مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
7 فروری ، 2014
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ اور سیرت مبارکہ میں کئی آثار کا ذکر ملتا ہے، ا ن میں سے ایک استوانۂ حنانہ کا واقعہ ہے۔ اس واقعہ کی تفصیل یہ ہے کہ مسجد نبوی کی تعمیر کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں نصب کئے ہوئے کھجور کے تنے سے پشت لگاکر خطبہ ارشاد فرمایا کرتے تھے، یہ تنا چھپرّ سے بنی ہوئی مسجد میں ستون کا کام دیتا تھا ، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت سے بعض صحابہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے منبر بنایا، جب منبر رکھا گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر خطبہ دینے کے لئے آگے بڑھے تو ایک معجزہ ظاہر ہوا کہ درخت کے اس تنے سے پھوٹ پھوٹ کر رونے کی آواز آنے لگی ، جیسے کوئی گرفتار محبت سے اپنے محبوب کے فراق پر روتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ آواز سن کر منبر سے اتر آئے اور اسے تنے سے ہاتھ پھیرا ، یہاں تک کہ وہ پرُ سکون ہوگیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر واپس آگئے ۔ اس لئے معمول مبارک تھا کہ جب نماز ادا فرماتے تو اسی تنے کے سامنے نماز ادا فرماتے ۔ پھر جب تعمیر نو کے لئے مسجد کا ڈھانچہ شہید کیا گیا اور اسے بدلا گیا تو حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے اسے حاصل کرلیا، اور تبر کاً اس کو اپنے گھر رکھا، یہاں تک کہ وہ بوسیدہ ہوگیا رفتہ رفتہ زمین اس کو کھا گئی ۔( ابن ماجہ: حدیث نمبر:1414) ظاہر ہے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کا درخت کے اس ڈھانچے کو اپنے پاس رکھنا بطور تبرک تھا اور اسی حیثیت سے جب تک محفوظ رہ سکا، آپ رضی اللہ عنہ نے اس کی حفاظت فرمائی ۔
اس سلسلہ کی دوسری مثال ‘‘ شجرۂ رضوان ’’ ہے۔ جب صلح حدیبیہ کے موقع سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم 6 ھ میں 1400 رفقاء کے ساتھ مدینہ سے مکہ تشریف لائے تو مشرکین مکہ رکاوٹ بن گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوشش فرمائی کہ جنگ کی نوبت نہ آئے اور اسی کوشش کے ایک حصہ کے طور پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو سردارانِ مکہ سے گفتگو کے لئے اپناسفیر بنا کر مکہ کو بھیجا ۔ ادھر یہ بات مشہور ہوگئی کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو شہید کردیا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر صحابہ سے ایک درخت کے نیچے بیعت لی کہ اگر حضرت عثمان شہید کئے گئے ہوں تو وہ ضرور اس کا انتقام لیں گے۔ گو یا یہ اس بات کی بیعت تھی کہ اگر نوبت آگئی تو ہم اپنی جانیں قربان کردیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے اس جذبۂ جاں نثاری کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا کہ ‘‘ بے شک جو اہل ایمان درخت کے نیچے آپ سے بیعت کررہے تھے، اللہ ان سے راضی ہوگیا’’ ۔( فتح:18)اسی لئے اس درخت کو ‘‘شجرۃ الرضوان’’ کہا جانے لگا۔ لوگ یہاں آتے اور نماز ادا کرتے ۔ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اس کی اطلاع ہوئی تو آپ نےاس پر ناراضگی ظاہر فرمائی اور آپ کے حکم پر یہ درخت کاٹ دیا گیا۔ ( طبقات ابن سعد : 2؍ 76) اگرچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسے اس لئے کٹوادیا کہ اس کی وجہ سے لوگوں میں غلونہ پیدا ہوجائے اور جس مقام پر عبادت کرنے کی خصوصی اہمیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں بتائی ہے ، کہیں لوگ اس کو مقدس نہ سمجھنے لگیں لیکن دوسرے صحابہ اس مقام پر تبرکاً نمازبھی پڑھا کرتے تھے ۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ بزرگوں کے آثار سے تبرکاً استفادہ کیا جاسکتا ہے ۔
اگر چہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ازراہِ احتیاط ایسی باتوں کو پسند نہیں کرتے تھے ، خود حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے اور جلیل القدر صحابی حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ کا موقف غالباً اپنے والد سے مختلف تھا، چنانچہ بخاری شریف میں ایک طویل روایت آئی ہے کہ حضرت عبداللہ ابن عمر جب مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ کا سفر کرتے تو خاص طور پر ان مقامات کو نظر میں رکھتے ، جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اُتر تے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازیں ادا فرمائی تھیں ۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے بھی ان تمام مقامات پر اترنے اور نماز ادا کرنے کا اہتمام فرمایا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آثار مبارکہ میں ایک وہ ہے جس کا براہِ راست آپ کے جسم اقدس سے تعلق ہے اور اس لئے یقیناً ہر مسلمان کے لئے چشم محبت کا سرمہ ہے، اور وہ ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے موئے مبارک ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر اپنے مبارک بال منڈائے، بال مونڈنے کا شرف حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے حاصل کیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سر مبارک کے نصف بال حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کو عطا فرمادئیے اور بقیہ نصف دوسرے صحابہ کے درمیان تقسیم کر دیئے ۔ صحابۂ کرام کس محبت اور عظمت کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے موئے مبارک کو دیکھتے تھے اس کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ اپنی ٹوپی میں تبرکاً یہ بال رکھتے تھے، اور جب بھی میدان جہاد میں داخل ہوتے تو اس بال کے ساتھ ٹوپی پہن کر معرکہ کارزار میں نکلتے اور فتح یاب ہوتے، غزوۂ یمامہ کے موقع سے جو مسیلمۂ کذاب اور اس کے متبعین کے ساتھ ہوا ، حضرت خالد رضی اللہ عنہ کی یہ ٹوپی گر گئی، اس ٹوپی کو حاصل کرنے میں ایسا معرکہ گرم ہوا کہ مسلمانوں کی بڑی تعداد نے جام شہادت نوش کیا ، اس وجہ سے بعض صحابہ نے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ پر اعتراض کیا تو آپ نے یہی عذر کیا کہ میں نے اس وجہ سے ایسا کیا کہ کہیں یہ ٹوپی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے موئے مبارک کے ساتھ مشرکین کے ہاتھ نہ چلی جائے، یعنی ان کو موئے مبارک کی اہانت کا اندیشہ ہوا ۔ (شرح ابن بطال علی صحیح البخاری : باب الماء الذی یغسل بہ شعر الانسان :1؍ 265)
جن صحابہ یا ان کے بعد کے عزیزوں کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی موئے مبارک حاصل ہوگیا، انہو ں نے اس کو دنیا و مافیہا سے قیمتی سمجھا ، حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ کے پاس کچھ موئے مبارک تھے جو سرخ رنگ کے تھے، جب کسی کی آنکھ میں تکلیف ہوتی یا کسی کو شدید بیماری لاحق ہوتی تو حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ کے پاس پانی کا برتن بھیجتے ، وہ اس میں آپ کے موئے مبارک کو ڈبو دیتیں اور اس کا دھوون عنایت کرتیں جس سے مریض شفایات ہوتے ۔( بخاری : باب یذکرفی الشیب، حدیث نمبر 5896 دیکھئے : مسند اسحاق بن راہویہ : 4؍ 141)
ابن سیرین حضرت انس رضی اللہ عنہ کے شاگردوں میں تھے، انہوں نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے صاحبزادہ عبیدہ سے عرض کیا کہ ہمیں حضرت انس رضی اللہ عنہ کی طرف سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا موئے مبارک حاصل ہوا ۔ عبیدہ نے کہا کہ اگر میرے پاس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک بال بھی ہوتا تو دنیا و مافیہا سے زیادہ محبوب ہوتا ۔ (بخاری حدیث نمبر :170) امام احمد بن حنبل کے صاحبزادے عبداللہ نقل کرتے ہیں کہ میں نے اپنے والد ماجد کو دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا موئے مبارک لے کر اپنے منہ پر رکھتے او ربوسہ دیتے ا ور یہ بھی دیکھا کہ اپنی آنکھوں سے لگاتے اور پانی میں ڈبو کر اس پانی کو نوش فرماتے ۔(مسند احمد :1؍82)
غرض کہ اسلام میں مقدس اور متبرک آثار کو ہمیشہ اہمیت حاصل رہی ہے اور یہ محبت و عظمت کے لازمی تقاضوں میں سے ہے اس لئے مسلمانوں کا فریضہ ہے کہ وہ اپنے مذہبی آثار کا تحفظ کریں اور ان کو ضائع ہونے سے بچائیں ۔ ان آثار کو دیکھ کر حقیقت یہ ہے کہ ایمان میں اضافہ ہوتاہے اور ایسا لگتا ہے کہ جیسے غیب اس کے لئے شہود بن گیا ہے۔ مسلم عہد حکومت میں جو بھی حکمراں ہوئے ، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقدس آثار کو جان و دل سے زیادہ عزیز رکھا ۔ عباسیوں کے بعد یہ آثار عثمانی ترکوں کو منتقل ہوئی ۔ ترکوں نے نہات ہی عظمت اور احترام و اعزاز کے ساتھ ان آثار کی حفاظت کی ۔ اس حقیر کو دو بار استنبول جا نے کاموقع ملا، جہاں ‘‘توپ کاپی’’ نامی میوزیم میں یہ آثار محفوظ ہیں ۔ ان آثار میں آ پ صلی اللہ علیہ وسلم کے موئے مبارک بھی ہیں، دندان مبارک بھی ، عمامہ مبارک اور جبۂ مبارک بھی ہے، تلوار اور عصا بھی ہے ، نیز خلفا ء راشدین رضی اللہ عنہ اور حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہ کے تبرکات اور آثار بھی ہیں جو گزشتہ انبیا ء علیہم السلام کی طرف منسوب ہیں، ان آثار کو جتنا دیکھئے اور جتنی بار دیکھئے ، لوحِ دل پر محبت کے نئے نقوش ثبت ہوتے ہیں، آنکھیں اشک محبت سے وضو کرتی ہیں اور قلب کو ایک سکون کا احساس ہوتا ہے۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مقدس آثار کے احترام میں بعض دفعہ لوگ غلو بھی کرتے ہیں اور ایسی جگہوں پر بدعات کا ارتکاب بھی ہونے لگتا ہے، ظاہر ہے کہ شریعت اس کی اجازت نہیں دیتی، صحابہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت چاہی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں سجدہ کرنے کی اجازت دیں ۔ اور ظاہر ہے کہ جو صحابہ شب و روز ‘‘ ایاک نعبد و ایاک نستعین ’’ سے اپنی نماز وں کی ابتدا کرتے تھے ، وہ کیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سجدۂ عبادت کی مانگنے ، یقیناً انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سجدۂ تعظیمی ہی کی اجازت طلب کی ہوگی، لیکن آپ نے اس سے منع فرمادیا۔ پس ضروری ہے کہ تعظیم و احترام شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے ہو۔ اسی لئے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس درخت کو اکھڑوا دیا جس کے نیچے صحابہ سے بیعت لی تھی اور جب عراق میں حضرت دانیال کی طرف منسوب قبر دستیاب ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے چھپا دینے کا حکم دیا ( تفسیر ابن کثیر : 5؍147)۔۔۔۔۔۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ آثار مبارکہ کی محبت و عظمت دلوں سے نکل جائے اور ہم خود اسے مٹاڈالیں۔
اس صورت حال یہ ہے کہ جزیرۃ العرب میں موجود یہودیوں کے بعض آثار کو ایک سازش کے تحت مغربی طاقتوں کی جانب سے عالمی ورثہ میں شامل کیا گیا ہے، لیکن ہمارا حال یہ ہے کہ عراق و شام میں منصوبہ بند طریقہ پر اسلامی آثار کو مٹایا جارہا ہے، ان کو بچانا ضروری ہے ۔ خود سعودی عرب میں سیرت نبوی سے متعلق مقامات و آثار کا خصوصی حیثیت میں تحفظ ہونا چاہیئے اور لوگوں کو بدعت و غلو سے روکتے ہوئے ان کی شناخت باقی رکھنی چاہیئے ۔ ایسا نہ ہوکہ ہم اپنی تاریخی میراث سے محروم ہوجائیں اور اعداء اسلام کے تاریخی آثار باقی رہیں ، یہاں تک کہ کل ( خدانخواستہ)مسلمانوں سے کہا جائے کہ یہ خطہ تاریخی اعتبار سے مسلمانوں کا نہیں، بلکہ یہ یہودیوں اور عیسائیوں کی میراث ہے، مسلم ملکوں کو خاص طور پر اس پہلو پر نظر رکھنی چاہیئے کہ خلاف شرع باتوں کو روکنا بھی ضروری ہے ، لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ اپنے مقدس آثار کی حفاظت سے غافل نہ ہوں او راپنی تاریخی شہادتوں کو مٹنے نہیں دیں۔
افسوس کہ مغرب تو مسلمانوں کے تاریخی آثار اور مذہبی یاد گاروں کو چرا چرا کر لے جائے، آج بھی برٹش لائبریری یا برٹش میوزم میں ہندوستان کے بہت سے تاریخی مآثر کو دیکھا جاسکتا ہے ، خود ‘‘ کوہِ نور ہیرا’’ غصب کرلیا گیا، عراق کی ماضی قریب کی جنگ میں امریکی قزاقوں نے کتنے ہی میوزیم لوٹ لئے ، قیمتی تاریخی اشیاء چوری کرلیں اور پورے پورے کتب خانے کو نذِ آتش کردیا، لیکن دوسری طرف مسلمانوں کی سادہ لوحی ہے کہ ہمیں خود اپنے متبرک آثار اور اپنی تاریخی یاد گاروں کے تحفظ کا خیال نہیں ۔
7 فروری، 2014 بشکریہ : انقلاب ، نئی دہلی
URL for Part 1:
URL: https://newageislam.com/urdu-section/destruction-heritage-saudi-arabia-islamic/d/35642