New Age Islam
Sat Jan 25 2025, 01:32 AM

Urdu Section ( 15 Apr 2013, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

To religious preachers د اعیان دین کی خدمت میں

 

مولانا خالد سیف اللہ رحمانی

6 اپریل، 2013

خوشبو کی فطرت میں یہ بات رکھی گئی ہے کہ وہ پھیلے اور زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچے ، روشنی کی حقیقت میں یہ بات داخل ہے کہ وہ بکھرے اور جہاں تک  اس کی رسائی  ہو، تاریکی کا قلع قمع  ہوجائے، اسی طرح اسلام کی فطرت میں یہ بات داخل ہےکہ وہ پھیلے اور پھیلتا چلا جائے، سمٹ کر رہ جانا اس کی طبیعت کے خلاف ہے، اسی لئے قرآن مجید میں دین حق کو نور سے تشبیہ دی گئی ہے، اور باطل مذاہب کو ظلمات یعنی تاریکیوں  کا نام دیا گیا ہے۔ (البقرہ:57) اور دین حق کی حامل اس امت کو داعی امت قرار دیا گیا ہے اور اسی ذمہ داری کی بنا پر اس کو ‘‘خیرامت’’ کا لقب دیا گیا ہے۔ (آل عمران:110)

اسی لئے اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ دعوت دین محض ایک استحبابی عمل نہیں ہے ، بلکہ امت کے فرائض  میں شامل ہے، اگر چہ بعض فقہاء نے اسے ‘فرض عین’ قرار دیا ہے ، یعنی  یہ ہر مسلمان پر انفرادی حیثیت سے فر ض ہے کہ لوگوں کو ایمان کی طرف بلائیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے پوری امت  کو دعوت کے حکم کا  مخاطب بنایا ہے۔ (آل عمران :110)اور بعض نے اس کو ‘ فرض کفایہ’ کہا ہے، یعنی امت  کے ہر ہر فرد پر سے یہ فریضہ  متعلق نہیں ہے، بلکہ یہ ایک اجتماعی  فریضہ ہے ، اگر امت کے اتنے  افراد اس کام میں لگ جائیں جو  اپنے علاقے  کے ہدایت سے محروم  لوگوں میں دعوت کے کام  کے لئے کافی ہوں تو فریضہ دعوت ادا ہوجائے اور دوسرے لوگ بھی  اس کام کو نہ کرنے کی وجہ سے گناہ  گارنہیں ہوں گے، کیونکہ قرآن  میں ایک  اور موقع  پر فرمایا گیا کہ تم میں ایک ایسا  گروہ ہونا چاہئے جو امت کو خیر کی طرف بلانے والا ہو۔ ( آل عمران :104)

ہندوستان جیسے ملک میں جہاں اسّی فیصد لوگ ایمان سے محروم ہیں، جب تک تمام  مسلمان دعوت کے کام میں نہ لگ جائیں، غالباً تمام برادران وطن تک ایمان  کی دعورت پہنچانا ممکن نہیں ہوگا، اس لئے اگر دعوت دین کا  حکم فرض  کفایہ  کے درجہ  میں ہو، تب بھی  ہندوستان کے خصوصی حالات  میں یہ فرض  عین سےکم اہمیت کا حامل نہیں ،  کیونکہ فرض کفایہ  بھی حالات اور ضرورت کے لحاظ سے بعض اوقات فرض عین کے درجہ  میں آجاتا ہے۔

یہ ایک تاریخی  المیہ ہے کہ ہندوستان میں مسلمان پہلی صدی ہجری  میں آگئے ، انہوں نے ایسی مستحکم  حکومت  قائم کی کہ اس ملک  کی تاریخ  میں اس  کی مثال نہیں ملتی ، ان کی حکومتوں کا  دائرہ اتنا وسیع  تھا کہ  موجودہ  دور کے کئی کئی ممالک ا س میں شامل تھے، انہوں نے اس ملک میں مضبوط  قلعے تعمیر  کئے،  خوبصورت باغات کو وجود  بخشا ، مسجدیں بنائیں، مسافر خانے بنائے ، سڑکیں تعمیر کیں،  تعلیمی  ادارے قائم کئے، فن تعمیر کے اعتبار سے ایسی نازک ، دیدہ زیب اور دل کش عمارتیں تعمیر کیں ، جن  میں سے بعض کا شمار دنیا کے عجائب میں ہوتا ہے ، انہوں نے آب باشی  کا عمدہ  نظام قائم کیا، زراعت  اور صنعت کو فروغ  دیا، عوامی  فلاح و بہبود اور خدمت خلق کےبہت سے کام انجام دیئے، مختلف مذاہب کے لوگوں کومل جل کر اور شیر و شکر ہوکر رہنے کاطریقہ  سکھایا، لیکن  جو چیز سب سے ضروری تھی، اس کی طرف توجہ نہیں کی، اور وہ ہے دعوت دین کا کام ، ابتدائی  دور میں جو عرب تجار آئے، یا محمد بن قاسم رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ  جو عرب مجاہدین آئے  ، انہوں نے اس کام کی طرف توجہ کی اور آج  افغانستان سے لے کر سندھ تک  جو مسلم آبادی  ہے، وہ ان ہی  کی دعوتی  کوششوں  کا نتیجہ ہے ، پھر جب ہندوستان میں عجمی نژاد  حکومتیں قائم ہوئیں تو عوت اسلام کا کام ان کی ترجیحات  سے باہر ہوگیا، اس لئے عملاً مسلمان دعوت کےمیدان سے ہٹ گئے ، البتہ  بعض صوفیاء او رعلماء نےانفرادی طور پر دعوتی کوششیں کیں، خاص کر راجستھان ، کشمیر ، دکن، بنگال اور موجودہ  بنگلہ دیش  وہ علاقے ہیں ، جہاں خانقاہوں  او رعلماء کی انفرادی کوششوں  کے ذریعہ  اسلام کی اشاعت ہوئی، مگر افسوس کہ حکومتیں تو اس فریضہ سے غافل  تھیں ہی، خانقا ہوں میں بھی  اخلاف نے اپنے اسلاف کی دعوتی مہم کو زندہ نہیں رکھا ، اور ان کی اصلاحی کوششیں زیادہ تر اپنے متوسلین اور ارادت مندروں تک محدود ہوکر رہ گئیں ۔

پھر ایک غلط فہمی یہ پیدا ہوگئی کہ ہمیں پہلے مسلمانوں کی اصلاح  کرنی چاہئے ، اگر مسلمان پوری طرح دین پر آجائیں اور صد فی صد مسلمان ہوجائیں تو خود بخود جو لوگ اسلام سے باہر ہیں، وہ اسلام کے دائرے میں آجائیں گے، حالانکہ  یہ یا تو غلط  فہمی  تھی یا  اپنی ذمہ داری سے فرار تھا ، صحابہ کرام سے بڑھ کر دین اور اخلاق کا نمونہ  کون ہوسکتا تھا؟  جن کو براہ راست  آفتاب نبوت  سے فیض  یاب ہونے کا موقعہ  ملا، لیکن  کیا اس کے باجود  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  اور آپ کے رفقا ء عالی مقام کو دعوت دین کے لئے  جد و جہد نہیں  کرنی پڑی؟ جب خیر القرون میں دعوت کی ضرورت باقی  رہی تو بعد کے ادوار  میں تو بہر  حال انحطاط  و زوال آتا ہی  جائے گا ، جیسا کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی پیشین گوئی ہے، تو کیوں کر ممکن  ہے کہ اب اس دور میں  دعوت  کے بغیر  اسلام کی اشاعت کا مقصد پورا ہوجائے گا؟ حقیقت  یہ ہے کہ مسلمانوں کی اصلاح  پر برادران وطن میں دعوت کے کام کو موقوف کرنا گویا دعوت کو ایک ناممکن شئی  پر موقوف کردینا ہے۔

اللہ تعالیٰ کا شکر و احسان ہے کہ اس وقت ہندوستان کے مختلف گوشوں سے دعوت کی جد وجہد شروع ہوئی ہے اور مختلف علاقو میں مختلف افراد اور ادارے  غیر مسلم بھائیوں تک اسلام کی امانت کو پہچاننے کی کوشش کررہے ہیں، خاص کر 1992 کے بعد سے اس رجحان میں اضافہ  ہوا ہے، بہت سے لوگوں میں یہ احساس  پیدا ہورہا ہے کہ اس وقت مسلمان جن آزمائشوں سے گذر رہے ہیں ، اس کا ایک بنیادی سبب مسلمانوں کا اپنی داعیانہ ذمہ داری سے غفلت بر تنا اور اس سلسلے میں بے اعتنائی سے کام لینا ہے، پھر تجربہ سے یہ بات بھی سامنے آرہی  ہے کہ حالانکہ  مسلمانوں کے خلاف نفرت کا ایک جنون پیدا  کیا جارہا ہے اور اسلامو فوبیا  کی لہر پوری دنیا میں چل رہی ہے ، لیکن اس کے باوجود اسلام کی روحانیت ، عقل سے ہم آہنگی  ، فطرت انسانی سے مطابقت اور اپنی فطری  کشش  و جاذبیت  کی وجہ سے وہ لوگوں کے دل و دماغ کو فتح  کرتا جارہا ہے ، جو لوگ  نفرت کی تلوار اور عداوت کے تیر و نشتر لے کر  آگے بڑھتے ہیں ، جب حقیقت حال ان کے سامنے آتی ہے تو وہی اس کے جاں نثار سپاہی اور ترجمان بن جاتے ہیں ، اس تجربہ  نے بھی دعوتی  کام کرنے والوں کے جذبہ  کو مہمیز  کیا ہے اور ان کے یقین کو بڑھایا ہے۔ مگر افسو س یہ ہے کہ مختلف  حلقوں سے جو دعوتی کا  انجام پارہے ہیں، ان کی طرف سے بعض ایسی کمزوریاں سامنے آرہی  ہیں ، جو اس کا م پر لوگوں کے اعتماد کو مجروح کررہی ہیں اور اندیشہ ہے کہ جس جوش کے ساتھ یہ کام شروع ہوا ہے، کہیں اتنی ہی تیز رفتاری  کے ساتھ  یہ کام بیٹھ نہ جائے ........ دعوتی  کام کرنے والے بعض  افراد کی طرف سے ایک غلطی یہ سامنے آتی ہے کہ وہ اپنے میدان  سے ہٹ جاتے ہیں، جن حضرات کا اصل میدان مذاہب  کا تقابلی  مطالعہ  اور اسلام کے متعلق  غلط فہمیوں  کا ازالہ ہے، وہ تفسیر و حدیث  اور فقہ  و فتاوی  کے میدان میں بھی رائے زنی کرنے لگتے ہیں ، انسان کی ایک فطری  کمزوری یہ ہے کہ جب آدمی شہرت کی منزلیں طئے کرنے لگتا ہے اور اس کے گرد لوگوں کا اژدہام  بڑھ جاتا ہے تو پھر وہ توازن  کھو دیتا ہے اور اسے کسی  سوال  کے جواب میں یہ کہنا بہت شاق گذرتا ہے کہ یہ میرا میدان نہیں ہے، بڑا سے بڑا قابل اور با صلاحیت  شخص بھی  جب اپنے میدان سے باہر قدم نکالتا ہے تو بعض اوقات بچکانہ باتیں کہہ جاتاہے، جن کے ذریعہ عوام سے  تو تالیاں  بجوائی جاسکتی ہیں، لیکن جو واقعی اہل  علم ہیں ، ان کے لئے ان کے حیثیت  ایک لطیفہ  سے کم نہیں ہوتی ۔

لوگ اس بات کو نہیں سمجھتے  کہ آدمی شہرت و بلندی  کے مقام پر پہنچنے کے باوجود اگر  اپنی لاعلمی کااعتراف کرلیتا ہے تو لوگوں  کی نظر میں اس کی عزت  اور بڑھ جاتی ہے اور یہ دراصل اخلاص اور خشیت  الہٰی  کی دلیل  ہوتی ہے، امام مالک رحمۃ اللہ علیہ  سے مسجد نبوی میں بڑے مجمع  کے درمیان  اور شاگردوں  کے سامنے چالیس سوالوں کے بارے میں فرمایا: مجھے  نہیں معلوم  ، اس سے امام مالک کا مقام گھٹا نہیں، بلکہ اہل علم کی نظر میں  بڑھ گیا اور آج بھی ان کے اس عمل کی مثال دی جاتی ہے، اس کی ایک مثال  ماضی  قریب میں احمد دیدات ہیں جنہوں نے اپنے مناظروں کے ذریعہ بڑے بڑے عیسائی  مناظرین کو مہر بلب کردیا تھا، لیکن دوسری طرف اگر کوئی  معمولی  فقہی  مسئلہ  بھی پوچھا جاتا یا قرآن  و حدیث  کے بارے میں سوال کیا جاتا تو وہ صاف کہہ دیتے کہ یہ میرا  میدان نہیں ہے،  اس کے لئے آپ علماء اور ارباب  افتاء  سے رجوع کریں، میدان  سے ہٹ کر گفتگو کرنے کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتاہے کہ آدمی شخصیت  نزاعی  بن جاتی ہے اور اصل  دعوتی کا ز کو نقصان پہنچ جاتا ہے،جدید تعلیم  یافتہ  حضرات جن جو اللہ  تعالیٰ نے دعوتی کام  کی توفیق  عطا فرمائی ہے،  انہیں اس پر ضرور غور کرنا چاہئے  اور اپنے میدان سے باہر ہر  گز نہیں جانا چاہئے ، دعوت تو کار نبوت  ہے، اور یہ اس امت کی بعثت  کا خصوصی مقصد ہے ، نیز  اس کا دائرہ اتنا وسیع  ہے کہ اگر سوسال ہزاروں  لوگ اس کام کو کرتے رہیں، تب بھی  یہ کام نا تمام ہی رہے گا  ، تو پھر اس وسیع میدان کار سے باہر نکلنے کی ضرورت ہی  کیا ہے؟

بعض دفعہ دعوتی  کارکن مسلکی اختلاف میں الجھ  جاتے ہیں  اور ان امور پر گفتگو کرنے لگتے ہیں، جو دین کا اصل  مقصد نہیں ہیں اور جن پر نجات  موقوف نہیں ہے، راقم الحروف  کو ایک ‘ دعوہ تربیتی کیمپ    میں شرکت  کا موقعہ ملا اور شرکاء کے سوالات کے جوابات میرے ذمہ  کئے گئے ، ان میں کئی  حضرات نے یہ سوال  کیا کہ اللہ تعالیٰ کہا ں ہیں؟ عرش پر ہیں یا ہر جگہ ہیں ؟ میں نے عرض کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  اور انبیاء کی دعوتی  کوششوں کا ذکر قرآن مجید میں یہ بات بھی آئی ہے کہ اللہ تعالیٰ  عرش  پرمستوی ہیں، اور اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد بھی  موجود ہے کہ ہم انسان  کو شہہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں، ان دونوں ارشادات  کو سامنے رکھ کر سلف صالحین  نےاس مسئلہ  کی ایسی وضاحت کی ہے کہ اللہ کی توحید  پرکوئی حرف نہ آئے، کسی نے لوگوں کو اس تصور کی طرف دعوت نہیں دی، جو اس نے سمجھا ہے،اور اگر کسی  نے الفاظ قرآنی کے دائرہ میں  رہتے ہوئے  اس سے مختلف  سوچ اختیار  کی تو اسے گمراہ بھی  نہیں قرار دیا، لیکن  سوال یہ ہے کہ دعوت اسلام کا اس بحث سے کیا تعلق ہے؟  ہونا تو یہ چاہئے  کہ داعی  کا ذہن  فروعی  اختلافی مسئلہ  سے بالکل  ہٹ جائے، کیونکہ جس کے سامنے کوئی اہم کام نہیں ہوتا ہے، وہ غیر اہم کاموں میں الجھتا  ہے، جس کے سامنے اہم کام ہوتا ہے ، وہ ایسی غیر اہم باتوں  میں نہیں الجھتا ہے ، اس کے سامنے اہم کام ہوتا ہے ، وہ ایسی غیر اہم باتوں  میں نہیں  الجھتا  ہے ، اسی  طرح بعض دعوتی  کام کرنے  والے نماز سے متعلق  اختلافی  مسائل چھیڑ دیتے ہیں اور دین کی دعوت کو مسلک  کی دعوت کا رنگ دینے  لگتے ہیں،  یہ کسی داعی  کو ہر گز زیب نہیں  دیتا، ایک بڑے صاحب علم کے بقول مسلک قابل ترجیح  تو ہو سکتا ہے ، قابل تبلیغ  نہیں ہوسکتا، لیکن  مسلکی تشدد اور فروعی مسائل  کے جھگڑوں کی وجہ سے لوگ مسلک کو ‘‘دین’’ کا درجہ  دے دیتے ہیں  ، اس کی  طرف لوگوں کو بلاتے ہیں اور کم فہمی  سے اسی  کو دعوت سمجھنے لگتے ہیں۔

دعوت دین ایسا کام ہے جس سے کسی سلیم العقل  مسلمان کو اختلاف  نہیں ہوسکتا ، یہ امت کو جوڑنے والا عمل ہے، داعی کو ایسی  باتوں سے خوب بچنا چاہئے  جو اختلاف  اور غلط فہمی کا سبب بنے اور جس سے لوگ بدگمان  ہوجائیں ، ہوسکتا ہے کہ کسی خاص واقعہ  یا کسی خاص لفظ  کے مفہوم  کے سلسلے میں آپ  کی رائے الگ  ہو اور اس کا تعلق  دین کی بنیادی  تعلیمات اور ان مسائل سے نہ ہو جو دین میں مدار نجات  ہیں، لیکن  اس رائے کے اظہار سے اختلاف پیدا ہوتا ہو ، لوگ قریب ہونے  کے بجائے دور ہوجاتے ہو، لوگ قریب ہونے کے بجائے دور ہوجاتے ہوں تو داعی  کو اس اظہار سےبچنا  چاہئے ، اسے نرم  خو، روادار  اور صابر  ہونا چاہئے ، قرآن مجید  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کہا کہ آپ مسلمانوں  کے لئے نرم خو ہیں، اگر آپ سخت مزاج اور درشت زبان ہوتے تو لوگ آپ سے کھینچ  جاتے :‘‘ فَبِمَا رَحْمَۃ مِّنَ اللّہ لِنتَ لَہمْ  وَلَوْ كُنتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَانفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ ’’(آل عمران :159)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کا اتنا لحاظ تھا کہ بعض دفعہ  آپ اس مقصد کے لئے مستحباب کو بھی ترک فرمادیتے تھے ، جیسے  آپ چاہتے تھے کہ کعبہ  اللہ کو بنائے ابراہیمی پر تعمیر  فرمائیں، لیکن اس اندیشہ سےکہ جزیرۃ العرب کے مشرکین اور نو مسلمین  غلط فہمی  میں پڑ جائیں  گے، آپ نے زمانہ جاہلیت کی تعمیر  کو باقی رکھا ، دعوتی کام کرنے والے حضرات  جب کسی آیت یا حدیث کی تشریح  میں ایسی رائے اختیار  کرتے ہیں، جو سلف صالحین  کی متفقہ  رائے  سے ہٹی ہوئی ہو یا کسی  واقعہ  کی ایسی توجیہ  کرتے ہیں جو اس فن کے ماہرین کی وضاحت  سے الگ ہو، تو اس سے انتشار پیدا ہوتا ہے اور ان کی ذات سے امت کو جو نفع پہنچ  سکتا تھا  وہ کم  ہوجاتا ہے، پھر دعوتی  کام کرنے والوں  کی جو  ٹیم ان کے ذریعہ  وجود میں آسکتی  تھی ، وہ نہیں بن پاتی  ہے، اس لئے داعیان دین کو اپنے بلند  تر مقصد  پر نظر رکھنی چاہئے اور غیر اہم مسائل میں الجھنے سے بچنا چاہئے ۔(جاری)

6 اپریل، 2013  بشکریہ : روز نامہ ہندوستان ایکسپریس ، نئی دہلی 

URL:

https://newageislam.com/urdu-section/to-religious-preachers-/d/11145 

Loading..

Loading..