New Age Islam
Fri Jan 17 2025, 03:49 PM

Urdu Section ( 14 May 2012, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Rising Trend of Divorce in Muslim Society مسلم معاشرے میں طلاق کا بڑھتا ہوا رجحان

مولانا ندیم الواجدی

14مئی 2012

مسلم معاشرے میں طلاق کے واقعات بڑھتے جارہے ہیں ، یہ ایک تشویش ناک صورت حال ہے، نکاح اس لیے نہیں کیا جاتا کہ طلاق کے ذریعے اس کو ختم کردیا جائے، شریعت کی نگاہ میں یہ ایک اہم معاملہ ہے، جس میں دوام اور استمرار مطلوب ہے، اسی لیے نکاح کو محض ایک عقد یا معاملہ ہی نہیں رکھا گیا بلکہ اس کو سنت انبیا قرار دے کر عبادت کا درجہ بھی دیا گیا ، دوسری طرف بعض ناگزیر حالات میں طلاق کی اجازت تو دی گئی مگر اسے ابغض المباحات (جائز چیزوں میں سب سے زیادہ نا پسندیدہ چیز ) قرار دے کر یہ بھی واضح کردیا گیا کہ اللہ تعالیٰ کو طلاق بالکل پسند نہیں ہے، البتہ اگر حالات ایسے پیدا ہوجائیں کہ طلاق کے بغیر چارہ نہ رہے تب بلاشک طلاق کا حق استعمال کیا جائے، بات ، بے بات طلاق دینا غضب الہٰی کو دعوت دینے کے مترادف ہے، حدیث شریف میں ہے کہ ‘‘نکاح کرو، طلاق نہ دو، اس لیے کہ طلاق دینے سے عرش الہٰی لرز اٹھتا ہے’’۔ (تفسیر القرطبی :8/149)

طلاق کے بڑھتے ہوئے واقعات پر دین پسند حضرات کی تشویش اپنی جگہ درست ہے ، علما کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس رجحان پراپنی توجہ مبذول کریں، لوگوں کو بتلا ئیں کہ اسلام میں رشتۂ ازدواج کی کس قدر اہمیت ہے ، اور اسے رشتے کو منقطع کرنے سے خاندان او رمعاشرے پرکتنے خراب اثرات مرتب ہوتے ہیں، افسوس کی بات یہ ہے کہ اسلامی معاشرہ بڑی تیزی کے ساتھ اپنی قدروں اور روایتوں سے منحرف ہوتا جارہا ہے، مغربی تہذیب کی نقالی نے ہمارے معاشرے کی صورت مسخ کر کے رکھ دی  ہے، مخلوط تعلیم، مردوزن کا آزادانہ اختلا ط، بے دینی کا ماحول، معاشی اور اقتصادی مسائل ،فواحش کی کثرت ،ٹی وی اور انٹرنیٹ کا غلط استعمال ان سب چیزوں نے مل کر ایک ایسا ماحول پیدا کردیا ہے جہاں نکاح جیسے پاکیزہ رشتوں کی اہمیت کا احساس مفقود ہوتا جارہا ہے، حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اب لڑکیاں خود طلاق کا مطالبہ کرنے لگی ہیں، بسا اوقات اس مطالبے کے پیچھے کوئی ٹھوس او رمضبوط بنیاد نہیں ہوتی ،محض اس لیے طلاق مانگی جاتی ہے، یا خلع کیا جاتا ہے کہ نکاح کا رشتہ آزادانہ طرز زندگی میں رکاوٹ بن رہا تھا۔

 بعض مرد حضرات بھی پرانی بیوی کو محض اس لیے طلاق دیتے ہیں کہ اب ا ن کے لیے اس میں کوئی دلچسپی او رکشش باقی نہیں رہی، جنسی تلذذ کے لیے انہیں داشتہ یا منکوحہ کی صورت میں دوسری عورت بہ سہولت دستیاب ہے، معاشی ناہموار یاں بھی طلاق کے منجملہ اسباب میں سے ایک سبب ہے، کبھی عورت معاشی تنگیوں سے پریشان ہوکر مرد سے چھٹکا رہ پانا چاہتی ہے اورکبھی مرد اپنی ذمہ داریوں سے راہ افراد اختیار کرنے میں ہی عافیت محسوس کرتا ہے، مجموعی طور پر معاشرے کا سکون درہم برہم ہے، ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگی میں بے اطمینانی کا مظاہرہ علوم بلو ی کی شکل اختیار کرتا جارہا ہے، حسد، حرص، لالچ، اور غصہ یہ سب رذائل تیزی کے ساتھ بڑھ رہے ہیں، کبھی ان رذائل کی انتہا جرائم کے ارتکاب پر ہوتی ہے، او کبھی یہ چیزیں ازدواجی، معاشرتی اور خاندانی زندگی کو تباہ وبرباد کر کے چھوڑتی ہیں۔

