مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
25 جنوری، 2013
اللہ تعالیٰ نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت میں جو رحمت کی گھٹائیں کائنات پر اُتاری ہیں، اس نے مسلمان ہو یا غیر مسلم اور انسان ہو یا حیوان سبھوں کو آبیار کیا ہے اور ظلم و جور کو مٹا کر عدل و انصاف اور انسانی بھائی چارہ کو تقویت پہنچائی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام انسانیت کو حضرت آدم علیہ السلام سے جوڑا ، اخوت و بھائی چارگی سے رشتہ میں ان سب کو ایک دوسرے سے منسلک فرمایا اور پوری انسانت کے ساتھ رحمد لی کی تعلیم دی ۔ فرمایا کہ جو رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا ۔ یہ بھی ارشاد ہوا کہ تم اہل زمین پر رحم کرو تو تم پر وہ رحم فرمائے گا جو آسمان میں ہے، ارشاد ہوا کہ تم میں سے کوئی مسلمان نہیں ہوسکتا جب تک وہ لوگوں کے لئے اسی سلوک اور رویہ کو پسند نہ کرے جو اپنے آپ کے لئے پسند کرتا ہے۔ ‘‘ لا یؤ من أحد کم حتی یحب للناس مایحب لنفسہ ’’ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمان اور غیر مسلم کی تفریق کے بغیر فرمایا کہ وہ مومن نہیں جو خود سیر ہو اور اس کا پڑوسی بھوکا ہو۔ ایک روایت میں ہے کہ وہ شخص مؤمن نہیں جس کا پڑوسی اس کے شر سے محفوظ نہ ہو ۔ قرآن مجید میں پڑوسی کے لئے دو لفظ استعمال کئے گئے ہیں : ‘‘ وَالْجلارِ ذِیْ القزبی ، وَالْجَارِ الْجَنْبِ ’’ یہاں بعض مفسرین کے نزدیک ‘‘جار جنب’’ سے غیر مسلم پڑوسی مراد ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں مروی ہے کہ اُنہو ں نے بکری ذبح کروائی اور پڑوسیوں کو بھیجنے کی ہدایت کی ، واپسی پر دریافت فرمایا یہودی ہمسایہ کو اس میں سے حصہ بھیجا گیا؟ جواب نفی میں ملا تو آپ نے خاص طور پر اس پڑوسی کے یہاں بکری کا گوشت بھیجا۔
اگر کوئی رشتہ دار غیر مسلم ہوتو بحیثیت رشتہ دار جو سلوک مسلمانوں کے ساتھ کیا جاتا ہے، وہی سلوک اس غیر مسلم کے ساتھ بھی کیا جائے گا ۔ والدین اگر غیر مسلم بھی ہو ں تو ان کے ساتھ حسن سلوک میں کوئی فرق نہ آنے دیا جائے ۔ اسلام میں اہل کتاب عورتوں سے نکاح کی اجازت دی گئی او ر بحیثیت بیوی اس کے وہی حقوق رکھے گئے جو ایک مسلمان بیوی کے ہیں۔ اسی طرح دوسرے غیر مسلم رشتہ داروں کے ساتھ بھی برتاؤ اور بہتر اخلاق کے ساتھ پیش آنے کا حکم دیا گیا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں ثابت ہے کہ انہوں نے ایک مشرک بھائی کو تحفہ بھیجا، امام مجاہد رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ مشرک رشتہ داروں کا قرض معاف کرنا باعث اجر و ثواب ہے، ام المؤمین حضرت صفہ رضی اللہ عنہ نے اپنے یہودی رشتہ داروں میں تیس ہزا ر درہم تقسیم فرمایا تھا ۔ پس قرابت داری اور رشتوں کے لحاظ میں اسلام نے مسلمانوں اور غیر مسلموں کو ایک ہی درجہ میں رکھا ہے ۔
عام غیر مسلموں کے ساتھ بھی انسانی بنیادوں پر بہتر اخلاق اور برادرانہ سلوک کی تلقین فرمائی گئی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ایک یہودی نوجوان کی عیادت فرمائی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کیا کرتاتھا اور اخیر وقت میں اس پر اسلام پیش فرمایا ، نوجوان نے اپنے والد کی طرف نگاہ استفسار دیکھا اور والد کے اشارہ پر اسلام قبول کرلیا ۔ منافق کی عیادت اور رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی کی آخری رسومات کے موقع سے تشریف لانا بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔
انسانی احترام اور تکریم کے تقاضہ کے تحت ایک یہودی کا جنازہ گزرنے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوگئے ۔ لوگوں نے عرض کیا کہ یہ یہودی کا جنازہ ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آخر وہ بھی تو انسان تھا۔ غزوۂ خندق کے موقع سے ایک مشرک فوجی خندق عبور کر کے مسلمانوں کی طرف آگیا او رمارا گیا، کفار مکہ نے قیمت ادا کر کے لاش حاصل کرنی چاہی لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ قیمت نہیں لی اور یوں ہی ان کی لاش ان کے حوالہ کردی۔ نجران کے عیسائیوں کا وفد مدینہ آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت اعزاز و اکرام کےساتھ ان کو مسجد میں ٹھہر ایا۔ ایک صاحب جو بعد میں مسلمان ہوگئے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہا ں مہمان ہوئے اور گھر میں جو کچھ تھا سب کچھ کھا گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل خانہ کو فاقہ کرنا پڑا، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ برا نہیں مانا۔
یہودیوں کی عادت تھی کہ وہ موقع بہ موقع آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اور مسلمانوں کو اذیت پہنچاتے تھے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ صبر و تحمل کے ساتھ ایسی باتوں کو سہہ جاتے۔ ایک یہودی نے مسلمان سے درمیان گفتگو کہا : اس ذات کی قسم جس نے موسی علیہ السلام کو تمام عالم پر فضیلت عطا فرمائی، مسلمان نے پوچھا : محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی ؟ اس نے کہا : ہاں۔مسلمان اس پر برہم ہوگیا اور تھپڑ رسیدکردیا ۔ حالانکہ مسلمان اس تنبیہہ میں حق بجانب تھے، کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ سلم کو تمام رسولوں سے افضل ہونا بائبل سے بھی ثابت ہے لیکن اس کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابی کو تنبیہ کی اور فرمایا کہ قیامت میں موسی علیہ السلام سب سے پہلے ہوش میں آئیں گے ۔ ایک یہودی خاتون نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کی اور زہر کھلا دیا۔ اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت فرمائی لیکن اتنے بڑے جرم کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے در گزر فرمایا۔ بعض یہودی اپنی بد بختی کی بناء پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ‘‘ السا م علیکم’’ کہہ کر مخاطب کرتے تھے، جو ایک بددعا ئیہ لفظ تھا، صحابہ رضی اللہ عنہ کو اس طرح کی بات سن کر طیش آجاتا ، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی خوش اخلاقی دامن نہیں چھوڑتے اور جواب میں صرف ‘‘ وعلیکم’’ کہنے پر اکتفا کرتے ۔
غرباء او رمحتاجوں کی مالی امداد کے معاملہ میں بھی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے غیر مسلموں کو نظر انداز نہیں فرمایا۔جب مکہ میں قحط پڑا اور لوگ بھوکوں مرنے لگے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل مکہ کے لئے ابوسفیان کی وساطت سے پانچ سو دینار کی خطیر رقم بھجوائی کہ وہ اس رقم کو اہل مکہ پر خرچ کریں۔ قرآن و حدیث میں جابجا اسیروں یعنی قیدیوں کے ساتھ حسن سلوک اور ان پر خرچ کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک یہودی کو بھیک مانگتے ہوئے دیکھا اور وجہ دریافت کی، بھکاری نے کہا : جزیہ ادا کرنے اور اپنی ضروریات پوری کرنے کی غرض سے بھیک مانگ رہا ہوں ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس کو اپنے ساتھ لائے، بیت المال سے بہت سارا تعاون فرمایا اور ارشاد فرمایا کہ یہ انصاف کی بات نہیں کہ جوانی میں ہم ان کی کمائی سے فائدہ اٹھا ئیں اور بڑھاپے میں ان کو بھیک مانگنے کے لئے چھوڑ دیں۔ اسی طرح قربانی اور دوسرے صدقات سے بھی ( سوائے زکوٰۃ کے ) غیر مسلم بھائیوں کی مدد کی جاسکتی ہے۔
جو غیر مسلم مسلمانوں سے آمادۂ پیکار اور بر سرِ جنگ نہ ہوں، اسلام کی نگاہ میں ان کی جان اور خون کی وہی قیمت ہے جو مسلمانوں کی جان کی ہے، قرآن نے بلا تفریق مذہب حکم دیا ہے یعنی قاتل کو مقتول کے عوض قتل کیا جائے ، تاکہ انسانیت کے تحفظ کا سروسامان ہوسکے ۔ (البقرۃ : 178)
دوسری جگہ ارشاد: یعنی ایک انسان جان کے بدلہ قتل پر دوسری انسانی جان جو قاتل کی ہو قتل کردیئے جانے کے لائق ہے۔(المائدۃ : 45) ایک مسلمان نے ایک غیر مسلم کو قتل کردیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بطور قصاص اس مسلمان کو قتل کرایا، اور فرمایا: جو غیر مسلم اپنے عہد کو پورا کرے میں اس کے عہد کا احترام کروں گا ‘‘ انا اکرم من وقی بذمتہ ’’
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی کوئی تفریق نہیں فرمائی اور اصول مقر ر کردیا کہ مسلمانوں اور غیر مسلموں کی جانوں کی اہمیت یکساں ہے ‘‘دماء ہم کدمائنا ’’ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود جو خوں بہا مسلمانوں کا تھا وہی خوں بہا ایک غیر مسلم کا ادا فرمایا۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ اسلام کی نگاہ میں بلا تفریق مذہب انسانی جان اور زندگی کی کیا اہمیت ہے۔
اسلام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہ میں جو حرمت اور اہمیت ایک مسلمان کےمال کی ہے، وہی اہمیت غیر مسلم بھائیوں کے مال و جائداد کی بھی ہے ، فرمایا: ‘‘کسی غیرمسلم کا مال ناحق طور پر حاصل کرنا قطعاً جائز نہیں ہے’’۔ یہ بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر بیان فرمائی جب جنگ خیبر میں صلح ہوجانے کے بعد بھی بعض پر جوش لوگوں نے دست درازی سے کام لیا، جیسے ایک مسلمان کا مال چوری کرنے پر ہاتھ کاٹنے کی سزا ہے، اسی طرح اگر کوئی شخص غیر مسلم کا مال چوری کرلے تو وہ بھی اسی سزا مستحق ہوگا۔
بعض اموال شریعت کی نگاہ میں حرام ہیں جیسے شراب اور خنزیر ، اگر خدانہ خواستہ کوئی مسلمان اپنے پاس شراب اور خنزیر رکھے اور دوسرا شخص اسے ضائع کردے تو اس پر کچھ مؤاخذہ نہیں ہے، لیکن اگر مسلمان ہی کسی ایسے شخص کی شراب اور خنزیر کو ضائع کردے جس کے مذہب میں اس کو حلال سمجھا جاتا ہے تو اس شخص کو اس کی قیمت ادا کرنی ہوگی، اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اسلام نے مسلمان اور غیر مسلم دونوں کے مال اور مالی حقوق کی حفاظت کو یکساں اہمیت دی ہے۔
سب سے ہم مسئلہ کسی مذہب کے دوسرے مذاہب اوراہل مذاہب کے ساتھ رواداری اور دوسرے مذاہب کے تئیں احترام کا ہے۔ اسلام کی نگاہ میں اس بات کی کوئی گنجائش نہیں کہ دوسری قوموں کے ساتھ مذہبی اور امور میں ‘‘لو اور دو’’ کا معاملہ کیا جائے۔ مسلمان اپنے عقیدہ ، مذہبی اعمال اور تہذیب و ثقافت کے معاملہ میں اس طرح سودا بازی کو قبول نہیں کرسکتے ، یہ رواداری نہیں بلکہ ضمیر فروشی اور ایمان فروشی۔ رواداری سے مراد یہ ہے کہ دوسروں کے مذہبی جذبات کا پاس و لحاظ رکھے اور ا ن کے مذہبی معاملات میں کوئی مداخلت نہ کرے۔ اس معنی میں کہا جاسکتاہے کہ اسلام نے انسانیت کو حد درجہ مذہبی رواداری ، تحمل اور باہمی احترام کی تعلیم دی ہے اور بقا ءِ باہم کے اصول پر زندگی بسر کرنے کا طریقہ سکھایا ہے۔ قرآن مجید نے صاف اعلان کردیا کہ مذہب کے معاملہ میں کوئی جبر نہیں (البقرۃ :256)۔ مذہبی رواداری کی بہترین مثال وہ معاہدہ ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ آنے کے بعد مسلمانوں ، یہودیوں اور مشرکین کےدرمیان کرایا تھا اور اس معاہدہ کے تحت ہر ایک کو اپنے مذہب پرچلنے کی پوری پوری آزادی دی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ان ہی تعلیمات کی روشنی میں فقہاء نے غیر مسلم کے اس حق کو تسلیم کیا کہ اگر وہ کسی ملک میں رعایا کے طور پر زندگی بسر کررہے ہوں تو ان کو اپنے شخصی اور سماجی معاملات میں اپنے مذہبی قوانین پر چلنے کی آزادی ہوگی۔ مشہور حنفی فقیہ صاحب ہدایہ نے لکھا ہے کہ اگر آتش پرستوں کے یہاں اپنے محرم سے نکاح کی گنجائش ہو او رمسلم ملک میں کوئی آتش پرست ان محرم رشتہ داروں سے نکاح کرلے تب بھی مسلمان حکومت کو اس کی نجی زندگی کے مسائل میں دخل دینے کی گنجائش نہیں ہوگی، یہاں تک کہ اگر کوئی ایک فریق اپنے معاملات ہماری عدالت میں لائے تب بھی ہم ایسے معاملات میں مداخلت نہیں کرسکتے جب تک کہ دونوں فریق اسلامی عدالت سے رجوع نہ ہوجائیں ، اسی لئے اسلامی عہد میں اور خود ہمارے ملک کی مسلم بادشاہتوں میں ہمیشہ ‘‘اقلیتی پرسنل لاء ’’ کا تحفظ کیا گیا ہے۔
یہی فراخ دلی کا برتاؤ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے عبادت گاہوں کے بارے میں کیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ کے موقع پر عبادت گاہوں سے متعلق مذہبی شخصیتوں کو قتل کرنے سے منع فرمایا ۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے گورنر وں کو ہدایت فرمائی کہ کوئی کلیسا یا آتش کدہ منہدم نہ کیا جائے۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ جب بیت المقدس تشریف لے گئے اور کلیسا کے متولی کی اجازت بلکہ خواہش پر ایک چرچ میں نماز ادا کی تو پھر اس چرچ کے لئے ایک خصوصی دستاویز مرحمت فرمائی کہ کہیں مسلمان ان کے امیر کے نماز ادا کرنے کی وجہ سے جبراً اس کو اپنی عبادت گاہ بنانے کی کوشش نہ کریں۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی انہیں تعلیمات اور خلفائے راشدین کے عملی نمونوں کو سامنے رکھ کر فقہاء نے غیر مسلموں کے ساتھ مذہبی رواداری اور مذہبی آزادی کے احکام دیئے ہیں او رمسلمانوں کے لئے اس بات کو ناجائز قرار دیا گیا ہے کہ غصب کی ہوئی زمین پر نماز پڑھیں یا مسجد تعمیر کریں، اس لئے جو لوگ مسلمانوں کے بارے میں اس طرح کی باتیں کہتے ہیں کہ انہوں نے غیر مسلموں کی عبادت گاہوں پر جبراً قبضے کرلئے اور مسجدیں تعمیر کی ہیں ، وہ محض غلط فہمی اور غلط بیانی پر مبنی ہے۔
25 جنوری، 2013 بشکریہ : انقلاب ، نئی دہلی
URL: