مولانا محب اللہ خان
22 جولائی ، 2016
اور اس طرح مکان میں آسانی سے داخل ہو جاتا ہوں پھر سب نے مل کر بادشاہ سے دریافت کیا کہ اے شخص تیرے اندر کیا ہنر ہے جس سے چوری کرنے میں مدد مل سکے نو وارد چور (بادشاہ) نے کہا کہ میری داڑھی میں ایسی خاصیت ہے کہ پھانسی کے مجرموں کو جب جلادوں کے حوالے کر دیا جاتا ہے اس وقت اگر میری داڑھی ہل جائے تو سب کی رہائی ہو جاتی ہے یہ سنتے ہی چوروں نے کہا کہ اے ہمارے قطب! اے ہمارے سردار! آپ یقیناًبڑا اونچا شان رکھتے ہیں اگر ہم پکڑے جائیں تو آپ کے داڑھی کی برکت سے ہم چھوٹ جائیں گے کیونکہ اوروں کے پاس تو صرف ایسے ہنر تھے جن سے چوری کی تکمیل ہوتی تھی لیکن سزا کے خطرے سے بچانے کا ہنر کسی کے پاس نہ تھا یہی کسر باقی تھی جو آپ کی وجہ سے پوری ہوئی۔
بس اب کام میں لگ جاؤ اس مشورہ کے بعد سب نے محمود غزنوی کے محل کی طرف رخ کیا اور بادشاہ خود بھی ان کے ہمراہ ہو گیا راستہ میں کتا بھونکا تو کتے کی آواز سمجھنے والے نے کہا کہ کتے نے کہا کہ تمہارے ساتھ بادشاہ بھی ہے لیکن اس کی بات کی طرف چوروں نے دھیان نہیں دیا کیونکہ لالچ ہنر کو پوشیدہ کرتا ہے ایک نے خاک سونگھی اور بتا دیا کہ شاہی خزانہ یہاں ہے ایک نے کمند پھینکی اور شاہی محل میں داخل ہوا نقب زن نے نقب لگا دی اور آپس میں خزانہ تقسیم کر لیا بادشاہ نے ہر ایک کا حلیہ پہچان لیا اور ہر ایک کے قیام گاہ کے راستوں کو محفوظ کر لیا اور اپنے آپ کو ان سے مخفی کرکے محل شاہی کی طرف واپس ہو گیا۔
بادشاہ نے دن کو عدالت میں شب کا تمام ماجرہ سنا دیا اور سپاہیوں کو حکم دیا کہ سب کو گرفتار کر لو اور سزائے قتل سنا دو جب وہ سب عدالت میں حاضر ہوئے تو تحت شاہی کے سامنے ہر ایک خوف سے کانپنے لگا لیکن وہ چور جس کے اندر یہ خاصیت تھی جس کو رات میں دیکھ لیتا دن کو بھی اسے بلا شبہ پہچان لیتا وہ مطمئن تھا اس پر مصنوعی خوف کے ساتھ حقیقی امید کے آثار نمایاں تھے کہ حسب وعدہ بادشاہ کی داڑھی ہل جائے گی تو خلاصی ہو جائے گی مقدمے کے آخر میں بادشاہ نے حکم نافذ کر دیا کہ ان سب کو تحتہ دار پر لٹکا دو اور چونکہ اس واقعہ میں سلطان خود شاہد ہے اس لئے کسی اور کی گواہی ضروری نہیں۔
یہ سنتے ہی اس شخص نے دل کو سنبھال کر ادب سے عرض کیا کہ اگر اجازت ہو تو ایک بات عرض کرنا چاہتا ہوں اجازت حاصل کرکے اس نے کہا حضور! ہم میں سے ہر ایک نے اپنے مجرمانہ ہنر کی تکمیل کر دی اب اپنے شاہانہ ہنر کا ظہور حسب وعدہ فرما دیا جائے میں نے آپ کو پہچان لیا ہے آپ نے وعدہ فرمایاتھا کہ میری داڑھی میں ایسی خاصیت ہے کہ اگر کرم سے ہل جائے تو مجرم خلاصی پا جائے لہذا اے بادشاہ اپنی داڑھی کو بھرپور رحم و کرم سے حسب وعدہ حرکت دیجئے تاکہ ہم نجات پا جائیں ہمارے ہنروں نے تو ہمیں تحتہ دار تک پہنچا دیا اب صرف آپ ہی کا ہنر ہمیں اس عقوبت سے نجات دلا سکتا ہے اپنی داڑھی کی خاصیت سے ہم سب کو جلد مسرور فرما دیجئے۔
سلطان محمود اس گفتگو سے مسکرایا اورا س کا دریائے کرم مجرمین کی فریاد سے جوش میں آگیا ارشاد فرمایا کہ تم میں سے ہر شخص نے اپنی اپنی خاصیت دکھا دی حتیٰ کہ تمہارے کمال و ہنر نے تمہاری گردنوں کو مبتلا قہر کر دیا بجز اس شخص کے کہ یہ سلطان کا عارف تھا اور اس کی نظر نے رات کی ظلمت میں ہم کو دیکھ لیا تھا اور ہمیں پہچان لیا تھا پس اس شخص کی اس نگاہِ سلطان شناس کے صدقے میں تم کو رہا کرتا ہوں مجھے اس پہچاننے والے آنکھ سے شرم آتی ہے کہ میں اپنی داڑھی کا ہنر ظاہر نہ کروں۔
اس حکایت میں عبرت و نصیحت کی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر جگہ موجود ہیں ہم جو جرائم کرتے ہیں یہ خزانہ شاہی میں خیانت کا ارتکاب کرتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کسی مجرم کو فوراََ نہیں پکڑتے بلکہ اس کو اس کے افعال میں آزادی دی ہے کہ ہم نے انسان کو جو صلاحیتیں ودیعت (عنایت )کئے ہیں ان سے بھرپور فائدہ اٹھائے لیکن انسان خدا کو ناراض کر دینے والے صلاحیتوں کو پروان چڑھاتا ہے اپنے گناہوں کی آبیاری کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ یہ میرا ہنر ہے اگر کسی کو قتل کر دیا تو وہ اس کو اپنا کمال سمجھتا ہے چوری کیا یا کسی کو اغوا کیا یا کسی کی پردہ دری کی تو اس کو اپنا ہنر سمجھتا ہے۔
لیکن مذکورہ حکایت کی طرح یہ کمالات آخرت میں انسان کو نوالہ جہنم بنا دے گا اس تاریک دنیا میں جس کو جو ہنر کام آئے گا وہ خدا شناسی کا ہنر ہوگا جس کی نگاہ خدا شناس ہو وہ کامیاب ہوگا اور جس نے وہ نظر پیدا نہیں کیا جس سے اللہ تعالیٰ کی پہچان حاصل ہو تو وہ اپنے ہنر کی بدولت زنجیروں میں جکڑا ہوا تحت خدا وندی کے سامنے ذلیل و رسوا کھڑا ہوگا اور جنہوں نے اس تاریک دنیا میں رب کا پہچان پیدا کیا وہ مطمئن ہوگا ’’ارادے جن کی پختہ ہو نظر جن کی خدا پر ہو ،طلاطم خیز موجوں سے وہ گھبرایا نہیں کرتے ۔
22 جولائی، 2016 بشکریہ : روز نامہ ہندوستان ایکسپریس، نئی دہلی
URL Part -1:
URL: