مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
30 جنوری، 2015
دین کا ایک اہم فریضہ اللہ کے راستہ میں جہاد ہے، جہاد کے لفظ کو دشمنانِ اسلام نے کچھ اس طرح بدنام کردیا ہے کہ گویا دنیا میں اس سے بڑھ کر کوئی برائی نہیں ، اور اس حقیقت کا بھی حقیقت کا بھی اعتراف کرناچاہئے کہ اس میں جہاں اعداء دین و معاندین کا حصہ ہے، وہیں کچھ حصہ ان نام نہاد ، عاقبت نا اندیش ، شریعت کے مذاق و مزاج سے بابلد اور زمانہ ناشناس مسلمانوں کا بھی ہے جنہوں نے اپنے مخالفین کے قتل و غارت گری کو جہاد کے نام پر جائز ٹھہرا رکھا ہے، جس کی مثال اس وقت عالم اسلام اور عالم عرب میں کھلی آنکھوں دیکھی جاسکتی ہے ، لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ جہاد نہیں، جہاد کے نام پر فساد ہے، اور اگر چہ انہوں نے مجاہدین اسلام کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے لیکن حقیقت میں یہ اسلام دشمن طاقتوں کے آلہ کار ہیں اور اسلام کو بدنام کرنے کے لئے استعمال ہورہے ہیں۔
جہاد کےمعنی محنت و کوشش کرنے کے ہیں، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کو ‘‘افضل الجہاد ’’ قرار دیا ، ‘‘ لکن افضل الجہاد حج المبرود’’ (بخاری، حدیث نمبر: 2784) اسی طرح ایک حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے والد کی خدمت کو جہاد سے تعبیر فرمایا، ( بخاری حدیث نمبر : 2004) یہ محنت و کوشش شیطان اور نفسیانی خواہشات کے خلاف بھی ہوسکتی ہے اور ظالموں کے خلاف بھی ، اسی لئے علامہ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے جہاد کی چار قسمیں بیان کی ہے: نفس سے جہاد ، شیطان سے جہاد، دشمنان اسلام سےجہاد اور منافقین یعنی مسلمانوں کی صف میں چھپے ہوئے ان لوگوں سےجہاد جو اصل میں اسلام کے خلاف سازش کرتے رہتےہیں اور مسلمانوں کو دھوکہ دیتے ہیں، ( زاد المعاد: 3/ 10۔11) پھر ظالموں کے خلاف جہاد کے لئے بھی اللہ تعالیٰ نے دو طرح کے وسائل کا ذکر فرمایاہے: ایک : مال ، دوسرے : جان ‘‘وَجَاهِدُوا بِأَمْوَالِكُمْ وَأَنفُسِكُمْ ’’ ( 9:41)۔
مال سے جہاد کامطلب یہ ہےکہ مال کےذریعہ مظلوموں کی مدد کی جائے او رمالی و سائل کے ذریعہ ظالم کو ظلم سےروکنے کی کوشش کی جائے، اسی طرح جان کے ذریعہ جہاد کامطلب صرف قتل و قتال نہیں ہے، بلکہ اس کا تعلق جہاد کرنے والے کی قدرت اور جن سے جہاد کیا جارہاہے ، ان کے حالات سے ہے، جو شخص کسی ظلم کو روکنے کے لئے طاقت کا استعمال پر قادر ہو، اس کو طاقت کا استعمال کرنا چاہئے ۔ طاقت پر قادر ہونے میں یہ بات بھی شامل ہے کہ اس کا عمل قانون کے دائرہ سےباہر نہ چلاجائے۔ کسی ملک میں بسنے والا شہری اس ملک کے قوانین کا پابند ہے۔ اگر وہ قانون و آئین کی حدود سے باہر نکل جاتا ہے تو اس کا یہ عمل درست نہیں کیو نکہ شرعاً اس کے لئے اس کی اجازت نہیں ہے۔ ایسے عمل سے بدامنی اور انار کی کا ماحول پیدا ہوتاہے ۔ دوسرا درجہ یہ ہے کہ زبان سے ظلم کو روکنے کی کوشش کرے، یہ بھی بہت بڑا جہاد ہے ، یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظالم کے سامنے انصاف کی بات کہنے کو سب سے بڑا جہاد قرار دیا ہے۔ ( سنن ترمذی ، حدیث نمبر:2329)۔
غرض کہ ظالم کو ظلم سے روکنے او رمظلوم کی مدد کرنے کی ہر کوشش جہاد میں شامل ہے۔ اس پس منظر میں غور کیجئے تو اس دور میں پر امن جہاد کی متعدد ایسی شکلیں سامنے آئی ہیں کہ گزشتہ ادوار میں ان کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا ۔ اس سلسلہ میں اس وقت دو اہم نکات کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے ، اول: سوشل میڈیا کا استعمال ،دوسرے: ظلم کے خلاف قانونی جد وجہد ۔۔۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس وقت میڈیا فکر سازی میں شاید سب سے اہم کردار ادا کررہا ہے او راس کے ذریعہ قوموں کی قسمتوں کے فیصلے لکھے جارہے ہیں ۔ الیکٹرانک میڈیا ہو یا پرنٹ میڈیا ، بد قسمتی سے اس پر زیادہ تر ان لوگوں کا قبضہ ہے جو نہ صرف غیر جانبدار نہیں ہیں، بلکہ وہ مظلوم کے مقابلہ ظالم کے طرفدار بھی ہیں اور شب و روز انصاف کا خون کرتے رہتے ہیں لیکن گزشتہ 20۔10 برسوں میں سوشل میڈیا نے واٹس اپ ،فیس بک، یوٹیوب اور ٹویٹر وغیرہ کی شکل میں ایک اہم مقام حاصل کرلیا ہے، جس کو مختلف افراد اور تنظیمیں اپنے طور پر استعمال کرسکتی ہیں اور اپنا پیغام لوگوں تک پہنچا سکتی ہیں ، اگر چہ کہ ان وسائل کا استعمال مفاسد کے لئےبھی بکثرت ہوتاہے، یہاں تک کہ بے حیائی پھیلانے اور اخلاق بگاڑ پیدا کرنے کے لئے بھی ان سےکام لیا جاتا ہے لیکن بہر حال اس کی حیثیت ایک ایسے ہتھیار کی ہے، جس کو بہتر مقاصد کے لئےبھی مؤثر طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔
آج کل سوشل میڈیا پر اسلام او رپیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف نہایت نائشتہ باتیں اور حملے جاری ہیں، فرقہ پرست مذہبی و سیاسی قائدین کی ایسی تقریریں نشر کی جاتی ہیں ، جن کو سن کر نا واقف اور سادہ لوح ہندو بھائیوں کا متاثر ہوجانا فطری بات ہے۔ یہ بات ممکن ہے کہ ان تقریروں کی ویڈیوز پر کمنٹس کر کے اور یو ٹیوب ، فیس بک اور ٹویٹر وغیرہ کے ذریعہ جوابی تقریر نشر کر کے ان اعتراضات کا مدلل جواب دیا جائے اور غلط فہمیوں کی مؤثر طور پر دور کیا جائے، نیز اس کا م کو منظم طور پر کیا جائے، جب بھی کوئی اسلام مخالف چیز سوشل میڈیا پر آئے تو سیکڑوں لوگ سنجیدہ لہجہ میں اسلام کی مواقفت کرتے ہوئے اپنا رد عمل ظاہر کریں اور چوبیس گھنٹہ کے اندر جوابی مواد ویڈیو یا تحریر کی شکل میں نیٹ پر آجائے، یہ جواب جذباتی نہ ہوں، دلائل پر مبنی ہوں، تیز لب و لہجہ میں نہ ہوں، سنجیدہ اُسلوب میں ہوں، مخالفین کے جذبات کو مجروح کرنے والے نہ ہوں، پیام محبت اور نصح و دعوت کے اُسلوب میں ہوں، وہ ہندی میں بھی ہوں، انگریزی زبان میں بھی ہوں او رمقامی زبانوں میں بھی، یہ کوشش انشاء اللہ انصاف پسند ، غیر جانبدار اور علم دوست لوگوں کو مطمئن کرے گی، اس وقت اسلام کے خلاف جس طرح یک طرفہ مواد آرہا ہے ، یہی اس کا بہترین جواب ہوگا۔
ایسے واقعات پر پرُ تشدد رد عمل ، دوسروں کی جان لینا، یا خود کش حملوں کے ذریعہ اپنی جان کو کھونا ایک فائدہ ، بلکہ نقصاندہ اور غیر شرعی عمل ہے، اس سے اسلام کی او رمسلمانوں کی بدنامی ہوتی ہے، دشمنان اسلام کے مقاصد کو تقویت پہنچتی ہے اور غلط فہمیاں دور نہیں ہوتیں،بلکہ مسلمانوں کے تئیں نفرت بڑھتی جاتی ہے، اس سے اسلام اور مسلمان کو ذرابھی فائدہ نہیں پہنچتا ، بلکہ اُلٹے نقصان پہنچتا ہے، اس کے بر خلاف اگر ہم مدلل طور پر سنجیدگی کے ساتھ اور شائستہ لب و لہجہ میں غلط فہمیوں کو دور کرنے کی کوشش کریں گے تو اس سے دشمنان اسلام کی سازشیں ناکام ہوں گی اور برادران وطن میں انشاء اللہ ایک ایسا حلقہ قائم ہوگا ، جو فرقہ پرستی کے مقابلہ میں اُٹھ کھڑا ہوگا او رمسلمانوں کیلئے مددگار ثابت ہوگا۔
دوسرا قابل توجہ کام قانونی پیروی کاہے، طاقت کے ذریعہ ظلم کو روکنے سے مراد صرف یہی نہیں ہے کہ انسان لاٹھی اور تلوار کا استعمال کرے، بلکہ اس سےبھی بڑی طاقت قانون کی طاقت ہے، کمزور سے کمزور شخص بھی قانون کےذریعہ ایسے شخص کو مجرم کے کٹہرے میں کھڑا کرسکتا ہے، جو جسمانی قوت، مال و دولت ، عہدہ اور سیاسی رُسوخ کے اعتبار سےاس سے کہیں بڑھا ہوا ہو، عام طور پر ہماری ملی صورت حال یہ ہے کہ ہم کسی واقعہ پر وقتی احتجاج کرتے ہیں، اخبارات میں بیانات جاری کرتے ہیں، ریلیف کا انتظام کرتےہیں ، لیکن دو باتوں کا اہتمام نہیں کرتے، ایک یہ کہ نقصان پہنچانے والوں کے خلاف مناسب ایف آئی آر درج کرائی جائے اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ ملزم پر اس کے جرم کے لحاظ سے دفعات لگائی جائیں، ورنہ پولیس اسٹیشن پہنچنے والے خوش ہوجاتے ہیں کہ ہمارا مقدمہ درج ہوگیا، لیکن ان پر ایسی ہلکی دفعات لگائی جاتی ہیں، جن کا کوئی خاص اثر نہیں ہوتا، دوسرے : مقدمہ کی مسلسل پیروی کی جائے، ایسا نہ ہو کہ ایک دو پیشیوں کے بعد بیٹھ جایا جائے۔
اس وقت ملک میں مختلف مقامات پر ایک خاص منصوبہ کے تحت فسادات کرائے جارہے ہیں ، تاکہ بی جے پی کے حق میں ہندو ووٹ کو متحد کیا جائے۔ مسلم تنظیموں کو چاہئے کہ ان فسادات کے ملزمین کامسلسل قانونی تعاقب کریں اور ان کو کیفر کردار تک پہنچائیں ، اسی طرح مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز بیانات اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخانہ مواد کے خلاف زیادہ سے زیادہ ایف آئی آر درج کرائی جانی چاہئے اور یہ کام ملک کے مختلف علاقوں سے ہوناچاہئے ، تاکہ حکومت قدم اُٹھانے پر مجبور ہو اور عدالتی چارہ جوئی کے ذریعہ مجرم کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کیا جاسکے۔
یہ کام بہت بڑا اور پھیلا ہوا ہے ، آج کل ہر دن کسی فساد کی خبر آتی ہے اور آئے دن نفرت انگیز اور گستاخانہ مواد میڈیا میں آتا رہتا ہے ،اس لئے ایک دو افراد ، یا ایک جماعت یا تنظیم شاید اس کام کو انجام نہ دے سکے، اس کے لئے ضروری ہے کہ مختلف جماعتیں اور تنظیمیں ، نیز علمی و دعوتی ادارے مل کر تقسیم کار کرلیں او رمختلف مقدمات کی پیروی کو مختلف تنظیمیں اپنے ذمہ لے لیں، اس طرح اتنے بڑے ملک میں اس مہم کو چلایا جاسکے گا اور ایسے معاملات کو انجام تک پہنچانے میں مدد ملے گی، اگر چند مقدمات میں بھی مجرم کو سزا ہوجائے تو اس کے دُور رس او رگہرے اثرات مرتب ہوں گے۔ جب مجرم کو سزانہیں ملتی ہے تو جرم پیشہ لوگوں کی ہمتیں بڑھ جاتی ہیں اور ان کے قدم ظلم و جور کی طرف بڑھتے چلے جاتےہیں ، ایسے مجرمانہ ذہن رکھنے والے لوگوں پر احتجاج کا اثرنہیں ہوتا اور نہ بیان و نصیحت ان کے پتھردل کو موم بنا پاتے ہیں۔
ان دونوں کاموں کے لئے کثیر سرمایہ کی بھی ضرورت ہے،ملت کے سرمایہ داروں ، دولت مندوں، تاجروں اور صنعت کاروں کا فریضہ ہے کہ وہ اس مہم میں حصہ لیں اور اس کو دینی فریضہ تصور کریں، اگر مسلمان اپنی فضول خرچی کو کم کرلیں، اپنی تقریبات کو سادہ رکھیں اور یہ پیسے بچا کر ملت کے اس اہم کا زیر خرچ کریں، نیز دینی و ملی ادارے و تنظیمیں اپنے بجٹ کاایک حصہ اس کےلئے مخصوص کرلیں تو یہ چنداں دشوار نہیں ، ضرورت ہے عزم ، حوصلہ کی ، تنظیم و منصوبہ بندی کی درد مندی اور فکر کی ارجمند ی کی اور ایک مشترک کام کےلئے اشتراک او راتحاد کی ۔
قرآن مجید میں جا بجا مال کے ذریعہ جہا دکا حکم دیا گیا ہے،موجودہ دور میں مال کے ذریعہ جہاد کی یہ بہترین صورتیں ہیں، انشاء اللہ اس میں بھی جہاد فی سبیل اللہ کا اجر ہے ۔۔۔۔ کاش کہ علماء و مشائخ ، اُمت کے دانشوران و مفکرین او رملت کےاصحاب ثروت سرجوڑ کر بیٹھیں اور مل جل کر قدم اٹھائیں تو کوئی روکاٹ نہیں جو ہمارے قدموں کو روک دے او رکوئی پرواہ نہیں جو ہمارے لئے سدراہ بن جائے۔
30 جنوری، 2015 بشکریہ: انقلاب ، نئی دہلی
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/spreading-true-messages-islam-social/d/101314