اس صورت حال پر قابو پانا بے حد ضروری ہے، ورنہ آنے والے دنوں میں ازدواجی زندگی کے راستے اور زیادہ کٹھن ہوسکتے ہیں ، ابھی حال ہی میں مغربی یوپی کے ایک نامی گرامی قصبے میں طلاق کا واقعہ پیش آیا، کسی شخص نےاپنی بیوی کو غصے کی حالت میں تین طلاقیں دیدیں، علاقے کے علما حضرات اصلاح معاشرہ کی اپنی ذمہ داریوں کو  کس طرح پورا کرتے ہیں اس کا ایک اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ انہوں نے اخباری بیانات کے ذریعے دارالعلوم دیوبند، اور آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ جیسے اداروں سے یہ مطالبہ شروع کردیا ہے کہ وہ تین طلاقوں کو ایک ماننے کا فتویٰ جاری کریں، چاہئے تو یہ تھا کہ یہ حضرات علما کرام اپنے اپنے علاقوں میں پھیل جاتے اور لوگوں کو شریعت کے مطابق زندگی گزارنے کی تلقین کرتے، اس کے بجائے وہ طلاق کا فتویٰ بدلنے کا مطالبہ کرنے لگے، مسلم  پرسنل لا بورڈ توشرعی احکام کے تحفظ کے لیے بنایا ہے اگر اس سے ہی یہ مطالبہ کیا جانے لگے کہ شرعی احکام میں تبدیلی کردی جائے تو اس سے بڑھ کر ستم ظریفی اور کیا ہوگی، یہ تو ایسا ہی ہے جیسے زنا اورشراب نوشی ، اور چوری ڈکیتی جیسے جرائم کی زیادتی کو بنیاد بنا کر حکومت سے یہ مطالبہ کیا جانے لگے کہ ان جرائم کی سزا کم کردی جائے ، یا بالکل ہی معاف کردی جائے کیونکہ لوگوں کو اپنے نفس پر قابو نہیں رہا ہے  اور وہ جرائم کا ارتکاب کچھ زیادہ ہی کرنے لگے ہیں ۔

اگر عام لوگ یہ مطالبہ کرتے تب تو شاید حیرت نہ ہوتی مگر تعجب خیز بات یہ ہے کہ یہ مطالبہ بعض اہل علم نے کیا ہے۔ زیر بحث مسئلہ طلاق پرگفتگو کرنے سے پہلے یہ بہتر معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کے نظام نکاح وطلاق اور ان دونوں معاملات کے مصالح ومقاصد پر نظر ڈالی جائے، اسلام ایک معتدل اور فطری مذہب ہےاسلام کی بے شمار خصوصیات میں سے سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس کی تمام تعلیمات میں اعتدال کا عنصر پوری طرح نمایاں ہے اسی طرح اس کا ہر حکم انسانی فطرت کے عین مطابق ہے، اب جنسی تلذذ ہی کو لیجئے ، اسلام نے اس کو مقصود حیات قرار نہیں دیا اور نہ اس سلسلے میں اپنے ماننے والوں کو اس طرح آزاد چھوڑا کہ وہ اس تلذذ کے حصول کے لیے راستہ چاہیں اختیار کریں، اور نہ ا س فطری تقاضے کی بیخ کنی کی ،بلکہ ا س کے حصول کے لیے ایک ایسا جامع نظام مرتب کر کے انسانیت کو عطا کیا جس کے ذریعے وہ جنسی تلذذ بھی حاصل کرسکتا ہے اور انسانی معاشرے کے ارتقا میں اپنا تعمیر ی رول ادا کرنے کے ساتھ ساتھ خود اپنی گھریلو زندگی بھی سنوار سکتا ہے، اور اپنے دل کو بھی سکون کے ساتھ ہم کنار کرسکتا ہے۔

نکاح کے اس مقصد کی ایک جھلک ہمیں قرآن کریم کی اس آیت کریمہ میں نظر آتی ہے، فرمایا: ‘‘ اور اس کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ اس نے تمہارے لیے تمہاری ہی جنس سے بیویاں بنائیں تاکہ تم ان سے سکون حاصل کرو ، اور اس نے تمہارے درمیان محبت اور رحمت (ہمدردی) پیدا کردی’’ (الروم: 21)۔ظاہر ہے جنسی خواہش کے حصول کے دوسرے ذرائع بھی ہوسکتے ہیں ، اسلام نے ایسے تمام ذریعوں پر پابندی عائد کردی اور صرف ایک ذریعہ نکاح کو باقی رکھا، نہ صرف باقی رکھا بلکہ اس کی ترغیب بھی دی، نکاح کے ذریعے جو رشتہ وجود میں آتا ہے اس پر محبت اور رحمت کا رنگ چڑھا یا ،مفسرین نے لکھا ہے کہ محبت کا تعلق عہد جوانی سے ہے اور رحمت اور ہمدردی کا تعلق علم پیری سے ہے، نکاح کے علاوہ کوئی دوسرا رشتہ ایسا نہیں ہوسکتا جو جسمانی اور روحانی سکون کے ساتھ ساتھ پہلے محبت میں اور پھر رأفت ورحمت سے اولاد مراد لی ہے ( ملاحظہ ہو تفسیر فتح القدیر :5/464) اسی لیے حدیث شریف میں فرمایا گیا : لم نر للمتحابین مثل النکاح ۔( سنن ابن ماجہ : 5/440، رقم الحدیث : 1837) ‘‘ دو محبت کرنے والوں کے لیے نکاح جیسی کوئی چیز نہیں دیکھی گئی’’۔

نکاح کے سلسلے میں اسلامی تعلیمات پرنظر ڈالنے سے پتہ چلتا ہے کہ نکاح سے شریعت کی مطمح نظر صرف جذبۂ جنس کی تسکین ہی نہیں ہے بلکہ اس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ مردوزن کو کردار کی پاکیز گی بھی عطا کرنا چاہتا ہے، نسل انسانی کی بقا اور افزائش بھی نکاح کے مقاصد میں سے اہم مقصد ہے، باہمی الفت ومحبت کے ذریعے دلوں میں سکون بھی پیدا کرنا مقصود ہے تاکہ انسان ا س کائنات میں اپنی مفوضہ ذمہ داریاں زیادہ بہتر طریقے پر ادا کرسکے، علامہ شامی نے مقاصد نکاح کی بحث میں لکھا ہے: ‘‘ اللہ تعالیٰ نے بہت سی  مصالح ، منافع اور حکم کے پیش نظر نکاح کا رشتہ تخلیق فرمایا ہے، ان میں سے ایک حکمت اور مصلحت یہ ہے کہ اس کا ئنات میں بنی نوع انسان ،اصلاح ارض اور اقامت شرائع کے لیے اللہ کا نائب بن کر اس وقت تک باقی رہے جب تک یہ کائنات باقی ہے، یہ مصلحتیں اور حکمتیں اسی وقت محقق ہوسکتی ہیں جب ان کی بنیاد مضبوط ستون پر قائم ہو اور وہ مضبوط ستون رشتہ ٔنکاح ہے (فتاوی شامی: 4/کتاب النکاح ) اسلام نے نکاح کی جس قدر ترغیب دی ہے شاید ہی کسی دوسرے مذہب میں اس کا تصور ملتا ہو، قرآن کریم میں ارشاد فرمایا گیا: ‘‘جو عورتیں تمہیں پسند آئیں تم ان سے نکاح کرو’’۔( النسا:3)۔

