیانات دیتے رہتے ہیں ، جس سےاندازہ ہوتاہے کہ ان کےد لوں میں اسلام کا خوف بیٹھا ہوا ہے جس کا اظہار وہ اس طرح کرتے ہیں ،ان کی تحریریں بتاتی ہیں کہ وہ اسلام کی خوبیوں اور کمال سے انکار، اور اسلام کی پیش قدمی اور تاثیر کی صلاحیت سے خوف کی وجہ سے بڑی آزمائش میں مبتلا ہیں۔ بعض قائدین ایک وقت میں اسلام کی شاندار تاریخ علمی اور اجتماعی اصلاحات کا اعتراف کرتےہیں، دوسری طرف اسلام سے ڈراتے بھی ہیں۔ تاریخ سے ثابت شدہ حقیقت یہ بتلاتی ہے کہ اسلام نے یہود و نصاریٰ اور غیر مسلموں کے ساتھ ہمیشہ عفوودر گزر اور حسن اخلاق کا معاملہ کیا ہے، کبھی بھی اس نے زور زبردستی سےکام نہیں لیا ، قرآن کریم کی ہدایات اس سلسلہ میں بہت واضح ہیں ، ارشاد ربانی ہے: مفہوم :دین (اسلام) میں کوئی زبردستی نہیں ہے، ہدایت (صاف طور پر) گمراہی سے الگ ہوچکی ہے۔ تو جو شخص بتوں کا انکار کرے اور اللہ پر ایمان لائے تو گویا اس نے ایسی رسی ہاتھ میں پکڑ لی ہے جو کبھی ٹوٹنے والی نہیں ہے اور خدا سب کچھ سنتا اور (سب کچھ) جانتا ہے۔ (بقرہ:256)
دوسرے موقع پر ارشاد ہے:
مفہوم: تو کیا تم لوگوں پر زبردستی کرناچاہتے ہو کہ وہ مومن ہو جائیں؟ (یونس:99) مفہوم: آپ جس کو آپ چاہیں ہدایت دے دیں تو نہیں دے سکتے ، بلکہ اللہ جس کو چاہے ہدایت دیتا ہے۔ (القصص:56) مفہوم: اور اگر یہ لوگ صلح کی طرف مائل ہوں تو تم بھی اس کی طرف مائل ہوجاؤ اور خدا پر بھروسہ رکھو، کچھ شک نہیں کہ وہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے۔( الانفال: 61) ان ہی ہدایات ربانی کے نتیجہ میں اسلامی دور حکومت غیر مسلموں نے ہمیشہ امن و سلامتی کی زندگی بسر کی ہے اور جب کسی حکومت یا فرد نے ان کے ساتھ سختی کامعاملہ روا رکھنا چاہا علمائے اسلام نے آگے بڑھ کر اس کا محاسبہ کیا او رمسلمان حاکم کو ظلم سے باز رکھا، لبنان کے گورنر علی بن عباس نے غیر مسلم باغیوں کے خلا ف کارروائی کرکے ان پر قابو پا لیا اور مصلحت کے پیش نظر انہیں اپنے وطن سےدور کسی اور علاقے میں بھیج دیا ، جب اس کی اطلاع امام اوزاعی کو ہوئی جو اس زمانے میں شام کے قاضی تھے تو انہوں نے گورنر لبنان کی سخت مذمت کی اور حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان یاد دلایا ۔ جس شخص نے ذمیوں کےساتھ ظلم و نا انصافی برتی یا ان کی طاقت سے زیادہ ان پر بوجھ ڈالا تو قیامت کے دن میں ان ظالموں کےمقابل ہوں گا۔ یہ سننا تھا کہ والی لبنان نے اپنے فیصلہ سے رجوع کرکے سبھوں کو عزت کےساتھ اپنے اپنے وطن بھجوا دیا۔
قرون وسطیٰ میں ( جو جابر حکومت کاعہد ہے اورجس میں غیر مسلم حکومتوں میں مسلمانوں پر سخت ظلم کیا جاتا تھا،مسلم ممالک میں غیر مسلموں کے خلاف کسی بے جا کارروائی کا سراغ نہیں ملتا ۔ اور اگر کہیں کوئی واقعہ ہو بھی جاتا تو علمائے اس پر سخت گرفت کرتے ۔ خواہ والیان حکومت کتنے ہی سخت کیوں نہ رہے ہوں۔ خلافت عثمانیہ کے زمانہ میں آرمینیوں نے طرح طرح کی مشکلات پیدا کردی تھیں، او رپڑوسی عیسائی ممالک ان کو فتنہ برپا کرنے کی غرض سے اکسایا کرتے تھے، لیکن اس کے باوجود عثمانی حکام نے جب بھی ان معاندین کاتعاقب یا سرزنش کرنی چاہی تو علماء اسلام اور مفتی سلطنت نے انہیں یہ کہہ کر روک دیا کہ یہ اہل ذمہ ہیں ان کے حقوق ہیں جس کا ایفا ہم پر اس وقت تک لازم ہے جب تک ان کی خیانت او رپڑوسی ممالک کے ساتھ ساز باز کا یقینی پتہ نہ چل جائے، اس لئے ان سلاطین نے محدود طور پر کارروائیاں کیں جس پر مغربی مورخین نے بڑا شور مچایا ہے۔ ڈاکٹر Person کا کہنا ہے: ‘‘ مسلمانوں کی سب سے بہترین خوبی یہ ہے کہ وہ اپنے مذہبی دشمنوں کے ساتھ بھی عملی عفوو در گزر کا رویہ اختیار کرتے ہیں’’۔
سلطان محمد فاتح کے اسی قسم کے تسا محانہ رویہ کی تعریف فرانسیسی ادیب او رمفکر (VOLTAIR) والٹائر نے کی ہے، وہ کہتا ہے ‘‘یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ مغلوب و مقہور مسیحیوں کو اپنے پادری کے انتخاب میں پوری آزادی دے کر سلطان محمد فاتح نے اپنی اعلیٰ ذہانت و بردباری کا ثبوت دیا۔ پادریوں کا انتخاب عمل میں آجانے کے بعد سلطان پوری عظمت کے ساتھ اس کی توثیق کرتا تھا ۔ اور اپنے ہاتھوں سے دستار عطا کرتا، حتیٰ کہ بعض پادری یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ سلطان نے جس اعزاز و اکرام سے مجھے نوازا ہے میں اس کا مستحق نہیں تھا ،میں شرم سے پانی پانی ہوا جارہا ہوں کہ ہمارے اسلاف کے ساتھ خود نصرانی فرمانراؤں نے یہ سلوک نہیں کیا تھا ’’۔ محمد فاتح اپنے اعلیٰ اقتدار او رزبردست فوجی قوت ( جس کے ذریعہ مغربی لشکر کو مغلوب کر کے قسطنطنیہ کی بازیابی ہوسکی) کے باوجود حلم و برباری اور عفوو درگزر اور چشم پوشی کے اصولوں پر کار بند تھے ۔ مورخین کا اتفاق ہے کہ انہوں نے اپنی رعایا کے ہر فرد کو استحقاق ثابت ہوجانے او رمعاملہ طے ہوجانے کے بعد امان دیدی۔ اور اپنے تمام عاملوں کو تین دن کے بعد تادیبی سزا جاری رکھنے سےمنع کردیا ۔ پردیسیوں او رغیر مسلموں کے ساتھ ان کے ایجابی رویہ کے سلسلہ میں سب سے بہتر شاہد وہ فرمان شاہی ہے جو سلطنت عثمانیہ کے آخری زمانہ میں صادر ہوا تھا ۔ جس میں گرجا بنانے او ر دینی سرگرمیاں جاری رکھنے کی پوری اجازت دی گئی تھی ۔ اور اس راستہ میں روڑے اٹکانے والوں کے ساتھ سختی سے نپٹنے کی صراحت کی گئی تھی ۔ لیکن اس کے برعکس مسلمانوں کو انتقامی کارروائیوں کے ایک طویل سلسلہ کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ گزشتہ صدی کے اوائل میں ‘‘اسٹالن’’ نے پیہم خونریزی کے بعد کریمیائی تاتاریوں کو جرمنی کے ساتھ تعاون کے الزام میں ملک بدر کردیا اور نصف صدر گزر جانے کے باوجودیہ لوگ اب تک اپنے وطن واپس نہیں آئے، اور اس وقت دنیا کے اندر پناہ گزینوں میں 75 فیصد تعداد مسلمانوں کی ہے، ان میں فلسطین ، جاپان، ایشیائے کوچک ، ہندوستان اور چین کے مسلمان شامل ہیں، جو موجودہ حکومتوں کے جبرو استبداد کے شکنجہ سے عاجز آکر دنیا کے دیگر ممالک میں پناہ گزیں ہیں۔
تاریخ سے ثابت اس مصالحانہ رویہ اور ممالک اسلامیہ میں تمام مذاہب کے قیام کے باوجود یوروپین مفکرین کی طرف سے مسلسل یہ پروپیگنڈہ کیا جاتاہے کہ اسلام کی اگر حکمرانی ہوئی تو انسانی تمدن خطرہ میں پڑ جائے گا۔ یورپ نے اپنے دور سلطنت میں انسانوں کے ساتھ بھیڑیا بکری کا سا معاملہ کیا ہے۔ اور تہذیب و تمدن ، زبان و ثقافت سب کو ملیا میٹ کرکے رکھ دیا ہے۔ اب اس کو یہ اندیشہ ہے کہ اگر اس کی حکمرانی چھن گئی تو اس کو اپنے ظلم و استبداد کی وجہ سے برے دن دیکھنے پڑیں گے۔ اسلام کی مخالفت حقیقت میں اس خوف سے کی جاتی ہے کہ اس حکمرانی سے مغربی مفادات خطرہ میں پڑ جائیں گے ۔ اس لئے اس کی مخالفت انہی سامراجی بنیادوں پر کی جارہی ہے۔ اسلام کے مخالفین اس طرح کے غلط دعوے اس لئے کررہے ہیں کہ یوروپ کو کسی مذہب سےحتیٰ کہ یہودیت سے خطرہ نہیں ، بلکہ اسے خطرہ صرف اسلام سے ہے۔ کیونکہ یہ اس کے سامراجی مصالح کی راہ میں رکاوٹ بنے گا ۔ اس خوف کا اظہار موریس براؤن کے بیان سےہوتا ہے ، اس کا کہنا ہے : ‘‘ اگر عربی شہنشاہیت کے تحت مسلمان متحد ہوگئے تو بہت ممکن ہے کہ دنیا والوں کے لئے خطرہ اور لعنت کا سبب بن جائیں، لیکن جب وہ باہم دست گریباں اور تفریق و تشتت کا شکار رہیں گے اس وقت تک دنیا کی منڈی میں ان کی کوئی وقعت و حیثیت نہیں رہے گی۔
پادری سیمون (G.Simmon) کاکہنا ہے کہ ‘‘اتحاد’’ لوگوں کی دیرینہ آرزوؤں کی تکمیل کا ذریعہ ہے۔ اور یوروپی اقتدار سے نجات حاصل کرنے کا سب سے بڑا ہتھیار ۔ اسحٰق بومان (I. Bowman) نے کہا ہے کہ ‘‘مغربی ممالک کا اسلام سے خوف زدہ ہونا طبعی ہے، اس کے کئی اسباب ہیں ان میں سےایک سبب یہ ہے کہ متبعین اسلام کی تعداد ابتدائے عہد سے لے کر اب تک کبھی گھٹی نہیں بلکہ برابر بڑ ھ رہی ہے۔اسلام محض چند رسمی عبادات کا نام نہیں ، اور دوسری بات یہ کہ جو شخص اسلام لے آتاہے وہ اس سے پھرنے کا نام ہی نہیں لیتا۔ تاریخ میں کوئی ایسا واقعہ نہیں ملتا کہ کوئی جماعت اسلام لانے کے بعد نصرانی ہوگئی ہو’’۔
موریس براؤن لکھتا ہے ۔‘‘ ہمیں مختلف گروہوں سے اندیشہ تھا ، لیکن تجربہ سے معلوم ہوا کہ ان سے ڈرنے کی کوئی وجہ نہیں، ہمیں پہلے یہودی خطرہ سے، اسی طرح جاپانی اور روسی خطرہ سے ڈر تھا، مگر یہ سارا خوف ہمارے زعم کے برعکس ثابت ہوا، کیونکہ ہم نے دیکھ لیا کہ یہودی ہمارے ہی بھائی ہیں اس لئے ان پر ظلم کے پہاڑ توڑنے والے ہمارے بھی کٹر دشمن ہیں ۔ پھر روسیوں کو بھی ہم نے اپنا حلیف پایا ۔ جہاں تک جاپانیوں کا تعلق ہے تو ان سے بھی نمٹا جاسکتا ہے، اب اصل خطرہ نظام اسلامی اور اس کے زندہ جاوید مذہب ہونے کی حیثیت سےاپنے حلقہ متبعین کو وسیع کرلینے کی غیر معمولی قدرت و صلاحیت سے ہے۔ یوروپی سامراج کے راستہ میں سب سے بڑی رکاوٹ تنہا یہی ہے ’’۔ 1911 میں سینگا ل میں یہ حکم صادر کیا گیا تھا کہ جو پرچہ یارسالہ ہمارے خلاف معاندانہ رویہ اپنائے ، یا غیر وں کی سرگرمیوں کی پشت پناہی کرے ، اس کا نیست و نابود کردینا ضروری ہے۔ نیز اسلامی ارتقا کی تشجیع یا اسلامی اتحاد کے ساتھ تعاون کے سلسلہ میں ہمارا موجودہ نظریہ درست نہیں معاملہ اس کے برعکس ہونا چاہئے ۔ مغربی حکمرانوں اور سامراجی پالیسی وضع کرنے والوں کے یہ بیانات ان کے اندورنی خوف و ہراس کو واضح کرنے کےلئے کافی ہیں، او ران کا حاصل بس دو جملوں میں یہ ہے ، اسلام میں اتحاد و اتفاق اور ایک ساتھ جٹ کر چلنے کی غیر معمولی صلاحیت ،اور غیر اسلام میں اسلام سے مقابلہ کرنے کی قوت کا فقدان ۔
