کعبہ ہمارا قبلہ اور مدینہ
ہماری جان۔ مسلمان ان دونوں کے بغیر مردہ ناکارہ ہے اور ان دومراکز کے بغیر اسلام کا
ہر تصور ادھورا ہے
مولانا عبیداللہ خان اعظمی
16مئی 2012
مورخہ 12مئی کے روز نامہ انقلاب
کے پہلے صفحہ پر چھپی پہلی سرخی جس میں امریکی فوجیوں کی تربیت کے لئے مرتب نصاب میں
اسلام دشمنی کا سبق از برکرایا گیا ہے، میں نہیں سمجھتا کہ کوئی تعجب خیز امر ہے یا
دیوار سے پیٹھ لگا کر اس میں حیرت کا کوئی گوشہ ڈھونڈ نے والی بات ہے ۔ کم از کم قوم
کے صاحبان فکر ونظر کے لئے تو یہ ایک ایسی جانی بوجھی سچائی ہے جس کا علم پوری ملت
اسلامیہ کو جتنی جلد ہوجائے اس کے حق میں بہتر ہے۔ یہودیت و نصرانیت اسلام دشمنی میں
’الکفر ملۃ واحدۃ’ کے تحت ایک ہیں اور پوری طرح سے ایک ہیں ۔ اسلام کے سینے میں خنجر
پیوست کرنے کی کوشش میں ان دست وبازو با ہم دیگر حرکت کرتے ہیں۔ ان کی رگوں میں مسلمانوں
کے اسلامی حمیت کے خلاف دوڑ نے والالہو چیخ چیخ کر اسلامی روایات کی عداوت کا اظہار
کرتا ہے۔ تاریخ کے ہر دور میں یہود ونصاریٰ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ایک محاذ پر
نظر آئے ہیں اور ان کے اسلحوں کا رخ ہمیشہ مسلمانوں کی طرف بالخصوص ان مسلمانوں کی طرف رہا ہے جنہوں
نے اپنے اسلامی تشخص اور اعتقادی و تہذیبی وجود کو ان کی یلغار سے محفوظ رکھنے کے لئے
ہر طرح کی قربانی پیش کرنے کے لئے آمادہ رہے ہیں۔ایک زمانے تک ترکوں کو ان کی اسلامی
وجاہت وحمیت کی وجہ سے یورپ کا مرد بیمار کہا جاتا رہا لیکن جیسے ہی مغربی تہذیب نے
ترکی کی اسلامی پہچان کو متاثر کیا اور ان پر یورپ و امریکہ کے فریب کا غازہ چڑھ گیا
ان کی توپوں کےدہانے سرد پڑگئے اور ان کے اندر کا مسلمان جو اسلامی تہذیب وروایات کا
پاسدار تھا کمزور پڑنے لگا۔یہود ونصاریٰ نے ترکوں کے باطن ذات سے اسلامی روح نکال دی
اور وہاں مغربی رسومات کے کھوکھلے مگردل کش بت نصب کردیئے۔
واقعہ یہ ہے کہ اگر اسلام
اللہ تعالیٰ کا نازل کردہ دین اور نظام حیات نہ ہوتا اور اس کے دستور ابدی قرآن کریم
کے تحفظ کی ذمہ داری خود اللہ رب العزت نے نہ لی ہوتی تو اسلام اور مسلمانوں کا خاتمہ
اسپین کی سرزمین پر ہی کردیا جاتا یا پھر تاتاری یورش کے بعد اسلام کی زندگی معدوم
ہوجانا تھی۔ اس لئے کہ اس کے سارے سامان کردیئے گئے تھے ۔ اس سے بڑھ کر مسلمانوں کو کسی دوسری آفت کا سامنا
نہیں ہوا تھا اور نہ ہی اس سے زیادہ کوئی سخت افتادان پرنہیں پڑی تھی ۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی خفیہ تدابیر کے سامنے دشمنانِ
اسلام کے تمام مکروفریب کھوکھلے ثابت ہوئے اور وہ نازک ترین دور بھی اسلام اور اہل
اسلام نے ہمت کے ساتھ گزار لیا اور اپنی اسلامی شناخت اور شعار کو مٹنے نہیں دیا۔ جس
قوم نے مصائب کے ایسے ایسے دور کا محض اپنی
قوتِ ایمانی اور اللہ کی قدرت کا ملہ کے بھروسے
سے کامیابی سے سامنا کرلیا ہو اسے موجودہ امریکی سازش اگر صفحہ ہستی سے مٹانے کی سوچ
رہی ہے تو وہ اس میں کامیاب نہیں ہوسکتی ہے
او رنہ اس سے مسلمانوں کے وجود کا خاتمہ ہی ممکن ہے۔امریکہ خود اپنی لگائی ہوئی
آگ کے دائرے میں گھر تا جارہا ہے ۔ امریکہ کی اس نیت فاسدہ کو جن جن ممالک اور رہنماؤں
نے بھانپ لیا اور اس کے کردار کو آئینہ دکھانے کی کوشش کی انہیں راستے سے ہٹا دیا
گیا۔ یہ تو امریکی مال اور یہودی منصوبہ بندی
سے چل رہی بہت پرانی سازش ہے اور جس کا مقصد پہلے مسلمانوں کی وحدت اعتقاد و ایمان
کو منتشر کرنا پھر ان مقدس مراکز کو جو وحدت اسلامی اور اسلامی مواخاۃ کے ضامن ہیں
ان کو تباہ کرنا ہے۔ مسلمانوں کے بدن میں
جب تک روح محمدی باقی رہتی ہے اور ہزار جان سے فریفتہ سرکا ر مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم
ہوتا ہے تو سای باطل طاقتیں اس سے بچ کر چلنے میں ہی اپنی سلامتی تصور کرتی ہے اور
جیسے ہی یہ فدائیت مسلمان کے اندر سے نکل جاتی
ہے وہ کفر وباطل کے علمبردار وں کا آسان شکار بن جاتا ہے۔ اجتماعی سطح پر یہ چنگاری بہت کم ظاہر ہوئی ہے لیکن
جب انفرادی طور پر اس نے کسی کے دل میں سوز
پھونکا ہے تو اس نے یہودی ونصرانی سازش کو بہت ہی سنگین چیلنج دیا ہے۔
افسوس تو اس کاہے کہ صدام
حسین کو جب اس بات کا احساس ہوا کہ امریکہ یہودیت کے کالے ناگ پر سوار ہوکر پورے عالم
عربی واسلامی کو ڈس لینا چاہتا ہے تو ان کو خود ان کی قوم کے ذریعہ ہی موت کے گھاٹ
اتارنے کا بندوبست کرادیا جاتا ہے۔ ایران میں
یہ جذبہ انفرادی و اجتماعی دونوں ہی سطح پر سرگرم وفعال نظر آتا ہے۔علامہ خمینی صاحب
نے لاشرقیہ ،لاغربیہ اسلامیہ کا نعرہ دیتے ہوئے پورے عرب ممالک کو دعوت دی تھی کہ اگر
ہم متحدہ ہوکر ایک ایک لوٹا پانی بھی اسرائیل پر ڈال دیں تو یہ آتشِ نمرود نہ صرف
یہ کہ اولاد ابراہیم کے لئے سرد ہو جائے بلکہ دنیا کے نقشے سے ہی یہ ملک محو ہوجائے
گا۔لیکن افسوس کہ یہاں بھی سادہ لوح مسلمان یہودی ونصرانی بساط پر ایک مہر کی طرح استعمال
ہوگیا اور خود اپنے ہی مصالح ومفاد کے خلاف امریکی ریموٹ سے چلنے والا ایک کھلونا بنارہا
۔ آج جب یہ حقیقت دنیا کے سامنے آئی ہے کہ امریکی فوجیوں کو باضابطہ یہ پڑھا یا جارہا
ہے کہ ان کا عمومی دشمن اسلام ہے نہ کہ دہشت گرد تو اس وقت بھی شاہان عرب امریکی ضیافت میں تمام جہاں کی
نعمتیں دسترخوان پر چن کر امریکہ کے روبروباادب کھڑے ہوئے ہیں۔ ان آمرانہ ممالک میں سرِ فہرست سعودی عرب ہے جس
کے حکمراں خود کو خادم حرمین شریفین کہتے ہیں۔
ہمارا تو ایمان ہے کہ جس گھرکو ابرہہ کا ہاتھیوں والا لشکر کچھ نقصان نہ پہنچا
سکا تو اس گھر کو اس دور کا ابرہہ امریکہ کیا نقصان پہنچا سکتا ہے؟ مسلم اور اسلام
دشمنی میں مکہ و مدینہ پر حملے کا سبق دینا
الگ بات ہے اور اس کو حقیقی طور پر انجام دینا ایک الگ اور محال محض مرحلہ ہے۔
لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قبلہ اوّل کو یہودیوں نے اپنے قبضے میں لے رکھا ہے اور
موجود ہ قبلہ کو منہدم کرنے کی امریکی افواج کو تربیت دی جارہی ہے ، ایسے میں مسلمانوں
کا موقف امریکہ افواج کو تربیت دی جارہی ہے ، ایسے میں مسلمانوں کا موقف امریکہ کے
تئیں کیا ہونا چاہئے ؟ خاص طور پر خود کو خادم حرمین شریفین کہنے والے سعو دی حکمراں
کا اس امریکی منصوبہ کے حوالے سے کیا ردّ عمل ہونا چاہئے ؟اپنی مطلق العنان شہنشاہیت
کو خادم حرمین شریفین کے لبادے میں چھپا نے کا سارا انتظام ہی امریکہ در ہم برہم کرنے کے چکر میں ہے اور سعودی حکومت اپنی امریکہ
نوازی کو اب بھی بے داغ اور غیر مشروط رکھنا چاہتی ہے۔
حرمین شریفین پر حملہ کرکے
اسلام کو نابود کرنے کا خواب یہود ونصاریٰ کی نسلیں دیکھتی آئی ہیں اور اس کی حقیقی
تعبیر کے لئے ہر طریقہ کار کو آزما یا گیا ہے ۔ اسلام کی حقانیت اور سرفرد شان ِ اسلام
کے جذبہ مدافعت نے ان کے راستے میں پہاڑ بن کر ان کے ناپاک عزائم کو شکست دیتا رہا
ہے ۔ اور 11ستمبر 2001کو عالمی تجارتی مرکز اورپنٹا گن پر حملے کا رچار چایا اور سجا سجا یا ڈرامہ یہود ی دماغ او رامریکی ذرائع ابلاغ کا پیدا کردہ مانا جارہا ہے۔اس سازش
کوبڑی چالاکی اور باریکی کے ساتھ رچا گیا تھا۔
یہودی مفکرین کی ایک ٹیم اس کام پرمامور تھی اور اس کا آغاز اشترا کی روس کےزوال کے
بعد ہی کردیا گیا تھا ۔ آئندہ صدی کو اسلام کی صدی بتاتے ہوئے اس کے خلاف محاذ آرائی
اور پروپگنڈہ مہم جاری کردی گئی تھی۔دنیا کو یہ بتا یا جارہا تھا کہ اسلام ہی وہ مضبوط
وجامع اور آفاقی جازبیت رکھنے والی تہذیب کا حامل نظر یہ ہے جو پوری دنیا کو اپنے حلقہ اثر میں لے سکتا ہے۔ مشرق سے مغرب
تک اگر کسی تہذیب میں چھا جانے او رعوامی قلب ودماغ کو مسخر کرنے کی صلاحیت موجود ہے
تو وہ اسلامی تہذیب ہے۔ لہٰذا مغربی تہذیب کو ابھی سے اس کے خلاف اپنی کاروائیوں کا
آغاز کردینا چاہئےتہذییوں کے تصادم کا نظریہ پیش کرتے ہوئے یہودی و نصرانی دنیا کو
اسلام کو فتنہ فرد ا پناتے ہوئے اپنی تمام تر طاقت اور وسائل کو اس جنگ میں جھونک دینے
کے لئے ابھارا گیا۔1990میں امریکی خارجہ پالیسی کے ماہر ہینری کیسنجر نے بین الاقوامی
تجارت کی سالانہ کانفرنس میں خطاب کرتے ہوئے
کہا تھا کہ ‘‘مغرب کو درپیش عمومی صورت حال یہ ہے کہ ان کا نیا دشمن عالم عربی و اسلامی
ہے اور جس قوت کا ان کو سامنا ہے وہ اسلام ہے’’۔اپنی ذہنی خباثت کے لئے مشہور ہینری
کسینجر نے 15ستمبر 2001کوایک سنگین بیان دیا تھا کہ ‘‘اسلام کے تشدد اور دہشت گرد ی
کے خلاف کل کی بجائے آج سے ہی جنگ کا آغاز کردینا چاہئے’’۔
اسی تاریخ کو روز نامہ سنڈے
ٹیلی گراف میں ایک نمایاں مضمون شائع ہوا جس کی سرخی تھی ‘‘کیا اسلام ہم کو دفن کردے
گا’’؟اسی تاریخ کو سنڈے ٹائمز لندن نے ایک مقالہ شائع کیا جس میں مغربی دنیا کو متوجہ
کرتے ہوئے کہا گیا کہ ‘‘شمالی افریقہ میں بحر ابیض متوسط کے ساحل سے لے کر وسطی ایشیا
کے چینی حدود تک اسلامی بنیاد پرستی پھیل گئی ہے اور اس سے جلد سے جلد نمٹنے کی ضرورت
ہے’’۔ایسے بہت سارے مقالات ،مضامین اور تصاویر شائع کی جاتی رہی ہیں جن میں اسلام پر
سیدھے نشانہ سادھتے ہوئے اسے بیخ وبن سے اکھاڑ پھینکنے پر زور دیا گیا ہے۔اس سے یہ
بہ آسانی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اسلام کے
خلاف چل رہی اس سازش کا دائرہ کتنا وسیع ہے او رکتنے بڑے پیماں پریہ مکمل کھیل
کھیلا جارہا ہے ۔ ایسے میں کیا خود ملتِ مسلمہ کی یہ ذمہ داری نہیں بنتی کہ وہ ایک
ہوکر اپنے دین او ردینی مراکز کی حفاظت کریں؟ کعبہ ہمارا قبلہ اور مدینہ ہماری جان
ہے۔ مسلمان ان دونوں کے بغیر مردہ وناکارہ ہے اور ان دومراکز بغیر اسلام کا ہر تصور ادھورا ہے ۔لہٰذا
حرمین شریفین پر بری نظر ڈالنے والوں کو مسلمانانِ عالم کی طرف سے ایک زبردست تہدیدی
پیغام ملنا چاہئے اور اس حقیقت کااظہار بھی ہو جانا چاہئے کہ ہم بابیلوں کے لشکر کے منتظر نہیں ہوں گے بلکہ خود
قہر الہٰی بن کر ان تمام طاغوتی قوتوں کے خلا ف ٹو ٹ پڑیں گے جو ہمارے ایمان و اعتقاد
کی روح وجان پر حریصا نہ اور باغیانہ نگاہ رکھتی ہے۔
اپنے کعبے کی حفاظت تمہیں
خود کرنی ہے
اب ابابیلوں کا لشکر نہیں آنے
والا
مضمون نگار سابق رکنِ پارلیمنٹ
ہیں
16مئی، 2012، بشکریہ : انقلاب
نئی دہلی
URL: https://newageislam.com/urdu-section/safeguard-ka’aba-yourself-/d/7373