شاہ  بخاری حافظ ابن حجر عسقلائی نے لکھا ہے کہ اس آیت میں صیغۂ امر لایا گیا ہے جس سے وجوب مقصود ہے(فتح الباری :14/289) اسی لیے فقہا کرام نے بعض حالات میں نکاح کو فرض اور واجب بھی قرار دیا ہے، (تفصیل کے لیے دیکھئے ،الفقہ الا سلامی وادلتہ :7/32) جہاں تک اس کے مستحب اور مسنون ہونے کامعاملہ ہے اس میں تو کسی طرح کے شک کی گنجائش ہی نہیں ہے، بے شمار روایات میں نکاح کی ترغیب دی گئی ہے، ایک حدیث میں ہے کہ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے نوجوانوں کے ایک گروہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا : ‘‘اے نوجوانو! تم میں سے جو شخص نکاح کی اہلیت رکھتا ہو وہ نکاح ضرور کرے، کیونکہ اس سے نگاہ اور شرم گاہ دونوں کی حفاظت ہوتی ہے’’ ( صحیح البخاری : 15/498، رقم الحدیث : 4678)ایک حدیث میں ارشاد فرمایا گیا النکاح من سنۃ الا نبیا ۔‘‘ نکاح انبیا کی سنت ہے( تفسیر الاعقم زبدی :2/42)ایک او ر حدیث میں ہے : ‘‘نکاح میری سنت ہے جس نے میر سنت سے اعتراض کیا  وہ میرے طریقے پر نہیں ہے’’۔(مؤطا امام محمد :2/427،رقم الحدیث :523)اس طرح کی روایت سے نکاح کی اہمیت کا پتہ چلتا ہے ،اسی لیے اسلام میں نکاح کا ایک مکمل ضابطہ نظام ہے، یہ نہیں کہ اگر نکاح کی اجازت دے دی گئی یا اس کا حکم دے دیا گیاتو جس طرح جی چاہے کرو، جس سے جی چاہے کرو ، اور جب جی چاہے کرو ،ایسا نہیں ہے بلکہ اس کا ایک مکمل نظام ہے، جس میں نکاح کے تمام آداب وشرائط کھول کھول کر بیان کردیئے گئے ہیں ،حالانکہ معاملات او ربھی ہیں، مگر جس قدر تفصیلات نکاح کے باب میں ملتی ہیں اور جتنی شرائط وقیود نکاح کے سلسلے میں لگائی گئی ہیں ان سے واضح ہوتا ہے کہ یہ کوئی مہتمم بالشان معاملہ ہے ۔

جو معاملہ اتنا اہم ہو ، اورجس رشتے کو وجود میں لانے کےلئے اس قدر ترغیب دی گئی ہو، ظاہر ہے وہ معاملہ ختم کرنے کے لیے نہیں ہوتا اور نہ ایسا رشتہ توڑنے کے لیے ہوتا ہے ، اسلام کا اصل رُخ تو یہی ہے کہ معاہدہ ٔ نکاح زندگی کی آخری سانس تک برقرار رہے، اس کے لیے شریعت نے زوجین کو قدم قدم پر ہدایتیں دی ہیں، ایک دوسرے کے حقوق اورفرائض سے آگاہ کیا ہے، انہیں ایک دوسرے کی حق تلفی سے ڈرایا ہے ، اولاد کے باب میں بھی ان کے فرائض واضح کردئے ہیں، خاندانوں کو مربوط او رمتحد رکھنے میں جو کردار میاں بیوی دونوں مل کر ادا کرسکتے ہیں اس سے بھی آگاہ کردیا ہے، ان سب چیزوں پرعمل اسی صورت میں ممکن ہے جب مردوزن دونوں اس رشتے کو مستحکم اور برقرار رکھنے میں کامیاب ہوں۔ اس کے باوجود بعض اوقات ایسے حالات پیش آجاتے ہیں جب یہ رشتہ برقرار رکھنا مشکل ہوجاتا ہے ، ایسے حالات میں بھی اسلام کی رہنمائی موجود ہے، جیسا کہ عرض کیا گیا کہ اسلام دین فطرت ہے، اور راہ اعتدال ہے، یہ نہیں کہ اگر ایک دفعہ اس رشتے میں بندھ گئے تو اب کوئی صورت اس سے گلو خلاصی کی نہیں ہوسکتی ،خواہ کسی ہی مشکلات پیش آئیں ، میاں بیوی میں کتنا ہی عدم توافق ہو، ہر حال میں اس رشتے کو نبھانا ضروری ہے ، ایسا نہیں ہے، جن مذاہب میں شادی کو ہرحال میں دائمی معاملہ سمجھا گیا ہے وہاں بعض اوقات زوجین میں سے کوئی ایک یا دونوں مذہبی قید وبند سے بغاوت پر آمادہ ہوجاتے ہیں، جن میں بغاوت کا حوصلہ نہیں ہوتا وہ گھر سے باہر جسمانی اور قلبی سکون تلاش کرتے پھرتے ہیں ، کبھی کبھی یہ معاملہ میاں بیوی میں سے کسی ایک کی غیر فطری موت (قتل وغیرہ) پر بھی منتج ہوتا ہے، اسلام نے طلاق کی اجازت دے کر یہ تمام راستے بند کردیئے ہیں۔

