مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
22 جنوری ، 2016
داعش نے اسلام کو بدنام کرنے اور اسلامی تعلیمات کومسخ کرنے کا جو بیڑا اٹھایا ہے ، اس کے ایک حصہ کے طور پر وہ عورتوں کو باندی بنانے اور ان کی خرید و فروخت کرکے بازار لگانے کی اوچھی حرکت بھی کررہے ہیں ۔ سنا گیا ہے کہ جن لوگوں پر وہ تسلط حاصل کرلیتے ہیں ، ان کی عورتوں کو باندی ڈکلیئر کردیتے ہیں ، کھلے عام ان کی خرید و فروخت کی جاتی ہے، یہاں تک کہ ان کو نیلام کیا جاتا ہے اور بر سرعام ان کی ڈاک لگائی جاتی ہے۔ یہ ساری غیر اسلامی حرکتیں اسلام کے نام پر کی جاتی ہیں، پھر یہی شرمناک تصویریں انٹر نیشنل اور نیشنل میڈیا سےلے کر سوشل میڈیا تک ہر جگہ پھیلائی جاتی ہیں اور جس مذہب نے سب سے زیادہ عفت و پاکدامنی ، شرم و حیا اور عورت کے ناموس کےاحترام کی تلقین کی ہے، ایسے رُسوا کن واقعات کو اسی دین و شریعت کی طرف منسوب کیا جاتا ہے۔
اس پس منظر میں مسئلہ کی حقیقت کو سمجھنا ضروری ہے اور اس سلسلہ میں چند سوالات پر غور بھی کرنا چاہئے:
(1) غلام او رباندی سے متعلق قانون کیا شریعت محمدی کا وضع کیا ہوا ہے، یا دیگر مذاہب اور قوانین میں بھی اس کا ذکر ملتا ہے؟
(2) اسلام نے غلام اور باندی کے رواج کو بیک جنبش قلم کیوں ختم نہیں کیا اور اس نے کس طرح بتدریج اس رواج کو ختم کرنے میں کامیابی حاصل کی؟
(3) اسلام میں غلام اور باندی کے کیا احکام اور حقوق ہیں؟
(4) کیا اسلامی تعلیمات کی رو سے اب بھی غلام اور باندی بنائے جاسکتے ہیں؟
جہاں تک اسلام سے پہلے غلام اور باندی کا تصور ہے تو یہ تاریخ کے ہر دور میں موجود رہا ہے۔ مغربی تہذیب کا سلسلہ نسب روم اور یونان سےملتا ہے ، ان کے یہاں غلام اور باندیوں پر جو مظالم ہوا کرتے تھے ، تاریخ میں ان کا ذکر موجود ہے، یہاں تک کہ غلامو ں کو جانوروں سے لڑایا جاتا تھا اور کنیز بنائی ہوئی عورتوں سے ہر طرح کی خدمت لی جاتی تھی ۔ ہندو مذہب سےوابستہ برادران وطن کے دعوے کےمطابق ان کا مذہب قدیم ترین ہے، ان کے یہاں یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ کرشن جی کی اصل بیوی تو رادھا تھیں ، لیکن سیکڑوں گوپیاں ان کے تصرف میں تھیں ، ظاہر ہے کہ وہ سب ان کی باندیاں ہی تھیں، ہندو مذہب میں جنگ کا یہی قانون تھا کہ جنگ میں جو قوم مغلوب ہوجائے، عورتوں کے بشمول تمام چیزیں جیتنے والے کی ملکیت ہوجاتیں ، چنانچہ منوجی کی دھرم شاستر کی یہ عبارت بطور خاص ملاحظہ کی جاسکتی ہے:
گاڑی، گھوڑا ، ہاتھی، چھتری ، لباس (سوائے ان جواہر کے جو اس میں ٹکے ہوئے ہوں) غلہ، مواشی، عورتیں اور ہر قسم کی رفیق اورجامد چیزیں (سوائے چاندی سونے کے ) اس شخص کی جائز ملک ہیں جو لڑائی میں ان کو جیتے ۔( 96:7)
اس سے معلوم ہوا ےکہ ہندو مذہب میں مفتوح قوموں کے مردوں اور عورتوں کو غلام اور باندی بنا لینے کا باضابطہ قانون موجود تھا ۔ یہ تو انفرادی غلامی کا مسئلہ ہے، لیکن ہندو مذہب کی اصل تعلیمات میں تو پوری قوم کی غلامی کا تصور بھی ہے، جس کے ایک ایک مرد و عورت پر اس سے اعلیٰ تر گروہ کی ملکیت قائم ہوتی تھی، چنانچہ منوجی کی تعلیمات میں ہے:
