مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
29نومبر،2019
اگر ہم گزشتہ چند صدیوں کی تاریخ کامطالعہ کریں تو معلوم ہوگا کہ صلیبی جنگوں کے خاتمہ کے بعدایک دور ایسا گزرا،جب عیسائی دنیا پستی اورتنزلی کے دلدل میں پھنسی رہی،پھر جب اس وقت کے ترقی یافتہ قوم (امت مسلمہ) کے ذریعہ علم کی روشنی اسپین کے راستہ یورپ تک پہنچی تو مغرب نے ایک نئی کروٹ لی اور اس کی بیداری صنعتی ترقی کے اس عظیم واقعہ کی شکل میں ظاہر ہوئی،جس کاتسلسل اب تک جاری ہے۔ مغرب مادی اور علمی ترقی نئی نئی منزلیں فتح کررہی ہے اور مسلسل آگے کی طرف جا رہی ہے او رمسلمانوں کے ادبی اور علمی زوال کی داستان بھی دراز سے درازترہوتی جارہی ہے۔ اس ترقی کاسہارا لے کر ایک نئی صلیبی جنگ استعماریت کی شکل میں شروع ہوئی جس نے ایشیاء و افریقہ او رخاص کرعالم اسلام کے بڑے حصے کوفتح کرتے ہوئے اسے اپنی نوآبادی بنا لیا۔ یہ استعماریت اس وقت تک جاری رہی جب تک خلاف عثمانیہ کا سقوط نہ ہوگیا او رعالم اسلام کی وحدت کو پارہ پارہ کرنے کی کوشش کامیاب نہ ہوگئی۔
اس کے بعد آہستہ آہستہ مسلم ممالک کو آزادی نصیب ہوئی،لیکن اکثر و بیشتر یہ نام نہاد آزادی تھی۔ ان کے گلے میں غلامی کا ایساطوق پہنایا گیا، جو آنکھوں کو نظر نہ آئے،لیکن وہ صرف جسم ہی کی غلامی نہ ہو بلکہ دل و دماغ کی بھی غلامی ہو، جس میں ایک قوم خود اپنے بارے میں فیصلہ کرتی ہوئی نظر آئے، لیکن اس کی حیثیت اس جہاز کی ہو جسے ریموٹ کے ذریعہ کنٹرول کیا جاتا ہے۔اسی دور میں کارل مارکس نے کمیونزم کا صور پھونکا اور دنیا کے دو بڑے ممالک یعنی روس اور چین اس نئے فلسفہ حیات او رنظام معیشت پر ایمان لے آئے۔ کمیونزم سرمایہ داری کے خلاف اعلان جنگ تھا۔ اب دنیا میں فکر ی اعتبار سے تین فریق بن گئے: مغرب کا سرمایہ دارانہ نظام،مشرق کا اشترا کی نظام اوراسلام۔ اگرچہ ان دونوں نظام ہائے حیات کو اسلام سے بغض تھا لیکن چونکہ عالم اسلام اپنی پستی او رکمزوری کی وجہ سے کمزور دشمن شمار کیا جاتا تھا اس لئے اصل سرد جنگ مغربی اور اشتراکیت کے حامل مشرقی ملکوں کے درمیان قائم رہی۔ اس سے ایک توازن برقرار تھا، بغض و عنا د رکھنے کے باوجود یہ دونوں بڑی طاقتیں مسلم ملکوں کواپنا ہم نواز رکھنا چاہتی تھیں، اور چونکہ سرمایہ دارانہ نظام کے حامل ممالک مذہب کی بالکل نفی نہیں کرتے تھے، اس لئے کمیونسٹ ملکوں کے مقابلہ میں عالم اسلام او رمسلمان مغربی قوتوں سے زیادہ قریب رہے۔ مغربی اقوام نے بھی یہ رویہ رکھا کہ وہ علی الاعلان کمیونزم کے خلاف تو بولتے تھے اور اپنے ذرائع ابلاغ کوبھی اس کیلئے استعمال کرتے تھے،لیکن اسلام او رمسلمانوں کوبراہ راست نشانہ بنانے میں کسی قدر رعایت سے کام لیتے تھے۔
