مولانا ندیم الواجدی
16 دسمبر، 2013
اس وقت دنیا جن مسائل سے دو چار ہے اور جن کے حل کی بات سیاسی اور مذہبی رہ نما وقتاً فوقتاً کرتے رہتے ہیں ان میں سب سے اہم مسئلہ امن عالم کا ہے، باقی تمام مسائل اسی سے مربوط ہیں، دنیا کا وہ کون سا خطہ ہے جہاں بے چینی اور شورش نہیں ہے، کہیں ظلم و تشدد ہے کہیں بغاوت ہے ، کہیں نسلی اور طبقاتی کش مکش ہے، کہیں سیاسی اضطراب ہے، پوری دنیا خلفشار میں مبتلا ہے ، یہ بات تسلیم کی جاتی ہے کہ اگر دنیا میں امن چین قائم ہوجائے تو باقی مسائل خود بہ خود حل ہوجائیں ، مسئلہ چاہے بھکمری اور افلاس کا ہو، انسانی حقوق کا ہو، گروہی اور نسلی عصبیت کا ہو، سرحدوں کا ہو، سب اسی ایک مسئلے سے جڑے ہوئے ہیں، دنیا پر سکون ہوگی تو انسانی توجہات دوسری طرف منتقل ہوں گی، فکر و عمل اور دولت و ثروت کے جو وسائل امن و امان کو برباد کرنے یا بحال کرنے میں صرف کئے جارہے ہیں ان کا استعمال دوسرے معاملات کے لیےہوگا، مگر اس کے لیے ہمیں کسی نہ کسی مذہب کو بنیاد بنا کر چلنا پڑے گا، امن عالم کو بنیاد سیاسی نظریات پر نہیں رکھی جاسکتی کیوں کہ یہ نظریات نہ پائیدار ہوتے ہیں اور نہ لا محدود و سعتوں کے حامل ، جب کہ مذہب کی بنیاد مضبوط عوامل پر ہوتی ہے ، اس کے مثبت فکری رویوّں میں محدود اغراض کی آمیزش نہیں ہوتی اسی لئے وہ تعمیری بھی ہوتے ہیں ،مؤثر بھی او ر دیر پا بھی ۔
یہ محض حسنِ اتفاق نہیں ہے کہ اس مذہب کے لیے جو دو اصطلاحات اللہ کی طرف سے عطا کی گئی ہیں ان کےمعنی ہی میں امن و سلامتی پوشیدہ ہے ، جس انار کی خلفشار ، ظلم و تشدد اور بدامنی کے دور میں اسلام کا سورج طلوع ہوا اس میں ایک ایسے ہی دین کی ضرورت تھی جس کے نہ صرف نام میں امن و سلامتی کامفہوم رکھا ہوا ہو بلکہ اس کی تعلیمات کے ذریعے بھی معاشرے کے غیر منصفانہ اور ظالمانہ کردار کی بیخ کنی کی گئی ہو، اسلام سَلِمُ سے مشتق ہے، اس کے لغوی معنی امن و سلامتی ،صلح و آشتی حفظ و امان اور تسلیم و رضا کے ہیں، یہ لفظ قرآ ن کریم اور حدیث شریف میں ان تمام معنوں کے لیے استعمال ہوا ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔
‘‘ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے ان لوگوں کو جو اس کی رضا کے طلب گار ہیں سلامتی کے راستوں کی ہدایت عطا کرتاہے’’ ۔(المائدۃ:16)
ایک جگہ ارشاد فرمایا:
‘‘ چنانچہ تم ہمت نہ ہارو کہ تم ( مرعوب ہوکر یا دب کر) صلح کی دعوت نہ دینے بیٹھ جاؤ جب کہ تم ہی غالب رہوگے’’۔( محمد:35)
اسلام کے جو لغوی معنی ہیں اس کے اصطلاحی مفہوم میں بھی اس کا اثر موجود ہے، چنانچہ وہ اپنی تعلیم اور صدر اول کی تاریخ کی مجموعی صورت حال کے اعتبار سے ایک ایسے مذہب کی تصویر پیش کرتا ہے جو انسان کو خود بھی امن و سکون سے رہنے کی تلقین کرتا ہے اور دو سروں کو بھی امن و سکون کے ساتھ رہنے کی تعلیم دیتا ہے، یہی نہیں کہ وہ محض ہدایت دے کر کنارہ کش ہوجاتا ہے بلکہ اپنے ماننے والوں سے یہ مطالبہ بھی کرتا ہے کہ وہ ان احکام کی مکمل اطاعت کریں، کیوں کہ تسلیم و رضا کا پیکر بن کر ہی ایک شخص مکمل طور پر مسلمان ہوسکتا ہے، جو شخص دائرہ اسلام میں داخل ہونا چاہتا ہے اس سے اسلام کاپہلا مطالبہ یہ ہے کہ وہ اسلام کے بنیادی عقائد پر ایمان لائے، اس لفظ میں بھی سلامتی کامفہوم موجود ہے ، یہ لفظ امن سے بنا ہے، لغوی مفہوم کے اعتبار سے امن یہ ہے کہ آدمی کسی خوف سے محفو ظ ہوجائے، اس کا دل مطمئن ہو، اور اس کی زندگی سراپا سکون بن جائے، قرآن کریم میں یہ لفظ ان معنوں میں استعمال ہوا ہے ارشاد ہے:
‘‘ جس نے انہیں بھوک سے بچایا اور خوف سے مامون کیا’’ (قریش:4)
اسی طرح فرمایا :
‘‘ جب تم امن کی حالت میں آجاؤ تو ان طریقوں پر اللہ کو یاد کرو جو جس نے تم کو سکھائے ہیں ’’ (البقرۃ :39)
اس لغوی مفہوم کی روشنی میں مومن وہ شخص ہو سکتا ہے جو خود بھی بارگاہ ایزدی سے پروانہ امن کا طلب گار ہو اور دوسرے لوگ بھی اس کے ذریعے امن و سکون حاصل کر سکیں ۔
جس مذہب کی دونوں بنیادی اصطلاحوں ، اسلام اور ایمان ہی میں امن و سلامتی نمایاں ہو اس کے بارے میں یہ دعویٰ کرنا کہ تشدد پھیلاتا ہے بغص و عنا پر مبنی ہے خاص طور پر یہ عناد اس وقت اور نمایاں ہوکر سامنے آتاہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ یہ واحد مذہب ہے جس کی تعلیمات میں امن و سلامتی کا عنصر زیادہ ہے، وہ تمام معاملات میں ان پہلوؤں کو اختیار کرنے پر زیادہ زور دیتا ہے جن میں نہ خود کو کوئی زحمت اٹھانی پڑے اور نہ دوسروں کو کوئی تکلیف ہو، اللہ تعالیٰ نے مومنین کا یہ وصف بیان کیا ہے کہ وہ تسامح اور صلح جوئی کو ترجیح دیتے ہیں خاص طور پر اس وقت جب کہ فریق ثانی سے زیادہ اور جھگڑے کا اندیشہ ہو، ارشاد فرمایا:
ترجمہ:‘‘ اور رحمٰن کے خاص بندے وہ ہیں جو زمین پر نرمی سے چلتے ہیں اور جب جاہل لوگ ان کو مخاطب کرتےہیں تو رفع شر کی بات کہتے ہیں ’’ ( الفرقان:62)
عملی طور پر بھی ایک مسلمان کو یہ تعلیم دی جاتی ہے کہ وہ معاشرے میں امن و سلامتی کا پیغامبر بنے، نہ کہ تشدد، نا انصافی اور ظلم و زیادتی کا سفیر، چنانچہ اسے حکم دیا گیا ہے کہ ہر روز تشہد کے اندر بار بار ان الفاظ کی تکرار کرے، ‘‘ اسلام علیک ایھا النبی و رحمۃ اللہ و برکاتہ، السلام علینا و علی عباد اللہ الصالحین’’ یہی نہیں بلکہ نماز کا اختتام ہی ان الفاظ پر ہوتا ہے ‘‘ السلام علیکم و رحمۃ اللہ ’’ ایک دوسرے سے ملنے کے وقت سلام کی ہدایت، اس پر حاصل ہونے والے اجر و ثواب کا ذکر ،سلام میں پہل کرنے اور جواب دینے کی فضیلت سے پتہ چلتا ہے کہ اسلام امن و سلام کو کس قدر اہمیت دیتا ہے، جنت کے ایک درجے کا نام ہی دارالسلام ہے، جو مخصوص و مقرب بندگان خدا کو عطا کیا جائے گا: ‘‘ ان کے رب کے پاس جنت میں ( ایک گھر ہے جس کا نام) دارالسلام ہے ’’ (الانعام :128) ۔ اس میں رہنے والے جب ایک دوسرے سے ملیں گے تو سب سے پہلے وہ سلام ہی کریں گے اور سلامتی ہی کی دعا دیں گے: ‘‘ جس روز وہ اللہ سےملیں گے ان کا سلام ہوگا السلام علیکم ’’ ( الاحزاب :44)۔ اتقیائے امت کو یہ بشارت دی گئی ہے کہ جنت میں ان کا استقبال کلمۂ سلام سے کیا جائے گا:
ترجمہ: ‘‘ جن کی پاکیزہ روحیں فرشتے قبض کرتےہیں ان سے یہ کہتے ہیں تو پر سلامتی ہو تم اپنے اعمال کی بہ دولت جنت میں داخل ہوجاؤ’’ ( النحل :32)
ان ہدایت سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمان وہ ہے جو دوسروں کے لیے امن وسلامتی کاباعث ہو جس کے طرز عمل سے دوسرے لوگوں کو امن و طمانینت کا احساس ہو، چنانچہ ایک حدیث میں ہے: المؤمن من امنہ الناس علی دماء ھم وأ مو الھم (سنن الترمذی ،70،5 رقم الحدیث :2627، النسائی: 104،8، رقم الحدیث:4995) ‘‘مومن وہ ہے جس سے لوگ اپنی جان و مال کے متعلق امن میں ہوں’’ ایک موقع پر آپ نے ارشاد فرمایا:
واللہ لایؤمن واللہ لایؤمن قیل من یا رسول اللہ قال الذی لایأمن جارہ بوائقہ (البخاری :2240،5 رقم الحدیث :6570) ترجمہ: ‘‘ اللہ کی قسم وہ شخص مسلمان نہیں ہوسکتا ، خدا کی قسم وہ شخص صاحب ایمان نہیں ہوسکتا ، عرض کیا گیا یا رسول اللہ ! وہ کون شخص ہے فرمایا جس کا پڑوسی اس کی ایذاء سےمحفوظ نہیں ’’۔
اس طرح کی روایات بے شمار ہیں، ایک موقع پر آپ نے ارشاد فرمایا : المسلم من سلم المسلمون من لسانہ ویدہ (البخاری :1،65 ، رقم الحدیث :41) ‘‘ مسلمان وہ ہے جس کی زبان او رہاتھ سے دوسرے مسلمان کی جان و مال اور عزت و آبرو محفوظ رہے’’۔
حجۃ الوداع کے موقع پر سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمان کی عزت و آبرو کو یوم حج، مقام حج ، ماہ حج اور بلاد حج کے برابر قرار دے کر یہ اعلان فرمایا :
ان دماء کم و اموا لکم حرام علیکم کحرمۃ یومکم ھذا فی شھر کم ھذا فی بلدکم ھذا۔ (مسلم :886،2 ، رقم الحدیث 1218)
ترجمہ : ‘‘ بلاشبہ تمہارے خون او رتمہارے مال ایک دوسرے کے لیے اسی طرح محترم ہیں جس طرح آج کا دن ، یہ مقام، یہ مہینہ اور یہ شہر عزت و احترام والا ہے’’۔
سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ سےبھی ہمیں صلح جوئی اور عفو و درگزر کاسبق ملتا ہے، اس سلسلے میں صلح حدیبیہ کا واقعہ تاریخ اسلام میں بنیادی اہمیت کاحامل ہے، اس میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض مصلحتوں کی وجہ سے قریش مکہ سے ان شرائط پر صلح کی جو عام حالات میں قابل قبول نہیں ہوتیں ، خاص طور پر اس کی یہ شق مسلمانوں کے لیے نہایت شاق بھی کہ اس سال مسلمان عمرہ کئے بغیر مدینے واپس ہوجائیں ، مکے میں داخل نہ ہوں، آنے والے سال میں صرف تین دن مکے میں رہ کر عمرہ کر کے واپس ہوجائیں سوائے تلواروں کے اور کوئی ہتھیار ساتھ نہ ہو اور تلوار یں بھی نیام میں ہوں، اس صلح کے بعد صحابۂ کرام رضی اللہ عنہ شرائط صلح کی وجہ سے نہایت مغموم اور شکستہ خاطر تھے مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صلح کے معاہدے کی تکمیل فرمائی اور مختلف طریقوں سے صحابہ کا تکدر دورفرمایا۔ ( فتح الباری : کتاب الشروط 5، 245) جب مکہ مکرمہ فتح ہوا اور سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہ اس شہر مقدس میں داخل ہوئے تو اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام کفار و مشرکین کے لیے عام معافی کا اعلان فرمایا : ‘‘ جو شخص ابو سفیان کے گھر میں داخل ہوجائے گا یا اپنے گھر میں بند ہوجائے گا یا مسجد حرام میں جاکر بیٹھ جائے گا وہ محفوظ و مامون رہے گا’’۔
آپ ابتدائے اسلام کی تاریخ پر نظر ڈالیں ، دعوت اسلام کا آغاز حکمت او رموعظت کی بنیاد پر ہوا، اس میں لالچ یا زور زبردستی کی کوئی آمیز ش نہیں تھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو امن و سلامتی کی طرف بلایا لیکن دشمنان خدا دشمنی اور جنگ پر اتر آئے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار مکہ کے ہر ظلم پر صبر و تحمل سے کام لیا لیکن ان کی دشمنی دن بہ دن بڑھتی رہی، اب مسلمانوں کے پاس دفاع کے علاوہ کوئی چارۂ کار نہیں تھا ، چنانچہ انہیں حکم دیا گیا:
ترجمہ : ‘‘ اور ان (کافروں ) کے لیے جس قدر تم سے ہوسکے قوت (ہتھیار) سے او رپلے ہوئے گھوڑوں سے سامان تیار رکھو کہ اس کے ذریعے سے تم اللہ کے اور اپنے دشمن پر رعب جمائے رکھو اور ان کے علاوہ دوسروں پر بھی ’’ ۔ ( الانفال : 60) لیکن ساتھ ہی یہ ہدایت بھی کی گئی :
ترجمہ: ‘‘ سو جو تم پر زیادتی کرے تو تم بھی اس پر زیادتی کرو جیسی اس نے تم پر زیادتی کی ہے’’ ۔ (البقرۃ :194)
میدان جنگ میں بھی زیادتی اور حدود سے تجاوز کرنے سے یہ کہہ کر باز رکھنے کی کوشش کی ۔ ‘‘ او رتم لڑو اللہ کی راہ میں ان لوگوں کے ساتھ جو تمہارے ساتھ لڑنے لگیں او رزیادتی مت کرو’’ ( البقرۃ : 190)۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جنگ اللہ کے دین کی حفاظت و حمایت کے لیے ہے حکومت و اقتدار اور اموالِ غنیمت کے لیے نہیں ہے، اسی لیے یہ ہدایت بھی ہے کہ اگر دشمن صلح پر آمادہ ہوں تو اس سے دریغ نہ کیا جائے اور بلا تأمل مصالحت کرلی جائے : ‘‘ اور اگر وہ صلح کی طرف جھکیں تو آپ بھی اس طرح جھک جائیے ’’ ( الانفال : 61) ۔ یہ بھی فرمایا:
ترجمہ : ‘‘ پس اگر وہ تم سے کنارہ کش رہیں یعنی تم سے نہ لڑیں اور تم سے سلامت روی رکھیں تو اللہ تعالیٰ نے تم کو ان پر کوئی راہ نہیں دی ’’ ( النسا ء : 90)
صلح و جنگ کے سلسلے میں اسلام کی جو ہدایات ہیں ان سے واضح ہوتا ہے کہ اسلام خواہ مخواہ جنگ کرنانہیں چاہتا ، نہ زور زبردستی کے ذریعے مسلمان بنانا چاہتا ہے بلکہ ایک ایسا ماحول پیدا کرنا چاہتا ہے کہ لوگ خود بہ خود اللہ کے دین میں داخل ہوں اور دل سے اسلام قبول کریں، غزوات اسلام کی تاریخ پڑھنے سے پتہ چلتا ہے کہ مسلمانوں نےجس قدر جنگیں لڑیں ان کے ذریعہ نہ تشدد پھیلا ، نہ قتل عام جیسی صورت حال پیدا ہوئی، بعض جگہ تو افواج اسلام کے پہنچتے ہی جنگ کے بغیر علاقے مفتوح ہوتے چلے گئے ، بعض علاقوں میں خود مسلمانوں کو دعوت دے کر بلایا گیا اور امن و انتظام ان کے حوالے کردیا گیا، کیونکہ یہ بات عام ہوچکی تھی کہ یہ طاقتور اور مخلص بدو اپنی ذات کےلیے جنگ نہیں لڑرہے ہیں اور جو اپنی ذات کے لیے نہیں لڑتا وہ بڑا بہادر ہوتا ہے اورساتھ ہی نہایت ذمہ دار بھی، ضرورت ہے کہ آج اسلام کے اس پہلو کو اُجاگر کیا جائے کہ وہ جنگ کامتلاشی نہیں ہے بلکہ امن کا داعی ہے اور اس کا اندازہ ہمیں اسلام کے دور اول کی تاریخ سے ہوتا ہے ، جب اسلام کے دفاع میں جنگیں لڑی گئیں ،آج جو کش مکش ہے وہ اسلام کےلیے نہیں ہے بلکہ ملک و قوم کے لیے ہے اور اس میں بھی جو لوگ اپنے ملک کے لیے لڑ رہے ہیں یا اپنی قوم کے لیے بر سر پیکار ہیں وہ مختلف اسباب کی بنا پر ظلم و تشدد اور نا انصافی کا شکار ہیں اگر اسلامی اصولو ں کی بنیاد پر ان کے مسائل حل کردیئے جائیں، تو آج ہی پوری دنیا اسلام کے دور اول کا مکمل نمونہ بن سکتی ہے جب ایک ہی گھاٹ پر شیر و بکری بلا خوف و خطر اپنی اپنی پیاس بجھایا کرتے تھے ۔
16 دسمبر، 2013 بشکریہ : روز نامہ اخبار مشرق، نئی دہلی
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/islam-world-peace-/d/34891