مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
7 نومبر، 2014
طوفان اس لئے آتےہیں کہ اپنی تباہ خیزیوں کے ساتھ گزر جائیں، موجیں اس لئے متلاطم ہوتی ہے کہ ساحل کو روند کر واپس چلا جائیں ، آتش فشاں اس لئے پھٹتے ہیں کہ زمین کے سینہ میں جو لاوے چھپے ہوئے ہیں ، وہ باہر آکر ساکت و جامد ہوجائیں ، ان کی ہلاکت خیزیاں اور تخریب انگیزیاں اتنی شدید ہوتی ہیں کہ لگتا ہے کائنات کا کوئی ذرّہ ان کے پنجہ استبداد سے بچ نہیں سکےگا، لیکن ان کوثبات و دوام حاصل نہیں ہوتا ۔ انسان کو شخصی اور اجتماعی زندگی میں بھی ایسے طوفان اُٹھتے ہیں کہ جن سے دل لرزنے اور قدم ڈگمگانے لگتے ہیں لیکن اصل میں یہ اس کے لئے آزمائش کے لمحات ہیں ۔ اگر وہ کچھ دیر اس میں استقامت کا ثبوت دے ، کم ہمتی سے دو چار نہ ہو ، جذبات سے مغلوب نہ ہواور رد عمل کی نفسیات میں مبتلا ہوکر کوئی غیر دانشمندانہ اقدام نہ کر بیٹھے تو یہی مصیبت اس کے لئے راحت کا مقدمہ اور یہی وقتی پستی اس کے لئے سر بلندی کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہے۔
مومن کو قرآن نے ایسے مواقع پر دو باتوں کا حکم دیا ہے ، صبر اور صلوٰۃ ...... صبر کیا ہے؟ عام طور پر لوگ سمجھتے ہیں کہ کسی عزیز و قریب کی موت پر رونےدھونے سے اجتناب کانام ‘‘ صبر’’ ہے لیکن حقیقت میں صبر کا دائرہ بہت وسیع ہے اور اس کا تعلق زندگی کے تمام شعبوں سے ہے۔ صبر کے معنی برداشت کرنے کے ہیں ۔ قوت برداشت بہت بڑا جوہر ہے اور اس قوت سے محرومی بہت بڑا عیب ہے ۔ جس آدمی میں قوت برداشت ہوتی ہے اس میں تدبیر کی صلاحیت ہوتی ہے اور وہ مخالف سازشوں سے نمٹنے کی مؤثر کارروائی کرسکتا ہے ۔ انبیاء کو چونکہ سب سے زیادہ مخالف حالات سے گزرنا پڑتا ہے ، اس لئے ان میں علم و بردباری اور مخالفت کو سہنے کی صلاحیت من جانب اللہ سب سے زیادہ ودیعت ہوتی ہے۔
میرا منشا یہ ہے کہ صبر کا مطلب بزدلی اختیار کرنا اور حوصلہ ہارنا ہے بلکہ مقصد یہ ہے کہ حکمت کا دامن ہاتھ سے چھوٹنانہیں چاہئے اور اپنے جذبات کو بے محل خرچ کرنے سے بچنا چاہئے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں قدم قدم پر اس کی مثالیں ملتی ہیں ۔ صلح ہدیبیہ کے موقع پر اہل مکہ کی جانب سے ایک جتھے نے مسلمانوں پر حملہ کیا جو کم و بیش چالیس افراد پر مشتمل تھا ۔ ظاہر ہے کہ وہ لوگ مسلمانوں کی جان کے درپے ہوکر حملہ آور ہوئے تھے اور ان کی حقیقی سزا یہ تھی کہ یہ جس مقصد کے لئے آئے تھے، وہی رویہ ان کے ساتھ اختیار کیا جاتا یعنی انہیں قتل کردیا جاتا یا کم سے کم وہ قید کر لئے جاتے، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں یوں ہی رہا فرما دیا، کیونکہ اگر ایسا نہ کیا جاتا تو یقیناً جنگ کی آگ بھڑک اٹھتی اور اس سے چاہے جانی یا مالی نقصان کسی بھی فریق کا ہوتا لیکن عربوں میں اسلام کے تئیں نفرت اور بڑھ جاتی کیونکہ وہ حرم کابے حد احترام کرتے تھے ۔ انہیں خیال ہوتاکہ مسلمانوں نے اب حرم کی حرمت کو بھی پامال کرنا شروع کر دیا ہے ۔ یہ ہوش کو جوش اور حکمت و مصلحت کو جذبات پر غالب رکھنے کی ایک مثال ہے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا ایک معرکہ ‘‘ غزوہ بنو مصطلق ’’ کے نام سے معروف ہے۔ اس غزوہ میں ایک انصاری اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے غلام کے درمیان معمولی سی بات پر کچھ تیز و تند گفتگو ہوگئی ، پھر انصاری نے اپنی مدد کے لئے انصار کو اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے غلام نے مہاجرین کو آواز دی اور اس طرح دو افراد کا جھگڑا دو گروہ کا جھگڑا بن گیا، عبداللہ بن ابیٔ جو نفاق کے مرض میں مبتلا تھا، بلکہ گروہ منافقین کی قیادت کرتاتھا اور کسی ایسے موقع کو ہاتھ سےجانے نہ دیتا تھا، جس سے اسلام کو اور مسلمانوں کو نقصان پہنچے۔ اس نے اس موقع کو اپنی ناشائستہ حرکت کے لئے بہت غنیمت جانا اور انصار کو یہ کہہ کر بر انگیختہ کیا کہ مہاجرین کے معاملہ میں تمہاری مثال عربوں کے اس محاورہ کی سی ہے کہ اپنے کتے کو کھلا پلا کر موٹا کروتاکہ وہ تمہیں کاٹ کھائے ‘‘ سمن کلبک باکلک ’’۔ عبداللہ بن اُبیٔ کی اس ریشہ دوانی کی اطلاع حضور صلی اللہ علیہ وسلم پرُ نور کو ایک کمسن انصاری صحابی رضی اللہ عنہ نے دی ۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ اُبیٔ کو بلا کر استفسار فرمایا تو وہ صاحب مکر گیا ۔ کچھ دوسرے بزرگ انصار جو عبداللہ بن اُبی کے نفاق سے واقف نہیں تھے، انہوں نے بھی عبداللہ بن اُبیٔ کی حمایت کی ۔ اس موقع پر قرآن مجید کی آیت ان کمسن انصاری صحابی رضی اللہ عنہ کی تصدیق میں نازل ہوئی ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ازراہِ شفقت ان کو گوشمالی کرتے ہوئے ارشاد فرمایا : کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی تصدیق کی ہے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر حق کا جوش غالب رہتا تھا، انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت مانگی عبداللہ بن ابیٔ کی گردن مار دی جائے ۔ اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس کی اجازت مرحمت فرماتے تو یقیناً یہ بجاہوتا کہ ‘‘ الفتۃ اشد من القتل ’’ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا تاکہ اگر میں ایسا سوچیں گے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم خود اپنے رفقاء کو قتل کرا رہے ہیں ۔ اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاموشی اختیار فرمائی اور صحابہ رضی اللہ عنہ کو کوچ کرنے کا حکم دیا ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس پورے دن، رات اور آئندہ دن دو پہر تک خلاف معمول چلتے رہے یہاں تک کہ صحابہ رضی اللہ عنہ تھک کر چور ہوگئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑاؤ ڈالنے کا حکم فرمایا ۔ اس مسلسل سفر کا مقصد یہ تھا کہ لوگ اتنا تھک جائیں کہ انصار و مہاجرین کے درمیا تلخی وہاں پیدا ہوگئی تھی اس کا اثر جاتا رہے ۔ پھر ایک وقت آیا کہ خود عبداللہ بن اُبیٔ کے صاحبزادے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ یہ بہت مخلص مسلمان اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خاص محبین میں تھے ۔ انہوں نے درخواست کی کہ میں اپنے والد کے نفاق سے واقف ہوں اور اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کاحکم ہوتو میں خود انہیں قتل کر سکتاہوں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا اور ارشاد ہوا کہ جب تک کوئی شخص اپنے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مسلمان ظاہر کرے گا، میں اس کے ساتھ مسلمانوں کا ساہی معاملہ کروں گا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےحضرت عمر رضی اللہ عنہ کو یہ صورت حال بتائی کہ اگر ہم اس وقت عبداللہ بن اُبی کے قتل کا حکم دیتے تو اس سے بعض مخلص مسلمانوں کو بھی غلط فہمی ہوسکتی تھی لیکن اب یہ صورتِ حال ہے کہ خود ان کے بیٹے ان کا سر قلم کرنے کو تیار ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رائے میں برکت رکھی ہے : ‘‘ بارک اللہ فی رای رسولہ۔’’
یہ وہی حکمت و مصلحت اور ہوش کو جذبات اور جوش پر ہوش کو غالب رکھنے کی بات ہے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں اس کی کتنی ہی مثالیں ملتی ہیں ۔ موجودہ حالات میں مسلمانوں پر ضروری ہے کہ وہ اس صورت حال کو سمجھیں ، اگر ہم نے مغلوب الجذبات ہوکر چند پتھر پھینک دیئے ، تو اس سے یقیناً دوسروں کا کچھ خاص نقصان نہیں ہوگا اور نہ اس سے آپ کو کوئی فائدہ حاصل ہوگا، البتہ اس میں آپ کے لئے بہت زیادہ نقصان و مضرت کا اندیشہ موجود ہے۔ کوئی انسان کتنا بھی ظالم اور بد خو ہو، اس کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کو اپنےظلم و جور کے لئے کوئی دلیل ہاتھ آجائے، خواہ کمزور سے کمزور کیوں نہ ہو۔ شیطان نے بھی اپنی عدول حکمی کے لئے ایک دلیل دریافت کرلی تھی کہ حضرت آدم علیہ السلام کا مادۂ تخلیق اس کے مارہ تخلیق سے کمتر ہے ، اس لئے وہ آدم علیہ السلام کو سجدہ نہیں کرے گا۔
اگر ہم مشعل او ربے برداشت ہوکر کوئی معمولی سی حرکت بھی کر گزریں تو جو لوگ اپنے سینوں میں بغض چھپائے رکھتے ہیں ان کو اپنی زیادتی کے لئے سندجو از ہاتھ آجاتی ہے ، گویا ہم نے اپنے ہاتھوں ان کو اشتعال کاہتھیار دے دیتےہیں، پھر لوگ واقعات اور ان کے اصل محرکات کو نہیں دیکھتے بلکہ ظاہری سبب کو ہی اس کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں ۔ اس لئے ایسے مواقع پر سوچنا چاہئے کہ کون سا قدم ہمارے مقصد کے لئے مفید و معاون ہوگا۔ مثلاً یہی افغانستان پر امریکہ کے ظالمانہ حملہ کی بات ہے، اگر ہم حکومت سے نمائندگی کریں کہ وہ اس معاملہ میں مظلوم کی طرفداری یا کم سے کم غیر جانبداری کو برقرار رکھے ، تو یہ ایک معقول بات ہوگی، اسی طرح مغربی اور عالم اسلام کے سفارت خانوں سے بھی ملاقاتیں کرسکتے ہیں اور ان کے سامنے اپنے جذبات رکھ سکتے ہیں لیکن اگر ہم اس مقصد کے لئے سڑکوں پرنکل جائیں تو اس سے ہمارے مقصد کو تو کوئی تقویت حاصل نہیں ہوگی، لیکن فرقہ پرست طاقتوں کے کاز کو ضرور تقویت ملے گی اور یہ ہمارے لئے کس قدر نقصاندہ ہوگا، وہ محتاج بیان نہیں ۔
خدا کی مدد کا دوسرا ہتھیار ‘‘ صلوٰۃ’’ ہے۔ صلوٰۃ کے اصل معنی نماز کے ہیں۔ نماز ایک ایسی عبادت ہے جس میں انسان خدا کے سامنے اپنے آپ کو مکمل طور پر بچھا دیتا ہے اور پیشانی سے لے کر پاؤں تک انگ انگ خدا کی بندگی میں مشغول ہوتاہے، اس لئے نماز دراصل رجوع الی اللہ کا عنوان ہے، یعنی مشکل حالات میں انسان اپنے رب کی طرف پوری طرح رجوع ہوجائے ، وہ خدا کی چوکھٹ پر اپنی پیشانی رکھ دے کہ ہم محتاج ہیں تو غنی، ہم فقیر ہیں تو داتا، تو ان ہاتھوں کو خالی واپس نہ فرما۔ خدا کی طاقت بے پناہ ہے، یوں تو روز و شب خدا کی قدرت کو ہم دیکھتے ہی رہتے ہیں لیکن یہ قدرت اسباب کے پردہ میں ظہور پزیر ہوتی ہے، کبھی کبھی خدا کی طاقت اسباب سے آزاد ہوکر بھی انسان کے مشاہدہ میں آتی ہے ۔ غور کرو کہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام اور قوم بنی اسرائیل کا پیچھا کرنے کے لئے فرعون کالشکر جرار جمع ہورہا تھا اور کبر و غروو کے ساتھ نکل رہا تھا، تو لوگ یہی دیکھ رہے تھے کہ یہ لشکر مسلمانوں کو نیست و نابود کرنے کے لئے چل رہا ہے لیکن اللہ کے یہاں یہ بات مقدر تھی کہ ان کا یہ اجتماع خود ان کے نیست و نابود ہونے کاذریعہ بن جائے گا چنانچہ وہی ہوا ۔ بدر کےمعرکہ میں بڑے بڑے سورما اور بہادر مکہ سے چلے آئے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بارے میں فرمایا کہ مکہ نے اپنے جگر کے ٹکڑوں کو تمہارے سامنے ڈال دیا ہے، ان کے جوش و خروش کو دیکھ کر لوگوں کو خیال گزر ہوگا کہ یہ تو مدینہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے لیکن کسے خبر تھی کہ اللہ تعالیٰ ان سورماؤں کو اس لئے جمع کررہا ہے کہ خود ان وجود صفحۂ ہستی سے مٹ جائے اور مکہ کو اپنے ضدی سرداروں سےنجات مل جائے۔
آئندہ اہل مکہ کے لئے دعوتِ حق کو قبول کرناآسا ن ہو۔ غزوۂ احزاب میں اتحادیوں کی ایک پہاڑ جیسی فوج اس لئے جمع ہوئی تھی کہ مسلمانوں کے مقابلہ تمام اسلام مخالف طاقتوں کو متحد و مربوط کردیا جائے لیکن اللہ تعالیٰ کو یہ با ت منظور تھی کہ اس آخری کوشش کی ناکامی کے بعد ہمیشہ کیلئے ان کی ہمت ٹوٹ جائے اور خود ان کی صفیں بکھر جائیں۔
اس لئے ہمیں خدا کی طرف اور اس کے خزانہ و طاقت سے مدد لینا چاہئے ، پھر اس کے لئے نہ کوئی چیز اَنہونی ہے اور نہ کوئی بات نا ممکن ، وہ چاہے تو وقت کی سپر طاقتوں کو راکھ کا ڈھیر بنادے اور اپنے کمزور بندوں کو آہن و فولاد سے زیادہ طاقتور ۔ دُعا کا مقصد یہی ہے کہ مومن خدا کے غیبی خزانہ سے اپنا مدد حاصل کریں ۔۔ یہی صبر اور رجوع الی اللہ، اللہ کی مدد کی کلید او رکامیابی کا ہتھیار ہے او ربے صبری اور خالق کے بجائے مخلوق پر بھروسہ مومن کے لئے ناکامی و نامرادی کاپیش خیمہ۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ صبر اور صلوٰۃ کے ذریعہ اللہ سے مدد چاہو، بے شک اللہ صبرکرنے والوں کے ساتھ ہے۔ یہ آخری فقرہ صبر کی مزید تاکید کے لئے ہے، کیونکہ صبر ایک مشکل کام ہے یہ اپنے جذبات کی آگ کو اپنے آپ بجھانا اور نفس کے تقاضوں کو آپ قتل کرنے کے مترادف ہے، انسان کا کسی مقصد کے لئے یکبار گی جان دے دینا، نسبتاً آسان ہے، لیکن کسی کاز کے لئے گھٹ کر مرنا او رمسلسل اپنے جذبات کو تختۂ دار پر چڑھانابہت دشوار ، اسی لئے شاعر نے خوب کہا ہے:
سلگنا اور شئے ہے جل کر مرجانے سے کیا ہوگا
ہوا ہے کام جو ہم سے وہ پروانوں سے کیا ہوگا
موجودہ حالات میں ہمیں اپنے آپ سلگنے کا حوصلہ پیدا کرنا چاہئے ، ہمارے دل حوصلۂ و ہمت سے معمور ہوں، ہمارے جذبات کی لگام حکمت و شعور کے ہاتھوں میں ہو، ہماری پیشانی میں خدا کے یقین کا نور ہو اور ہمارے ہاتھ اپنے خالق کے حضور اُٹھے ہوئے ہوں، یہی ہمارے لئے کامیابی کا راستہ ہے اور اسی طرح ہم اللہ کی مدد کے مستحق ہوسکتے ہیں۔
7 نومبر، 2014 بشکریہ : انقلاب ، نئی دہلی
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/wisdom-need-hour;-muslims-let/d/99897