کمیونزم کی بنیاد ایسے اصولوں پر تھی، جو پوری طرح فطرت سے متصادم تھے، اس لئے صرف 70سال کے اندر ہی اس کی جائے پیدائش اس کا مدفن بن گیا، اس نظام کا سب سے بڑا نمائندہ ملک اور دوسری سوپر طاقت ”روس“ خود اپنی وحدت کوبچا نہیں سکا او راس کے ٹکڑے ہوگئے۔ اب دنیا میں دو ہی تصورات باقی رہ گئے، ایک اسلام، دوسرے مغربی تہذیب اور مغرب کا سرمایہ دارانہ نظام۔ دشمن کا مقابلہ کرنے او رکسی فکر کے تحفظ میں دو طرح کے لوگوں کا اہم کردار ہوتا ہے، ایک: حکومتوں کا، جن کے پاس فوجی طاقت ہوتی ہے، جن کے پاس مادی وسائل ہوتے ہیں، جو زور زمین کی مالک ہوتی ہیں، جو ٹکنالوجی کی حامل ہوتی ہیں، اس کو وجود میں لانے اور ترقی دینے کا کام انجام دیتی ہیں او راس کے لئے وسائل فراہم کرتی ہیں،دوسرے:وہ لوگ جو اس فکر کے ترجمان او را س کے شارح ہوتے ہیں، جو فکری اعتبار سے اس کا دفاع کرتے ہیں، جو اپنی زبان اور قلم کے ذریعہ عوام کو اس سے وابستہ رکھتے ہیں۔ کسی بھی فکر کے بقاء اور کسی نظام کے دوام و استحکام کے لئے ان دونوں طبقوں کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ ایک کے پاس فولاد کی طاقت اور دوسرے کے پاس علم کا ہتھیار ہوتا ہے، ایک نوک شمشیر سے میدان سر کرتا ہے، دوسرا زبان و قلم سے، ایک زمین کو فتح کرتا ہے اور دوسرا دل و دماغ کو۔
چنانچہ اب مشرق و مغرب کی پوری طاقت اسلام، مسلمان او رعالم اسلام کی طرف متوجہ ہے۔ مسلم حکومتوں کو زیر کرنے میں انہیں کچھ زیادہ دشواری پیش نہیں آئی، کیونکہ خلافت عثمانیہ کے ختم ہونے کے بعد پورے عالم اسلام میں کوئی ایسی طاقت باقی نہیں رہی، جو مغرب کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرسکے۔ ان کو مزید کمزور کرنے کے لئے، دو خصوصی تدبیریں اختیار کی گئیں، ایک یہ کہ ان کے زیادہ سے زیادہ ٹکڑے کردیئے گئے، اتنے چھوٹے چھوٹے ممالک بنا دیئے گئے کہ بعض شہر بھی ان میں سے بعض ملکوں سے بڑے ہوں گے۔ اس طرح ان کے طاقت ٹوٹ گئی،قدرتی وسائل بٹ گئے،افرادی وسائل گم ہوگئے اوریہ بھی کوشش کی گئی کہ ان ملکوں کو پروانہ آزادی دیتے ہوئے سرحدوں کا اختلاف باقی رکھا جائے۔ اس اختلاف کے ذریعہ ان کے درمیان نفرت کا بیج بویا گیا اور اسے مسلسل پروان چڑھایا گیا۔ آج اکثر مسلم ممالک کی یہی صورتحال ہے۔ سعودی عرب او رکویت اور سعودی عرب او ریمن کے درمیان سرحد کا اختلاف موجود ہے،قطر او ربحرین کے درمیان جھگڑا ہے، کویت کی عراق سے او رمتحدہ عرب امارات کی ایران سے لڑائی ہے،مصر او رسوڈان کے درمیان اختلاف ہے، خود سوڈان میں عرب اور غیر عرب قبائل کے درمیان نزاع ہے، فلسطین کی چھوٹی سی نامکمل حکومت کے دو حصے بنے ہوئے ہیں،شام اور ترکی کو ایک دوسرے سے بغض ہے، کرد، عراق، ترکی او رشام سے نبرد آزما ہے،پاکستان اورافغانستان کے درمیان کدورتیں ہیں، بنگلہ دیش میں حکومت او راپوزیشن کے درمیان ٹھنی رہتی ہے۔ غرض شرق بعید کے دو تین مسلم ممالک اپنے مسلمان پڑوسی ملکوں سے یا ملک کے اندر دو طبقے ایک دوسرے سے برسر جنگ ہیں۔
دوسرا طریقہ یہ اختیار کیا گیا کہ مسلم ممالک کو حقیقی جمہوریت سے دور رکھا گیا، تاکہ وہاں ایسے لوگ نہ آجائیں،جو اسلام پسند ہوں او رمغربی تہذیب کے مقابلہ شریعت اسلامی کو نافذ کرنا چاہیں،اسی لئے انگلی پر گنے جانے والے تین چار مسلم ممالک کو چھوڑ کر باقی تمام ملکوں میں دو طرح کے حکمراں تخت اقتدار پر مسلط ہیں، ایک وہ جو خاندانی بادشاہت کے نمائندہ ہیں جبکہ دوسرے قسم کے ممالک وہ ہیں، جہاں کسی فوجی جنرل نے اقتدار پر قبضہ کیا،پھر وہ ڈکٹیٹر بن گیا او راس کے بعد یہ ڈکٹیٹر شپ اس کی نسلوں میں منتقل ہوتی رہی۔ عوام کے اختیار میں نہیں ہے کہ وہ جمہوری طور پر ان سے نجات پاسکیں، ان کے لئے نجات کی دو ہی صورتیں ہیں: یا تو کوئی فوجی یا ظلم وستم سے عاجز شخص تشدد کے ذریعہ اس کا خاتمہ کردے، یا اللہ تعالیٰ اس کو اٹھا لے۔ ان ملکوں کا حال بھی پہلی قسم کے ملکوں سے مختلف نہیں، بلکہ زیادہ برُا ہے۔ ان دونوں کی طرح کی حکومتوں میں مغربی طاقتوں نے اپنی سازشوں کے ذریعہ اس بات کی کامیاب کوشش کی ہے کہ اصحاب اقتدار ان کا کھلونا بن کر رہیں، وہ نام کے مسلمان ہوں، لیکن پوری طرح مغربی افکار، مغربی تہذیب اور مغربی طرز حیات کے نمائندہ ہوں، ان کی زبان حق بولنے سے خاموش رہے، اس کو ٹکنالوجی سے محروم رکھ کر بنابنایا سامان فراہم کیا جائے، ان کے وسائل سے بھرپور فائدہ اٹھایا جائے اورپھر قرض دے کر ان پر احسان جتایا جائے،ان کے ذریعہ عوام پر ظلم وستم کیا جائے، جو لوگ اسلام اور شریعت اسلامی کا نام لیتے ہیں، انہیں دبا یا جائے اور شدید سزائیں دی جائیں، وہ اپنے عوام کے مالک و مختار ہوں او رمغربی آقاؤں کے غلام۔ آج کم وبیش پورا عالم اسلام اسی صورتحال سے دو چار ہے۔
اس طویل عرصے میں مغرب کی مسلسل سازشوں اورستم انگیز یوں کے باوجود مسلم ممالک میں بھی او رمسلم اقلیتی ممالک میں بھی جن لوگوں نے ملت اسلامیہ کواسلام سے جوڑے رکھنے میں کامیابی حاصل کی ہے اور ان کی دینی حمیت اورایمانی غیرت سلامت ہے، وہ وہی طبقہ ہے جو زبان و قلم کے ذریعہ اسلامی افکار کی ترجمانی کرتا ہے او راخلاق و محبت کی تلوار سے لوگوں کے دلوں کو فتح کرتا ہے۔ یہ طبقہ علماء او ردینی تحریکات کا ہے، مغرب کے استعماری دورمیں ہی مسلمانوں میں اسلامی تحریکات وجودمیں آنے لگے او رانہیں فروغ حاصل ہوتا رہا۔ ان تحریکات کوفکر کا سرمایہ فراہم کرنے والا طبقہ علماء کا ہے۔ خلافت کے خاتمہ کے بعد کسی سرکاری اعانت کے بغیر اس طبقہ نے مسلمانوں کا دین سے رشتہ استوار کرنے میں جوکردار ادا کیا ہے، وہ نقش لازوال ہے، ورنہ نہ معلوم کتنے مسلمان ارتداد کا شکار ہوچکے ہوتے، وہریت او رالحاد پورے پورے ملک کو اپنے قبضہ میں لے لیتا، اسلامی شعائر کے بارے میں مسلمانوں کی دینی غیرت ختم ہوچکی ہوتی اورشریعت اسلامی سے ان کا رشتہ پوری طرح ٹوٹ چکا ہوتا، اور مسلمانوں کا یہ حال ہوگیا ہوتا، کہ ان میں جو لوگ مذہبی ہوتے وہ جمعہ اور عیدین میں شرکت کر لیتے او رکبھی کبھار مسجد چلے جاتے، ان کی عائلی زندگی، ان کی معیشت او رزندگی کے دوسرے مسائل میں شریعت کا کوئی حصہ نہیں ہوتا۔
علماء نے ہمیشہ اپنی بساط بھر امت مسلمہ کو دین سے جوڑ ے رکھنے او راسلام کو اللہ کی زمین پر نافذ کرنے کی کوشش کی،چونکہ ان کی یہ کوشش حکمراں طبقہ کے عیش و عشرت کے منصوبوں میں خلل انداز ہوتی تھی، اس لئے زیادہ تر وہ اپنے اپنے عہدے کے حکمرانوں کے معتوب ہی بنے رہے۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے تو قرنِ اول میں نذرانہ شہادت پیش کردیا تھا۔ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کو بنوامیہ او ربنو عباس دونوں زمانوں میں حکمراں شبہ کی نظر سے دیکھتے تھے،دونوں حکومتوں میں انہیں کرڑوں سے مارا گیا، قید کی سزا سے بھی دوچار ہوئے، یہاں تک کہ زہر کا پیالہ پلا کر انہیں شہید کیا گیا، امام مالک رضی اللہ عنہ کو عباس حکمراں منصور کے زمانے میں 70کوڑے لگائے گئے او راس طرح انکی مشکیں کسی گئیں کہ ہاتھ بازوسے اکھڑ گئے۔ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ عباس حکمراں مامون،معتصم او رواثق تینوں کے زمانہ میں ایسی شدید آزمائش سے گزرے کہ تاریخ عزیمت میں شاید اس کی مثال مل سکے، جس شخص نے امام احمد رحمۃ اللہ علیہ پر کوڑے برسائے خود اس کا بیان ہے کہ میں نے امام احمد رحمۃ اللہ علیہ پر اس سختی کے ساتھ 80کوڑے برسائے کہ اگر اس طاقت میں ہاتھی پر کوڑوں کی بارش کرتا تو وہ بھی چیخ اٹھتا، او ریہ بارش امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ پر ہوتی رہی، لیکن پائے استقامت میں کوئی تزلزل نہیں آیا۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا آخری زمانہ اس حال سے گزرا کہ زمین اپنی وسعت کے باوجودان پر تنگ ہوچکی تھی، سعید بن کو اس طرح ذبح کردیا گیا جیسے جانور کو ذبح کیا جاتا ہے لیکن حجان بن یوسف کا جبر و ظلم ان کو ذرا بھی خوفزدہ نہ کرسکا۔ ابن السکیت کی حق گوئی پر عباسی خلیفہ متوکل نے ان کی زبان کھینچوالی لہٰذاان کی روح پروازکرگئی، خود ہندوستان میں راہ ِ عزیمت میں علماء کی استقامت کی ایک وسیع تاریخ رہی ہے، شیخ احمد سرہندی مجد الف ثانی نے اکبر کی دین بے زاری کے خلاف علم اصلاح بلندکیا او رپھر ایک مرحلہ ایسا آیا کہ گوالیارمیں قید وبند کی صعوبت بھی اٹھائی۔ مغل حکمرانوں کے دورمیں مختلف علماء ومشائخ حق گوئی کے جرم میں شہید کردیئے گئے،کسی کو قتل کردیا گیا، کسی کو ہاتھی کے قدموں تلے رونددیا گیا،کسی کو دیوار میں چن دیا گیا اورکوئی جلاوطن کردیا گیا۔
