مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
13جنوری، 2017
آپ ﷺ قدم قدم پر اپنے ساتھیوں کی دلداری کا خیال رکھتے تھے، غزؤہ حنین کے بعد جب مال غنیمت کی تقسیم کے سلسلہ میں انصار میں سے بعض نو جوانوں کو شکوہ پیدا ہوا تو آپ نے ان کو الگ جمع کیا اور ایسا اثر انگیز خطبہ دیاکہ ان کی داڑھیاں آنسوؤں سے تر ہو گئیں ، آپ نے اس موقع پر جہاں انصار مدینہ پر اسلام کے احسانات کا ذکر فرمایا، وہیں انصار کے احسانات کا بھی کھلے دل سے اعتراف فرمایا اور اخیر میں ارشاد فرمایا : کیا تمہیں یہ بات پسند نہیں ہے کہ لوگ بکریاں اور اونٹ لے کر جائیں اور تم اپنے نبی کو کجاوہ میں لے کر جاؤ؟ اگر ہجرت نہ ہوتی تو میں انصاری میں پیدا ہوا ہوتا ، اگر لو گ ایک وادی میں چلیں تو میں اس وادی میں چلوں گا ، جس میں انصار چلیں، میرے لئے انصار کی حیثیت اس لباس کی سی ہے ،جو اوپر سے پہنا جاتا ہے :"الانصار شعاروالناس دنار"۔(بخاری، عن عبداللہ ابن زید، باب غزوۃ الطائف، حدیث نمبر :4330)
آپﷺ اپنے صحابہ کی ضرورتوں کا پورا خیال رکھتے ایک صاحب کی کھجور کی فصل خراب ہو گئی اور ان پر بہت سارا دین ہو گیا ،آپ ﷺ نے اپنے رفقاء سے فرمایا ، ان کی مدد کرو، لوگوں نے مدد کی لیکن دین ادا نہیں ہو پایا ، آپ نے ان کے قرض خواہوں سے کہا :جو موجود ہو وہ لے لو اور تم کو صرف اسی کا حق حاصل ہے۔(مسلم ، باب استحباب وضع الدین، حدیث نمبر:1556)
اگر آپ کے رفقاء میں سے کسی کو تکلیف دہ بات پیش آئی تو ان کی تسلی اور دلداری کا پورا اہتمام فرماتے ، عبداللہ ابن جحش نے جب ہجرت کی تو مکہ مکرمہ میں ان کے مکا ن پر ابو سفیان نے قبضہ کر لیا اور بیچ ڈالا ، جب انھوں نے آپ ﷺ سے شکایت کی تو آپﷺ نے فرمایا : تمہیں یہ بات پسند نہیں ہے کہ اللہ تم لو اس کے بدلے جنت میں اس سے بہتر گھر عطا فرما دے، انھوں نے عرض کیا : کیوں نہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : تم کو یہ چیز ، یعنی : اس کے بدلہ میں جنت ملے گی ، (سیرت ابن ہشام :3/128، الروض الانف :4/166)۔۔۔ایک صاحب اپنے چھوٹے بچے کو لے کر خدمت اقدس میں حاضر ہوا کرتے تھے ، بچہ آپﷺکی پشت مبارک کی طرف آجاتا تو آپ ﷺ اسے آگے بٹھا لیا کرتے ، بچے کا انتقال ہو گیا، اس صدمہ سے ان کے والد حاضر نہ ہو سکے ،آپ ﷺ کو معلوم نہیں تھا، ان کے بارے میں دریافت کیا ، بتایا گیا کہ ان کے صاحبزادے کا انتقال ہو گیا ہے ، آپ ﷺ نے ان سے ملاقات کی ، ان کے بچہ کے بارے میں دریافت فرمایا : تمہیں یہ بات زیادہ محبوب ہے کہ وہ تمہارے ساتھ زندگی گزارتا یا یہ بات کہ تم جنت کے کسی دروازے پر آؤ ، اور تم دیکھو کہ وہ تم سے پہلے پہنچ چکا ہے اور تمہارے لئے دروازہ کھول رہا ہے ؟ انھوں نے عرض کیا یہ دوسری بات مجھے زیادہ محبوب ہے ، آپ ﷺ نے فرمایا یہ چیز تم کو حاصل ہو گئی ، صحابہ نے عرض کیا : یہ صرف ان کے لئے ہے یا سبھوں کے لئے ، آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا سبھوں کے لئے ۔(نسائی ، عن قرۃ بن ایاس ، باب فی التعذیہ، حدیث نمبر: 2088)
اسی طرح آپ مشکل کاموں میں بھی صحابہ کے ساتھ شریک رہتے ، غزوہ زخندق کے موقع سے سرد موسم تھا ، صحابہ بھوکے پیاسے خندق کھودنے میں مشغول تھے اور تھک کر چور ہو جاتے تھے ایسے وقت آپ ﷺ تشریف لاتے اور فرماتے :
اللھم ان العیش عیش الآخرۃ، فاغفر للانصار والمھاجر ۃ (بخاری ، کتابالمغازی، باب غزوۃالخندق، حدیث نمبر:4099) اے اللہ عیش و آرام تو آخرت ہی کا عیش و آرام ہے اس لئے انصار اور مہاجرین کی مغفرت فرما دیجئے۔
ہم لوگ جواب میں کہتے کہ ہم نے آخری دم تک کے لئے جہاد پر (محمدﷺ)سے بیعت کی ہے ، سب سے آگے آپ ﷺ بڑھے اور اس حال میں واپس آئے کہ آپ حضرت ابو طلحہ کے گھوڑے پر تھے،جس پر زین بھی نہیں تھی اور گردن مبارک سے تلوار لٹکی ہوئی تھی، آپ فرما رہے تھے : کہ کیوں گھبراتے ہو؟ (بخاری عن انس ، باب الحمائلوتعلیق السیف بالعنن، حدیث نمبر :2908)ایک دفعہ اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ سفر پر تھے ، چنانچہ ایک بکرہ کو ذبح کرنے کی بات طے پائی ، ایک ، صحابی نے کہا : میں اسے پکاؤں گا، رسول اللہ نے کہا :میں ایندھن کی لکڑیاں جمع کروں گا ، صحابہ نے عرض کیا:آپ کا کام ہم کر دیں گے ، یعنی آپ زحمت نہ فرمائیں!ارشاد فرمایا : مجھے معلوم ہے تم لوگ میری طرف سے کفایت کر دو گے، لیکن مجھے پسند نہیں ہے کہ میں تم لوگوں کے مقابلہ امتیازاور بڑائی اختیار کروں ، اللہ اپنے ساتھیوں میں بڑے بنتے ہوں :"فان اللہ سبحانہ و تعالیٰ یکرہ من عبدہ ان یراہ متمیزا بین اصحابہ"۔(کشف الخفاء: 1/251)
آپ اپنے رفقا کے ساتھ اس طرح رہتے تھے کہ آپ ﷺ گویا ان میں سے ایک ہیں ، حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ انصارکے یہاں تشریف لے جاتےتھے، ان کے بچوں کو سلام کرتے تھے، بچوں کے سر پر ہاتھ پھیرتے تھے اور انہیں دعائیں دیتے تھے،(سنن بیہقی ،عن انس ، باب ابناءالانصار، حدیث نمبر:8291)حضرت سہل بن حنیف سے روایت ہے کہ آپ مسلمان میں سے کمزور لوگو ں کے پا س تشریف لاتے تھے ، ان سے ملاقات کرتے تھے ، ان کے بیماروں کی عیادت فرماتے تھے اور ان کے جنازے میں شریک ہوتے تھے ،(مستدرک حاکم ، باب تفسیر سورۃ ق حدیث نمبر :3735)حضرت ابن ابی اوفی رضی اللہ عنہ نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ کو بیواؤں اور مسکینوں کے لئے چلنےاور ان کی ضرورت پوری کرنے میں کوئی عار نہیں ہوتا تھا۔(نسائی ، باب ما یستحب من تقصیر الخطبہ، حدیث نمبر :1413)
بہت سے لوگ جو دیہات کے رہنے والے تھے ، عام طور پر تہذیب نا آشنا ہوتے تھے ؛ لیکن آپ ﷺ ان کی باتوں کو بھی خندہ پیشانی سے سہ جاتے تھے ، ایک موقع پر ایک دیہاتی شخص نے اس زور سے چادر کھینچ دی کہ گردن مبارک پر نشان پڑ گیا، آپ نے صرف اس قدر فرمایاکہ تم اسے بھلے طریقہ پر بھی تو کہ سکتے تھے ،(بخاری ، کتاب فرض الخمس، حدیث نمبر: 3149) حضرت جبیر ابن مطعم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ غزوہ حنین سے واپس ہوے تھے جب ڈھیر سارا مال غنیمت آیا تھا ، لوگوں نے آپ ﷺ سے مانگتے ہوئے اس قدر دق کر دیا کہ آپ ایک درخت سے جا لگے ، ایک دیہاتی نے چادر تک کھینچ لی ، آپ کھڑے ہوگئے اور ارشاد فرمایا : اگر میرے پاس ان درختوں کے میدان کے برابر جانور ہوتے تو میں اس کو بھی تمہارے درمیان تقسیم کر دیتا ، تم مجھے بخیل ، جھوٹا اور بزدل نہیں پاؤ گے۔
(صحیح بخاری، باب ما کان النبی صلی اللہ علیہ وسلم یعطی المولفۃ قلوبھم الخ، حدیث نمبر:3148)
آپﷺ رفقاء کے ساتھ نہ صرف مالی جہت سے حسن سلوک کرتے تھے ؛ بلکہ ان کو مشورہ میں بھی شامل رکھتے تھے ؛ حالاں کہ آپ کا ہر عمل وحی الہی پر مبنی ہوتا تھا ؛ اس لئے آپ کو مشورہ کی ضرورت نہیں تھی ؛ لیکن اپنے ساتھیوں کی دلداری اور مشورہ کی اہمیت کو واضح کرنے کے لئے آپﷺ مشورہ فرمایا کرتے تھے ، کثرت سے اپنے ساتھیوں سے کہتے تھے ؛ اے لوگوں ! مجھے مشورہ دو : "اشیر و ا علی ایھاالناس"(مسلم ، باب نقض الکعبۃ و بنائھا، حدیث نمبر: 402)؛ چنانچہ غزوہ خندق کے موقع خندق کھودنے کا فیصلہ حضرت سلمان فارسی کے مشورہ سے ہوا ؛ بلکہ ایسا بھی ہوتا تھا کہ آپﷺ بعض اوقات اپنی رائے پر رفقاء کی رائے کو ترجیح دیتے تھے ، جیساکہ غزوہ احد میں ہوا ؛(سیرۃابن ہشام : 2/60) حالانکہ بعد کے حالات نے ثابت کیا کہ آپ ہی کی رائے درست تھی ؛ لیکن آپ نے ان ساتھیوں پر کوئی نکیر نہیں فرمائی ، جن کے مشورے پر عمل کیا گیا تھا اور جو بظاہر مسلمانوں کے لئے نقصان کا سبب ہوا۔جہاں آپ اپنے رفقاء کی مادی ضرورتوں کا اور دلداری و حسن سلوک کا لحاظ رکھتے ، وہیں ان کی دینی تربیت پر بھی متوجہ رہتے تھے، آپ نے ایک صاحب کو تیز تیز نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ، پوری توجہ سے ان کی نماز کا جائزہ لیااور پھر ان کو اعتدال اور میانہ روی کے ساتھ نماز پڑھنے کی تلقین کی، (مسلم ، کتاب الصلاۃ، حدیث نمبر: 397)ایک موقع پر اپنے رفقاء سے فرمایا : جس طرح نماز پڑھتے ہوے دیکھتے ہو ، اسی طرح نماز پڑھا کرو:"صلو ا کما رایتمونی اصلی"(بخاری ، باب رحمت الناس ولبھائم، حدیث نمبر : 6008) حجۃ الوداع کے موقع پر فرمایا: شاید اس کے بعد میرا اور تمھارا حج ایک ساتھ نہ ہو پائے؛ اس لئے مجھ سے ضرور ہی حج کا طریقہ سیکھ لو :"لتاخذوا مناسکم"(مسلم، حدیث نمبر : 1297) حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے قرآن پڑھوا کر سنا ، (مسلم ، حدیث نمبر: 801)حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے ایک مقدمہ کا فیصلہ کروایا ،(کنزالعمال5/128) حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو اجتہاد کے اصول بتلائے( ترمذی ، کتاب الاحکام ، حدیث نمبر : 1327)حضرت علی کو قضا ء کا کام سپرد کرتے ہوئے نئے پیش آنے والے مسائل کے حل کا منہج سمجھایا ، کہ ان مسائل میں انفرادی رائے قائم کرنے کے بجائے اجتماعی غور و فکر کا طریقہ اختیار کرنا چاہئے ۔(المعجم الاوسط:1618) دینی تربیت کا ہی ایک پہلو یہ ہے کہ آپ ﷺ اپنی تمام تر نرمی ، رحمدلی ، تواضع اور خوش اخلاقی کے باوجود احکام شریعت کے معاملے میںسختی سے کام لیتے تھے، آپ ﷺ حضرت اسامہ بن زید کو بہت چاہتے تھے ، عرب کے ایک معزز قبیلہ کی ایک خاتون نے چوری کر لی تھی اور اس پر شرعی سزا جاری کرنے کا مسئلہ تھا، حضرت اسامہ نے اس کے حق میں سفارش کی ، تو آپ کے چہرے کا رنگ بدل گیا، آپ نے نہ صرف ان کی تنبیہ کی بلکہ اس موقع سے خطبہ بھی ارشاد فرمایا: گزشتہ قومیں اسی بنیاد پر ہلاک کر دی گئیں، کہ ان میں کوئی معزز آدمی چوری کرتا تو اس پر سزا جاری کرتے ، خدا کی قسم ! اگر فاطمہ بنت محمد ﷺ بھی چوری کرتی تو اس کے بھی ہاتھ کاٹے جاتے ۔( بخاری ، باب حدیث الغار ، حدیث نمبر : 3475) آپ ﷺ اس بات کا بھی خیال رکھتے کہ اپنے رفقاء کے درمیان کوئی رنجش پیدا ہو جائے تو اسے دور فرمادیں ایک بار تو ایسا ہوا کہ آپ قبیلہ بنو عوف میں صلح کرانے کے لئے تشریف لے گئے اور اس کوشش میں اتنی تاخیر ہو گئی کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے نماز کے لئے حضرت عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ کو آگے ، آپ ﷺ باد میں آکر شریک ہوئے ، (بخاری، عن سہل ابن سعد ساعدی باب من دخل لیؤم من الناس الخ، حدیث نمبر : 684)اسی طرح آپ ﷺ نے بعض صحابہ کے درمیان ، مہاجرین و انصار کے درمیان ، اور انصار کے دو قبائل اوس و خزرج کے درمیان اختلاف کو دور کرنے کی کامیاب کوشش کی اور میل ملاپ کو باقی رکھنے کا سبق دیا۔ اپنے احباب کے ساتھ اس حسن سلوک کا نتیجہ تھا کہ ہر صحابی کا دل آپ کی محبت سے لبریز ہوتا ، حضرت انس سے روایت ہے کہ بعض لوگ وہ تھے ، جو دنیاوی مفاد کے لئے اسلام قبول کرتے تھے لیکن اسلام قبول کرنے کے بعد ان کو مسلمان ہونا دنیا اور اس کی تمام چیزوں سے عزیز تر ہو جاتا تھا۔( مسلم ، باب ما سئل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شیئا قط ، فقال : لا و کثرۃ عطائہ، حدیث نمبر : 2312)
غرض کی رسول اللہ ﷺ کی ذات والا صفات اپنے دوستوں ، بے تکلف ساتھیوں ہم عمر اور رفقاء کار کے ساتھ خشگوار برتاؤکی ایک بہترین مثال ہے!
13جنوری، 2017 بشکریہ: روز نامہ ہندوستان ایکسپریس، نئی دہلی
URL: https://newageislam.com/urdu-section/beautiful-behaviour-prophet-muhammad-(saw)/d/109712
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism