New Age Islam
Tue Sep 26 2023, 02:31 AM

Urdu Section ( 27 Jun 2009, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

The Beauty of Islam that attracts intellectuals محاسن اسلام قبول اسلام کے تناظرمیں









 

مولانا ندیم الواجدی

31مئی 2009کے اخبارات میں یہ خبر شائع ہوئی ہےکہ انگریزی اور ملیالم کی نامور ادیبہ اور مصنفہ کملا داس کا ،جنہوں نے 12دسمبر 1999میں پینسٹھ سال کی عمر میں اسلام قبول کیا تھا، انتقال ہوگیا، ان کا اسلامی نام کملا ثر یا تھا ،ان کا شمار ہندوستان کے صف اول کے ادبیوں اور شاعروں میں ہوتا تھا ،انہوں نے اپنی بے باگانہ تحریروں کے ذریعہ قارئین کو یہ احساس دلایا کہ انسانوں کے درمیان عدم مساوات انسانیت کے خلاف ہے ، وہ روایت شکن کے طور پر مشہور تھیں ،طویل تصنیفی زندگی گزارنے کے بعد انہوں نے اسلام کے دامن میں پناہ لینے کا فیصلہ کیا، یہ فیصلہ انہوں نے طویل غور فکر کے بعد کیا تھا، کیرالہ کے شہر کو چین کی ایک باوقار تقریب میں قبول اسلام کے اعلان کے بعد انہوں نے ایک ٹی وی انٹرویوں میں کہا تھا کہ میں نے کسی دباؤ کے تحت اسلام قبول نہیں کیا ہے ،یہ میرا آزادانہ ہے،میں اسلام قبول کرنے پر کسی کی تنقید کی کوئی پرواہ نہیں کرتی، اسلام میرے لئے دنیا کی سب سے قیمتی متاع ہے اور یہ مجھے جان سے بڑھ کر عزیز ہے،15دسمبر1999کو ٹائمز آف انڈیا میں ان کا یک انٹرویو چھپا اس میں انہوں نے کہا کہ اسلامی تعلیمات میں برقعہ نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا ہے، کملا ثریا اپنے خاندان کے درمیان رہتی تھیں جو مسلمان نہیں ہوا تھا ،وہ آخر وقت تک ایمان پر قائم رہیں ،ان کی وصیت تھی کہ ان کوپلائم کی جامع مسجد کے قبرستان میں مسلمانوں کے درمیان دفن کیا جائے، ان کی و صیت کا احترام کیا گیا اور پورے سرکاری اعزاز کے ساتھ ان کی تدفین اسی قبرستان میں عمل میں آئی۔ ہندوستان میں قبول اسلام کا یہ واقعہ اتفاقاً اخبارات میں آگیا، کیوں کہ اس کا تعلق ایک مشہور ادیبہ اور مصنفہ سے تھا، ایسا نہیں کہ ہندوستان میں قبول اسلام کے واقعات پیش نہیں آرہے ہیں، بلکہ ملکی حالات کے تناظر میں ان کو چھپانے کی کوشش کی جارہی ہے، اس کے باوجود جب کوئی واقعہ پڑھنے کو ملتا ہے تو دل طمانیت کے احساس سے لبریز ہوجاتا ہے ،خاص طور پر اس وقت جب اس واقعے کا تعلق کسی اعلیٰ تعلیم یافتہ فرد ہواور اسے اسلام کی کسی خاص تعلیم سے قبول اسلام کی تحریک ملی ہو۔خوشی کی بات یہ ہے کہ ساری دنیا میں اسلام ایک ایسے مذہب کے طور پر ابھررہا ہےجسے جاہلوں کے مقابلے میں پڑھے لکھے لوگ زیادہ قبول کررہے ہیں اور یہ اس بات کی علامت ہے کہ اسلام دین فطرت ہے اور اس میں قلب ودماغ پر بیک وقت اثر انداز ہونے کی صلاحیت موجود ہے، یورپ اور امریکہ میں خاص طور پر اسلام کی طرف لوگوں کے رجحان میں اضافہ محسوس کیا جارہا ہے ،لوگ اسلام کو سمجھنا چاہتے ہیں ، اس کے اچھائیوں کو محسوس کرنا چاہتے ہیں اور اس کی خوبیوں کو سمیٹنا چاہتے ہیں، حال ہی میں عرب نیوز نے ایک رپورٹ شائع کی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ اسلام عیسائیت کے بعد عقیدے کے حامل دوسرے بڑے گروپ کے طور پر ابھر رہا ہے ،ایک طرف جہاں برطانوی ذرائع ابلاغ اسلام کو غلط طور پر پیش کرنے میں مصروف ہیں وہیں دوسری طرف اسلام برطانیہ میں تیزی سے پھیل رہا ہے اور ملک میں مسلمانوں کی آبادی بیس لاکھ تک پہنچ چکی ہے۔2001کی مردم شماری میں برطانیہ میں مسلمانوں کی تعداد سولہ لاکھ درج کی گئی تھی، اس تعداد میں اضافہ برطانیہ میں اسلام کے تیزی سے ساتھ پھیلنے کا مظہر ہے ، آئندہ بیس برسوں میں یہ تعداد اتنی بڑھ جائے گی کہ جو گروپ اس وقت اقلیت میں ہے وہ اکثر یت میں آجائے گا، یہی حال یورپ کے باقی ملکوں میں ہے2003میں یورپی یونین میں مسلمانوں کی تعداد ڈیڑھ کروڑ تھی، یہ خیال بھی ظاہر کیا جارہا ہے کہ اگر اسلام کی طرف لوگوں کے رجحان کا یہی عالم رہا تو یہ تعداد 2015تک تین کروڑ اور 2020تک لگ بھگ پانچ کرور ہوجائے گی، اسپین کے بارے میں بتلایا گیا ہے کہ وہاں ہر سال پانچ ہزار افراد اسلام قبول کررہے ہیں ،مغربی یورپ کے بعض ملکوں کے متعلق یہ خیال ہے کہ آنے والے چندبرسوں میں ان ملکوں کے بعض شہروں کے میئر مسلمان ہوسکتے ہیں ۔

قبول اسلام کے سلسلے میں یہ بات خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ ، اعلیٰ خاندانوں سے جڑے ہوئے افراد اور نامور شخصیات معمولی پیشہ وروں کے مقابلے میں اسلام کے اندر زیادہ دلچسپی لے رہی ہیں ،بڑے بڑے بزنس مین اور صنعت کار بھی اسلام قبول کرنے میں پیچھے نہیں ہیں ،اس طرح برطانیہ میں مسلمان کروڑ پتیوں کی تعداد دس ہزار سے تجاوز کرچکی ہے، برطانوی معیشت میں مسلمانوں کا تعاون اکتیس ارب پاؤنڈ سے زیادہ ہے ،عموماً لوگ سوچ سمجھ کر اور طویل غور فکر کے بعد اسلام قبول کرتے ہیں، اسلام کے تئیں ذرائع ابلاغ اور حکومتوں کا منفی رویہ انہیں اسلام کی طرف مائل کرتا ہے اور وہ اسلام کو سمجھنے کا عمل شروع کردیتے ہیں ،مسلم معاشرے میں ان کی آمد ورفت بڑھ جاتی ہے، اسلامی کتابوں کا مطالعہ یا مسلمانوں کی سرگرمیوں کا مشاہدہ انہیں قبول اسلام کی تحریک دیتا ہے ، جو لوگ اسلام قبول کررہے ہیں وہ اسلام کی کسی نہ کسی خوبی سے متاثر ہوکر ایسا کررہے ہیں، اس طرح دنیا کے سامنے اسلام ایک ایسے مذہب کے طور پر سامنے آرہا ہے جس کی تعلیمات میں دلکشی بھی ہے اور رعنائی بھی، جن میں دل پراثر انداز ہونے کی صلاحیت بھی ہے اور دماغ کو مطمئن کرنے کی طاقت بھی ،یہ مذہب ،مرد ،عورت ،بوڑھے ،جوان ، عام ،خاص، تعلیم یافتہ، جاہل ، سماج کے ہر طبقے کے لئے یکساں طور پر جاذب نظر اور مرکز نگاہ ہے، اخبارات ورسائل میں اسلام قبول کرنے والوں کے ثاثرات چھپتے ہیں ، جن سے پتہ چلتا ہے کہ بسااوقات بعض چھوٹی چھوٹی باتیں بھی ہدایت کا سبب بن جاتی ہیں ، حیرت تو اس وقت ہوتی ہے جب مذہبی لوگ اسلام قبول کرتے ہیں، انہیں احساس ہوتا ہے کہ سالہا سال سے وہ جس مذہب کو گلے لگا ئے بیٹھے ہیں اس میں یہ صلاحیت ہی نہیں ہے کہ معاشرے کی اصلاح وتعمیر میں کوئی کردار ادا کرسکے ۔