New Age Islam
Sun Jan 19 2025, 03:24 PM

Urdu Section ( 20 Aug 2020, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Growing Tendency to Commit Suicide خود کشی کا بڑھتا رجحان

مولانا ندیم الواجدی

خود کشی بھی اس دور کے سماجی مسائل میں سرفہرست ہے،آج ہندوستان ہی میں نہیں بلکہ پوری دنیا میں لوگ خود کشی کررہے ہیں، اور جان جیسی بیش قیمت چیز کو خود اپنے ہاتھوں ضائع کررہے ہیں، اگر ہم ہندوستان کی بات کریں تو یہ مسئلہ یہاں کچھ زیادہ ہی سنگین شکل اختیار کرچکا ہے، ابھی تک ارباب حل و عقد اس سنگینی کی طرف متوجہ نہیں ہوسکے،آنے والے وقت میں یہ مسئلہ پوری شدت کے ساتھ ابھرے گا، اور اس وقت حکومت کو کوئی نہ کوئی سخت قدم اٹھاناہی پڑے گا،ادائیگی قرض کی کوئی سبیل نہ نکل پانے کی صورت میں خود کشی کرنے والوں کی بڑھتی ہوئی تعداد نے حکومت کے ضمیر جو جھنجھوڑا تو ہے،اور مہاراشٹر کے دوربھ علاقے میں خود کشی کرنے والے کسانوں کے قرضوں کی ادائیگی کے لیے حکومت نے کچھ رقم مختص بھی کی ہے، لیکن یہ رقم متاثرین کو مل رہی یا نہیں اس کے بارے میں یقین کے ساتھ کچھ نہیں کہا جاسکتا یو ں بھی یہاں کا نوکر شاہی نظام سرکاری رقوم کو صحیح جگہ تک نہ پہنچنے دینے میں ماہر سمجھاجاتا ہے،اس لیے توقع یہ ہے کہ ابھی تک حکومت اپنے اعلان کے مطابق مقروض اور مایوس کاشت کاروں کی کوئی مدد نہیں کر پائی ہے۔ہندوستان میں خود کشی کے اسباب و عوامل اور محرکات دوسرے ملکوں کے مقابلے میں کچھ زیادہ ہی ہیں، ان میں سے بعض اسباب تو ایسے ہیں جو صرف اسی ملک میں پائے جاتے ہیں، جب تک خود کشی کے صحیح اسباب کاپتہ لگا کر ان کاتدارک نہیں کیا جائے گا اور مرض کو جڑ سے ختم کرنے کی کوشش نہیں کی جائے گی اس وقت تک خود کشی کے واقعات پر قابو پانابے حد مشکل ہے، ہندوستان میں ابھی تک نیا اقتصادی نظام پوری طرح متعارف نہیں ہوسکا ہے، آج بھی قصبات او ردیہات میں غریب لوگ اپنی معاشی مجبوریوں سے چلا آرہا ہے او راس ملک کی رگوں میں خون بن کر دوڑ رہا ہے، ایک شخص آج بھی اپنی بیٹی کے ہاتھ پیلے کرنے کے لیے، یا اپنے بیمار ماں باپ کا علاج کرانے کے لیے، یا اپنی موروثی زمین پر سر چھپانے کے لیے گھر بنوانے کی خاطر سود خوروں سے اونچی شرح سود پر قرض لینے کے لیے مجبور ہے، یہ شرح سود اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ بیٹی خود صاحب اولاد ہوجاتی ہے، ماں باپ کی ہڈیوں کو راکھ ہوئے سالوں گزر جاتے ہیں اور سرچھپانے کے لیے بنایا گیا کچا پکا گھر تیز وتند ہوا یا طوفانی بارش کی زد میں آکر زمین بوس ہوجاتاہے، لیکن قرض لینے والے کا قرض مع سود اپنی نسلوں کے لیے بہ طور وراثت چھوڑ دیتا ہے،اب حکومت نے کم شرح سود والے گرامین بینک کھولے ہیں اور ان سے قرض لینے کی ترغیب دی جارہی ہے، لوگ قرضے حاصل بھی کررہے ہیں اوّل تو ان بینکوں سے ہر ضرورت مند قرض نہیں لے پاتا، پھر اس کی رسمی کارروائی اتنی طول طویل ہوتی ہے کہ ضرورت مند گھبراکر ارادہ ہی ملتوی کردیتا ہے، اور اگر وہ کسی طرح قرض منظور بھی کرالیتا ہے تو اسے رشوتوں میں اتنی رقم متعلقہ افسروں کو دینی پڑتی ہے کہ قرض سے حاصل ہونے والی رقم کا ایک معقول حصہ اس کے ہاتھ سے نکل جاتا ہے،پھر یہ قرض عموماً ذاتی ضرورتوں سے زیادہ صنعت و زراعت کے لیے ملتا ہے،بہت سے لوگ قرض تو لیتے ہیں لیکن جس مقصد کے لیے وہ قرض لیتے ہیں اس میں ناکام رہ جاتے ہیں،نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ قرض کی ادائیگی نہیں کرپاتے، ہمارے ملک میں خود کشی کرنے والوں کی اچھی خاصی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو کسی مہاجن یا کسی بینک سے لیا ہوا قرض ادا نہیں کرپاتے او رمایوس ہوکر خود کشی کا راستہ اپنالیتے ہیں۔

ہندوستان میں ذات پات کا نظام ہر چیز پر حاوی ہے،یہی وجہ ہے اگر دو مختلف ذاتوں اور برادریوں کے لڑکے لڑکوں میں عشق ہوجائے اور وہ شادی کر کے ایک ساتھ زندگی گزارنا چاہیں تو ان کے والدین،سرپرست،گاؤں کے مکھیا اور سماج کے کرتا دھرتا انہیں اس کی اجازت نہیں دیتے، اگر ان کے پاس وسائل ہوتے ہیں یا ہمت ہوتی ہے تو وہ گھر سے فرار ہوکر رشتہ ازدواج میں منسلک ہوجاتے ہیں، ورنہ مایوس ہوکر زہر کھا لیتے ہیں، یا ریل کے نیچے آکر اپنی زندگی ختم کر لیتے ہیں،یا گلے میں پھانسی کا پھندا ڈال کر چھت کے پنکھے میں یا کسی درخت کی شاخ پرجھول جاتے ہیں۔

خود کشی کے من جملہ اسباب میں سے ایک بڑا سبب گھریلو مسائل بھی ہیں عام طور پر عورتیں جہیز کے نام پر ستائی جارہی ہیں، اور ان کے والد ین کا استحصال کیا جارہاہے،بعض اوقات کم جہیز لانے والی خواتین کو زندہ جلا دیا جاتاہے، او رکبھی وہ اس قدر مجبور ہورجاتی ہیں کہ ان کے سامنے خودکشی کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں رہتا،جہیز کے نام پر خواتین کو ہراساں کرنے کی کوشش ہندوستانی تہذیب کی پیشانی پر بدنما داغ بن چکا ہے،اخبارات کے صفحے کے صفحے اذیت رسانی کی خبروں سے بھرے رہتے ہیں، شرح خواندگی میں اضافے کے باوجود ابھی تک ہندوستانی سماج کی تاریکیوں میں ڈوبا ہوا ہے۔

تعلیم کا معیار بڑھ رہا ہے،اور اس سے زیادہ زندگی کامعیار بلند ترہوتا جارہا ہے،خاندان کو ابھرنے کے لیے پیسے کی ضرورت ہے،جو کسی اچھی ملازمت یا وسیع تجارت کے ذریعے حاصل ہوسکتا ہے، زندگی کی دوڑ میں برپا اس مسابقت نے بچوں سے ان کا بچپن چھین لیا ہے،والدین ان سے تعلیمی میدان میں اعلا کار کردگی کی توقع کرتے ہیں، بسا اوقات بچے ان کی توقعات پرپورانہیں اترپاتے ان میں سے کچھ بچے حالات سے سمجھوتہ کرلیتے ہیں او ر کچھ کم حوصلہ بچے ہمت ہار بیٹھتے ہیں اوراپنی زندگی کاخاتمہ کرلیتے ہیں، خود کشی کا رجحان تازہ ہے اور تیزی کے ساتھ بڑھ رہا ہے۔ ان کے علاوہ بھی کچھ ایسے اسباب ہیں جو آدمی کو خود کشی کی طرف لے جاتے ہیں۔ معاشی اور اقتصادی ترقی کی وجہ سے آگرچہ خوش حالی بڑھی ہے مگر ملک کا ہر شہری خوش حال ہوگیا ہو ایسا نہیں ہے،آج بھی ایک بڑی آبادی معاشی ترقی کے فوائد و ثمرات سے اسی طرح محروم ہیں، یامتوسط طبقے میں شمار کیے جاتے ہیں وہ ترقی کی چکا چوند میں اپنا مستقبل تلاش کرتے ہیں او رجب انہیں مایوسی ہاتھ لگتی ہے تو بہت کم ہمت لوگ حالات سے نبرد آزما ہونے کے بہ جائے موت کی آغوش میں چلے جانے کو ترجیح دیتے ہیں، انسان کو گھریلو الجھنیں بڑھ رہی ہیں،اس میں امیر و غریب کی بھی تخصیص نہیں ہے، امیر کی پریشانیاں دوسری نوعیت کی ہیں، غریب کی مشکلات کسی اور طرح کی ہیں خود کشی کے جو واقعات پیش آتے ہیں ان میں دس فیصد کے پیچھے گھریلو مسائل ہوتے ہیں، اور اب تو لوگوں نے اظہار عقیدت و محبت کے لیے بھی خود کشی کرنی شروع کردی ہے، اب ایک نیا رجحان یہ پیدا ہوا ہے کہ بعض لوگ سرکاری حکام کی بددیانتیوں کے خلاف بہ طور احتجاج اپنے آپ کو آگ کے حوالے کررہے ہیں بہ حیثیت مجموعی ہمارے ملک میں خود کشی کے ذریعے مرنے والوں کی سالانہ تعداد سات لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے، اس میں مرد بھی ہیں، عورتیں بھی ہیں او ربچے بھی، یہ تعداد لگاتار بڑھ رہی ہے، اور آنے والے سالوں میں اس رجحان کے ختم ہونے کے کوئی آثار نہیں ہیں۔ ان حالات میں ضروری ہے کہ خود کشی کے پیچھے موجود حقیقی سبب کا پتہ لگایا جائے اور اس کے تدارک کی کوشش کی جائے، جہاں تک اخبارات وغیرہ کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے خودکشی کے واقعات مسلمانوں سے زیادہ ہم وطنوں میں پائے جارہے ہیں،(یہاں خود کش حملوں کی بات رہنے دیجئے، یہ موضوع ایک الگ بحث کا متقاضی ہے) ایسا لگتا ہے کہ ہمارے وطن بھائی انسانی جان کی قدر وقیمت سے صحیح طور پر واقف نہیں ہیں، انہیں یہ بھی پتہ نہیں کہ زندگی خدا کی دی ہوئی امانت ہے، ہمیں اسے ختم کرنے کا کوئی حق نہیں، انہیں یہ معلوم نہیں کہ مرنے کے بعد بھی ایک زندگی ہے جو دائمی او رابدی ہے،جہاں انسان کو اس کے کئے کا پھل ملے گا، وہ یہ بھی نہیں جانتے کہ مایوسی انسان کی بہت بڑی کمزوری ہے،صحیح معنی میں انسان وہی ہے جو بلند حوصلہ رکھتا ہو،مصائب اور مشکلات کامقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو،او رکسی بھی حالت میں مایوس نہ ہوتاہو،حالات کتنے ہی مخالف کیوں نہ ہوں صبر و تحمل کادامن ہاتھ سے نہ چھوڑتا ہو،ایسا لگتا ہے کہ اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جو انسان کو عزم و ہمت اور صبر و برداشت کے ساتھ جینے کاسلیقہ سکھاتا ہے،ضرورت ہے کہ ہم اسلامی تعلیمات کے اس پہلو کو اپنے ہم وطن بھائیوں سے روشناس کرائیں۔

اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیداکیا اور اسے شرف و فضیلت عطا فرمائی،جیسا کہ قرآن کریم میں ہے: او رہم نے عزت دی ہے آدم کی اولاد کو اور سواری دی ان کو جنگل اور دریا میں اور روزی دی ان کو پاکیزہ چیزوں سے، اور فضیلت دی ان میں بہتوں پر جن کو ہم نے پیدا کیا“ (بنی اسرائیل:70)۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اکثر مخلوقات پر انسان کی فضیلت کاذکر فرمایا ہے یہ فضیلت ان خصوصیات کی وجہ سے ہے جو صرف انسان میں پائی جاتی ہیں اس کے علاوہ دوسری مخلوقات میں نہیں پائی جاتیں،مثلاً یہ کہ اسے حسن صورت، اعتدال جسم اعتدال قد و قامت او راعتدال مزاج عطا کیا گیا، سب سے بڑھ کر یہ کہ اسے عقل وشعور بخشا گیا، جس کے ذریعے وہ کائنات میں پھیلی ہوئی دوسری مخلوقات سے اپنے کام نکالتا ہے،بعض مخلوقات کو وہ اپنی سواری کے لیے استعمال کرتاہے، بعض مخلوقات کے ذریعہ وہ اپنی غذا او رلباس تیار کرتا ہے،اسے عقل وشعور کے ساتھ نطق اور گویائی بھی عطا کی تاکہ اپنا مافی الضمیر دوسروں تک پہنچا سکے، اور دوسروں کے خیالات آسانی کے ساتھ سمجھ سکے،یہ وہ امتیاز ات و خصوصیات ہیں جن میں انسان کا کوئی شریک و سہیم نہیں ہے، کیا یہ دانش مندی ہوگی کہ اس قدر بیش قیمت جسم اور اتنی خصوصیات کا حامل وجود ختم کرلیا جائے،او راسے موت کے حوالے کردیا جائے، یہ صحیح ہے کہ موت ایک اٹل حقیقت ہے، اور ایک دن ہر زندہ وجود کو موت کی آغوش میں جانا ہے،لیکن یہ اختیار صرف خدا تعالیٰ کو ہے، اسی نے پیدا کیاہے اور وہی موت دے گا،انسان کو صرف جینے کااحتیار دیا گیا ہے، موت کا اختیار نہیں دیا گیا، یہی وجہ ہے کہ اسلام نے خودکشی کو حرام قرار دیا ہے اور علمائے کرام نے اس کی حرمت کی وجہ سے اسے کبیرہ گناہوں میں شمار کیا ہے،کبیرہ گناہ کی مختلف تعریفیں کی گئی ہیں، ان میں سب سے زیادہ جامع او رمکمل تعریف یہ ہے کہ جس گناہ پر کوئی وعید، یاحد، یالعنت بیا ن کی گئی ہو، یاوہ گناہ کسی ایسے گناہ کے برابر ہو جس پر کوئی وعید یا لعنت آئی ہو، حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ جس گناہ پر اللہ تعالیٰ نے دوزخ کے عذاب کی دھمکی دی ہو یا اپنے غضب او رلعنت کا اظہار فرمایا ہو کبیرہ ہے،علامہ ابن قیم کا خیال ہے کہ جو گناہ بہ ذات خود ممنوع ہوں یا کبیرہ ہیں اور جن سے اس لیے منع کیا گیا ہو کہ وہ کسی برائی کا سبب بنتے ہیں وہ صغیرہ ہیں،بہرحال کبیرہ گناہوں پر بڑی وعیدیں وارد ہیں، او ران کے مرتکبین کو سخت ترین سزاؤں کا مستحق قرار دیا گیا ہے۔ ویسے تو اللہ تعالیٰ قادر مطلق ہے وہ چاہے تو بڑا سے بڑا گناہ اپنے فضل وکرم سے معاف کرسکتاہے، او رچاہے تو چھوٹے سے چھوٹے گناہ پر گرفت کرسکتا ہے،لیکن قرآن و سنت سے کبائر کے سلسلے میں جو کچھ معلوم ہوتاہے وہ یہ کہ کبیرہ گناہ یا تو کفارات (حدودو قصاص) کے ذریعہ معاف ہوتے ہیں یا توبہ کے ذریعہ، اس روشنی میں دیکھا جائے تو خود کشی ایسا گناہ ہے کہ اس کے مرتکب پرکوئی حد وغیرہ جاری نہیں ہوسکتی او رنہ وہ توبہ کرسکتا ہے،کیونکہ خود کشی کرنے کے بعد وہ اس قابل ہی نہیں رہتا کہ اس پر تعزیری کاروائی کی جاسکے یا وہ توبہ کر کے اپنا گناہ معاف کراسکے۔ قرآن کریم کی مندرجہ ذیل آیتوں سے خودکشی کی حرمت پر روشنی پڑتی ہے ایک جگہ ارشاد فرمایا گیا: ”اور تم اپنے آپ کو قتل مت کرو، بلا شبہ اللہ تعالیٰ تم پر مہربان ہیں، اور جو شخص ظلم و جور سے ایساکرے گا تو ہم اسے ضرور آگ میں ڈالیں گے“۔(النساء:29۔30)۔

اس آیت میں باتفاق مفسرین خود کشی بھی داخل ہے،اسلام نے ہر طرح کے خوں ریزی کو حرام قرار دیا ہے، چاہے خود کو قتل کرنا ہو یا دوسرے کو قتل کرنا ہو، اور اس کی یہ سزا بھی متعین فرمادی ہے کہ ہم اسے آخرت میں دوزخ کے عذاب کی دردناک سزا دیں گے۔ ایک اور آیت میں فرمایا: وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ (البقرہ:195)”اور اپنے آپ کو اپنے ہاتھوں سے ہلاکت میں مٹ ڈالو“۔ اس آیت کو مفسرین نے عام معنی پر محمول کیاہے یعنی وہ تمام اختیاری صورتیں ناجائز ہیں جو تباہی،بربادی او رہلاکت کی طرف پہنچا نے والی ہوں،فضول خرچی ہتھیار کے بغیر میدان جہاد میں کودپڑنا،دریا میں ڈوب کر، آگ لگاکر، زہر کھا کر، چاقو مار کر یا دوسرے طریقوں سے خود کو ہلاک کرنایعنی خودکشی کرنا،جن علاقوں میں وبا ئی امراض پھیل رہے ہوں وہاں جانا وغیرہ،قرآن کریم میں خود کو ہلاک کرنے کی قطعی طور پر ممانعت ہے، اس ممانعت حدیث سے بھی ثبوت ملتا ہے، اس سے پہلے جو آیت ذکر کی گئی ہے صحابہ کرام اس سے یہی مفہوم مراد لیتے تھے،چنانچہ حضرت عمر و بن العاصؓ فرماتے ہیں کہ غزوہئ السلاسل کے دوران ایک نہایت سردرات میں مجھے غسل کی ضرورت پیش آگئی،ٹھنڈک کی وجہ سے نہانے کی ہمت نہ ہوئی،مجھے ڈر ہوا کہ اگر میں نے غسل کیا تو میں سردی کی شدت سے مرجاؤں گا،یہ سوچ کر میں نے تیمم کرلیا اور رفقاء کے ساتھ صبح کی نماز میں شریک ہوگیا، بعد میں میں نے یہ واقعہ سرکارد وعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدت میں عرض کیا، آپ نے فرمایا کہ تم نے ناپاکی کی حالت میں نماز پڑ ھ لیا، میں نے عرض کیا کے غسل کے بجائے میں نے تیمم کرلیا تھا کیونکہ میں نے اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد سنا ہے لا تقتلو ا انفسکم یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے اور کچھ نہ فرمایا، حافظ شمس الدین ذہبیؒ نے کتاب الکبائر میں لکھا ہے کہ اس واقعے سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمرو بن العاصؓ نے لفظ ”قتل نفس“ سے خود کشی مرادلی ہے او رآپ نے اس پرکوئی نکیر بھی نہیں فرمائی،اس کتاب میں علامہ ذہبی نے خودکشی کی مذمت میں متعدد روایات نقل کی ہیں جن میں سے چندیہاں درج ہیں:

حضرت جندب بن عبداللہؓ روایت کرتے ہیں کہ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نبی اسرائیل میں ایک شخص کے (ہاتھ میں) کوئی زخم ہوگیا تھا وہ شخص اس کی تکلیف سے اس قدر پریشان ہوا کہ چھری لے کر اس نے اپنا وہ ہاتھ کاٹ ڈالا جس میں زخم تھا، کٹے ہوئے ہاتھ سے اس قدر خون بہا کہ وہ شخص مرگیا، اللہ تعالیٰ نے فرمایا! میرے بندے نے اپنی جان کے سلسلے میں جلدی کی(اب) اس پر جنت حرا م ہے ایک حدیث میں ہے کہ کسی شخص نے زخموں کی شدت سے بے چین ہوکر خود کو تلوار سے ہلاک کرلیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد رمایا کہ وہ شخص جہنمی ہے، ایک حدیث میں ہے کہ مومن پر لعنت کرنا ایساہے جیسے اسے قتل کردیا جائے،اگر کوئی شخص خود کشی کرے گا تو جس چیز سے اس نے خود کشی کی ہے اسی چیز سے اسے قیامت کے دن عذاب دیا جائے گا،اس سلسلے میں کچھ تفصیل دوسری حدیث میں ہے فرمایا! جس شخص نے اپنے آپ کو تلوار سے ہلاک کیا اسے دوزخ میں تلوار دی جائے گی کہ وہ اسے اپنے پیٹ پر مارتا رہے،جس شخص نے زہر کھا کر خود کشی کیاسے جہنم میں زہردیا جائے گا کہ وہ اسے کھاتا رہے او رجس شخص نے پہاڑ سے کود کر خود کو ہلاک کیا سے جہنم میں پہاڑ کے اوپر سے گرایا جاتارہے گا۔ آدمی خود کشی کیوں کرتاہے؟ اس کا جواب صرف یہ ہے کہ وہ حالات کے سامنے حوصلہ ہاردیتا ہے،او رمشکلات ومصائب سے گھبراکر راہ فرار اختیار کرنے لگتاہے،اسلام نے ایک طرف خود کشی کی مذمت کر کے لوگوں یہ بتلایا کہ زندگی جینے کے لیے ہوتی ہے،ختم کرنے یا ضائع کرنے کے لیے نہیں ہوتی، دوسری طرف اس دنیا کو دارالامتحان اور دارالعمل قرار دیا گیاہے،دارلامتحان اس معنی میں کہ ہر انسان آزمائشوں کی کٹھن گھڑی سے گذرتا ہے،اگر اس مرحلے سے کامیابی کے ساتھ گزرگیا تو اس نے اپنی زندگی بامراد بنالی ورنہ ناکام رہا، دارالعمل اس معنی میں کہ یہ زندگی صرف عمل کے لیے ہے، دارالجزا ء یا دارالمکافات وہ دوسرا جہاں ہے جو مرنے کے بعد ہمارے سامنے آنے والا ہے، اچھے اعمال ہوں گے اچھا صلہ ملے گا، اور برے اعمال ہوں گے تو برے نتائج سامنے آئیں گے،اچھے اعمال کے لیے ضروری ہے کہ آدمی اللہ تعالیٰ کی بخشی ہوئی زندگی اس کے حکم کے مطابق اور اس کی رضا کے لیے جیئے۔ جہا ں تک مصائب او رمشکلات کا تعلق ہے  اللہ تعالیٰ اپنے بعض بندوں کو اپنی حکمت کے تحت مصبیتو ں اور پریشانیوں میں مبتلا کرتاہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ آدمی گھبرا جائے،مایوس ہوجائے، اور زندگی سے راہ فرار اختیار کرکے موت کی آغوش میں چلا جائے۔ قرآن کریم نے مصائب کے وقت صبر کی تلقین کی ہے،صبر ایک ایسی حقیقت ہے جس کے ذریعے انسان بڑی سے بڑی مصیبت کو زیر کرسکتا ہے او ربڑی سے بڑی مشکل پرقابو پاسکتا ہے۔ ارشاد فرمایا: ”ہم ضرور تمہاری آزمائش کریں گے کسی قدر خوف میں، اور مال و جان اور پھلو ں کے نقصان میں مبتلا کرکے، آپ خوش خبری سنا دیجئے ایسے صبر کرنے والوں کو کہ جب ان پرکوئی مصیبت پڑتی ہے تو وہ کہتے ہیں کہ ہم اللہ کے ہیں اور اللہ کی طرف ہمیں واپس جانا ہے“(البقرہ:155۔156)۔ قرآن کریم میں نوے جگہوں پر صبر کا ذکر آیا ہے او رسولہ طریقوس سے اس کی تلقین کی گئی ہے، جس سے اس کی اہمیت کو منکشف کرتی ہے، ایک طرف تو اللہ تعالیٰ یہ فرماتے ہیں کہ ہم اپنے بندوں کو مختلف طریقوں سے آزمائش میں مبتلا کریں گے، کسی کو دہشت اور خوف میں مبتلا کریں گے،کسی کو جانی او رمالی نقصانات کی آزمائش سے گزاریں گے،کسی کو کھیتوں او رباغوں میں پیداوار کی کمی کی مصیبت کا سامنا کرنا پڑے گا،دوسری طرف یہ ارشاد ہے کہ کامیاب وہی ہوں گے جو صبر کریں گے، ہر مصبیت کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے سمجھ کر راضی نہ رضا رہیں گے،ایسے لوگوں کے لیے رحمتیں ہیں، ہدایت او رمغفرت ہے، صبر کو کامیابی کی کنجی قرار دیا گیا ہے، اس کے بغیر آدمی کسی مقصد میں کامیاب نہیں ہوسکتا، صبر سے مصیبت ہلکی پڑجاتی ہے،صبر کے واجب ہونے پر اجماع امت ہے، ایک حدیث میں صبر کو نصف ایمان قرار دیا گیا ہے۔ بخاری شریف کی ایک حدیث ہے:

سئل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عن الایمان فقال الصبر والسماحۃ(مسندابی یعلی:3 /380،رقم الحدیث:1854): ”سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا گیا کہ ایمان کیا ہے، فرمایا صبر اور سخاوت“۔

اس حدیث کو جو امع الکلم میں سے قرار دیا گیا ہے، کیونکہ اس میں ایمان کی حقیقت بہت ہی جامعیت اور اختصار کے ساتھ واضح کی گئی ہے، آدمی کے نفس پر دوہی چیزوں کی پابندی ہوسکتی ہے، ایک تو یہ کہ جو کچھ اس سے مانگا جائے اس کو پیش کردے اور جس چیز سے منع کیا جائے اس سے رک جائے۔بہر حال صبر ایک ایسا ہتھیار ہے جس کے ذریعہ آدمی زندگی میں پیش آنے والی بڑی سے بڑی مصیبت کا آسانی کے ساتھ مقابلہ کرسکتا ہے، علماء نے لکھا ہے کہ مصائب و شدائد کے مقابلے صبر کرنے میں تین چیزیں معاون ثابت ہوسکتی ہیں، ایک یہ کہ آدمی کو آخرت کی بہتر جزاء کا یقین ہو، یہ یقین جتنابڑھے گا اسی قدر مصیبتوں کو برداشت کرنا آسان ہوجائے گا، دوسرے یہ کہ اس کے اندر اتنا حوصلہ ہوناچاہئے کہ وہ مصائب کے خاتمے اورراحت و کشاد گی حاصل ہوگی، تیسرے یہ کہ اس کے دل میں اللہ تعالیٰ کی بے شمار نعمتوں کا استحضار ہو،اور وہ سوچے کہ اگرکچھ مصائب ا س تقدیر میں ہیں تو کیا ہوا بے شمار نعمتیں بھی تو میسر ہیں،یہ بھی ہوسکتا تھا کہ مصیبتیں ہی مصیبتیں ہوتیں راحتوں کا نام ونشان بھی نہ ہوتا،اگر آدمی صبر کرے او ریہ تدبیر یں اختیار کرے تو امید ہی نہیں یقین ہے کہ وہ خودکشی کا راستہ اپنانے کے بجائے زندگی کے حسن و جمال سے لطف اندوز ہونا زیادہ پسند کرے گا۔

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/growing-tendency-commit-suicide-/d/122668


New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..