New Age Islam
Mon Mar 20 2023, 02:57 PM

Urdu Section ( 13 Jul 2012, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Patience and Reference to Allah, Key to God’s Help and Success صبر اور رجوع الی اللہ، اللہ کی مدد کی کلید اور کامیابی کاہتھیار ہیں

ہمیں خدا کی طرف اور اس  کے خزانہ و طاقت سے مدد لینا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ کے لئے نہ کوئی چیز انہونی ہے او رنہ کوئی بات ناممکن ، وہ چاہے تو وقت کی سپر طاقتوں کو راکھ کا ڈھیر بنادے اور اپنے کمزور بندوں کو آہن وفولاد سے زیادہ طاقتور ۔ دُعا کا مقصد یہی ہے کہ مومن خدا کے غیبی خزانہ سے اپنا مدعا حاصل کرے۔یہی صبر اور رجوع الی اللہ،  اللہ کی مدد کی کلید اور کامیابی کا ہتھیار ہے اور بے صبر اور خالق کے بجائے ،مخلوق پر بھروسہ ،مومن کیلئے ناکامی و نامرادی  کا پیش خیمہ ، اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ صبر اور صلوٰۃ کے ذریعہ اللہ سے مدد چاہو۔

مولانا سیف اللہ رحمانی

13  جولائی ، 2012

طوفان اس لیے آتے ہیں کہ اپنی تباہ خیزیوں کے ساتھ گزر جائیں، موجیں اس لئے متلاطم ہوتی ہیں کہ ساحل کو روند کر واپس چلی جائیں ، آتش فشاں اس لئے پھوٹتے ہیں کہ زمین کے سینہ میں جو لاوے چھپے ہوئے  ہیں ، وہ باہر آکر ساکت و جامد ہوجائیں، ان کی ہلاکت خیز یاں اور تخریب انگیزیاں اتنی شدید ہوتی ہیں کہ لگتا ہے کہ کائنات کا کوئی زرہ ان کے پنجۂ استبداد سے بچ نہیں سکے گا، لیکن ان کا ثبات ودوام حاصل نہیں ہوتا ۔ انسان کی شخصی اور اجتماعی  زندگی میں بھی ایسے طوفان اُٹھتے ہیں ، کہ جس سے دل  لرزنے او رقدم ڈگمگانے لگتے ہیں  لیکن اصل میں یہ اس کے لئے آزمائش کے لمحات ہیں، اگر وہ کچھ دیر اس میں استقامت کا ثبوت دے، کم ہمتی  سے دوچار نہ ہو،جذبات سے مغلوب نہ ہو اور رد عمل کی نفسیات میں مبتلا ہو کرکوئی غیر دانشمند انہ اقدام نہ کر بیٹھے ، تو یہی  مصیبت اس کے لئے راحت کا مقدمہ اور یہی  وقتی پستی اس کے لئے سر بلندی کاپیش خیمہ ثابت ہوتی ہے۔

مومن کو قرآن نے ایسے مواقع پر دوباتوں کا حکم دیا ہے ، صبر اور صلوٰۃ ۔۔۔ صبر کیا ہے؟ عام طور پر لوگ سمجھتے ہیں کہ کسی عزیز و قریب کی موت پر رونے دھونے سے اجتناب کا نام ‘‘صبر’’ ہے، لیکن حقیقت میں صبر کادائرہ بہت وسیع ہے اور اس کا تعلق زندگی کے تمام شعبوں سے ہے، صبر کے معنی  برداشت کرنے کے ہیں، قوت برداشت بہت بڑا جوہر ہے اور اس  قوت سے محرومی بہت بڑا عیب ہے۔ جس آدمی میں قوت برداشت ہوتی ہے، اس میں تدبیر کی صلاحیت ہوتی ہے اور وہ مخالف سازشوں سے نمٹنے کی مؤثر کاروائی کرسکتا ہے، انبیاء کو چونکہ سب سے زیادہ مخالف حالات سے گزر نا پڑتا ہے، اس لئے ان میں علم و برد باری اور مخالف کو سہنے کی صلاحیت من جانب اللہ سب سے زیادہ ودیعت ہوتی ہے۔

