Maulana Nadeemul Wajidi responds to Maulana Mohammad Nasir Misbahi’s charges of Kufr against Deobandis and Wahhabiis
مولانا ندیم الواجدی
15اگست، 2009
راقم السطور نے اپنے مضمون ’’دیوبندی بریلوی اختلاف کی حقیقت کیا ہے؟ ‘‘ میں صرف اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کی تھی کہ آخر ملک میں مسلمانوں کے دوبڑے طبقوں میں اس قدر دوری کیوں ہے؟ جہاں تک احقر نے تجز یہ کیا ہے اس کی وجہ سے تکفیری فتوے ہیں جو وقتاً فوقتاً علماء دیوبند پر توپ کے گولوں کی طرح داغے جاتے رہے ہیں، راقم السطور نے بڑی دل سوزی کے ساتھ یہ تجویز رکھی تھی کہ اگر ان فتوؤں کا سلسلہ موقوف کردیا جائے تودیوبندیوں اوربریلوں میں جاری کشیدگی ختم ہوسکتی ہے،اس مضمون سے چراغ پاہوکر مولانا محمد ناصر مصباحی صاحب نے جو مضمون لکھا ہے اس سے بھی یہی ثابت ہورہا ہے کہ بریلوی کے مزاج میں تشدد ہے اور اشتعال انگیز ی ان کی فطرت ثانیہ بن چکی ہے، جب تک اس مزاج میں تبدیلی نہیں آئے گی سوار جیسے واقعات پیش آتے رہیں گے، بریلوی علماء کو اپنے مزاج کی یہ شدت اور تلخی کم کرنی ہوگی، اگر اسی طرح دیوبند یوں کو کافر کہا جاتا رہا تو بے چارے سیدھے سادھے بریلوی عوام دیوبندیوں سے مسجدیں خالی کراتے رہیں گے، اور ا ن کے پیچھے نماز پڑھنے سے بچتے رہیں گے ۔سوار میں بریلویوں کی اکثریت ہے، ایک ہی مسجد ایسی تھی جس میں دیوبندی مسلک کے امام مقرر تھے، بریلویوں نے یہ بھی زبردستی ان سے چھین لی، دیوبندیوں نے مزاحمت کرنا چاہی تو ان پر پتھراؤکیا گیا ، دیوبندی ہی زخمی ہوئے اور ان ہی کے خلاف رپورٹ بھی درج کرائی گئی ، سوار کا اثر بریلوی میں بھی ہواجہاں ایک مسجدمیں دیوبندیوں کو دینی اجتماع کی اجازت نہیں دی گئی اور جب کچھ لوگ اجتماح کرنے لگے تو ان پر حملہ کیا گیا،سوال یہ ہے کہ کیا دیوبندیوں نے بھی اس طرح کیاکوئی حرکت کی ہے؟ گذشتہ مہینے ایک اجتماع سہارنپور میں اتحاد ملت کے عنوان پر منعقد ہواتھا، اس میں مقررین وسامعین کی حیثیت سے ہر مسلک کے لوگ موجود تھے، جماعت اسلامی ہند کے جنرل سکریٹری مولانا رفیق احمد قاسمی نے اپنی تقریر میں کہا کہ جب تک مسلکی اختلاف میں یہ شدت رہے گی اتحاد کا خواب شرمندۂ تعبیر ہی رہے گا، انہوں نے بتلایا کہ پیلی بھیت کے ایک بریلوی عالم جلسہ عید میلاد النبی کے موقع پر اسٹیج پر تشریف لا کر یوں گویا ہوئے: ‘‘وہابڑالاؤ’’معتقدین نے بڑے اہتمام کے ساتھ اگالدان پیش خدمت کیا، موصوف نے اس میں پان کی پیک تھوکی اور مسکرائے ،یہ منظر دیکھ کر ناظرین نے نعرہ تکبیر بلند کیا ، جس مسلک میں ،دوسرے مسلک کے لوگوں کے لیے اس قدر نفرت موجود ہو اس کے ماننے والوں سے اتحاد ملت کی امید کی ہی نہیں جاسکتی، یہی وجہ ہ کہ ملّی مسائل میں بھی سب کے ساتھ ان کی شرکت واجبی سی ہے، حدیہ ہے کہ مسلم پرسنل لا بورڈ میں بھی یہ لوگ پوری طرح شریک نہیں ہیں بلکہ مولانا احمدرضا خاں کے خاندن کے کچھ لوگوں نے تو اپنا پرسنل لا بورڈ بھی الگ بنا رکھا ہے، کیا یہ اچھی بات ہے کہ اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد الگ بنالی جائے۔