سامراجی طاقتوں نے اسلام کا قلع قمع کرنے او رمسلمانوں کو اپنے اصل سرچشمہ سے قطع تعلق کرنے کے لئے امکانی حد تک پوری کوشش کرڈالی ، اور ماسونی ، صیہونی او رکمیونزم نے دلوں سے شرارۂ ایمانی گل کرنے کےلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا۔ ان تنظیموں نے اسلامی و تربیتی اداروں کے خلاف اپنی پوری توانائی مرکوز کردی تاکہ وہاں سے ایسی کھیپ تیار ہو جو سامراجی اسکیموں کو کامیاب بنائے ۔ انہوں نے مغربی مکاتب فکر سے فارغ ہونے والے طلباء کے لئے حکومت کی کرسی تک پہنچنے کی راہ بھی ہموار کردی، کیونکہ اسلام کا ان پر ایسا خوف طاری ہے، جیسے کسی بادشاہ و حکمراں کا ، لہٰذا وہ اسلام کی ترقی کی ہر راہ میں رکاوٹ ڈالتے ہیں تاکہ یوروپی تہذیب و قیادت کو خطرہ لاحق نہ ہو۔ اس لئے وہ ہر اسلامی تحریک بلکہ ہر اسلامی کوشش کو ناکام بنانا چاہتے ہیں ، حتیٰ کہ مساجد کی تعمیر او رنماز کی ادائیگی پر پابندی لگانے کی فکر میں ہیں ، وہ ان سارے اعمال کو اپنے اپنے حق میں مضر سمجھتے ہیں جیسا کہ ایک فرانسیسی نے کہا بھی کہ اسلامی جماعتیں جس عقیدے کی دعوت دیتی ہیں وہ ہماری یوروپی تہذیب کے لئے انتہا ئی خطرنا ک ہے۔
سامراجی مصالح کےپیش نظر جس طرح یوروپ کو اسلام اور اس کی ترقی سے اندیشہ ہے ، اسی طرح یوروپ کی گود میں پلنے والے چند نام نہاد مسلم حکمراں بھی اسلامی تحریکوں کو خطرہ سمجھتے ہیں ۔ او ریہ خوف اس بات کا نہیں ہے کہ ایک مذہب دوسرے مذہب کے مقابلہ میں یا اسلام عیسائیت کے مقابلہ میں غالب آجائے گا، کیونکہ وہ بھی کسی حد تک مسلمان ہیں، ان میں سے اکثر روزہ نماز بھی کرلیتے ہیں ، بلکہ ان کے خوف کا حقیقی راز یہ ہے کہ مسلمانوں کی فکری و تمدنی قیادت کا بول بالا ہوجائے گا جیسا کہ اس خطرہ کا اظہار براؤن کے بیان سےاوپر ہوچکا ہے۔ اور ایک مغربی دلدادہ نے اس خوف کا اظہار یہ کہہ کر کیا ہے: ‘‘ کون جانتا ہے کہ وہ دن پھر آجائے گا کہ مغربی ممالک مسلمانوں کی نرغہ میں آجائیں اور وہ ان پر آسمانوں سے ٹڈی دل کی طرح ٹوٹ پڑیں ۔ اور زمین سے ابل پڑیں ۔ مزید لکھتا ہے :۔ ان احتمالات کے بے پناہ شواہد موجود ہیں اس وقت یہ ایٹمی توانائیاں او رمیزائل و کارتوس کچھ کام نہ آئیں گے’’۔ یہی وہ خطرہ ہے جو سامراجیوں کو نظام اسلامی اور تہذیب اسلامی کی طرف دعو ت دینے والی تمام تحریکات کا قلع قمع کردینے پر مجبور کئے ہوئے ہے ۔ او راسی مقصد کےحصول کےلئے تمام مغربی حکمراں تن من دھن کی بازی لگا ئے ہوئے ہیں لیکن خالق کائنات کا وعدہ برحق ہے ۔ ارشاد ہے مفہوم: ایک تدبیر وہ کررہے ہیں اور ایک اللہ کررہا ہے اور اللہ سب تدبیر کرنے والوں سےبہتر ہے۔
13 فروری، 2016 بشکریہ : روز نامہ راشٹریہ سہارا ، نئی دہلی
URL: https://newageislam.com/urdu-section/this-fear-islam-/d/106329