طلاق کی تفصیلات میں جانے سے پہلے یہ واضح کردینا ضروری ہے کہ طلاق صرف ناگزیر حالات میں ہی مشروع کی گئی ہے، اسکا بے جا استعمال غضب الہٰی کو دعوت دینے کے مرادف ہے، جو لوگ اس اختیار کا غلط استعمال کرتے ہیں و ہ دنیا میں بھی اس کا خمیازہ بھگتیں گے اور آخرت میں بھی اس کی سزا پائیں گے ۔طلاق کے سلسلے میں سب سے اہم بات تو یہ ہے کہ کوئی بھی فیصلہ جلد بازی میں یا جذبات سے مغلوب ہوکر نہ کرنا چاہئے ،بلکہ نہایت سوچ سمجھ کر ،ٹھنڈے دل ودماغ سے کسی نیتجے پر پہنچنا چاہئے، اسی لیے اسلام نے طلاق کا اختیار صرف مرد کو دیا ہے ،خلع کی صورت میں بھی طلاق دینے کی ذمہ داری مرد ہی کی ہوتی ہے، علامہ شامی نے لکھا ہے ‘‘طلاق کا ایک اچھا پہلو یہ بھی ہے کہ شریعت نے طلاق کا اختیار صرف مرد کو دیا ہے،کیو ں کہ عورت کے مقابلے میں اس کی عقل زیادہ ہوتی ہے، کوئی بھی قدم اٹھانے سے پہلے وہ اس کے نتائج وعواقب پر اچھی طرح غور کرلیتا ہے ، جب کہ عورت میں عقل ودین کے نقصان کے باعث یہ صلاحیت کم ہوتی ہے، وہ جذبات سے مغلوب ہوجاتی ہے’’ (ردالمحتار :4/316)مرد کو اختیار دینے کے بعد بھی اسلام نے طلاق کے معاملے کو ایک شرعی ضابطے کا پابند بنادیا، اس ضابطے کی پابندی میں دی گئی طلاق کو طلاق بدعی قرار دے کر آگاہ کردیا گیا کہ اگر طلاق دینی ہی ہے تو طلاق احسن یا طلاق حسن دو، طلاق بدعی نہ دو، مفسر قرآن حضرت مولانا مفتی محمد شفیع عثمانی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں:‘‘ شریعت نے معاہدہ ٔنکاح کو توڑنے اور فسخ کرنے کا وہ طریقہ نہیں رکھا جو عام خرید وفروخت کے معاملات او رمعاہدات کا ہے کہ ایک مرتبہ معاہدہ فسخ کردیا تو اسی وقت اسی منٹ فریقین آزاد ہوگئے اور پہلا معاملہ بالکل ختم ہوگیا اور ہر ایک کو اختیار ہوگیا کہ دوسرے سے معاہدہ کرلے، بلکہ معاہدہ ٔنکاح کو بالکل ختم کرنے کے لیے اول تو اس کے تین درجے طلاقوں کی صورت میں رکھے گئے ،پھر اس پر عدت کی پابندی لگادی گئی’’( تفسیر معارف القرآن : 1/557)۔

افسوس مسلمانوں نے طلاق کو ایک کھلونا بنالیا ہے، بعض شوہر ذر اذرا سی بات پر طلاق کی دھمکی دیتے ہیں، صرف دیتے ہی نہیں ہے بلکہ اس دھمکی پر عمل بھی کربیٹھتے ہیں ، حالانکہ کہ اگر طلاق دینی ہی ہے تو پہلے اہل علم سے اس کی تفصیلات معلوم کریں،اس کا طریقہ کا رسمجھیں ،اس کے بعد یہ قدم اٹھائیں ،میاں بیوی میں اختلاف پیدا ہوسکتا ہے ، بعض اوقات یہ اختلاف بڑھ بھی جاتا ہے، اسی صورت میں کوشش یہی کرنی چاہئے کہ آپس میں ہی معاملات حل کرلئے جائیں، بیوی کی غلطی ہوتو اس کو زجر وتوبیخ بھی کی جاسکتی ہے اس کا بستر بھی الگ کیا جاسکتا ہے ، اس سے بھی کام نہ چلے تو دونوں خاندانوں کے صاحب الرائے لوگ جمع ہوکر معاملے کو سلجھانے کی کوشش کریں، یہ کوشش بھی کارگر نہ ہوتو اب طلاق دی جاسکتی ہے ، مگر اس حق کے استعمال میں بھی مرد کو یہ ہدایت ہے کہ وہ اپنی بیوی کو ایسے  طہر کی حالت میں جس میں  ہم بستری نہ کی گئی ہو ایک طلاق دے کر رک جائے،دوسری یا تیسری طلاق نہ دے ،عدت پوری ہونے پریہ رشتہ نکاح خود بہ خود ختم ہوجائے گا، یہی طلاق احسن ہے جو شریعت میں مطلوب ہے ، اسے طلاق رجعی کہتے ہیں، یعنی اگر شوہر چاہے تو وہ عدت کے اندر اندر رجوع کرنے کےلیے دوبارہ نکاح کرنے کی ضرورت جنہیں ہے، نہ عورت کی رضا مندی شرط ہے ، عدت گزرنے کے بعد اب اگر دونوں دوبارہ ملنا چاہیں تو صرف نکاح کافی ہوگا، حلالے کی ضرورت نہیں ہے، اب اگر کسی وجہ سے دوسری اور تیسری طلاق دینی ہی ہے تو دوسر ے طہر میں دوسری ، اور تیسری طہر میں  تیسری طلاق دے ، دوطلاق تک تو عدت کے اندر رجوع اور عدت گزرنے کے بعد بلا حلالہ تجدید نکاح کی گنجائش ہے، تیسری طلاق میں یہ گنجائش باقی نہیں رہتی ( غایۃ الاوطار: 2/108)۔

مسلم معاشرے میں عام طور یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ رشتۂ نکاح ختم کرنے کے لیے تین طلاقیں دینا ضروری ہے ،اگر تین طلاقیں نہیں دی گئی تو یہ رشتہ ختم نہیں ہوگا ، یہ غلط فہمی اس لیے پھیلی ہوئی ہے کہ لوگوں کو دین کا صحیح علم نہیں ہے ، طلاق کا بہترین شرعی طریقہ وہی ہے جو ذکر کیا گیا ، بہ یک وقت تین طلاقیں دینے سے بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے، مگر اسی طلاق کو طلاق بدعت کہا جاتا ہے ،اس طرح طلاق دینے سے آدمی گنہ گار ہوتا ہے ، اس سے بچنا چاہئے، تین طلاقیں دینے کی صورت میں وہ بیوی اس کے لیے حرام ہوجائے گی، نہ اس سے عدت کے اندر رجوع کرسکتا ہے، نہ عدت گزرنے کے بعد اس کے ساتھ نکاح کی تجدید ہوسکتی ہے، اگر بچوں کی خاطر ،یا خود اپنے کئے پر پچھتاوے کی وجہ سے کوئی شخص دوبارہ اسی صورت میں نکاح کرسکتا ہے جس کا ذکر قرآن کریم میں کیا گیا ہے: ‘‘ اگر اس نے عورت کو (تیسری) طلاق دیدی تو اب اس کے لیے وہ عورت جائز نہیں ہوگی جب تک ا س عورت کا نکاح دوسرے شخص سے نہ ہوجائے’’ (البقرہ :230)فقہا نے اس کی تفصیلات طے کردی ہیں کہ یہ عورت پہلے عدت گزارے گی،پھر کسی دوسرے شخص سے نکاح کر کے اس کے ساتھ وقت گزارے گی، دونوں میاں بیوی کی طرح رہیں گے ،پھر اگر یہ شوہر اپنی مرضی سے طلاق دے گا، تب پھر عدت گزارے گی، اب پہلے شوہر سے نکاح ہوسکتا ہے جس کو حلالہ کہتے ہیں، اسی شرمناک صورت حال سے بچنے کے لیے طلاق احسن او ر طلاق حسن مشروع ہیں کم علمی کے باعث مسلمان مرد غیض وغضب سے مغلوب ہوکر ایک دم تین طلاق دے بیٹھتے ہیں ، جو بسا اوقات سخت پریشانی کا باعث بنتی ہے،اسی لیے بعض حلقوں کی  طرف سے یہ مطالبہ کیا جاتا رہا ہے کہ بہ یک وقت دی جانے والی تین طلاقوں کو ایک ہی طلاق قرار دیا جائے ،جیسا کہ غیر مقلدین حضرات کی رائے ہے، حالانکہ تین الگ الگ طہر میں دی  گئی تین طلاقوں کو وہ بھی تین طلاقیں ہی مانتے ہیں ،اختلاف صرف بہ یک وقت دی جانے والی تین طلاقوں میں ہے، اس سلسلے میں تفصیلات تو بہت ہیں مختصراً اتنا عرض ہے کہ اگر ایک مجلس میں تین طلاقیں دی جائیں تو جمہور علما کی رائے کے مطابق تین ہی طلاقیں واقع ہوں گی، فقہا صحابۂ کرام رضی اللہ عنہ میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ ،حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ ، حضرت علی رضی اللہ عنہ ،حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ ، حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ ، حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ جیسے کبار صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی رائے یہی تھی کہ تین طلاقیں واقع ہوں گی، ائمہ اربعہ یعنی حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ ،امام مالک رحمۃ اللہ علیہ ، امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کا متفقہ مسلک بھی یہی  ہے ، لہٰذا جو لوگ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کی طرف یہ قول منسوب کررہے ہیں کہ وہ ایک طلاق کے قائل تھے، غلط ہے، چودہ سوسال سے اسی پر فتوی دیا جارہا ہے اور اسی پر عمل ہورہا ہے، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانے میں متعدد واقعات ایک مجلس  میں تین طلاقوں کے پیش آئے ،تمام صحابہ رضی اللہ عنہ نے مل کر تین طلاق ہی کا فیصلہ کیا، کسی ایک صحابی کا کوئی اختلاف کسی روایت سے ثابت نہیں ہے، حافظ ابن ابوبکر حصاص رحمۃ اللہ علیہ نے احکام القرآن میں لکھا ہے : ‘‘فا لکتاب والسنۃ واجماع السلف تو جب ایقاع الثلاث معاً وان کانت معصیۃ ’’ ‘‘کتاب وسنت اور اجماع امت سے یہ بات ثابت ہے کہ ایک مجلس میں دی گئیں تین طلاقیں تین ہی  واقع ہوں گی ، اگرچہ یہ عمل معصیت ہے’’( احکام القرآن :1/459)۔

1393ھ میں یہ مسئلہ سعودی عرب کی بیئۃ کبار العلما میں بھی زیر بحث آیا ،اس مجلس میں سعودی عرب کے لگ بھگ سترہ بڑے علما اور فقہا شریک تھے، ان تمام حضرات نے قرآن وحدیث کی روشنی میں یہی فیصلہ کیا کہ ایک وقت میں دی گئیں تین طلاقیں تین ہی شمار ہو ں گی، یہ پوری بحث او رمکمل تجویز مجلّہ الجوث الاسلامیہ (شمارہ 1397ھ) میں چھپ چکی ہے جو تقریباً ڈیرھ سو صفحات پر پھیلی ہوئی ہے۔ آخر میں صرف اتنی گزارش ہے کہ علمائے کرام مسلمانوں کو صحیح مسائل سے واقف کرائیں ، اخباری بیان بازی کر کے عوام کو غلط فہمی میں مبتلا نہ کریں ،عوام کو بھی چاہئے کہ اخباری بیانات پر اعتماد نہ کریں ،بلکہ دارالعلوم دیوبند او ردوسرے بڑے مدارس میں موجود مفتیانِ کرام سے صحیح معلومات حاصل کریں، طلاق کو باز یچۂ اطفال نہ بنائیں ،طلاق دینی ہی ہے تو شریعت کے مطابق دیں ، ورنہ صبر وتحمل کے ساتھ ازدواجی زندگی کی تلخیوں کو برداشت کر کے اجر وثواب کے مستحق ہوں۔

بکشریہ : اخبار مشرق ، نئی دہلی

URL for English article: http://www.newageislam.com/islamic-ideology/maulana-nadeem-ul-wajidi,-tr.-new-age-islam/islamic-fundamentalist-view--in-defence-of-triple-talaq-and-male-supremacism/d/7361

URL: https://newageislam.com/urdu-section/rising-trend-divorce-muslim-society/d/7326

Loading..

Loading..