شودر ذات کا ہر آدمی خواہ خریدا ہویا ناخریدا ، اسے برہمن اپنی خدمت پر مجبور کرسکتا ہے، کیو نکہ اس کو واجب الو جود نے برہمن کی غلامی کےلئے پیدا کیا ہے۔(413:8)
تورات میں بھی باندی کا تصور موجود ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام جن کی طرف یہودی، عیسائی اور مسلمان تینوں اپنی نسبت کرتےہیں، تورات میں ہے کہ : ‘‘مصری شہزادی حضرت ہاجرہ ان کی پہلی بیوی حضرت سارہ کی باندی تھیں، جو انہو ں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو دے دی تھی اور اسی سے حضرت اسماعیل علیہ السلام پیدا ہوئے’’ (پیدائش:6 :1۔4)
اگرچہ بائبل کا یہ بیان درست نہیں ہے ،حقیقت یہ ہےکہ حضرت ہاجرہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بیوی ہی تھیں ، لیکن بائبل کے اس بیان سے یہ بات بہر حال واضح ہوگئی کہ باندی کا تصور یہودی و عیسائی مذہب میں بھی موجود ہے۔ بائبل کے بیان کے مطابق حضرت سلیمان علیہ السلام کی ڈھیر ساری باندیاں تھیں، چنانچہ تورات میں ہے : ‘‘ اس کے پاس سات سو شہزادیاں ا س کی بیویاں اور تین سو حرمیں تھیں ۔’’ (سلاطین :11)
تورات میں جنگ کا جو قانون بیان کیا گیا ہے ، اس میں مفتوح قوم کی عورتوں کو باندی بنا لینے کا واضح حکم دیا گیا ،چنانچہ تورات کے صحیفہ گنتی میں ہے: ‘‘ سوتم ان بچوں کو جتنے لڑکے ہیں سب کو قتل کردو اور ہر ایک عورت کو جو مرد کی صحبت سے واقف تھی جان سےماردو، لیکن وہ لڑکیاں جو مرد کی صحبت سےواقف نہیں ہوئیں ، ان کو اپنےلئے زندہے رکھو۔ (18:17:31)
اس لئے یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہئے کہ باندی رکھنے کی رسم کی ایجاد اسلام نے کی ہے، یہ رسم دنیا کے دوسرے مذاہب اورنظام ہائے قانون میں پہلے سے موجود رہی ہے۔
دوسراسوال یہ ہے کہ اسلام نے اس رسم کو ختم کیوں نہیں کیا؟ اولاً تو بعینہ یہ سوال ہندو مذہب کے ماننے والوں اور تورات کی اتباع کرنے والوں سے بھی ہوتا ہے ،لیکن اس کی حکمت پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ اسلام باوجود یہ کہ عدل و انصاف کا داعی اور مساوات کاعلمبردار ہے، نیز اس کی بنیادی دعوت ہی انسانوں کو انسانوں کی غلامی سے نکال کر اللہ تعالیٰ کی غلامی میں داخل کرنا ہے، تو پھر اس نے کیوں غلامی کے اس نظام کو سود اور شراب وغیرہ کی طرح یکبارگی ختم نہیں کیا؟ ۔۔۔ دراصل اس کا تعلق قانون جنگ سے ہے، جنگ میں جو لوگ مارے گئے ، ان کا تو کام تمام ہوچکا، لیکن مفتوح قوم کے جو مرد و عورت بچ جائیں ، ان کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے، گزشتہ اقوام میں ان کےلئے دو ہی راستے تھے، یا تو ان کو بھی قتل کردیا جاتا، یا انہیں غلام و باندی بنا لیا جائے، مثلاً تورات میں اس سے متعلق دیگر باتوں کے علاوہ لکھا ہے کہ :
کسی چیز کو جو سانس لیتی ہے جیتا نہ چھوڑیو، بلکہ تو ان کو حرم کیجیو (استثناء: 16:20۔17)
تورات کے اسی باب میں ایک او رموقع پرکہا گیا ہے:
اور اگر وہ تجھ سے صلح نہ کرے، بلکہ جنگ کرے تو تو اس کامحاصرہ کر اور جب خدا وند تیرا خدا اسے تیرے قبضہ میں دیدے تو وہاں کے ہر ایک مرد کو تلوار کی دھار سے قتل کر، مگر عورتوں او رلڑکوں او رمواشی کو او رجو کچھ اس شہر میں ہو، اس کی ساری لوٹ اپنے لئے لے اور تو اپنے دشمن کی اس لوٹ کو جو خدا وند تیرے خدا نے تجھے دی ہے کھائیو۔( استثناء: 20 :10۔1411)
غرض کہ جنگی قیدیوں کے سلسلہ میں یہی دو طریقے تھے ۔ ان کاقتل عام یاانہیں غلام اور باندی بنا لینا۔ اسلام چونکہ اپنے اصل مزاج کے اعتبار سےغلامی کے اس نظام کو پسند نہیں کرتاہے اور نہ بلا وجہ قتل و خونریزی کو گوارا کرتاہے، اس لئے اس نے اول یہ ہدایت دی کہ میدان جنگ میں تو تمہارا دشمنوں کو قتل کرنا درست ہے،لیکن جب وہ قابو میں آجائیں تو سوائے بعض استثنائی اور غیر معمولی صورتوں کے انہیں قتل نہ کیا جائے، بلک قیدی بنا لیا جائے: ‘‘حَتَّىٰ إِذَا أَثْخَنتُمُوهُمْ فَشُدُّوا الْوَثَاقَ’’ (محمد:4) اب ان قیدیوں کو زندہ رکھتے ہوئے اسلام سے پہلے ایک ہی راستہ تھاکہ انہیں غلام اور باندی بنالیا جائے: لیکن اسلام نے ان کےلئے کئی راستے رکھے ہیں ۔۔۔ ایک صورت یہ ہے کہ ان کو گرفتار ہی نہ کیا جائے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے موقع پر مشرکین کے ساتھ اور بنو قینقاع، بنو نضیر اور خیبر کے موقع پر یہی صورت اختیار فرمائی ۔
دوسری صورت یہ ہے کہ گرفتار کرنے کے باوجود ابھی بلا معاوضہ رہا کردیا جائے، جس کو قرآن مجید نے ‘‘ مَن ’’ یعنی احسان سے تعبیر کیا ہے ۔ (محمد:4)۔۔۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ حنین کے موقع پر قبیلہ بنو ہوازن کے چھ ہزار قیدیوں کو بغیر کسی معاوضہ کے رہا فرما دیا ۔ صلح حدیبیہ کے موقع سے اسّی مشرکین کے گروہ نے صبح کے اندھیرے میں حملہ کیا اور گرفتار ہوئے ، ان کو بھی آپ نے یوں ہی رہا فرما دیا، بعد کو جب روم و ایران کےعلاقے فتح ہوئے تو اس وقت بھی عمومی طور پر مفتوحین کو رہا کردیا گیا اور انہیں غلام و باندی نہیں بنا یا گیا۔
تیسری صورت یہ ہے کہ ان سے فدیہ لے کر ان کو رہا کیا جائے اور فدیہ میں بھی یہ گنجائش ہے کہ چاہے ان سے مال کی شکل میں فدیہ لیا جائے یا ان کی مہارت سے فائدہ اٹھایا جائے اور اسی کو ان کو فدیہ بنا دیا جائے، جیسا کہ جو لکھنا پڑھنا جانتے تھے، غزوۂ بدر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دس مسلمان بچوں کی تعلیم کو ان کے حق میں فدیہ قرار دیا تھا ۔ قرآن پاک میں ان دو صورتوں کا ذکر کیا گیا ہے: بلا وضہ رہا کردینا ، یا معاوضہ لے کر رہا کردینا، اس سے معلوم ہوا کہ اسلام میں قید کئے جانے والوں کے ساتھ اصل حکم یہی دو ہیں۔
چوتھی صورت یہ ہے کہ جنگی قیدیوں کا آپس میں تبادلہ کر لیا جائے، اس زمانہ میں قیدیوں کے تبادلہ کاکوئی بین قومی معاہدہ نہیں تھا، لیکن جہاں ایسی صورت ممکن ہوئی، وہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیدیوں کا تبادلہ بھی فرما یا اور اسی لئے فقہا ء اس بات پر متفق ہیں کہ اگر دشمن جنگی قیدیوں کے باہمی تبادلہ پر آمادہ ہوجائیں تو قیدیوں کا تبادلہ کرلیا جائے گا۔ ( فتح القدیر: 306:4)
پانچویں صورت یہ ہے کہ دشمن کے قیدیوں کو غلام اور باندی بنالیا جائے ، لیکن یہ صرف ایک جائز عمل تھا ، اس کی ترغیب نہیں دی گئی ، اور اس کی گنجائش بھی اسی وقت ہے ، جب کہ قیدیوں کے تبادلہ کی کوئی صورت پیدا نہ ہوسکے ۔ (جاری)
22 جنوری، 2016 بشکریہ: انقلاب ، نئی دہلی
URL: https://newageislam.com/urdu-section/conspiracy-defame-islam-distorting-islamic/d/106084