مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
13دسمبر،2019
ہندوستان میں آزادی سے پہلے ایک ایسی زبان بولی جاتی تھی جسے ہندوستانی کہا جاتا تھا، اگر اس کو دیوناگری رسم الحظ میں لکھا جاتا تو اس کا نام ہندی ہوتا اور اگر فارسی خط میں لکھا جاتا تو اس کا نام اردو ہوتا، اسی لئے اردو زبان میں عربی وفارسی کے الفاظ شامل ہوتے ہیں اور ہندی میں سنسکرت کے اسی لئے اس میں بہت سی اصطلاحات عربی و فارسی کی بھی ہیں۔ جب ملک آزاد ہوا اور سرکاری زبان پر بحث ہوئی تو آدھے ارکان کی رائے تھی کہ ہندی کو سرکاری زبان بنائی جائے اور اسے دونوں رسم الحظ میں لکھا جائے، لیکن غالباً ڈاکٹر راجندر پرشاد صدر جموریہ ہند کے تائیدی ووٹ کی بنا پر اردو اس حیثیت سے مکمل طور پر محروم ہوگئی، لیکن بعض اصطلاحات جو پہلے سے آرہی تھیں وہ بتدریج جاری ہیں، تاہم اب حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ اب ان اصطلاحات کا استعمال بھی نہیں کیا جائے گا۔ یہ ایک المیہ ہے کہ جو زبان ہندوستان میں پیدا ہوئی، اسی کو دیش سے نکال دیا جارہا ہے، اور اس کو مسلمانوں کی طرف منسوب کر کے نفرت کا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ زبان کی حیثیت محض ایک ہتھیار اور ذریعہ کی ہے،وہ کسی خاص مذہب اور فکرکی ترجمان نہیں ہوتی بلکہ اظہار و تعبیر کا ذریعہ ہوتی ہے، جس کے ذریعہ اچھی فکر کو بھی فروغ دیا جاسکتا ہے اور منفی اورنقصان دہ فکر کو بھی پروان چڑھایا جاسکتا ہے، اس لئے زبان کااپنا کوئی مذہب نہیں ہوتا، ہاں بعض ایسی زبانیں ہیں جن میں کسی مذہب کی بنیاد ی کتاب موجود ہے، اس پہلو سے اسے مذہب کی طرف منسوب کیا جاتا ہے او راس نسبت میں کوئی برائی نہیں، جیسے سنسکرت زبان ہندو مذہب کے لئے، فارسی پارسیوں کے لئے، عبرانی یہودیوں کے لئے اور عربی مسلمانوں کے لئے خصوصی اہمیت کے حامل ہیں۔ اردو زبان اس معنی میں کوئی مذہبی زبا ن نہیں، اس زبان کی تشکیل میں سب سے اہم کردار ہندی کا پھر فارسی کا ہے۔ زبان کی بنیاد اس کے گرامر اور قواعد پر ہوتی ہے، الفاظ اور تعبیرات توہمیشہ بدلتی رہتی ہے۔اردو قواعد اصل میں ہندی زبان سے ماخوذ ہیں، واحد و جمع، مذکر و مؤنث کے صیغے، جملوں کی ترتیب وغیر ہ عام طور پر وہی ہیں جو ہندی کی ہیں۔ محاورے بھی زیادہ تر ہندی ہی کے اردو میں مستعمل ہیں، تشبیہات واستعارات میں غالباً فارسی نے زیادہ حصہ پایا ہے،ہندی کی سادگی اور فارسی کی مٹھاس کے ساتھ عربی الفاظ کی شمولیت نے اس کے شوکت وشکوہ میں اضافہ کیا ہے، اس کے علاوہ سنسکرت،انگریزی،پنچابی اوردکنی زبانوں کے الفاظ کی آمیزش نے اس کو ایک گلدستہ سا بنا دیا ہے، جس میں ہر پھول کارنگ جدااور ہر غنچہ کی خوشبوایک دوسرے سے سوا ہے، اس لئے اس کانام ہی ”اردو“ پڑ گیا، گویا یہ ایک زبان نہیں بلکہ زبانوں کالشکر ہے، یہ گل نہیں بلکہ ہم رنگ پھولوں کاگلستاں ہے،اس حقیقت نے اس زبان کو بیک وقت مختلف زبانوں کی خوبیوں کاامین بنا دیا ہے۔
اس لئے ہمیں اردو زبان کی خدمات میں شروع ہی سے غیر مسلم حضرات کا نمایاں کردارنظر آتا ہے، کسی زبان کو معیاری زبان کامقام اس وقت حاصل ہوتا ہے جب اس کے اپنے وصول و قواعد متعین ہو جائیں، اگر امر کے بغیر زبان ایک عوامی بولی جاتی ہے، ایسی زبان نہیں ہوتی جس میں معیاری اور ادبی، علمی اور تحقیقی لٹریچیر تیار ہوسکے، اس کے قواعد مرتب کرنے والوں میں سب سے ابتداء میں جن لوگوں کا نام ملتاہے، وہ بقول بابائے اردو مولوی عبدالحق کے تین شخص ہیں، جان جوشواکٹلر، مشنری شلز، ہیڈلے،(قواعداردو،مقدمہ:ص:15)اور یہ بات اہل علم کیلئے محتاج اظہار نہیں کہ اٹھارویں صدی کے اوآخر اور انیسویں صدی کے اوائل میں فورٹ ولیم کالج، اردو زبان میں تصنیف و تالیف اور نشر واشاعت کا اہم مرکزتھا، یہ توانگریزوں کاذکر تھا، اردو زبان میں ہندوبھائیوں کی خدمات اتنی زیادہ ہیں کہ ان پر کئی ضخیم جلدیں تیار ہوسکتی ہیں، برج نرائن چکبست،دیا شنکر نسیم،کرشن چندر،پریم چند،آنندنرائن ملا جیسے درجنوں شعراء اورادباء ہیں جن کے بغیر اردو زبان کاتاریخ نامکمل اور ناتمام رہے گی، اردو کتابوں کی طباعت میں منشی نول کشور، کی جو خدمات ہیں، یہ شاید ہی کوئی بڑے سے بڑا مسلمان ناشر بھی اس باب میں اس کی ہمسری کرسکے،انہوں نے فوٹوآفسیٹ پریس کے دور سے پہلے جس خوبصورت، روشن اور بڑی حدتک کتابت کی غلطیوں سے پاک و صاف اردو، فارسی اور عربی لٹریچرپیش کیا وہ کام نہیں کارنامہ ہے،اسی طرح اسلام کے علاوہ دوسرے مذاہب کی ترویج اور اس کے افکار ونظریات کو پیش کرنے میں بھی اردو کا بہت ہی نمایاں حصہ رہا ہے، اس سلسلہ میں جناب محمد عزیز کی تالیف ”اسلام کے علاوہ مذاہب کی ترویج میں اردو کا حصہ“ (صفحات:324، ناشر انجمن ترقی اردو) خاص طور پر لائق مطالعہ ہے۔
تاہم یہ ضرور ہے کہ مسلمانوں نے برصغیر میں اپنامذہبی لٹریچر زیادہ تر اردو زبان میں پیش کیا، محض اس وجہ سے اردو زبان کو ایک گروہی زبان کی حیثیت دے دی گئی او ریہ تاثر دیا گیا کہ وہ صرف مسلمانو کی زبان ہے، حالانکہ اگر یہ صرف مسلمانوں کی زبان ہوتی تب بھی یہ ملک کی ایک ایسی اقلیت کی زبان قرار پاتی ہے جس کی تعداد سرکاری اعداد و شمار کے مطابق چودہ فیصد کے قریب ہے اور جس کی حقیقی تعداد پندرہ تابیس فیصد بتائی جاتی ہے۔ جو زبان ملک میں اتنے بڑے گروہ کیلئے ذریعہ اظہار ہو، کیا اس کی اہمیت سے انکار کیا جاسکتا ہے؟اس کیلئے ضرورت ہے کہ مخلصانہ جدوجہد،بے غرض کاوش اور اس تحریک کے لئے حکیمانہ قیادت کی۔ اکثر دیکھاگیا ہے کہ جو لوگ اردو زبان کے حقوق کے لئے جدوجہد کانعرہ لگاتے ہیں، وہ خود اس میں غیر مخلص ہوتے ہیں، وہ اسے ایک سیاسی ایشو کے طور پر استعمال کرتے ہیں، وہ خود اردو زبان سے ناواقف ہوتے ہیں، ان کے گھر میں اردو کے لئے کوئی جگہ نہیں ہوتی، وہ اس شور وہنگامہ کو سیاسی مفادات کے حصول کاذریعہ بناتے ہیں اور جہاں ان کی اقتدار اور پیسوں کی بھوک کم کرنے کے لئے ایک دو لقمے منہ میں ڈال دیئے جاتے ہیں ان کی زبان گنگ ہوجاتی ہے۔ سیاسی قائدین اردو کی دوسری زبان ہونے کا اعلان تو کرتے ہیں، لیکن یہ سرکاری حکم فائلوں میں دفن رہتا ہے او رعملی طور رپر اردو کو اس سے کوئی فائدہ نہیں پہنچتا۔
آزادی کے بعداگر سرکاری سطح پر اردو کی ترقی کے لئے کام ہوا ہے تووہ ’انجمن ترقی اردو بورڈ‘ کا قیام اور اس کے تحت فنی، سائنسی اور تحقیقی کتابوں کی اشاعت اور ’مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی‘ کا قیام ہے۔ ان دونوں اداروں نے علمی، تحقیقی اور تعلیمی اعتبار سے اردو کو بڑا فائدہ پہنچایا ہے،اور ایسے کاموں کی حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے۔ اردو ادب کو صرف لیلٰی مجنوں کی کہانیوں، شیریں و فرہاد کی داستانوں،اور جام و پیمانہ سرمستیوں سے ایک ایسی زبان نہیں بنا سکتا جو علم و تحقیق کی ضرورت کو پورا کرتی ہو او راپنے دور کے سماجی ومعاشی مسائل اور اپنے عہد کے افکار ونظریات کی ترجمان بن سکتی ہو، اس لئے زبان کی ترقی وتعمیر کے ایسے اداروں کی حوصلہ افزائی کریں اور ان کا ایسا تعاون کریں کہ وہ ملک میں ایک باوقار ادارہ کی حیثیت سے جانے جائیں۔
اردو زبان سے متعلق دوسرا اہم پہلو یہ ہے کہ اس زبان میں جتنا کثیر اسلامی لٹریچر ہے،عربی زبان کے بعدد نیا کی کسی اور زبان میں اتنا بڑا اسلامی سرمایہ موجود نہیں۔ اردو زبان میں متعدد ایسی کتابیں لکھی گئی ہیں کہ انہیں عربی کا جامہ پہنا یا جارہا ہے او روہ عرب علما ء و محققین سے بھی داد و تحسین وصول کررہی ہیں۔ اس وقت دنیا میں مسلم آبادی کا بہت بڑا حصہ اپنی بول چال کے لئے اردو کا گرویدہ ہے، صرف بر صغیر میں تقریباً چالیس کروڑ مسلمان اردو بولتے اور سمجھتے ہیں، یوروپ اور افریقہ کے مختلف ملکوں نیز امریکہ و کناڈا وغیرہ میں بر صغیر کے تارکین وطن کی وجہ سے اردو وہاں کی زیادہ بولی اور سمجھی جانے والی زبانوں میں سے ایک ہوگئی ہے۔ میں جب برطانیہ گیا تو مجھے یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ وہاں سے پانچ اردو روز نامے نکلتے ہیں، خلیجی ممالک سے دو کثیر الاشاعت اردو روز نامے شائع ہورہے ہیں، اس طرح اردو ایک عالمی اور انٹر نیشنل زبان ہوگئی ہے۔
اس وقت دنیا کے اکثر آزاد دینی مدارس میں اردو ہی ذریعہ تعلیم ہے،ہندو پاک میں تو ایسا ہونا باعث تعجب نہیں،لیکن امریکہ، یورپ اور افریقی ملکوں میں بھی آزاد دینی مدارس میں تدریس کی زبان اردو ہے، اس لئے مسلمانوں کے حق میں یقینا اردو زبان کی اہمیت دو چند ہے، اردو ان کے مذہبی اور تہذیبی ورثہ کی امین ہے،اردو سے رشتہ کی استواری اپنی تاریخ، اپنے مذہب اور اپنی فکری اور تہذیبی روایات سے مربوط ہونا ہے، اردو زبان میں اسلامی اصطلاحات اور قرآنی تعبیرات ایسی رچ بس گئی ہیں جیسے گلاب میں اس کی سرخی اور موتیا میں اس کی خوشبو، یہاں تک کہ غیر مسلم ادباء بھی اپنی تحریروں میں بے تکلف ”ماشاء اللہ، سبحان اللہ، الحمداللہ،نعوذ بااللہ“ وغیرہ الفاظ لکھتے ہیں او رایسی تشبیہات سے کام لیتے ہیں جن کے پیچھے اسلامی فکر کار فرما ہوتی ہے۔
اہل اردو کو دینی مدارس کا شکر گزار ہوناچاہئے کہ معاشی مواقعسے رشتہ ٹوٹ جانے کے باوجود انہوں نے اس زبان کو زندہ رکھا ہے، اگر کوئی قوم اپنی زبان کو باقی رکھنے کافیصلہ کر لے اور اس کے لئے کسی قدر قربانی دینے کے لئے تیار ہو تو کوئی طاقت اس سے اس کی زبان نہیں چھن سکتی، ہندی اور سنسکرت ایک ایسی زبان ہے جو کئی صدیوں سے حکمرانی سے محروم تھی اور سرکاری زبان فارسی، تھی اس زبان کے بولنے والوں نے اسے زندہ رکھا عبرانی زبان ہزاروں سال کسی حکومت کی زبان نہیں رہی، نہ عام بول چال میں اس کا رواج رہا، لیکن یہودیوں نے زبان کو باقی رکھا او راسرائیل بننے کے بعد اسے سرکاری حیثیت حاصل ہوئی،کیا مسلمان اپنی اس زبان کو جو ان کی طرف منسوب کردی گئی ہے،اپنی کوششوں سے باقی نہیں رکھ سکتے؟ یقینا باقی رکھ سکتے ہیں،بشرطیکہ وہ اس معاملے میں سنجیدہ اور مخلص ہوں، محض حکومتوں سے شکوہ اس مسئلہ کا حل نہیں ہوسکتا، جو قومیں زندہ،بالغ نظر، بیدار مغز اور حوصلہ مند ہوتی ہیں، وہ اپنے مسائل خود حل کرتی ہیں اور اپنے آپ کو بیساکھیوں کامحتاج نہیں ہونے دیتیں۔
اس پس منظر میں اردو زبان کے بقا اور تحفظ کے سلسلے میں عام لو گ جو حصہ ادا کرسکتے ہیں، اس سے متعلق چندتجاویز پیش کی جاتی ہیں:
جو انگلش میڈیم اسکول مسلمانوں کے زیر انتظام ہیں،ان میں خاص طور پر اردو زبان کے لئے دسویں کلاس یا کم سے کم ساتویں کلاس تک مستقل ایک گھنٹی رکھی جائے او رپوری توجہ کے ساتھ تعلیم دی جائے،کیونکہ اب اردو میڈیم اسکول یا تو قائم نہیں ہورہے ہیں، یاقائم ہورہے ہیں تو انہیں وہ مقبولیت حاصل نہیں ہو پارہی ہے جو ہونی چاہئے۔
اس لئے اب انگلش میڈیم اسکولوں میں ذریعہ تعلیم کی حیثیت سے نہ سہی تو کم سے کم بحیثیت زبان ہی اردو پڑھانی ضروری ہے۔
معیاری اردو میڈیم اسکول قائم کرنے کی کوشش کی جائے اور عام لوگوں کاذہن بنایا جائے کہ وہ ایسے اسکولوں کو حوصلہ افزائی کریں اور ان میں اپنے بچوں کو داخل کریں، جیساکہ مہاراشٹر اور بعض دوسرے صوبوں میں اردو میڈیم اسکولوں کی بہت اچھی کارکردگی سامنے آرہی ہے۔
زیادہ سے زیادہ اخبارات و رسائل خریدے جائیں۔ اردو قارئین کو چاہئے کہ ایک مہم کے طور پر اردو اخبارات ورسائل کی ہمت افزائی کریں اور ہوٹل کی میز پر اخبار پڑھنے کے بجائے شخصی طور پر زیادہ سے زیادہ اخبارات و رسائل خریدیں، ایک اخبار کی قیمت چائے کی ایک پیالی سے بھی کم ہوتی ہے، اگر آپ نے دو تین اخبار خرید لئے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے آج دوتین پیالی چائے کم پی، لیکن اس سے آپ کی زبان کو جو تقویت پہنچے گی، آپ اس کا اندازہ نہیں کرسکتے۔
اردو کتابوں کی فروخت بھی بڑی مشکل سے ہوتی ہے، بعض کتابیں ہیں جو انگریزی یا عربی میں لاکھوں کی تعداد میں چھپتی ہیں، لیکن وہی جب اردو زبان کاپیکر اختیار کرتی ہیں، تو ایک ہزار،گیارہ سو کی تعداد میں شائع ہوتی ہیں او ران کے نکلنے میں بھی دس، گیارہ سال کا عرصہ لگ جاتاہے، اس لئے اپنے گھروں میں اردو کتابیں پڑھنے اور انہیں خریدنے کامزاج بناناچاہئے، اپنے دیوان خانوں کو مصنوعی گلدستوں سے آراستہ کرنے کے بجائے کتابوں سے آراستہ کیجئے کہ یہ آپ کے او رآپ کی نسلوں کے لئے دل و دماغ کی غذا ہیں، نیز اپنی آمدنی کا ایک حصہ ہر ماہ کتابیں خریدنے کے لئے مخصوص کرلیجئے، اس طرح آپ اپنے ترکہ میں زر زمین کے ساتھ ساتھ علم ودانش بھی چھوڑ کر جاسکیں گے۔
اردو میں خط و کتابت اور نجی یا د داشتیں لکھنے کامزاج بنائیے، گھر میں اپنے بال بچوں سے اردو میں گفتگو کا اہتمام کیجئے او رخاص کر اتوار کے دن کو اپنے بچوں کو اردو زبان سکھانے کادن بنائے، گھر میں اردو زبان کا یہ ماحول اردو کے تحفظ او راس کے بقا کے لئے بہت ہی مفید ثابت ہوگا۔
غرض کہ اردو زبان کے تحفظ میں ہمیں صرف سیاسی کوششوں پر قناعت نہیں کرنا چاہئے اور حکومتوں سے مطالبات کو کافی نہیں سمجھنا چاہئے، بلکہ خود اپنا حصہ بھی ادا کرناچاہئے، خود نے عملی کا راستہ اختیار کر کے حکومت سے تحفظ کامطالبہ کرنا ایسا ہے جیسے کوئی شخص دوسروں سے اپنے گھر کی حفاظت کی امید رکھے اور خود ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھا رہے۔
13دسمبر،2019 بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/urdu-saviour-our-religious-cultural/d/120508
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism