New Age Islam
Mon Mar 27 2023, 11:19 AM

Urdu Section ( 29 Nov 2019, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Harb e Fujjar is the First Such War in Which the Holy Prophet (pbuh) Participated حرب فجار پہلی ایسی جنگ ہے جس میں حضور ﷺنے شرکت فرمائی

مولانا ندیم الواجدی

22نومبر’2019

یہ بات تو وہاں جاکر بالکل واضح طورپر نظر آتی ہے کہ یہ کوئی غیر معمولی درخت ہے، اس لئے کہ سیکڑوں مربع کلو میٹر دور تک نہ کسی درخت کا نام ونشان ہے، اورنہ وہاں تک پانی پہنچنے کا کوئی راستہ نظر آتاہے، اس لحاظ سے یہ بات کوئی بعید یا تعجب خیز نہیں ہےکہ اس درخت سے چونکہ حضور اقدس ﷺ کا ایک معجزہ ظاہر ہوا تھا اور اس کی بنا پر بحیرا راہب کو آپ ؐ میں خاتم الانبیاء کی علامتیں نظر آئیں تھیں، اس لئے اللہ تعالیٰ نے اسے معجزاتی طورپر باقی رکھا ہو، بالخصوص جبکہ اس درخت سے تقریباً سو میٹر کے فاصلے پر ایک عمارت کے کھنڈر بھی موجود ہیں جن کا رخ اسی درخت کی طرف ہے۔

جہاں تک اس کے محل وقوع کا تعلق ہے، سیرت کی کتابوں میں مذکور ہے کہ بحیرا سے ملاقات کا واقعہ شام کے شہر بصریٰ میں پیش آیا تھا اور حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ نے ابن عساکر سے نقل کیا ہے کہ بحیرا راہب ایک بستی میں رہتا تھا جس کا نام ’’کفّر‘‘ تھا اور وہ بستی بصریٰ شہر سے چھ میل دور تھی۔ (السیرۃ النبویۃ لابن کثیر، ج:۱، ص:۱۴۰) یہاں یہ واضح رہنا بھی مناسب ہے کہ اس زمانے میں ہر بستی کو ’’کفّر‘‘  (کاف اور فاء دونوں پر زَبر ہے) کہا جاتا تھا اور اس کے امتیاز کے لئے ’’کفر‘‘ کے ساتھ کوئی لفظ لگادیتے تھے، جیسے ’’کفر ناحوم‘‘ آج بھی شام اوراردن میں بہت سی بستیاں ’’کفر‘‘ سے موسوم ہیں۔

اگر یہ بات درست مانی جائے کہ بحیرا کی بستی بصریٰ سے چھ میل دور تھی تو بظاہر اس کا محل وقوع وہ نہیں ہونا چاہئے جو اس درخت کا ہے، کیونکہ بصریٰ شہر یہاں سے کافی فاصلے پر شام کی سرحد کے اندر واقع ہے، علاقے کے نقشے سے معلوم ہوتاہے کہ اس جگہ سے قریب ترین بستی ’’ازرق‘‘ ہے اور اس کے بعد شام (سیریا) کی سرحد آتی ہے، جس کے بعد پہلا شہر بصریٰ ہے، بصریٰ یہاں سے کتنا دور ہے؟ اس کی مجھے تحقیق نہیں ہوسکی، لیکن اتنی بات واضح ہے کہ یہ فاصلہ چھ میل سے زیادہ ہے، البتہ بصریٰ چونکہ اس وقت بہت بڑا شہر تھا، اس لئے یہ امکان ہے کہ ’’بصریٰ‘‘ کا لفظ صرف اس شہر کے لئے نہیں بلکہ اس کے مضافات میں ایک بڑے علاقے کے لئے بولا جاتاہو، جس میں ازرق اوریہ جگہ بھی شامل ہو۔

تاہم مندرجہ ذیل علامتیں اس دریافت کے حق میں جاتی ہیں:

(۱) یہ جگہ اُسی شاہراہ کے قریب واقع ہے جو اس زمانے میں تجارتی قافلے حجاز سے شام کے لئے استعمال کرتے تھے۔(۲) یہ شمال مشرق کی اُسی سمت میں واقع ہے، جو بصریٰ کی سمت ہے۔ (۳) اس کے اور بصریٰ کے درمیان کوئی بڑا شہر حائل نہیں ہے، ازرق ایک چھوٹی بستی ہے۔ (۴)علاقے کے لوگوں میں یہ بات شہرت یا تواتر کی حد تک معروف ہے کہ یہ درخت وہی ہے جس کے نیچے حضور اقدس ﷺتشریف فرما ہوئے تھے اور ان معاملات میں تسامع بھی مضبوط دلیل سمجھی جاتی ہے۔(۵) اس بے آب وگیاہ صحرا میں اس درخت کا قائم رہنا یقیناً ایک غیر معمولی واقعہ ہے۔(۶) اسی درخت کے قریب ایک پرانی خانقاہ کے کھنڈر اب تک موجود ہیں۔(۷) شہزادہ غازی کو قدیم وثائق میں اس جگہ کی جو نشاندہی ہوئی، وہ اس دریافت سے مطابقت رکھتی ہے۔ (۸) درخت کی دور تک پھیلی ہوئی جڑیں اس کی قدامت کی واضح علامت ہیں۔

ان وجوہ سے مکمل یقین تو نہیں ہوسکتا، لیکن یہ قوی احتمال ضرور قائم ہوتاہے کہ یہ وہی درخت ہوگا اور یہ قوی احتمال بھی ایک محبت کرنے والے کی آنکھیں ٹھنڈی کرنے کے لئے کافی ہے، چنانچہ ہم نے اس درخت کی زیارت کی سعادت حاصل کی، یہ ایک پستے کا درخت ہے، اور شہزادہ غازی نے بتایا کہ اس پر اب بھی پستہ آتا ہے اورمیں نے کھایا بھی ہے، درخت کی چھاؤں یوں بھی بڑی خوشگوار ہے، لیکن چشم تصور نے یہاں جس محبوب دل نواز (ﷺ) کو جلوۂ افروز دیکھا، اس نے اس چھاؤں میں وہ مٹھاس پیدا کردی تھی جو کسی اور سائے میںحاصل نہیں ہوسکتی۔ اس درخت اور اس کے ماحول میں کچھ دیر گزاری تو عصر کی نماز کا وقت ہوچکا تھا، چنانچہ اسی چھاؤں میں بفضلہ تعالیٰ نمازِ عصر ادا کرنے کی توفیق ہوئی، نماز اوردعا کے بعد ہم دوبارہ ہیلی کاپٹر میں سوار ہوکر عمان واپس آئے۔(سفر در سفر:ص۳۷۴) 

حَرْبِ فِجار: حرب فجار ایک مشہور اور تاریخی جنگ ہے جو قبل از نبوت دو قبیلوں کے درمیان لڑی گئی۔ دور جاہلیت میں جنگیں اور بھی لڑی گئی ہیں ، ان میں سے بعض انتہائی خوں ریز رہی ہیں مگر یہ جنگ سیرت نبویؐ کا اس لئے موضوع بنتی ہے کہ اس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بذات خود شرکت فرمائی ہے، اور یہ پہلی جنگ ہے جس میں آپؐ نے براہ راست حصہ لیا ہے ، اس لئے یہ جنگ ایک اہم واقعے کے طور پر تاریخ کے صفحات پر محفوظ رہ گئی۔

حرب فجار قبیلہ بنو کنانہ اور قبائل قیس کے درمیان بر پا ہوئی۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ دور جاہلیت میں عکاظ کے میدان میں ایک بڑا میلہ لگا کرتا تھا ، اس زمانے کے شعراء کے دواوین اس میلے کے واقعات سے بھرے پڑے ہیں ، یہ میلہ عربوں کی ثقافتی ، تہذیبی، تمدنی اور اقتصادی سرگرمیوں کا بہترین نظارہ پیش کرتا تھا، اس میں مشاعرے منعقد ہوتے، قصہ گوئی کی مجلسیں  سجائی جاتیں، گھڑ دوڑ ہوتی، تیر اندازی کے مقابلے ہوتے، کُشتیاں  ہوتیں،غرضیکہ اس دور میں رائج فنون سپاہ گری کے منتخب ماہرین اپنی اپنی مہارت اور قابلیت کے جوہر دکھلانے کیلئے اس میلے میں شرکت کرتے۔ بعض اوقات ان میلوں میں عربوں کی جنگ جو فطرت کے مظاہرے بھی دیکھنے میں آجاتے، معمولی معمولی بات پر تلواریں میان سے باہر نکل آتیں اور قتل و غارت گری کا سلسلہ چل پڑتا۔ کبھی کبھی یہ سلسلہ دنوں، ہفتوں اور مہینوں تک چلتا رہتا۔ایسے ہی کسی موقع پر قبیلۂ قریش کے ایک شخص نے جس کا نام براض بن قیس تھا قبیلہ ہوازن کے عروۃا لرحال نامی ایک شخص کو کسی معمولی بات پر قتل کردیا۔ قریش کو اس واقعہ کی خبر ہوئی تو وہ اس اندیشے سے کہ قبیلہ ہوازن کے لوگ اپنے مقتول کا بدلہ لینے کے لئے ضرور آئیں گے، مسلح ہوکر حرم کعبہ کی طرف بڑھے، قبیلہ ہوازن کے لوگ بھی نکل کر آگئے، دونوں قبیلوں کے جنگجوؤں کی مڈبھیڑ حرم کے قریب ہوئی،رات تک لڑائی کا سلسلہ جاری رہا ،قریش شکست کھا کر حرم میں گھس گئے۔ جس سے یہ سلسلہ کچھ دیر کیلئے رک گیا مگر کچھ دیر بعد پھر شروع ہوگیا،کئی روزتک وقفہ وقفہ سے جنگ جاری رہی،بعد میں دونوں طرف کے حلیف قبائل بھی میدان کار زارمیں کود پڑے۔ اس طرح یہ جنگ بنو کنانہ اور قبائل قیس کی لڑائی بن گئی۔ قتل کے اس واقعہ کو لیکر چھوٹی موٹی جھڑپیں تو چلتی ر ہتی تھیں اس دوران چار بڑے بڑے معرکے بھی ہوئے جن میں جانبین کو سخت جانی  اور مالی نقصان بھی اُٹھا نا پڑا۔آخری اور بڑا معرکہ حرب فجار کہلا تا ہے ، فجارفجور سے مشتق ہے جس کے لغوی معنی ہیں حد سے تجاوز کرنا، اور مرادی معنی ہیں گناہ،کیونکہ یہ لڑائی ماہ محرم میں لڑی گئی جو اشہر حرم میں سے ایک ہے اس لئے اس جنگ کو گناہ کے کام سے تعبیر کیا گیا،ان مہینوں میں عرب جنگ وجدال کو گنا ہ کا کام سمجھتے تھے اس لئے اگر کوئی جنگ شباب پر بھی ہوتی اور ان مہینوں میں سے کوئی مہینہ آجاتا تو جنگ خود بخود رُک جاتی تھی، لوگ اپنی کمین گاہوں میں واپس چلے جاتے تھے جب یہ مہینہ گزرجاتا تو دوبارہ تازہ دم ہو کر دونوں حریف ایک دوسرے کے مقابل پھر صف آرا ہوجاتے۔

حرب فجار پہلی ایسی جنگ ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شرکت فرمائی ، کہتے ہیں کہ یہ ایک زبردست اور فیصلہ کن جنگ تھی،قریش کے بعض سرداروں نے اپنے پاؤں میں بیڑیاں ڈال لی تھیں تاکہ میدان جنگ میں ثابت قدم رہیں اور فرار نہ ہو سکیں، اس جنگ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زبیر بن عبد المطلب بنوہاشم کی قیادت کررہے تھے ، تمام قبائل بنو کنا نہ کا سردار اور سپہ سالارحرب بن امیہ بن عبد شمس تھا ، آپ کے کئی چچا اور ان کے بیٹے اس جنگ میں شریک تھے، چچاؤں کے کہنے پر آپؐ بھی جنگ میں حصہ لینے کے لئے گئے؛لیکن آپؐ نے تلوار نہیں اُٹھائی اور نہ کسی پر تیر چلایا،البتہ آپ تیر اُٹھا اُٹھا کر اپنے چچاؤں کو دیتے رہے۔مؤرخین نے لکھا ہے کہ اس جنگ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شرکت سے یہ فائدہ ہوا کہ اس مرتبہ قریش غالب آگئے، جبکہ اس سے پہلے تین جنگوں میں قبیلہ ہوازن غالب رہا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک اس وقت کیا تھی۔  اس سلسلہ میں مختلف آراء سامنے آتی ہیں  جن کے مطابق آپﷺ  عمر مبارک  دس سے انیس سال کے درمیان تھی۔  اللہ نے اپنے نبی کی برکت سے بنو کنانہ کو فتح یا بی سے ہم کنار کیا  جس سے حجاز میں ان کا دبدبہ اور بھی بڑھ گیا۔    (الروض الانف:۱/۱۲۰،سیرت ابن ہشام: ۱/۱۴۰،  البدایہ والنہایہ:۲/۲۹۲،طبقات ابن سعد:۱/۱۲۶)

حِلْفُ الْفضُول:اس واقعہ کے پانچ سال بعد حلف الفضول کا قصہ پیش آیا، اس وقت آپؐ کی عمر مبارک بیس سال تھی،ذی قعدہ کا مہینہ تھا۔یہ ایک معاہدہ تھا جو اعیان قریش نے ایک دوسرے کے ساتھ کیا۔ اس معاہدے کا ایک مقصد مظلوموں کی مدد اور ان کی دست گیری تھی، اس کی تفصیل یہ ہے کہ یمن کے قبیلہ زبید کا ایک شخص اپنا سامان تجارت لے کر مکہ مکرمہ آیا  عاص بن وائل نے اس سے یہ سامان خرید لیا ،لیکن اس کے پیسے نہیں دیئے۔ زبیدی اپنی فریا د لے کر سرداران قریش کے پاس گیا مگر کسی نے بھی اس کی مدد نہیں کی۔ چونکہ عاص بن وائل ایک بااثر شخص تھا، زبیدی ہر طرف سے مایوس اور ناکام ہو کر ایک روز صبح سویرے خانۂ کعبہ کے قریب جبل ابو قبیس پر چڑھ گیا اور زور زور سے چلانے لگا۔ وہ لوگوں سے مدد مانگ رہا تھا اور اپنی غریب الوطنی کا حوالہ دے کر یہ مطالبہ کر رہاتھا کہ قریش کے بااثر اور ذمہ دار لوگ عاص بن وائل سے اس کا حق دلا ئیں۔ اس وقت وہاں بہت سے افراد جمع تھے،یہ فریاد سن کر زبیر بن عبد المطلب کھڑے ہوئے اور انہوں نے لوگوں سے کہا کہ اجنبی مسافر کی مدد ضرور کی جائے۔ زبیر کی تحریک پر بنو ہاشم ، بنو زہرۃ ، بنو تمیم بن مرہ ، بنو مخزوم وغیرہ کے سرکردہ حضرات عبد اللہ بن جدعان کے گھر جمع ہوئے ۔ ا س نے تمام شرکائے مجلس کی ضیافت کا زبردست اہتمام کیا ،اس مجلس میں یہ طے کیا گیا کہ ہر مظلوم کی مدد کی جائے خواہ وہ اپنا ہو یا غیر ہو،ہم وطن ہو یا دوسرے ملک کا ہو ، اگر کسی پر ظلم ہورہا ہو یا اس کی حق تلفی کی جارہی ہو تو سب کو مل کر اس کی مدد کرنی چاہئے اور اسے اس کا حق دلانا چاہئے۔ شرکائے مجلس میں سے تین افراد نے ایک معاہدہ مرتب کیا ، ان تین افراد کے نام یہ ہیں:فضل بن فضالہ، فضل بن وِداعہ اور فضل بن حارث، اتفاق سے ان تینوں کا نام فضل تھا، جس کی جمع فضول آتی ہے ، اسی لئے اس معاہدے کو حلف الفضول کا نام دیا گیا۔(جاری)

22نومبر’2019، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/harb-e-fujjar-first-such/d/120395

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism



Loading..

Loading..