حد یہ ہے کہ بعض اعلیٰ مذہبی شخصیات اپنے مذہبی  متعقدات کی تشریح وتوضیح میں بھی ناکام نظر آتی ہیں،چند سال پہلے ایک عیسائی مبلغ جانسن نے نیویارک کے اسلامی سینٹر میں اسلام قبول کرکے اپنانام محمد احمد رکھا تھا، اس نے لکھا ہےکہ عیسائی مبلغ کا کورس مکمل کرنے میں مجھے دس سال لگ گئے، اس کے باوجود میں عیسائی شریعت کو سمجھ نہ سکا، میں عیسائی مبلغ بھی بن گیا لیکن میرا عقیدہ وخدا کی ذات کے سلسلے میں تذبذب کا شکار رہا ،عیسائی عقیدے کے مطابق تین خدا ہیں یا خدا کے تین حصے ہیں، خدا کے علاوہ اس کا بیٹا عیسیٰ (علیہ السلام ) بھی اس کے شریک کار ہیں، اور مقدس مریم (علیہا السلام) کو بھی نظام کائنات چلانے میں دخل ہے، ان تینوں کے مجموعے کےبعد خدا کا جو تصور ابھرتا ہے وہ زنانہ بھی ہے اور مردانہ بھی، میرے لئے خدا کا یہ تصور مضحکہ خیز سالگتا تھا، میں نے ارادہ کیا کہ میں اس سلسلے میں فادر میکائل سے رابطہ قائم کروں گا اور ان کے سامنے اپنے شکوک وشبہات رکھوں گا ،فادرمیکائیل کی بڑی شہرت تھی ،وہ وقتاً فوقتاًٰ ہمارے گاؤں میں لکچر دینے کے لئے آتے رہتے تھے، ایک مرتبہ فادر میکائیل گاؤں کے اسکول میں لکچر دینے کے لئے تشریف لائے تو میں نے فیصلہ کیا کہ میں اس سلسلے میں ان سوال کروں گا ،لکچر کے اختتام پر جب کہ ہزاروں لوگ موجود تھے میں نے ایک پرچہ بھیج کر ان سے سوال کرنے کی اجازت چاہی ،انہوں نے ازراہ شفقت اجازت دے دی، میں نے عقیدہ تثلیث کے حوالے سے یہ دریافت کیا کہ خدا کی ذات کو ایک ماننے کے باوجود حضرت عیسیٰ اور حضرت مریم (علیہا السلام) کو خدا کی ذات کا حصہ کیوں مانا جاتا ہے، خدا مؤنث ہے یا مذکر؟اس پہلو کے بارے میں عیسائیوں کا عقیدہ یہ ہے کہ وہ مذکر ہے ،عیسیٰ (علیہ اسلام ) اس کے بیٹے ہیں، اور خدا کا بیٹا جب خدا سے کسی سفارش کرتا ہے تو خدا اپنے بیٹے کی سفارش نامنظور نہیں کرتا، دوسری طرف پاک مریم کی ذات ہے، وہ کائنات میں ہر طرح کاتصرف رکھتی ہیں، اور خدا ان کی سفارش کو بھی نامنظور نہیں کرتا، فادرمیکائیل سے میں نے سوال کیا کہ آخریہ کیا پہیلی ہے؟ کیا خدا کی ذات میں نسوانیت کا کوئی پہلو پوشیدہ ہے یا خدا کی ذات مردانہ صفات کی حامل ہے، فادرمیکائیل نے میرے سوال کو بچکانہ کہہ کر نظر انداز کردیا، اور مسکرا کر کہنے لگے کہ میرے پاس کچھ اہم سوالات ہیں جن کا جواب دینا زیادہ ضروری ہے۔

لیکن میں نے اصرار کیا کہ میرے سوال کا جواب دیا جائے ،میری بار بار کی مداخلت سے عاجز آکر اور لوگوں کی تائید سے مجبور ہوکر فادر نے کہا کہ خدا کی ذات بہت سی خصوصیات کا پیکر ہے، اس کی بعض خصوصیات میں نسوانیت موجود ہے، اور بعض خصوصیات ایسی ہیں جو مردانہ انداز کیا ہیں، فادر کی اس بات سے میرے ذہن میں مزید سوالات ابھرتے گئے اور کئی گھنٹے تک بحث چلتی رہی لیکن لاحاصل ،فادر میکائیل میرے سوال کا جواب دینے میں ناکام رہے، ان کی بصیرت اور علم کا جو غلبہ میرے ذہن پر تھا وہ ختم ہوگیا اور مجھے ایسا محسوس ہوا کہ عیسائی مذہب کی بنیاد بالکل کھوکھلی ہے، جو مذہب خدا کے تصور کو بھی جامع طریقے سے پیش نہ کرسکے وہ مذہب دنیا ئے انسانیت کو کیا دے سکتا ہے ، اس کی تعلیمات کس طرح نافذ العمل ہوسکتی ہیں ، اس سوچ نے مجھے اسلام کی طرف مائل کیا ، اسلام کی دولت مجھے مفت میں حاصل نہیں ہوئی ،بلکہ اسے پانے کے لئے میں نے نہ جانے کتنی کتابوں کا مطالعہ کیا ہے اور کتنی عرق ریزی سے کام لیا ہے ،تلاش حق میں میں نے اپنا خون جگر صرف کیا ہے تب جاکرمجھے اسلام کی دولت ملی ہے ۔ ایک جاپانی خاتون مس لکاتہ نے اپنے قبول اسلام کی کہانی Root To Islam کے عنوان سے قلم بند کی ہے، یہ خاتون فرانسیسی لڑیچر کی اعلیٰ تعلیم کے لئے پیرس میں مقیم تھیں ، اکثر جاپانیوں کی طرح ان کا بھی کوئی مذہب نہیں تھا، سارتر نطشے ،اورکمیوس جیسے الحاد اور دہریت کے مبلغ اس کے محبوب فلسفی تھے، لیکن یہ عجب بات ہےکہ مذہب سےبے گانگی کے باوجود اس خاتون کومذہبی مطالعے کا شوق تھا ،کسی باطنی روحانی مطلب کے لئے نہیں بلکہ صداقت کی تلاش میں مختلف مذاہب کےبارے میں ان کا مطالعہ جاری رہتا تھا اور یہی شوق انہیں اسلام کی طرف لے آیا ،خود لکھتی ہیں کہ اسلام کے متعلق پہلی کتاب جس کا میں نے مطالعہ کیا اس میں حجاب کو معتدل انداز میں واضح کرتےہوئے کہا گیاتھا کہ اللہ تعالیٰ اس کی پرزور نصیحت کرتا ہے ،اگر کسی نے تخکمانہ لہجے میں کہا ہوتا تو میں اس حکم کے خلاف ضرور بغاوت کرتی، اسلام کا مطلب ہےکہ اللہ کی مرضی قبول کرلینا اور اس کے احکام کی اطاعت کے لئے سرتسلیم خم کردینا ، مجھ جیسی ہستی کے لئے جس نے برسوں کسی مذہب کے بغیر زندگی گزاری تھی کسی حکم کی تعمیل کرنا بڑا مشکل کام تھا، یہ محض اللہ کا کرم ہے کہ زندگی کے اس موڑ پر میری خواہشات بے ساختہ طور پر اللہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق ہوگئیں اور میں اسلامی فرائض کر بلا کسی احساس جبر کے اداکرنے کےلائق ہوگئی، میں اپنے نئے خول میں مطمئن تھی ،حجاب صرف اللہ کی اطاعت ہی کی علامت نہ تھا بلکہ میرے عقیدے کا برملا اظہار تھا، ایک مسلمان عورت جو حجاب پہنتی ہے جم غفیر میں بھی قابل شناخت ہوتی ہے، اس کے برعکس کسی غیر مسلم عورت کا عقیدہ اکثر الفاظ کے ذریعے  بیان کرنے ہی سے ظاہر ہوسکتا ہے، میرا حجاب مجھے مستعد اور آمادہ کرتا ہے کہ ہوشیار ہوجاؤ ،تمہارا طرز عمل ایک مسلمان کی طرح ہونا چاہئے ،ویسے ہی جیسے ایک پولیس مین کو وردی میں اپنے پیشے کا لحاظ رکھناچاہئے۔ اسی طرح میرا حجاب بھی میری مسلم شناخت کو تقویت دیتا ہے ۔ ایک کمیونسٹ نوجوان خاتون چیلنگ کم نے لکھا ہے کہ میں نے ہو ش سنبھا لنے کے بعد گاؤں میں ہر طرف لال جھنڈے لہراتے دیکھے جن پر ہتھوڑا اور درانتی بنے ہوئے تھے ،مجھے میرے والدین نے بتلایا کہ ہتھوڑا اور درانتی کمیونسٹ پارٹی کی علامت ہیں، روس میں کمیونسٹوں کی حکومت ہے ، جو کسی مذہب کو نہیں مانتے، بلکہ ان کے نزدیک ہتھوڑا اور درانتی مقدس ہیں، یہ دونوں چیزیں محنت کشوں کو پیغام دیتی ہیں کہ انہیں دن رات محنت کر کے روزی روٹی کمانی چاہئے کیوں کہ زندہ رہنے کے لئے روزی روٹی کی سب سے زیادہ ضرورت ہے، اگر روزی روٹی میسر نہیں ہوگی تو زندگی بیکار ہے ،لیکن جب میں بڑی ہوگئی اور پڑھ لکھ گئی تو میرا واسطہ مختلف مذاہب کے لوگوں سے پڑا ،ان میں سے ایک مسلمان تھے محمد ہادی حسن، جنہو ں نے مجھے بتلا یا کہ کمیونزم میں روٹی ، کپڑا اور مکان کو سب سے زیادہ اہمیت دی گئی ہے ، اس کے آگے بھی کچھ ہوسکتا ہے ملحدوں کو اس کی خبر نہیں ہے، وہ سمجھتے ہیں کہ روٹی ،کپڑا اور مکان زندگی کی منزل ہیں ، لیکن زندگی کا یہ تصور نہایت حقیر ہے، اسلام ا س کو قبول نہیں کرتا، اسلام زندگی کی اعلیٰ قدروں پر یقین رکھتا ہے ،روزی روٹی اور مکان کے لئے دوسرے جاندار بھی فکر مند رہتے ہیں ، آدمی کے لئے ضروری ہے کہ وہ اونچی صفات کے ساتھ زندگی بسر کرے اور جانوروں کی طرح روزی روٹی اور مکان کے لئے پریشان نہ ہو، یہ تمام چیزیں تو اللہ کی طرف سے عطا کی جاتی ہیں، آدمی کو اپنی تمام ضروتوں کے لئے اپنے خالق حقیقی ک آگے ہی سرجھکانا چاہئے ۔

محمد ہادی حسن کی گفتگو نے میرے دل ودماغ پرگہرا اثر ڈالا، اللہ نے میرے مقدر میں  لکھ دیا تھا کہ میں الحادچھوڑ کر اسلام میں داخل ہوجاؤں ،اللہ نے میری مشکل آسان کردی، آج میں آمنہ ہادی حسن کے نام سے برطانیہ میں شعائر اسلام کے ساتھ زندگی بسر کررہی ہوں۔ ایک امریکی فوجی میری ہولڈ بروکس جو بدنام زمانہ گوانتا موبے جیل میں قید یوں کی نگرانی پر متعین تھے مراکش کے ایک قیدی احمد الرشیدی کے اسیر ہوگئے، ایک عرصے تک گفتگو کرنے کے بعد ایک رات انہوں نے فوری طور پر اسلام قبول کرنے کا فیصلہ کیا اور  جیل کی سلاخوں کے درمیان سے ایک قلم اور کاغذ الرشید ی کے سپرد کرتے ہوئے درخواست کی وہ اس پر کلمۂ شہادت انگریزی اور عربی میں لکھ دیں ، کاغذ ملتے ہی انہوں نے یہ آواز بلند کلمۂ شہادت پڑھا اور گوانتا ناموبے قید خانے کے کیمپ ڈیلٹیا میں مشرف بہ اسلام ہوگئے ۔ہولڈ بروکس نے جن کا اسلامی نام مصطفیٰ ہے کئی مذہبی موضوعات پر قیدیوں سےگفتگو کی ، وہ کہتے ہیں کہ میں نے ان سے مختلف موضوعات ، مثلاً فادر ، کرسمس ،حضرت اسحاق اور حضرت ابراہیم (علیہا السلام)اور قربانی کے مسئلے پر بات چیت کیا ،حتیٰ کہ عیسی علیہ اسلام کے متعلق بھی گفتگو کی ، وہ میں راسخ العقیدہ قیدیوں حالات زندگی دیکھ کر کافی متاثر ہوا،بیشتر امریکیوں نے خدا کو یکسر فراموش کردیا تھا ،جب کہ اس مقام پر (گوانتا ناموبے کے قید خانے میں بھی ) محروسین نے عبادت کو حرزجاں بنا رکھا ہے، مصطفیٰ اب پچیس سال کے ہیں، انہوں نے شراب نوشی سے توبہ کرلی ہے، وہ یونیورسٹی کے قریب واقع ایک اسلامک سنٹر میں پنچ وقتہ نماز ادا کرتے ہیں ، مسجد کے امام صاحب نے جب نمازیوں سے ان کا یہ کہہ کر تعارف کرایا کہ انہوں نے گوانتا ناموبے میں اسلام قبول کیا ہے تو لوگ جوش وجذبات میں ان کی طرف مصافے کیلئے بڑھے ،امام مسجد عمر والسنی کہتے ہیں کہ میں تو سمجھتا تھا کہ گوانتا ناموبے میں وحشی اور درندے فوجی تعینات ہیں، میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ وہاں ہولڈ بروکس جیسے لوگ بھی ہیں۔ عبد الوہاب جن کا پرانا نام جوزف تھا نیویارک کی ایک یہودی کمپنی میں ملازم ہیں اپنی خودنوشت میں لکھتے ہیں کہ میں پختہ عقیدے کا کیتھولک عیسائی تھا ، عیسائی سوسائٹی سے مجھے بڑی عقیدت تھی، اس لئے میں عیسائیوں کی تمام سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا کرتا تھا، میں جس کمپنی میں ملازم تھا وہاں بعض مسلمان  بھی تھے، میں دیکھتا تھا کہ کمپنی کے مسلمان ملازم ملازمت کا وقت ختم ہونے کے بعد آپس میں مل بیٹھ کر گفتگو کرتے ہیں، جن نماز کا وقت آتا ہے تو اٹھ کر چلے جاتے ہیں ،رمضان کے روزے رکھتے ہیں، ان کا باہمی تعلق اور عقیدے میں پختگی دیکھ کر میں ان کے مذہب میں کشش محسوس کرنے لگا ، میں نے مسلمانوں سے قریبی تعلقات پیدا کئے اور اسلام کو سمجھنے کی کوشش کی، کچھ دنوں کے بعد اسلام نے میرے دل میں گھر کرلیا اور میں حلقہ بگوش اسلام ہوگیا۔اس طرح کے واقعات بے شمار ہیں اور سورج کی ہر نئی کرن کے ساتھ ان میں لگاتار اضافہ ہورہا ہے ، کچھ نومسلموں کی خود نوشت چھپ بھی رہی ہیں، زیادہ تر ایسے ہیں جو اسلام میں داخل ہوچکے ہیں لیکن انہوں نے اپنے تجربے کو اپنی ہی ذات تک محدود رکھا ہے، ہر شخص کی داستان جدا گانہ ہے، کسی کو اسلام کا عقیدہ توحید پسند ہے ،کسی کو عقیدہ رسالت اچھا لگتا ہے کوئی جنت دوزخ اور مابعد الموت زندگی کے تصور سے متاثر ہے، کسی کو اسلام کے نظام عبادت سے دلچسپی ہے، کوئی اسلام کی اخلاقی تعلیمات پر فریضۃ ہے، کسی کو اسلام کا نظریہ مساوات اپیل کرتا ہے ،کوئی اسلام کے عطا کردہ انسانی حقوق کے حوالے سے اسلام کے قریب ہواہے، اسلام میں ہزاروں خوبیاں ہیں اور ہر خوبی کسی نہ کسی کو پسند ہے، ہےکوئی ایسا مذہب جو بیک وقت اتنے محاسن کا مجموعہ ہو اور جسے اس کے ماننے والے انسانیت کے حوالے کرنے میں فخر محسوس کرتے ہوں؟

URL for this article:

https://newageislam.com/urdu-section/the-beauty-islam-that-attracts/d/1503 

 

Loading..

Loading..