اب آئیے اس مضمون کی طرف جو میرے مضمون کے جواب میں مولانا محمد ناصر مصباحی نے لکھا ہے، میرا خیال تھا کہ شاید انہوں نے ٹھوس علمی بنیادوں پرمیری گرفت کی ہوگی ، پڑھا تو یہ حقیقت سامنے آئی کہ اس میں سوائے سب وشتم اور مغالطہ انگیز ی کے کچھ بھی نہیں، کافر قرار دینا تو ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے، اسی لیے تو وہ مجھ ناچیز کو بھی مسلم نما قرار دے بیٹھے ، گویا دیکھنے میں مسلمان حقیقت میں مسلمان نہیں ، بریلوی بھائیوں کی یہ پریشانی ہے کہ وہ اپنے علاوہ کسی کو مسلمان سمجھتے ہی نہیں ہیں۔
مضمون نگار نے یہ انکشاف کیا ہے کہ افتراق بین المسلمین کی بنیاد میں خشت اول شاہ اسماعیل شہیدؒ نے رکھی ،یہ ہندوستان کی اسلامی تاریخ کا سب سے بڑا بہتان ہے، خاندان ولی اللہی کی خدمات سے واقفیت رکھنے والا ادنیٰ درجے کا طالب علم بھی یہ بات اچھی طرح جانتا ہے کہ اس خاندان کے ہر فرد نے ہندوستان کے اسلامی معاشرے کے بگاڑ وفساد کے خلاف تحریر وتقریر کے ذریعے زبردست جدوجہد کی ہے، جس زمانے کا یہ قصہ ہے اس وقت مسلمانوں میں پیر پرستی اور قہر اور قبر پرستی کی وبا اپنے عروج پر تھی ، جہالت اورکم علمی کے باعث مسلمان قرآن وسنت سے دور ہوگئے تھے اور رسوم وبدعات کی دلدل میں گلے گلے ڈوب چکے تھے ، اس وقت حکیم الامت حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ بگڑے ہوئے معاشرے کی اصلاح کے لیے میدان عمل میں آئے ،لیکن اس سے پہلے کہ مریض معاشرہ پوری طرح صحت یاب ہوتا شاہ صاب ؒ دنیاسے رخصت ہوگئے، ان کے بعد ان کے بیٹے حضرت شاہ عبدالعزیزؒ نے اپنے والد کے چھوڑے ہوئے کام کو آگے بڑھایا،دعوت واصلاح کے اس کام میں اس وقت تیزی آگئی جب حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کے پوتے حضرت شاہ اسماعیل شہیدؒ نے معاشرتی برائیوں کے خلاف وعظ وتذکیر کاسلسلہ شروع کیا، اولاً وہ جامع مسجد کے منبرد محراب سے لوگوں کو خطاب کیا کرتے تھے جو مخالفین کی سازشوں کی وجہ سے انگریزوں کے ذریعے بند کرادیا گیا ، بعد میں انہوں نے ملک کے شہر شہر اورگاؤں گاؤں گھوم کر اصلاحی مواعظ کا آغاز کیا ، اسی دوران ’’تقویۃ الایمان‘‘ جیسی معرکۃ الآراء کتاب بھی لکھی جو شردوبدعت کے رد میں لاجواب کتاب ہے، کیوں کہ یہی کام نجد وحجاز میں شیخ عبد الوہاب نجدی ؒ بھی کررہے تھے ،اس لیے مخالفین نے جو شرک وبدعت کی طرف زیادہ مائل تھے ، حضرت شاہ اسماعیل شہیدؒ اور ان کے ماننے والوں کو وہابی اور وہابڑا کہنا شروع کردیا، اس طرح وہ خود ہی مسلمانو ں کے سواداعظم سے الگ ہوبیٹھے ،مضمون نگار نے مولانا ابوالکلام آزادؒ کی کتاب ’’آزادی کی کہانی‘‘ سے ایک اقتباس نقل کر کے یہ ثابت کرنے کی کوشش کیا ہے کہ مولانا ابوالکلام آزاد ؒ تفریق بین المسلمین کے ذمہ دار شاہ اسماعیل شہید ؒ کو گردانتے ہیں، مجھے حیرت ہے کہ مولانا ابوالکلام آزادؒ کی اس تحریر مولانا ابوالکلام آزاد کی ہے ہی نہیں ،بلکہ مولانا عبدالرزاق کی ہے، اس کتاب سے مولانا آزاد کے افراد خاندان بھی مطمئن نہیں ہیں اور اگر ا سے مولانا ابوالکلام آزاد کی رائے تسلیم بھی کرلی جائے تب بھی مضمون نگار کے ئیے مؤید نہیں ہے، بہ ظاہر تو یہ صورت حال کی حکایت ہے کہ کس طرح ان کی کتابوں کے خلاف اس وقت کے بعض علماء نے اپنے ردّ عمل کا اظہار کیا، ان کے خلاف کتابیں لکھیں ،فتوے دیئے ،علماء حرمین سے بھی فتوے منگوائے ،اگر شاہ اسماعیل شہیدؒ کے تعلق سے مولانا ابوالکلام آزادؒ کے خیالات دیکھنے ہوں تو ان کی یہ تحریر ملاحظہ کیجئے ’’شاہ صاحب (شاہ ولی اللہ ) نے مزاج وقت کے تحمل واستعداد سے مجبور ہوکر دعوتِ اصلاحِ امت کے جو بھید پرانی دہلی کے کھنڈروں اور کوٹلہ کے حجروں میں دفن کردیئے تھے ، اب اس سلطان وقت اورسکندر اعظم (شاہ اسماعیل شہیدؒ ) کی بہ دولت شاہ جہاں آباد کے بازاروں اور جامع مسجد کی سیڑھیوں پر ہنگامہ مچ گیا اور ہندوستان کے کناروں سے بھی گزر کر نہیں معلوم کہا ں کہاں تک چرچے اور افسانے پھیل گئے جن باتوں کو کہنے کی بڑوں کو بند حجروں کے اندر بھی تاب نہ تھی وہ اب سربازار کہی جارہی تھی‘‘ (بحوالہ موج کوثر شیخ محمد اکرام: ۳۸)اس اقتباس سے صاف ظاہر ہے کہ وہ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ اور ان کے پوتے حضرت شاہ اسماعیل دہلویؒ کی کوششوں کو دعوت اصلاح امت سے تعمیر کرتے ہیں اور ثانی الذ کر کو سلطان وقت اور سکندر اعظیم کا لقب دے کر ان کی جرأت وبہادری کو سلام کرتے ہیں، حلقۂ دیوبند کے تمام علماء کا موقف بھی یہی ہے، مولانا سید احمد رضا بجنوری کی کتاب ’’انوار الباری‘‘ کے حوالے سے بلا تعیین جلد نمبر و صفحہ نمبر مضمون نگار نے جو کچھ لکھا ہے اس سے بھی یہ ثابت نہیں ہوتا کہ مولانا احمد رضا بجنوری نے لفظ افسوس ’’تقویۃ الایمان‘‘ کی تالیف کے لیے استعمال کیا ہے یا ان مسلمانوں کے لیے جو اس کتاب کو دیکھ کر بھڑک گے اور بجائے راہ راست پر آنے کے مخالفت کرنے لگے، اسی کتاب میں جس کا حوالہ مضمون نگار نے دیا ہے مولانا احمد رضا بجنوری نے حضرت شاہ اسماعیل شہیدؒ اور ان کی کتاب ’’تقویۃ الایمان ‘‘ کے متعلق یہ لکھا ہے وہ بلا شک وتردوہمارے مقتدا اورپیشوا ہیں اور ان کی خدمات جلیلہ اس قابل ہیں کہ آپ زر سے لکھی جائیں اور مختصر تذکرہ میں ان کا ذکر نہیں سما، سکتا(ان کی کتاب) تقویۃ الایمان جو سب سے زیادہ مشہور ہے اور اس کی وجہ سے آپ کے خلاف محاذ بنائے گئے ،ہمارے اکابر علماء دیوبند نے اس کی قلمی ولسانی تائید کی ان کو بھی ہدف سب وشتم بنایا گیا رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ (انور الباری ،۲/۳۹۲)......(جاری)
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/charges-kufr-deobandis-wahhabiis-/d/1648