مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
27 فروری، 2015
اللہ تعالیٰ نے کائنات میں نشو و نما کا ایک تدریجی نظام مقرر کیا ہے کہ ہر چیز جب پیدا ہوتی ہے اور وجود میں آتی ہے تو اپنی صلاحیتو کے لحاظ سے ناقص اور نا تمام ہوتی ہے، چاند ایک باریک دائرہ کی صورت میں نکلتا ہے اور آہستہ آہستہ اس کا قالب نور کے سانچہ میں ڈھل جاتا ہے، سورج جب مشرق کی طرف اپنے رُخ سےنقاب الٹتاہے تو اس کی کرنیں ہلکی بھی ہوتی ہیں اور پھیکی بھی، بڑا سے بڑا درخت بھی جب زمین کے شکم سے باہر آتاہے تو ایسے معمولی اور کمزور پودوں کی صورت میں کہ ہوا کا معمولی جھونکا اور پانی کی ہلکی سی لَہر بھی اس کے لئے موت کا پیغام بن جاتی ہے، پھر یہی ناقص و ناتمام چیزیں اپنے شباب کو پہنچتی ہیں ، اس کی صلاحیتیں جوان ہوتی ہیں اور اس کی طاقت اوجِ کمال پر پہنچ جاتی ہے، لیکن اس کمال کے بعد پھر انحطاط اور زوال شروع ہوتا ہے اور یہ انحطاط اسے موت اور فنا تک پہنچا کر ہی دم لیتا ہے ، سورج رات کے پردہ میں چھپ جاتا ہے، چاند چند دنوں کے لئے افق سے غائب ہوجاتاہے، درخت سوکھ اور مرجھا جاتے ہیں۔
قدرت نے یہی تدریجی نظام انسان کی زندگی میں بھی رکھا ہے، جب وہ ماں کے پیٹ سے اس لمبی چوڑی، ہنگامہ خیز اور پرُ شور کائنات میں آتا ہے تو نہایت کمزور اور طاقت و قوت سےمحروم بچہ کی صورت میں، نہ خود کھا سکتاہے ، نہ پی سکتا ہے، اگر خدانے ماں باپ کے دل میں اس کے تیئں اتھاہ محبت نہ ڈال دی ہوتی تو اس کی پر ورش شاید ممکن نہ ہوتی، پھر بچے بڑھتے ہیں ، جسم میں نشو و نما کا عمل جاری رہتا ہے، عقل بیدار ہوتی ہے، شعور جاگتا ہے اور انسان جوانی کی منزل میں قدم رکھتا ہے، جو ایک لفظ بھی ادا نہیں کرسکتا تھا، آج اپنی تقریر وں سے دلوں کو گرماتا ہے اور شعر و سخن کی بز میں آراستہ کرتاہے، جو اپنے پاؤں پر کھڑا بھی نہیں ہوسکتا تھا، آج کود تا اور دوڑ تا پھرتا ہے اور طوفان سے ٹکرانے کا حوصلہ رکھتا ہے، کل جو ایک لقمہ اٹھا کر اپنے منھ میں رکھنے کی طاقت سے بھی محروم تھا، آج اس کی تگ و دو اور دوڑ دھوپ سےایک پورے خاندان کا گذر بسر وابستہ ہے اور اللہ نے اس کو ان کے رزق کاذریعہ بنایا ہے، یہ جوانی کا زمانہ طاقت کےعروج اور صلاحیتوں کے کمال کا زمانہ ہے، اس زمانہ میں آدمی کےلئے یہ سوچنا بھی دشوار ہوتا ہے کہ پھر کبھی کمزوری اس پر اپنا سایہ ڈال سکے گی، چلتے ہوئے اس کے قدم لڑکھرائیں گے، بینائی اس کا ساتھ چھوڑ دے گی اور جسم ایک ایک صلاحیت دامن وفا چھوڑ کر رخصت ہوجائے گی، لیکن آخر ہوتا وہی ہے جس سے انسان بھاگناچاہتا ہے ، جوانی رخصت ہوتی ہے اور بڑھاپا اپنی پوری شان کے ساتھ سایہ فگن ہوجاتاہے، اب آنکھوں پر موٹے چشمے ہیں، چہروں پر جھریاں ہیں، ہاتھوں میں عصا ہے ، قدموں پر میں لرزہ ہے، حافظہ اور یاد داشت نےبھی ساتھ چھوڑ رکھا ہے، منھ دانت سے خالی ہے اور آواز ایسی ہے کہ بازو کا آدمی بھی بات سمجھ نہیں پاتا ہے ، اس منزل کےبعد قبر ہی کی منزل ہے، انسان بچپن میں بھی محتاج اور عجز و ناطاقتی کا نمونہ ہوتاہے اور بڑھاپے میں بھی، لیکن بڑھاپے میں یقیناً مجبوری کا احساس زیادہ ستاتا ہوگا، جوانی کے ایک ایک قصے یاد آتے ہوں گے اور اشکِ افسوس سےداڑھی ہوتی ہوگی۔
حقیقت یہ ہے کہ بڑھاپے کا زمانہ انسان کی زندگی میں سب سے زیادہ قابل رحم او رلائق ترس ہوتا ہے، اس لئے اسلام نے بوڑھوں کی خصوصی رعایت اور ان کے احترا م و توقیر کا حکم دیا ہے، مغربی دنیا میں خاندانی نظام کےبکھر جانے کی وجہ سے بوڑھے اور ضعیف العمر لوگوں کے مسائل نے بڑی نازک صورت حال اختیار کرلی ہے، اسی لئے اب عالمی سطح پر اس مسئلہ کو محسوس کیا جارہا ہے، اقوام متحدہ کی طرف سے یکم اکتوبر کو ‘‘بوڑھوں کے دن ’’ کی حیثیت سےمنایا جاتاہے، لیکن اسے کافی نہ سمجھتے ہوئے 1999 کے پورے سال کو ‘‘ بوڑھوں کا بین الاقوامی سال’’ قر ار دیا گیا ہے، ایک اندازہ کےمطابق اس وقت دنیا میں بوڑھے اور ضعیف لوگوں کی تعداد 40 کروڑ کے قریب ہے اور توقع ہےکہ یہ تعداد 60 کروڑ سے بھی تجاوز کرجائے گی، ہندوستان میں اس وقت 60 سال سے زیادہ سن رسیدہ لوگوں کی تعداد 6 کروڑ سے بھی زیادہ ہےاور اندازہ لگایا گیا ہے کہ 2 برس بعد یہ تعداد 7 کروڑ 59 لاکھ ہوجائے گی ،بوڑھوں کی تعداد میں آزادی کے بعد سے 170 فیصد اضافہ ہوا ہے، جس کی وجہ وسائل علاج میں بہتری بھی ہے اور خاندانی منصوبہ بندی کی وجہ سےشرح پیدائش میں کمی بھی ۔آج بوڑھے اور ضعیف العمر افراد جن مشکلات سے دو چار ہیں ، وہ در اصل مغربی نظام معاشرت کے پیدا کئے ہوئے ہیں اور ان ہی سے مشرق میں بھی غلبہ رہا ہے اور دنیا کاکوئی مذہب نہیں جس میں والدین اور بزرگوں کی خدمت اور ان کے احترام و توقیر کا سبق نہ پڑھا گیا ہو، اس لئے بزرگوں کی خدمت کا جذبہ او ران کو بوجھ کے بجائے اپنے لئے رحمت خداوندی تصور کرنا مشرق کے مزاج میں رہا ہے، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے خوب فرمایا ہے کہ تم لوگوں کو ضعفاء اور کمزوروں ہی کی وجہ سے رزق دیا جاتاہے : ‘‘ اھل تنصرون و تد زقون إلا بضعفا نکم’’ ( بخاری ، باب من استعان بالضعا ء و الصالحین ،حدیث نمبر :2896) یہ بڑی اہم بات ہے، آدمی ایسے بوڑھے اور معذور لوگوں کو اسی لئے تو بوجھ سمجھتاہے کہ وہ صرف کھاتے ہیں ، کچھ لاتےنہیں ہیں، ان کے پاس کھانے والے ہاتھ ہیں کمانے والے ہاتھ نہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس تصور ہی کی جڑ کاٹ دیا اور فرمایا کہ ایسا نہیں ہے کہ تم ان کو رزق فراہم کرتے ہو، بلکہ ان کی وجہ سے اللہ تم کو رزق عطا فرماتے ہیں ، گویا وہ تمہارے محسن ہیں ، نہ کہ تم ان کے اور وہ تم کوکھلاتےہیں نہ کہ تم ان کو، اگر یہ بات دل میں اتر جائے تو لوگ ایسے بوڑھے اور ضعیف لوگوں کو خدا کی بہت بڑی نعمت تصور کریں اور سایۂ رحمت سمجھیں۔
مغربی سماج کی بنیاد مادیت پر ہے اور مادیت پرستی ہمیشہ خود غرضی کو جنم دیتی ہے، اسی لئے خود غرضی مغربی معاشرہ کا ایک اہم اور بنیادی عنصر ہے، طلاق کی کثرت ان ممالک میں کیوں ہے؟ اس لئے کہ جب میاں بیوی کادل ایک دوسرے سے بھر گیا تو اب محبت کی ایک رمق بھی باقی نہیں رہی، زناکی کثرت کیوں ہے؟ اسی لئے مرد و عورت کاتعلق محبت کے بجائے وقتی اغراض اور ہوس پر مبنی ہے، سود نے کاروبار میں غلبہ کیوں پایا ہے؟ اسی لئے سرمایہ دار کو غریبوں کی پریشان حال سے کوئی غرض نہیں، اس کو صرف اپنا بے خطر سود عزیز ہے، منشیات کی وبا کیوں عام ہے؟اسی لئے کہ خود کو دو لمحوں کا سکون حاصل ہوجائے، چاہے یہ عیاشی اس کے متعلقین کے لئے کسی قدر بھی سامانِ مصیبت ثابت ہو، غرض ہر شعبہ زندگی کی روح یہی ہے، ایسے سماج میں اگر بوڑھے گھر سے نکال دیئے جائیں ، ان کو ہاسٹل میں رکھا جائے، جہاں اپنے بچوں کو دیکھنے کےلئے دل تڑپتا ہو او رنگائیں ترستی ہوں اور گھڑی دو گھڑی کی ملاقات کے لئے کرسمس کا انتظار کرنا پڑتا ہو، تو اس پر حیرت نہ ہونی چاہئے ، مغربی تہذیب کی بادِ سموم کو مشرق کے لوگوں نے بادِ نسیم سمجھا اور ایک نعمت عظمٰی کی طرح ان کا استقبال کیا ، تو جو بگاڑ اس نے اپنی جگہ پیداکیا ہے، یہاں بھی ان کا ظہور میں آنا چند عجیب نہیں، چنانچہ اب ہندوستان میں بھی ایسے لوگوں کے لئے ہاسٹل بنے ہیں اور خود ہمارے شہر حیدر آباد کے مضافات میں اس طرح کے ہاسٹل بن چکے ہیں۔
اسلام میں بوڑھوں کے لیے بڑی رعایت بھی ہے اور قدر و منزلت بھی، قدم قدم پر ان کے لئے احکام میں سہولتیں برتی گئی ہیں ، نماز میں قیام یعنی کھڑا ہونا فرض ہے، کھڑی ہوئی حالت میں جھک کر رکوع کرنا اور بیٹھی ہوئی حالت میں سجدہ کرنا بھی فرض ہے۔
لیکن جو لوگ بڑھاپے اور ضعیفی کی وجہ سے کھڑے ہوکر نماز نہ پڑھ سکیں ، وہ بیٹھ کر بھی نماز پڑھ سکتےہیں اور اشارہ سے بھی رکوع و سجدہ کیا جاسکتاہے ، ایسے ضعیف اور سن رسیدہ لوگوں کے لئے گنجائش ہےکہ روز ہ رکھنے کے بجائے فدیہ ادا کریں، بڑھاپے کی وجہ سے سفر کی قدرت نہ ہوتو کسی اور شخص سےحج بدل کرانے کی گنجائش ہے، فریضۂ جہاد ایسے شخص سے معاف ہے۔
ایسے لوگوں کی کفالت شرعاً واجب ہے، اگر ماں باپ کا معاملہ ہوتو ان میں کمانے اور کسب معاش کرنے کی صلاحیت ہو پھر بھی ان کو اس پر مجبور نہیں کیا جاسکتا ، بلکہ بچوں پر ان کی ضروریات کی تکمیل ضروری ہے ، دوسرے اقارب کا حکم ذرا مختلف ہے، اگر کوئی شخص بڑھاپے کی وجہ سے کسبِ معاش کی طاقت نہیں رکھتا اور وہ لاولد وہوتو قریب ترین رشتہ دار پر اس کی ضروریات پوری کرنا واجب ہے اور اگر وہ خود اس کی صلاحیت رکھتا ہے تو پھر دوسروں پر اس کی ذمہ داری نہیں ۔ ( دیکھئے : رد المحتار: 5/55۔352 و دیگر کتب فقہ)
بڑھاپے کی نفسیات کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ اس عمر میں انسان چاہتا ہے کہ اس کے چھوٹے اس کے ساتھ عزت و توقیر کامعاملہ کریں، اس کو سماج میں بہتر مقام دیائے جائے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا بھی لحاظ فرمایا ہے، ایک سن رسیدہ شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم سےملاقات کے لئے حاضر ہوئے، لوگوں نے جگہ دینے میں دیر کی ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تنبیہ کی اور فرمایا کہ جو شخص چھوٹے پر شفقت نہ کرے اور بڑوں کی توقیر نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں : ‘‘ لیسس منامن لم یرحم صغیر نا و بؤ قر کبیرناً ’’( ترمذی ، باب ماجاء فی رحمۃ الصبیان) حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی ایک روایت میں ہے کہ : جو بڑوں کا مقام نہ پہچانے وہ ہم میں سےنہیں ، ( حوالہ سابق) انس ابن مالک رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جو نوجوان کسی بوڑھے شخص کی اس کی عمر کی رعایت کرتے ہوئے تعظیم کرے گا تو جب وہ نوجوان اس عمر کو پہنچے گا تو اللہ اس کے لئے بھی ویسا ہی تعظیم کرنے والا مہیا کردیں گے۔
‘‘ما اکرم شاب شیخالسنہ الافیض اللہ لہ من یکرمہ عند سنہ’’۔( ترمذی ، باب ماجاء فی اجلال الکبیر ، حدیث نمبر :2022)
بزرگوں کی تعظیم اور اکرام کے عمومی احکام تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیئے ہی ، مختلف خصوصی مواقع پر اس احترام کو برتنے کا بھی حکم دیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہدایت فرمائی کہ : جب کئی لوگ ہوں اور ان کو اپنی بات پیش کرنی ہو تو بڑے کو گفتگو اور نمائندگی کا موقع دینا چاہئے : ‘‘کبیر الکبیر’’ (مسلم 2/55) اسی طرح اگر وہ اشخاص علم، قرأت اور ورع و تقویٰ کے اعتبار سے برابر ہوں تو جوان میں عمر دراز ہو اس کو حق امامت میں اولیت حاصل ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دو رفقاء کو رخصت کرتے ہوئے اس کی نصیحت فرمائی : ‘‘ ولیؤ مکما اکبر کماسنا’’ (بخاری و مسلم) اسی طرح فقہاء لکھتے ہیں کہ سلام کرنے میں بھی چاہئے کہ چھوٹا بڑے کو سلام کرنے میں سبقت کرے۔ ( ہندیہ :5/325)
ادب و احترام کا کوئی ایک ہی طریقہ متعین نہیں، بلکہ مواقع اور حالات کے لحاظ سے تکریم و احترام مطلوب ہے ، کوئی بوڑھا شخص جارہا ہو ، بوجھل سامان اس کے ہاتھ میں ہو، آپ نوجوان ہیں، آپ کا اخلاقی فرض ہے کہ آپ ان کا تھیلا اپنے کندھوں پر اٹھا لیں اور منزل تک پہنچا دیں، آپ بس یا ٹرین میں سفر کررہے ہوں ، آپ کو سیٹ مل چکی ہو، لیکن ایک بوڑھا ضعیف شخص کھڑا ہوا ہے، ایسےموقع پر احترام یہ ہے کہ آپ خود اٹھ کر اس کو جگہ دے دیں، اگر آپ ان کونہیں پہچانتے تونانا، چچا کہہ کر ان کو مخاطب کریں، غرض ، موقع و محل کے اعتبار سے ان کی خدمت اور توقیر کو ملحوظ رکھیں اور رسول اللہ کی وہ حدیث آپ کے سامنے ہو کہ اگر آج آپ کسی بوڑھے شخص کاپاس و لحاظ کریں گے تو کل جب آپ عمر کی اس منزل کو پہنچیں گے تو دوسرے یہی برتاؤ آپ کے ساتھ کریں گے اور اگر آج آپ نے کسی بوڑھے ضعیف شخص کا مذاق اڑایا، اس کا تمسخر کیا، بےاحترامی اور بے توقیری کی، مدد اور تعاون کا ہاتھ نہیں بڑھایا تو کل یہی سلوک آپ کےساتھ کیا جائے گا ، کہ یہ ‘‘ اس باتھ دے اس ہاتھ لے’’ کا معاملہ ہے!
27 فروری، 2015 بشکریہ : روز نامہ ہندوستان ایکسپریس ، نئی دہلی
URL: https://newageislam.com/urdu-section/status-elderly-people-our-society/d/101716