میرا منشا یہ نہیں ہے کہ صبر کا مطلب بزدلی اختیار کرنا اور حوصلہ ہار جانا ہے بلکہ مقصد یہ ہے کہ حکمت کا دامن ہاتھ سے چھوٹنا نہیں چاہئے اور اپنے جذبات کو بے محل خرچ کرنے سے بچنا چاہئے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاب طیبہ میں قدم قدم پر اس کی مثالیں ملتی ہیں۔ صلح حدیبیہ کے موقعہ پر  اہل مکہ کی جانب سے ایک جتھے نے مسلمانوں پر حملہ کیا جو کم و بیش چالیس افراد پر مشتمل تھا۔ ظاہر ہے کہ وہ لوگ مسلمانوں کی جان کے درپے ہوکر حملہ آور ہوئے تھے اوران کی حقیقی سزایہ تھی کہ یہ جس مقصد کے لئے آئے تھے، وہی رویہ ان کے ساتھ اختیار کیا جاتا یعنی انہیں قتل کردیا جاتا یا کم سے کم وہ قید کر لئے جاتے، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں یوں ہی رہا فرمادیا ۔ کیونکہ اگر ایسا نہ کیا جاتا تو یقیناً جنگ کی آگ بھڑک اُٹھتی  اور اس سے چاہے جانی یا مالی نقصان کسی بھی فریق کا ہوتا، لیکن عربوں میں اسلام کے تئیں  نفرت اور بڑھ جاتی ،کیو نکہ وہ حرم کا بے حد احترام کرتے تھے، انہیں  خیال ہوتا کہ مسلمانوں نے اب حرم کو بھی پامال کرنا شروع کردیا ہے، یہ ہوش کو جوش او رحکمت و مصلحت کو جذبات پر غالب رکھنے کی ایک مثال ہے۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا ایک معرکہ ‘‘غزوۂ بنو مصطلق ’’ کے نام سے معروف ہے، اس غزوہ میں ایک انصاری اور حصرت عمر رضی اللہ عنہ کے غلام کے درمیان معمولی سی بات پر کچھ تیز و تند، گفتگو ہوگئی،پھر انصاری نے اپنی مدد کے لئے انصار کو اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے غلام نے مہاجر کو آواز دی  اور اس طرح دو افراد کا جھگڑا دو گروہ کا جھگڑا بن گیا۔ عبداللہ بن أبی  جو نفاق کے مرض میں مبتلا  تھا، بلکہ گروہ منافقین کی قیادت کرتا تھا اور  کسی ایسے موقع کو ہاتھ سے جانے نہ دیتا تھا ، جس سے اسلام کو اور مسلمانوں کو نقصان پہنچے، اس نے اس موقع کو اپنی ناشائستہ حرکت کے لئے بہت غنیمت جانا اور انصار کو یہ کہہ کر برانگیختہ کیا کہ مہاجرین کے معاملہ میں تمہاری  مثال عربوں کے اس محاورہ کی سی ہے کہ اپنے کتے کو کھلا پلا کر موٹا کرو، کہ وہ تمہیں  ہی کاٹ کھائے‘‘ سمن کلبک یا کلک ’’۔ عبداللہ بن اُبی کی اس ریشہ دوانی کی اطلاع حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک کمسن انصاری صحابی رضی اللہ عنہ  نے دی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن اُبی کو بلا کر استفسار فرمایا تو وہ صاف مگر گیا، کچھ دوسرے بزرگ انصار پر عبداللہ بن اُبی نے نفاق سے واقف نہیں تھے انہوں نے بھی عبداللہ بن اُبی کی حمایت کی ۔ اس موقع پر قرآن مجید کی آیت ان کمسن انصاری صحابی رضی اللہ عنہ کی تصدیق  میں نازل ہوئیں ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ازراہِ سفقت ان کی گوشمالی کرتے ہوئے، ارشاد فرمایا: کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی تصدیق کی ہے۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا جوش غالب رہتاتھا ، انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت مانگی، کہ عبداللہ بن ابی کی گردن ماردی جائے ۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا کہ اگر میں ایسا کروں تو انصار کو غلط فہمی پیدا ہوسکتی ہے او رلوگ بھی ایسا سوچیں گے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم خود اپنے رفقاء کو قتل کرارہے ہیں ۔ اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاموشی اختیار فرمائی او رصحابہ رضی اللہ عنہ کو کوچ کرنے کا حکم دیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس پورے دن ، رات اور آئند دن دوپہر تک خلاف معمول چلتے رہے، یہاں تک کہ صحابہ رضی اللہ عنہ تھک کر چور ہوگئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑاؤ کرنے کا حکم فرمایا۔ اس مسلسل سفر کا مقصد یہ تھا کہ لوگ اتنا تھک جائیں کہ انصار و مہاجرین کے درمیان جو تلخی وہاں پیدا ہوگئی تھی اس کا اثر جاتا رہے۔

پھر ایک وقت آیا کہ خود عبداللہ بن اُبی کے صاحبزادےحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ، یہ بہت مخلص مسلمان اورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خاص محبین میں تھے، انہوں نے درخواست کی کہ میں اپنے والد کے نفاق سے واقف ہوں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہوتو میں خود انہیں قتل کرسکتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا اور ارشاد ہوا کہ جب تک کوئی شخص اپنے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مسلمان ظاہر کرے گا، میں اس کے ساتھ مسلمانوں کا ساہی معاملہ کروں گا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو یہ صورت حال بتائی  کہ اگر ہم اس وقت عبداللہ بن اُبی کے قتل کاحکم دیتے ، تو اس سے بعض مخلص مسلمانوں کو بھی غلط فہمی ہوسکتی تھی لیکن اب یہ صورت حال ہے کہ خود ان کے بیٹے ان کا سرقلم کرنے کو تیار ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کی رائے میں برکت رکھی۔

یہ وہی حکمت و مصلحت اور ہوش کو جذبات اور جوش پر ہوش کو غالب رکھنے کی بات ہے۔  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں اسکی کتنی ہی مثالیں  ملتی ہیں۔موجودہ حالات میں مسلمانوں کیلئے ضروری ہے ، کہ وہ اس صورت حال کو سمجھیں ، اگر ہم نے مغلوب الجذبات ہوکر چند پتھر پھینک دیئے تو اس سے یقیناً دوسروں کا کچھ خاص نقصان نہیں ہوگا اور نہ اس سے آپ کو کوئی فائدہ حاصل ہوگا، البتہ اس سے آپ کے لئے بہت زیادہ نقصان و مضرت کا اندیشہ موجود ہے۔ کوئی انسان کتنا  بھی ظالم او ربدخوہو، اس کی خو اہش ہوتی ہے کہ اس کو اپنے ظلم وجور کے لئے کوئی دلیل ہاتھ آجائے ، خواہ وہ کمزور سے کمزور ترکیوں نہ ہو، شیطان نے بھی اپنی عدول حکمی کے لئے ایک دلیل دریافت کرلی تھی، کہ حضرت آدم علیہ السلام کا مادۂ تخلیق اس کے مادہ تخلیق سے کمتر ہے، اس لئے وہ آدم علیہ السلام کو سجدہ نہیں کرے گا۔

اگر ہم مشتعل او ربے برداشت ہوکر کوئی معمولی سی حرکت بھی کر گزریں ،تو جو لوگ اپنے سینوں میں بغض چھپائے رکھتے ہیں ان کو اپنی زیادتی کےلئے سند جواز ہاتھ آجاتی ہے ، گویا ہم اپنے ہاتھوں ان کو اشتعال کا ہتھیار دے دیتے ہیں،پھر لوگ واقعات اور اس کے اصل محرکات کو نہیں دیکھتے بلکہ ظاہری  سبب کو ہی اس کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں ، اس لئے ایسے مواقع پرسوچنا چاہئے کہ کون سا قدم ہمارے مقصد کے لئے مفید  ومعاون ہوگا۔

مثلاً افغانستان پر امریکہ کے ظالمانہ حملہ کی بات ہے، اگر ہم حکومت سے مطالبہ کریں کہ وہ اس معاملہ میں مظلوم کی طرفداری یا کم سے کم غیر جانبداری کو برقرار رکھے ، تو یہ ایک معقول بات ہو گی، اسی طرح مغربی ممالک او رعالم اسلام کے سفارت خانوں سےبھی ملاقاتیں کرسکتے ہیں اور ان کے سامنے اپنے جذبات رکھ سکتے ہیں ،لیکن اگر ہم اس مقصد کے لئے سڑکوں پر نکل آئیں تو اس سے ہمارے مقصد کو تو کوئی تقویت حاصل نہیں ہوگی، لیکن فرقہ پرست طاقتوں کے کاز کو ضرورتقویت ملے گی اور یہ ہمارے لئے کس قدر نقصاندہ ہوگا، وہ محتاج بیان نہیں ۔

خدا کی مدد کا دوسرا ہتھیار ‘‘صلوٰۃ’’ ہے ۔ صلوٰۃ کے اصل معنی نماز کےہیں ، نماز ایک ایسی عبادت ہے  ، جس میں انسان خدا کے سامنے اپنے  آپ کو مکمل طور پر بچھادیتا ہے او رپیشانی سے لے کر پاؤں تک انگ انگ خدا کی بندگی میں مشغول ہوتا ہے۔اس لئے نماز دراصل رجوع الی اللہ کا عنوان ہے، یعنی مشکل حالات میں انسان اپنے رب کی طرف پوری طرح رجوع ہوجائے ، وہ خدا کی چوکھٹ پر اپنی پیشانی رکھ دے، کہ ہم محتاج ہیں تو غنی ، ہم فقیر ہیں تو داتا  ، تو ان ہاتھوں کو خالی واپس نہ فرما۔خدا کی طاقت بے پناہ ہے۔ یوں تو روز وشب خدا کی قدرت کو ہم دیکھتے ہی رہتے ہیں لیکن یہ قدرت اسباب کے پروہ میں ظہور پذیر ہوتی ہے، کبھی کبھی خدا کی طاقت اسباب سے آزاد ہوکر بھی انسان کے مشاہدہ میں آتی ہے۔

غور کرو کہ جب حضرت موسی علیہ السلام اور قوم بنی اسرائیل کا پیچھا کرنے کے لئے فرعون کا لشکر جرار جمع ہورہا تھا اور کبر و غرور کے ساتھ نکل رہا تھا تو لوگ یہی دیکھ رہے تھے کہ یہ لشکر مسلمانوں کو نیست و نابود کرنے کے لئے چل رہا ہے ۔لیکن اللہ کے یہاں یہ بات مقدر تھی ، کہ ان کا یہ اجتماع خود ان کے نیست و نابود ہونے کا ذریعہ بن جائے گا، چنانچہ وہی ہوا۔ بدر کے معرکہ میں بڑے بڑے سو رما اور بہادر مکہ سے چلے آئے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بارے میں  فرمایا کہ مکہ نے اپنے جگر کے ٹکڑوں کو تمہارے سامنے ڈال دیا ہے، ان کے جوش و خروش کو دیکھ کر لوگوں کو خیال گزرا ہوگا کہ یہ تو مدینہ کی اینٹ سےاینٹ بجادیں گے، لیکن کسےخبر تھی کہ اللہ تعالیٰ ان سو رماؤں کو اس لئے جمع کررہا ہے کہ خود ان کا وجود صفحۂ ہستی  سے مٹ جائے اور مکہ کو اپنے ضدی سرداروں سے نجات مل جائے، آئندہ اہل مکہ کے لئے دعوتِ حق کو قبول کرنا آسان ہو۔ غزوۂ احزاب میں اتحادیوں کی ایک پہاڑ جیسی فوج  اس لئے جمع ہوئی تھی کہ مسلمانوں کے مقابلہ تمام اسلام مخالف طاقتوں کو متحد و مربوط کردیا جائے،لیکن اللہ تعالیٰ کو یہ بات منظور تھی کہ اس آخری کوشش کی ناکامی کے بعد ہمیشہ کے لئے ان کی ہمت ٹوٹ جائے اور خود ان کی صفیں بکھر جائیں ۔

اس لئے ہمیں خدا کی طرف اور اس کے خزانہ و طاقت سے مدد لینا چاہئے۔ پھر اس کے لئے نہ کوئی چیز انہونی ہے او رنہ کوئی بات ناممکن ، وہ چاہے تو وقت کی سپر طاقتوں کو راکھ کاڈھیر بنادے  او راپنے کمزور بندوں کو آہن وفولاد سےزیادہ طاقتور ۔ دُعا کا مقصد یہی ہے کہ مومن خدا کے غیبی خزانہ سے اپنا مدعا حاصل کریں ۔۔۔ یہی صبر اور رجوع الی اللہ، اللہ کی مدد کی کلید او رکامیابی کا ہتھیار ہے او ربے صبر ی اور خالق کے بجائے ،مخلوق پر بھروسہ ،مومن کے لئے  ناکامی و نامرادی کا پیش خیمہ ، اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ صبر اورصلوٰۃ کے ذریعہ اللہ سے مدد چاہو ، بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے، یہ آخری فقرہ صبر کی مزید تاکید کے لئے ہے، کیونکہ صبر ایک مشکل کام ہے یہ اپنے جذبات کی آگ کو اپنے آپ بجھا نا اور نفس کے تقاضوں کو آپ قتل کرنے کے مترادف ہے، انسان کا  کسی مقصد کے لئے یکبارگی جان دیدینا، نسبتاً آسان ہے، لیکن کسی کاز کے لئے گھٹ کر مرنا اور مسلسل اپنے جذبات کو تختۂ دار پر چڑھانا بہت دشوار ، اسی لئے شاعر نے خوب کہا ہے:

سلگنا اور شئے ہے جل کے مرجانے سے کیا ہوگا

ہوا ہے کام جو ہم سے وہ پروانوں سے کیا ہوگا

حوصلہ پیدا کرنا چاہئے ،ہمارے دل حوصلۂ و ہمت سے معمور ہوں، ہمارے جذبات کی لگام حکمت و شعور کے ہاتھوں میں ہو  ، ہماری پیشانی میں خدا کے یقین کا نور ہو اور ہمارے ہاتھ اپنے خالق کے حضور اُٹھے ہوئے ہوں، یہی ہمارے لئے کامیابی کا راستہ ہے اور اسی طرح ہم اللہ کی مدد کے مستحق ہوسکتے ہیں۔

13  جولائی، 2012  بشکریہ: انقلاب ، نئی دہلی

URL: https://newageislam.com/urdu-section/patience-reference-allah,-key-god’s/d/7929

Loading..

Loading..