مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
26 ستمبر، 2014
اللہ تعالیٰ نے انسان کی فطرت کچھ ایسی رکھی ہے کہ وہ محبت کابھوکا ہے، اسی لئے اسے خوشی کے ماحول میں ایسے لوگوں کی جستجو ہوتی ہے جو اس کی مسرت میں شریک ہوسکیں، یہ شرکت اس کی خوشی کو دو بالا کردیتی ہے ، اسی طرح کسی انیس و غمخوار کی موجودگی اس کے غم کو ہلکا کرنے کا باعث بنتی ہے، یہ محبت اسے اکثر ایسے رشتوں سے حاصل ہوتی ہے جو فطری ہیں اور جس میں اس کے اختیار کوکوئی دخل نہیں اور ایک رشتہ ایسا بھی ہے جس کو انسان اپنی پسند اور اختیار سے وجود میں لاتا ہے،یہ ہے رشتۂ نکاح، نکاح کے بندھن میں بندھنے والے مرد و عورت کا ایک خاندان ایک علاقہ اور ایک زبان سے وابستہ ہونا ضروری نہیں ،بہت سی دفعہ بالکل اجنبی لوگوں کے درمیان رشتہ طے پاتا ہے، لیکن یہ رشتہ ایسی محبت و اُلفت کو جنم دیتا ہے جس کی گہرائی اکثر اوقات دوسرے تمام رشتوں سے بڑھ جاتی ہے، پرانے رشتے اس نئے رشتہ کے مقابلہ میں ہیچ ہوجاتے ہیں، یہ رشتہ یوں بھی اہم ہوتاہے کہ دونوں فریق کامستقبل بڑی حد تک موت تک ایک دوسرے سے جڑا ہوتاہے، یہ ایک دوسرے کے ذریعہ ماں باپ بنتے ہیں اور باہمی تعاون کے ساتھ اپنے جگر پاروں کی پرورش کرتےہیں، ایک زمانہ تک وہ خود ایک دوسرے کے لئے سنہرے خواب کی حیثیت رکھتے تھے اور اب دونوں مل کر اپنی آئندہ نسل کے لئے خواب دیکھتے ہیں۔
اسی لئے رشتہ نکاح میں دونوں فریق کے درمیان زیادہ سے زیادہ ہم آہنگی ہونی چاہئے ، یہ ہم آہنگی رشتوں کی پائیدار بناتی ہے، جو لوگ وقتی طور پر کسی پر دل پھینک دیتےہیں اور اس بنیاد پر ازدواجی رشتہ سے بندھتے ہیں، عموماً ان کے درمیان تعلق میں استحکام باقی نہیں رہتا، ہم آہنگی کے لئے اک ضروری شرط فکر و عقیدہ کی موافقت بھی ہے، سوچئے کہ اگر ایک شخص اللہ کو ایک مانتا ہو او راللہ کے سوا کسی کے سامنے اپنی پیشانی رکھنے کو سب سے بڑا جرم تصور کرتاہو، اس سے اس شخص کے ساتھ چوبیس گھنٹے کی زندگی میں کیسے موافقت ہوسکتی ہے جو سینکڑوں مخلوقات کا پجاری ہو، جب دونوں کے مذہبی تہوار آئیں گے تو اگر وہ اپنے نظریہ میں سنجیدہ اور سچا ہوتو کیا ان کے درمیان نزاع پیدا نہیں ہوگی ؟ جب اولاد کی تعلیم و تربیت اور ان کی مذہبی وابستگی کا مسئلہ آئے گا تو کیا آپس میں کھینچ تان کی نوبت نہیں آئے گی؟ یقیناً آئے گی، اسی لئے اسلام میں جو چیزیں نکاح میں رکاوٹ مانی گئی ہیں، جن کو فقہ کی اصطلاح میں موانع نکاح کہا جاتا ہے ، ان میں ایک اختلاف دین بھی ہے۔
اس کی تفصیلات کو تین نکات میں سمیٹا جاسکتا ہے ، اول یہ کہ مسلمان لڑکی کا نکاح کسی بھی غیر مسلم لڑکے سے نہیں ہوسکتا، خواہ وہ یہودی و عیسائی ہو یا کافر و مشرک ، جیسے ہندو بدھسٹ وغیرہ، اور اس کی وجہ ظاہر ہے کہ ایک عورت کے لئے مخالف ماحول میں اپنے ایمان کی حفاظت دشوار ہوجائے گی، دوسرے کسی مسلمان مرد کانکاح یہودی اور عیسائی عورت کے علاوہ کسی بھی غیر مسلم عورت سےنہیں ہوسکتا ، ظاہر ہے اس میں ہندو خواتین بھی شامل ہیں، تیسرے مسلمان مرد کا نکاح یہودی اور عیسائی عورت سے ہوسکتا ہے، لیکن اس سلسلہ میں دو باتیں پیش نظر رہنی چاہئیں ، ایک یہ کہ یہودی اور عیسائی ہونے کامطلب یہ نہیں ہے کہ اس نےحکومت کے مردم شماری کے خانہ میں اپنے ساتھ یہودی یا عیسائی لکھا ہو،جیسا کہ آج کل اہل مغرب کا حال ہے، بلکہ ضروری ہے کہ وہ حقیقتاً یہودی اور عیسائی ہو، یعنی خدا پر ، نبوت پر، الہامی کتاب پر اور آخرت کے نظام پر ایمان رکھتی ہو، دوسرے اگر چہ یہودی اور عیسائی خواتین سے نکاح کی گنجائش ہے، لیکن یہ بھی کراہت سے خالی نہیں، سیدنا حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے جب یہ بات سنی کہ شام کے علاقہ میں مسلمان مرد یہودی اور عیسائی عورتوں سے نکاح کررہے ہیں تو اس کو سختی سے منع کیا، اس کو دو مصلحتیں بالکل واضح ہیں، پہلی مصلحت یہ ہے کہ اس سے مسلم خاندانوں میں غیر اسلامی افکار اور اجنبی ثقافت کے گھس آنے کا اندیشہ ہے، دوسری مصلحت یہ ہے کہ سیاسی اور دفاعی اعتبار سے مسلمانوں کے حرم میں ایسی خواتین کا آنا نہایت نقصاندہ ہے ، جنرل اکبر خان نے سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی کتاب ‘‘حدیث دِفاع’’ میں اس پر بڑی چشم کشا گفتگو کی ہے، 1967 کی جنگ میں اسرائیل کی کامیابی او رمصر و شام کی پسپائی کا بنیادی سب یہی ہوا کہ بڑے بڑے کمانڈروں کی بیویاں عیسائی او ریہودی تھیں اور سارے جنگی راز لمحہ بہ لمحہ اسرائیل تک پہنچ رہے تھے، افسوس کہ عربوں کی آنکھ اب تک نہیں کھلی، مصر کے موجودہ ڈکٹیٹر سیسی کی ماں یہودی تھی، یہاں تک اس کا ماموں طویل عرصہ تک اسرائیل کا وزیر تعلیم رہا، اسی طرح شاہ اُردن کی بیوی عیسائی ہے، یاسر عرفات مرحوم کی بیوی کا بھی یہی حال تھا، یہی بے راہ روی ہے جس نے مسلم ملکوں کو ایسا کمزور کردیا ہے کہ وہ یہودی اور عیسائی طاقتوں سے آنکھ ملانے اور ان کے سامنے زبانِ احتجاج کھولنے کی بھی ہمت نہیں ہوتی، اس لئے کوئی شبہ نہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مسلمانوں کو جو تنبیہ فرمائی تھی، وہ ان کی فراست ایمان اور گہری بصیرت پر مبنی تھی ۔
بہر حال اس میں تو کوئی دو رائے ہے ہی نہیں کہ مشرک مرد سے مسلمان عورت کا یا مشرک عورت سے مسلم مرد کا نکاح نہیں ہوسکتا ، افسوس کہ اس روشن حقیقت کے باوجود اس وقت فرقہ پرست طاقتوں نے ‘‘ لو جہاد’’ کا افسانہ چھیڑ رکھا ہے، اگر اسلام اس کا قائل ہوتا او رمسلمان نکاح کو اشاعت اسلام کا ذریعہ بنانا چاہتے تو غیر مسلم اقوام سے نکاح کی ممانعت نہیں کی گئی ہوتی،بلکہ اس کی حوصلہ افزائی کی جاتی، جیسا کہ آج کل عیسائی دنیا میں کی جاتی ہے، بلکہ اسلام میں تو یہ بات بھی پسندیدہ نہیں ہے کہ کوئی مرد یا عورت اس لئے اسلام قبول کرے کہ اس کی فلاں شخص سے شادی ہوجائے، اللہ تعالیٰ کی رضا اور ہدایت کو حاصل کرنا اس کا مقصد نہ ہو، عہد نبوی میں مکہ فتح ہونے سے پہلے تک یہ بات واجب قرار دی گئی تھی کہ وہ مدینہ منورہ ہجرت کرجائیں، ایک صاحب اسلام قبول کرچکے تھے، لیکن وطن سے جو فطری محبت ہوتی ہے، اس کی وجہ سے ان کا دل ہجرت کرنے پر آمادہ نہیں تھا، لیکن وہ جن خاتون سے نکاح کرناچاہتے تھے ، ان خاتون نے شرط لگادی کہ اس کے لئے ہجرت کرنی ہوگی، بالآخر انہوں نے ہجرت کی ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات پسند نہیں آئی ، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ عمل کی قبولیت اور اس پر اجر و ثواب کا مدار نیت پر ہے ‘‘إنما الأ عمال بالنیات ’’ جس کی نیت اللہ اور رسول کی خوشنودی حاصل کرنا ہوگا، اس کی ہجرت اللہ اور رسول کی طرف سمجھی جائے گی، یعنی اللہ تعالیٰ اس کو اجر عطا فرمائیں گے ، اور جس کی ہجرت نکاح یا کسی دنیاوی غرض کے لئے ہو اس کی ہجرت قابل اجر و ثواب نہیں ہے، تو اگر کوئی شخص دل کی آمادگی کے ساتھ اسلام قبول نہ کرے ، صرف اس لئے مسلمان ہوجائے کہ فلاں لڑکے یا لڑکی سے میری شادی ہوجائے اندیشہ ہےکہ اس کو کما حقہ اجر و ثواب نہ ملے اور اگر وہ اسی کیفیت پر قائم رہے تو یہ ایک طرح کا نفاق ہوگا اور عجب نہیں کہ آخرت میں اس کا ظاہری ایمان اس کے منہ پر مار دیا جائے۔
ہندوستان میں مسلمانوں نے ہمیشہ حلال و حرام کی سرحدوں کو باقی رکھا ہے اور معتبر اور دین دار مسلمانوں نے کبھی غیر مسلم لڑکیوں کو بحیثیت منکوحہ اپنانے کی کوشش نہیں کی، بعض لوگ اکبر کی جودھا بائی سے شادی کا ذکر کرتے ہیں، لیکن یہ شادی راجپوتوں کی رضا مندی ، بلکہ رغبت کی بنیاد پر ہوئی تھی اور اکبر کوئی عالم یا دین دار مسلمان نہیں تھا کہ اس کے عمل کو مسلمانوں کے سر تھوپا جائے، حقیقت یہ ہے کہ اگر کوئی لڑکا یا لڑکی اپنے ضمیر کی آواز پر کسی مذہب کو قبول کرلے اور اپنے ہم مذہب سے نکا ح کر ناچاہے تو ہمارے ملک کا قانون اس کی اجازت دیتا ہے اور اس کو تبدیلی مذہب کے لئے شادی نہیں کہا جاسکتا ، اور اگر موجودہ مخلوط ماحول میں کوئی اپنی پسند کی بناء پر دوسرے مذہب کی لڑکی یا لڑکے سے رشتہ کرتا ہے تو اس کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں ،اور کم سے کم ہندوستان میں ایسے واقعات بہت پہلے سے ہوتے آئے ہیں اور اب بھی ہورہے ہیں ، خود مہاتما گاندھی جی کے خاندان میں اس کی مثال موجود ہے۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ جس فرقہ پرست گروہ نے اس وقت اس افسانہ کو رائی سے پہاڑ بنا دیا ہے، ان کے گھروں میں ایسے واقعات زیادہ پیش آتے رہتے ہیں ،اشوک سنگھل جیسے تشدد پسند وی ایچ پی لیڈر کی بیٹی مختار عباس نقوی کے نکاح میں ہے، مرلی منوہر جوشی کی بیٹی کی شادی ایک دوسرے بی جے پی لیڈر شاہنواز حسین سے ہوئی ہے ، لال کرشن اڈوانی کی بیٹی پرتیبھا اڈوانی نے دوسری شادی ایک مسلمان سے کی ہے، زہر اُگلنے والے فرقہ پرست لیڈر سبرامنیم سوامی کی بیٹی نے بھی مسلمان سے شادی کی ہے، مودی کی بھتیجی ایک مسلمان کے نکاح میں ہے، بال ٹھاکرے کی پوتی نیہا ٹھاکرے ڈاکٹر محمد نبی کے نکاح میں آئی ہے، پروین تو گڑیا جیسے شدت پسند زہر اُگلنے والے شخص کی بہن کی شادی ایک رئیس مسلمان سے ہوئی ہے، وہیں ایسی مثالیں بھی موجود ہیں کہ بعض غیر مسلم مردوں نے مسلمان عورتوں سے شادی رچائی ہے اور ایسی مثال بھی موجود ہے کہ بعض دفعہ عشق کے متوالے مسلمان عاشق نے ہندو خاتون سے شادی کے لئے اسلام سے محرومی کو گوارا کرلیا، جیسے فلمی دنیا میں دھرمیندر اور ہیما مالنی ، غرض کہ ایسی شادیاں مذہب کے اشاعت کے جذبہ سے نہیں ہوتیں ، بلکہ نفسیاتی جذبات کے تحت ہوتی ہیں ، ا س میں ہندو مسلم کاکوئی امتیاز نہیں ، ایسے واقعات کو ‘‘ لوجہاد’’ کا نام دینا جھوٹ اور دھوکہ کی بنیاد پر اپنے سیاسی قد کو اونچا کرنا ہے۔
علماء اور خطباء کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ مسلمانوں کی نئی نسل کو نکاح کے سلسلہ میں اسلامی تصورات سے واقف کرائیں او رایسے واقعات کو روکنے کی کوشش کریں جن میں ایک مسلمان لڑکا ایک غیر مسلم لڑکی کو بیاہ کرلے آتاہے یا مسلمان لڑکی غیر مسلم لڑکے کے ساتھ رشتہ ازدواج میں بندھ جاتی ہے کہ اس سے مسلم کی نگاہ میں یہ نکاح ہے ہی نہیں اور اس سے معاشرہ کا امن بھی درہم برہم ہوتا ہے ، ہاں اگر کوئی ہندو لڑکا یا لڑکی واقعی صدقِ دل سے اسلام قبول کرلے تو یقیناً شرعی طریقہ پر مسلمان لڑکے او رلڑکی کو اس سے نکاح کرنا چاہئے اور اسے اپنے خاندان کا حصہ بنا لینا چاہئے ، یہ شریعت کا حکم بھی ہے اور ہمارے ملک کا قانون بھی واضح طور پر اس کی اجازت دیتا ہے۔
26 ستمبر، 2014 بشکریہ : روز نامہ ہندوستان ایکسپریس ، نئی دہلی
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/corruption-name-jihad-/d/99291