New Age Islam
Mon Mar 17 2025, 07:39 AM

Urdu Section ( 17 Nov 2020, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Principles And Etiquette Of Dissent In Islam اسلام میں’’ اختلاف رائے ‘‘ کے اُصول و آداب


مولانا نعمان نعیم

13نومبر،2020

ارشاد ربانی ہے:۔ ’’ اے لوگوجو ایمان لائے ہو، آپس میں جھگڑو نہیں ،ورنہ تمہارے اندر کمزوری پیدا ہوگی اور تمہاری ہوا اُکھڑ جائے گی،صبر سے کام لو‘‘۔( سورۃ انفال ،آیت 46) گزشتہ اہل مذاہب و ادیان کی بیماریوں سے بچنے اور عبرت و نصیحت حاصل کرنے کے لیے ان کا قصہ بیان کرتے ہوئے فرمایا گیا:’’ اور مشرکوں میں سے نہ بنو ،جنہوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کیا اور گروہ گرو ہ ہوگئے، جس کے پاس جو ہے، اسی پر وہ خوش ہے‘‘۔(سورۃ الروم،آیت 3231)

اسلام انسانیت کی بقاء ، معاشرے میں امن و سلامتی ،اتحاد ، اخوت اور بھائی چارگی کا ضامن ہے، قرآن کریم میں ہے:’’ جنہوں نے اپنے دین میں الگ الگ راستے نکالے او رکئی گروہ ہوگئے، یقینا ان سے تمہارا کچھ واسطہ نہیں، ان کا معاملہ تو اللہ کے سپرد ہے‘‘۔( سورۃ الانعام ،آیت 159)اس آیت کریمہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو آگاہ کیا جارہا ہے کہ آپ ایسے لوگوں سے کوئی سروکار اور تعلق نہ رکھیں، جنہوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے اپنی جمعیت کا شیرازہ منتشر کردیا۔

جامع ترمذی میں روایت ہے،حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :’’ اجتماعی وحدت کو اللہ کی تائید حاصل ہوتی ہے، جو کوئی جماعت سے جدا ہوگا ،وہ دوزخ میں جا گرے گا‘‘۔ اس کے علاوہ ملی شیرازے کو تفرقہ و انتشار کے ذریعے تباہ کرنے والوں کے لئے حضو ر اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انتہائی سخت احکام صادر فرمائے ہیں۔صحیح مسلم میں روایت ہے ،اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’ جو شخص اندھے جھنڈے کے نیچے لڑے، اس طور پر کہ عصبیت کی وجہ سے غصے کا اظہار کرے،یا عصبیت کی طرف لوگوں کو بلائے یا قومیت کی بنیاد پرکسی کی مدد کرے پھر وہ مارا جائے، تو اس کی موت جاہلیت کی موت ہوگی او رجو میری امت کے خلاف تلوار اٹھائے ،نیک او ربد، ہرایک کو قتل کرے، اس کا نہ مجھ سے (یعنی میری جماعت سے) کوئی تعلق ہے او رنہ میرا اس سے کوئی تعلق ہے‘‘۔سنن ابوداؤد میں روایت ہے، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جاہلی عصبیت وانانیت کی مذمت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’ جس نے عصبیت کی دعوت دی ،وہ ہم میں سے نہیں ہے او رجس نے عصبیت کے باعث قتال کیا، وہ ہم میں سے نہیں ہے اور جو عصبیت میں مبتلا ہوکر مرا وہ ہم میں سے نہیں ہے‘‘۔ سنن ابوداؤدمیں عصبیت کی حقیقت کے حوالے سے روایت موجود ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عرض کیا گیا کہ عصبیت کیا ہے؟

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’ عصبیت یہ ہے کہ تم ظلم پر اپنی قوم کی حمایت کرو‘‘۔ مسند احمد میں روایت ہے ،ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ کیا عصبیت اسے کہتے ہیں کہ کوئی شخص اپنی قوم او رجماعت کو عزیز رکھے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ،نہیں! بلکہ عصبیت اسے کہتے ہیں کہ کوئی شخص ظلم کے معاملے میں اپنی قوم و جماعت کی (اندھی) حمایت کرے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی روشن تعلیمات کے ذریعے قومیت، لسانیت او رعلاقائیت کے نعرہ کا خاتمہ فرمایا او ربتایا کہ اسلامی معاشرہ امن و سکون کا معاشرہ ہے، جو محبت ،اخوت او رہمدردی کا درس دیتا ہے ،جہاں اختلاف رائے کے بھی اصول و آداب ہیں جو مسلمانوں کو رواداری ،درگزر ،تحمل و برداشت او رامن و سلامتی کا درس دیتے ہیں۔ لیکن آج ہم مسلمانوں نے اس سبق کو یکسر بھلا دیا ہے، باہم شیر وشکر ہونے کے بجائے آپس میں دست و گریباں نظر آتے ہیں ۔قومی و لسانی تعصبات ،فرقہ وارانہ اختلافات ،تنگ نظری ،شدت پسندی ،مذہبی منافرت یہ تمام اسلامی تعلیمات کے منافی ہیں۔

صحیح مسلم میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے ،اللہ تعالیٰ تمہارے لئے تین چیزوں کو پسند فرماتاہے او رتین چیزیں نا پسند فرماتاہے۔ جن کو پسند کیا ۔ وہ یہ ہیں:(1) اللہ چاہتا ہے تم سب اس کی عبادت کیا کرو۔(2) اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ۔(3) اللہ کی رسی کو اجتماعیت کے ساتھ تھام لو او رٹکڑو ں میں نہ بٹو۔تین چیزیں جو اللہ کو ناپسند ہیں ،وہ یہ ہیں،(1) قیل و قال کرنا، بحث و تمحیص کرنا، تکرار کرنا چھوٹی چھوٹی بات پرجھگڑا کرنا جس سے اختلافات بڑھتے اور معاشرے میں پھوٹ پیدا ہوتی ہے۔اللہ تعالیٰ اس رویے کو سخت ناپسند کرتا ہے۔۔(2) او رزیادہ سوال کرنے کو اللہ نا پسند کرتاہے۔(3) او رمال کو بے جاضائع کرنا اللہ ناپسند کرتا ہے۔

موجودہ دور میں امت مسلمہ کو سب سے خطرناک مرض جو لاحق ہوا ہے وہ ہے اختلاف او رمخالفت ۔ذوق، رجحان ،کردار ،اخلاق یہاں تک کہ معتقدات و نظریات ،افکار و آراء، اسالیب فقہ، عبادات ،ہر شے اور ہر معاملے میں اختلاف! حالانکہ اسلام نے توحید کے بعد باہمی اختلافات سے اجتناب ،تعلقات کو مکدر اور اخوت اسلامیہ کو مجروح کرنے والی ہر چیز کے سدباب او رامت مسلمہ کے اتحاد پرسب سے زیادہ زور دیا ہے۔

دین و دنیا کے ہر معاملے میں اختلاف ایک ناگریز امر ہے، جو ہر دور میں ہوتا آیا ہے اور قیامت تک ہوتا رہے گا ،غور کیا جائے تو یہ بھی اللہ کی قدرت کا حسین مظہر او رانسانی فطرت کا شاہ کار ہے ،خود باری تعالیٰ کا ارشاد ہے : اس کی نشانیوں میں سے آسمانوں اور زمین کی تخلیق (بھی) ہے او رتمہاری زبانوں او ر تمہارے رنگوں کا اختلاف بھی، بے شک ،اس میں اہل علم و تحقیق کے لئے عبرت کا سامان ہے۔(سورۃ الروم)۔

فطری طور پر ہر انسان دوسرے انسان سے مختلف ہوتا ہے، مزاج میں،فکر و تخیل میں، اطوار وعادات میں، شعور احساس میں،یہی وجہ ہے کہ ایک باخبر انسان دوسرے انسان کے بنائے ہوئے ذہنی سانچے میں ڈھلنے کیلئے جلد تیار نہیں ہوتا ، وہ اپنی نگاہ سے دیکھتا ہے ،اپنے دماغ سے سوچتا ،اپنے دل سے سمجھتا ہے پھر حال و استقبال ،انجام و عواقب کو پیش نظر رکھ کر نظریہ قائم کرتاہے، اسی لئے اختلاف کو زندہ قوموں کی علامت بتایا جاتا ہے، مگر اختلاف کے ساتھ وسعت ظرفی، تحمل و برداشت اور احترام انسانیت بھی نہایت ضروری ہے۔

ہر اختلاف نہ تو مذموم ہے اورنہ ہی ہر اختلاف پسندیدہ اور قابل قبول ہوسکتا ہے ،وہ اختلاف جس کا منشاء وسبب قبیح ہو، وہ اختلاف یقینا قابل مذمت ہے۔ تاریخ کے مطالعے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ جب کبھی امت میں فکر ونظر کا شدید اختلاف پیدا ہوا،امت اصل مقاصد پر توجہ دینے کے قابل نہیں رہی ، اس کی اجتماعیت منتشر ہوگئی، اس کی وحدت پارہ پارہ ہوگئی، اس کا وجود خطرے میں پڑ گیا، دشمنوں کے دلوں سے اس کارعب کم ہوگیا اور وہ اغیار کا آلہ کار بن گئی۔

13نومبر،2020: بشکریہ : روز نامہ چٹان ،سری نگر

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/principles-etiquette-dissent-islam-/d/123487


New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..