جنگ آزادی وطن میں، جس میں علماء نے اسلام کی حفاظت کے لئے حصہ لیا،بے شمار علماء شہید کردیئے گئے،دلی کے مضافات میں 1857ء کی تحریک آزادی میں سرراہ درختوں پر پھانسی دی گئی، سید احمد شہید کی تحریک میں شامل کتنے ہی علماء صادق پورے جام شہادت نوش کیا، شاملی میں بڑے بڑے علماء نے سربہ کف ہوکر برطانوی فوج کا مقابلہ کیا، لیکن کوئی چیز ان کی ثابت قدمی کو متاثر نہیں کرسکی۔
آزمائش کا ایک دوسرا رنگ بھی ہوتاہے او روہ ہے مال ومتاع کا لالچ دے کر کسی کو اس کی فکر سے ہٹا دینا او راس کو اس کے مشن سے روک دینا۔ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں منقول ہے کہ عباسی حکمراں متوکل نے جب پچھلے مظالم کی تلافی کے لئے امام احمد کے پاس 20ہزار سکے بھیجے اورایک دوسرے موقع پر ایک لاکھ درہم بھیجے تو امام احمد نے معذرت کردی اور فرمایا کہ یہ آزمائش اس آزمائش سے بڑھ کر ہے۔ محدثین وفقہاء ہوں یا اکابر صوفیاء جیسے خواجہ حسن بصری شیخ عبدالقادر جیلانی، مشائخ ہند میں خواجہ معین الدین چشتی، خواجہ قطب الدین بختیار کاکی، خواجہ فرید الدین گنج شکر،خواجہ نظام الدین اولیا،شیخ شرف الدین یحییٰ منیری رحمۃ اللہ علیہ او ردیگر، ان سب کے حالات دیکھئے،یہ بادشاہوں اورحکمرانوں سے او ران کی طرف سے ملنے والے مناصب اور نذرانوں سے اتنادوررہتے تھے، جیسے انسان آگ سے دور رہتا ہے۔
موجودہ حالات میں مغربی طاقتوں کی کوشش یہ ہے کہ کسی طور اس طبقہ کی لگام کسی جائے، انہیں حق گوئی سے باز رکھا جائے، غلط تاویل او رجھوٹی توجیہ کے ذریعہ مغربی افکار او رلادینی تہذیب پر ان سے مہر لگوائی جائے۔یہ پہلے بھی ہوتارہا ہے۔ ہلاکو خان نے جب بغداد کو پوری طرح قابو میں کرلیا تو اس زمانے کے بعض نام نہاد ضمیر فروش علماء سے یہ فتویٰ صادر کرانے میں کامیابی حاصل کرلی کہ ’عادل کافر بادشاہ‘ ظالم مسلمان بادشاہ سے بہتر ہے او را س غلط فتویٰ کو اس نے اپنے لئے مہر تصدیق بنایا، مغرب نے اپنی اس سوچ کو روبہ عمل لانے کے لئے دو طریقہ کار اختیار کئے، ایک طریقہ ان ملکوں میں جہاں حکمراں ہیں یا جہاں آمرانہ نظام ہے،وہاں ظلم او ر دباؤ کا ہتھیار استعمال کیا جاتاہے اورحسب ضرورت کچھ ترغیب و تحریص کا،اس وقت کی زندہ مثال عرب ممالک ہیں، خاص کر مصر، جہاں شیخ لازہر او رمفتی اعظم سے مغرب کے منشا کے مطابق بیانات دلوائے جاتے ہیں، جہاں مساجد سے ان ائمہ کو معزول کردیا گیا ہے جو حقیقت میں اسلامی فکر کے ترجمان ہیں او رایسے لوگوں کواس اہم ذمہ داری پر فائز کیا گیاہے، جن کو اس عہد کا’منافق‘ کہا جاسکتا ہے۔ ان سے کس طرح کا کام لیا جارہا ہے اورلیا جانے والاہے اس کااندازہ اس سے کیا جاسکتاہے کہ وہاں ائمہ مساجد کے لئے جو تربیتی ورکشاپ رکھے جارہے ہیں، ان میں انہیں ترغیب دی جارہی ہے کہ وہ عوام کوبتائیں کہ اسرائیل ہماراپڑوسی ہے اور پڑوسی کے بڑے حقوق ہوتے ہیں، چاہے مسلمان ہو یا غیر مسلم او رچاہے اس کا سلوک اچھا ہو یا برُا،اس لئے اسرائیل جوبھی کرے، اہمیں پڑوسی ہونے کی حیثیت سے اس کے ساتھ بہتر سلوک کرنا چاہئے۔
جو جمہوری ممالک ہیں، جہاں دستوری طور پر کسی کو اپنے ضمیر کے خلاف مجبورنہیں کیا جاسکتا،وہاں مال ومتاع اورعہد ہ ومنصب کا لالچ دے کر زبان وقلم پر مہر لگانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ہندوستا ن دنیا کا سب سے بڑا جمہوری ملک ہے او ریقینا جمہوریت ایک نعمت ہے، نیز مسلم آبادی کے اعتبار سے دنیاکا دوسرا بڑا ملک ہے،اور اس ملک کی خصوصیت علماء ومشائخ،دینی جماعتوں،تحریکوں اور تنظیموں،نیز دینی تعلیمی اداروں کی کثرت ہے، اس لئے یہاں ایک طرف دباؤ کی پالیسی اختیار کی جارہی ہے،مدارس، ان کے طلبہ و فضلا ء، دینی تحریکوں سے وابستہ نوجوانوں اور مذہبی شخصیتوں پر انتہا پسندی، بنیاد پرستی اورد ہشت گردی کے الزامات لگائے جارہے ہیں اور دوسری طرف ان کے سامنے متاع مال و زر کی پیش کش بھی کی جارہی ہے، کبھی کہا جاتا ہے کہ حکومت ائمہ مساجد کو معقول تنخواہیں دے گی، مساجد اپنا رجسٹرڈ کرا لیں، کبھی مدارس کودعوت دی جاتی ہے کہ وہ گورنمنٹ کے قائم کئے ہوئے بورڈ میں شامل ہوجائیں،اس طرح اساتذہ کو اونچی تنخواہیں دی جائیں گی، کبھی حکومت کے غیر اہم مناسب دے کر تالیف قلب کی جاتی ہے،بحیثیت مجموعی ان تمام کوششوں کابنیادی مقصد اس طبقہ کی زبان کو بند کرنا او ران کی جد وجہد کومحدود کرنا ہے، جن کابنیادی مشن اسلام کی اشاعت و حفاظت ہے او ریہ سب کچھ فقط حکومت کا منصوبہ نہیں ہے، بلکہ ایک عالمی منصوبہ ہے جس کے تانے بانے امریکہ اور اسرائیل میں بنائے گئے ہیں۔
یہ حالات علماء و مشائخ، مدارس و جامعات اور دینی جماعتوں سے وابستہ حضرات کے لئے لمحہئ فکریہ ہیں کہ کیا ان کامقصد زندگی صرف مالی منفعت ہے، جس طور پر بھی حاصل ہوجائے،یا وہ اس سے اعلیٰ وارفع مقصد کے لئے کام کررہے ہیں؟ وہ انبیاء کے وارث ہیں، جن کامطمح نظر اجرت نہیں، اجر تھا، وہ اس کائنات میں خدائی مشن کی تکمیل کا ذریعہ ہیں۔ یہ وقت ہے کہ علماء سر جوڑ کر بیٹھیں،غور کریں،اپنے سلف کے راستہ پر خود کوثابت قدم رکھیں،فروغ دین کو متاع حیات بنانے کا عہد او را س بات کاعزم مصمم کریں کہ نہ فولاد و آہن کی طاقت اظہار حق کے معاملہ میں انہیں خوف زدہ کرسکے گیاو رنہ سیم کا لالچ انہیں اپنا سیر بنا سکے گا کہ بحیثیت مسلمان ہمارا جینا او رمرنا سب اللہ کے لئے ہے۔
29نومبر،2019 بشکریہ: انقلاب،نئی دہلی
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/luring-religious-community-with-riches/d/120407
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism