مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
8 جنوری، 2016
تیسرا قابل توجہ سوال یہ ہے کہ داعش کے لوگ جو کچھ کررہے ہیں، ان کے بارے میں اسلامی تعلیمات کیا ہیں؟ ان تعلیمات کو اقوام عالم کے سامنے اچھی طرح واضح کرنے کی ضرورت ہے۔ داعش کی پہلی بنیادی فکر یہ ہے کہ کوئی شخص ان کے خیال کے مطابق دین کے کسی عمل کو چھوڑ دے ، یا کسی گناہ کا مرتکب ہوجائے تو وہ مسلمان باقی نہیں رہتا، بلکہ وہ کافر ہوجاتا ہے۔ یہ قطعاً غلط ہے، ایمان کی بنیاد اللہ تعالیٰ کی توحید اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کو تسلیم کرنے پر ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں پرجب کوئی شخص ایمان لاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسی کا عہد لیتے تھے، اگر کسی کے بارے میں تحقیق کرنی ہوتی کہ یہ مسلمان ہےیا نہیں ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان ہی دو اُمور کے سلسلےمیں سوال فرمایا کرتےتھے، تو حید رسالت کا اقرار کرنے والے گناہ کے مرتکب کو بھی قرآن نے مسلمان ہی شمار کیا ہے ۔ ( سورۂ حجرات:9) ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات ومعمولات میں اس کی کتنی ہی مثالیں موجود ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ یہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم گناہوں سے تو نفرت کرتے تھے ، گنہگاروں سےنہیں، لیکن ایک موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صراحت کے ساتھ ارشاد فرمایا کہ اہل قبلہ میں سے چاہے کوئی شخص گناہ کبیرہ کا مرتکب ہو، پھر بھی اس کو کافر نہ ہو : لا تکفروا احداً من ( اھل) قبلتی بذنب و ان عملوا الکبائر۔’’( دار قطنی ، باب صفۃ الصلاۃ ، حدیث نمبر 2)
اور ظاہر ہے کہ جب ایک مسلمان گناہ کبیرہ کے ارتکاب کے باوجود مسلمان ہی باقی رہتا ہے تو اس کو کافر قرار دے کر قتل کرنا اور اس کی جان و مال اور عزت و آبرو کو حلال سمجھنا کیسے جائز ہوسکتا ہے؟ چنانچہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مروی ہے کہ جو مسلمان اللہ تعالیٰ کے ایک ہونے اور میرےرسول ہونے کی گواہی دے، تین ہی صورتوں میں اس کو قتل کی سزا دی جاسکتی ہے، ایک یہ کہ وہ شادی شدہ ہونے کے باوجود زنا کا مرتکب ہوا ہو، دوسرے : اس نے کسی شخص کا قتل ناحق کیا ہو، تیسرے: وہ مرتد ہوگیا ہو، (بخاری ، حدیث نمبر 6484) اور یہ بات بھی پیش نظر ہونی چاہئے کہ ان تینوں صورتوں میں بھی قتل کی سزا اسلامی حکومت جاری کرسکتی ہے، کسی مسلمان شہری کو اپنے طور پر مسلم یا غیر مسلم ملک میں یہ سزا جاری کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ فقہاء نے اس کو واضح طور پر اور صراحت کے ساتھ لکھا ہے او ریہ ایک متفق علیہ مسئلہ ہے۔
گناہوں کے ارتکاب کی وجہ سے کسی کو کافر قرار دینے او ران کے جان و مال کو حلال سمجھنے سے جو دوسری بات پیدا ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ مسلم حکمرانوں کے خلاف بغاوت کے جذبات پروان چڑھتے ہیں، مسلم حکمرانوں کی جو بد تر صورت حال ہے ،وہ محتاج اظہار نہیں، ان کا فسق وفجور ، ظلم و جور، عیش پرستی اور عشرت کوشی، احکام شریعت کی تنفید سے انکار ، اسلامی فکر و تہذیب اور شریعت ربانی کے مقابلہ مغرب کے الحاد واباحیت پرمبنی فکر و عمل کو قبول کرلینا ایک ایسی حقیقت ہے جس کا انکار نہیں کیا جاسکتا ، کم و بیش کا فرق تو پایا جاتا ہے ، لیکن شاید ہی کوئی ایسا مسلم فرمانروامل جائے، جو اسلام کے مطلوبہ معیار کو پورا کرتا ہو، اگر سورج کا چراغ لے کرتلاش کیا جائے، تب بھی ایسا دُرّ آبدار ہاتھ نہیں آئے گا، لیکن کیا اس کی وجہ سے ان کےخلاف مسلح بغاوت کرنا جائز ہے اور کیا اس کے سبب مسلمانوں کی خونریزی کرنا نیز نہ ختم ہونے والی جنگ کا بگل بجا دینا درست ہے؟
یہ ایک اہم سوال ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا واضح جواب دیا ہے۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میرے بعد ایسے حکمراں آئیں گے، جو میرے طریقہ کو اختیار نہیں کریں گے، میری سنت پر نہیں چلیں گے اور ان حکمرانوں میں عنقریب کچھ ایسے لوگ ظاہر ہوں گے جن کے دل ایسے ہوں گے کہ گویا انسانوں کے قالب میں شیطان کےدل رکھ دیئے گئے ہیں، حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا:اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! اگر میں ان کو پاؤں توکیا کرؤں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: امیر کی بات سنا کرو اور اس کی اطاعت کیا کرو، اگر وہ تمہاری پیٹھ پر مارے او رتمہارے مال لےلے، تب بھی سمع و طاعت کا دامن نہ چھوڑ و، ( مسلم کتاب الامارۃ ، حدیث نمبر :1847) ایک بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار سے کہا : تم عنقریب میرے بعد خود غرضی دیکھو گے تو صبر سے کام لینا، یہاں تک کہ مجھ سے حوض (کوثر) پر آملو۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے کہ اگر تمہارے اوپر کوئی ناک کٹا حبشی امیر بنا دیا جائے، تب بھی سمع و طاعت کا دامن نہ چھوڑ و، نقصان پہنچائے تو صبر کرو، کسی بات کا حکم دے تو اس کی تعمیل کرو، تم کو تمہارے حق سے محروم کردے تو برداشت کرلو، ظلم کرے تو صبر سے کام لو، اور تمہارے دین میں خلل پیدا کرنا چاہے تو کہو کہ میرے دین کے بجائے میری جان حاضر ہے ( دمی دون دینی): لیکن جماعت سے الگ نہ ہو۔(کنزالعمال حدیث نمبر : 14353)
ان احکام کا مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں کی اجتماعیت برقرار رہے ، چاہے اس کےلئے چند افراد کے فسق و فجور اوران کے ظلم و جور کو برداشت کرنا پڑے، اسی اجتماعیت کو برقرار رکھنے کےلئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی مسلمان نیک و صالح ہویا فاسق و فاجر، اس پر نماز جنازہ پڑھا کرو، امیر نیک و صالح ہویا فاسق و فاجر ، اس کے ساتھ جہاد میں شریک رہو ( سنن دارقطن عن ابی ہریرہ ، کتاب العیدین ، حدیث نمبر :10)۔ یہ مضمون متعدد روایتوں میں آیا ہے اور صحابہ نے اسے عملی طور پر برتا ہے، غور کیجئے کہ حجاج بن یوسف کے ظلم وجور کو دیکھتے ہوئے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے جرأت مندی کے ساتھ اسے ٹوکا بھی ہے او رآپ کی وفات بھی بظاہر اسی بد بخت کی سازش سے ہوئی ہے، لیکن اس کے باوجود آپ رضی اللہ عنہ اس کے پیچھے نماز پڑھا کرتے تھے، (التلخیص الحبیر) : (110:2) بنو امیہ اور بنو عباس میں کیسے کیسے ظالم بادشاہ پیدا ہوئے ، اہل بیت اور صحابہ ان کے ہاتھوں قتل کئے گئے ، انہوں نے حرمین شریفین کی انتہائی درجہ بے حرمتی کی، اس کے باوجود صحابہ نے ان کے پیچھے نماز بھی ادا کی اور اسلام دشمن طاقتوں کے خلاف جہاد میں بھی ان کے ساتھ شریک رہے۔
داعش کا دوسرا بنیادی تصور یہ ہے کہ جو لوگ ایمان سے محروم ہیں اور کفر کی حالت میں ہیں، ان کا قتل جائز ہے، ان کامال حلال ہے، یہاں تک کہ ان کی عورتوں کو باندی بنا لینا بھی درست ہے۔ یہ نہایت ہی غلط تصور ہے اور اسلام کو بدنام اورمسلمانوں کو رسوا کرنے کی ایک سازش ہے۔ قرآن مجید میں ان ہی لوگوں سے جہاد کی اجازت ہے، جو مسلمانوں سےبر سرپیکار ہوں ، او راس میں بھی یہ ضروری ہے کہ حدود سے تجاوز نہ کیا جائے، چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
اللہ کے راستہ میں ان لوگوں سے جنگ کرو، جو تم سے جنگ کرتے ہوں او رزیادتی نہ کرو، کہ اللہ تعالیٰ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتے۔ (البقرۃ:190)
اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد میں دو باتیں قابل توجہ ہیں:
ایک یہ کہ ان ہی لوگوں سےجنگ کی اجازت ہے، جو مسلمانوں سے بر سر پیکار ہوں، جو غیر مسلم مسلمانوں سے آمادۂ جنگ نہ ہوں او رانہیں گھر سے بے گھر نہ کریں، قرآن نےان کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا ہے اور کہا ہے کہ مسلمانوں کو انصاف پر قائم رہنا چاہئے ، (ممتحنہ:8) دوسرے: جن سے ان کی زیادتیوں کی وجہ سے جنگ کرنا جائز ہے، ان سے جنگ کرنے میں بھی اصول و قواعد کی رعایت ضروری ہے، یہ جائز نہیں ہے کہ انسان حدود سے تجاوز کرجائے، ان حدود میں سے یہ بھی ہے کہ جب دشمن گرفت میں آجائے تو بعض خاص صورتوں کے علاوہ اس کو قتل کرنا جائز نہیں، بلکہ دو ہی راستے ہیں یا تو انہیں ایک طرفہ طور پر رہا کردیا جائے یا فدیہ لے کر چھوڑ دیا جائے (محمد:4) ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زیادہ تر یہی دو معاملہ فرمایا ہے کہ حملہ آور دشمنوں کے جو لوگ قید ہوئے یا تو انہیں یوں ہی رہا فرمادیا، یا ان سے فدیہ وصول کیا: او ریہ بھی ضروری نہیں ہے کہ فدیہ کی ادائیگی مال ہی کے ذریعہ ہو، غزوۂ بدر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھے لکھے قیدیوں کا فدیہ دس بچوں کی تعلیم مقرر فرمایا، کبھی ایسا بھی ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیدیوں کا باہم تبادلہ فرما لیا، او رکئی واقعات ایسے بھی پیش آئے ہیں کہ دشمنوں پرقابو پانے کے بعد آپ نے ان کو گرفتار ہی نہیں کیا، یوں ہی معاف فرمادیا، جس کی سب سے بڑی مثال فتح مکہ ہے۔
اسلام کے قانون جنگ میں یہ بات بھی شامل ہے کہ جو لڑنے والے نہ ہوں ان کو نشانہ نہ بنایا جائے اسی لئےعورتوں، بچوں، بوڑھوں اور جنگ سے دور رہنے والوں کو قتل کرنے کی ممانعت ہے۔ اس بات سے بھی منع فرمایا گیا کہ تکلیف پہنچا پہنچا کر قتل کیا جائے ، انسان تو کجا کسی بھی جاندار کو آگ میں جلانے کی ممانعت فرمائی گئی ہے، مسجدوں او رمسلمانوں کے مقدس مقامات ہی کو نہیں ، غیر مسلموں کے مذہبی مقامات کو بھی منہدم کرنے اور ان کی بے حرمتی کرنے کی ممانعت کی گئی ہے، اسی لئے قرآن مجید میں ایسے مفسد بادشاہوں کی مذمت کی گئی ہے جو عبادت گاہوں کا بھی لحاظ نہیں کرتے اور اس میں پہلے یہودیوں کے کلیساؤں، پھر عیسائیوں کے چرچوں اور اخیر میں مسلمانوں کی مسجد وں کا ذکر فرمایا گیا ہے۔( سورہ حج: 40)
داعش کی جو حرکتیں اس وقت ذرائع ابلاغ میں آرہی ہیں، وہ ان تمام اصولوں کو پامال کرنے پر مبنی ہیں ،ہو سکتا ہے کہ ان خبروں میں ملاوٹ بھی ہو، لیکن جتنی کچھ بھی حقیقت ہو ، وہ اس کی شناعت کو ظاہر کرنے کےلئے کافی ہے، انہوں نے نہ صرف چرچوں کو منہدم کیا ، بلکہ مسجدوں کو بھی اور صحابہ کرام کی قبروں کو بھی کھود ڈالا اور پھر وہ انسانوں کو قتل و ذبح کرنے ، زندہ جلانے اور عورتوں کو داغ لگانے کی تصویریں بھی جاری کرتے ہیں، جس سے صاف ظاہر ہے کہ ان کا مقصد صرف ملک گیری اور اپنے مخالفین کو زیر کرناہی نہیں ہے ، بلکہ اسلام کو رسوا کرنا، دین حق کی شبیہ کو خراب کرنا او ر مسلمانوں کو ذلیل کرنا بھی ہے۔ یہ سب کچھ اسلام دشمن قوتوں کے اشاروں پر کیا جارہا ہے تاکہ مسلمان تنہا ہوجائیں او رپوری دنیا مسلم اور غیر مسلم کے دو خانوں میں تقسیم ہوجائے۔ اس وقت عملی طور پر مشرق سے مغرب تک یہی صورتحال ہے اور اس وقت مسلمان جیسی تنہائی سےدو چار ہیں اور پوری دنیا میں انہیں شک و شبہ کی نظر سے دیکھا جارہا ہے ، شاید ہی کبھی یہ کیفیت رہی ہو، اسلام او رمسلمانوں کے کھلے دشمن بھی وہ نہیں کرسکے جو یہ دوست نما دشمنوں نے کیا ہے۔
ایک اور اہم مسئلہ یہ ہےکہ شرعی نقطہ نظر سے داعش کا کیا حکم ہے اور اس فتنہ کے سلسلہ میں مسلمانوں کی کیا ذمہ داریاں ہیں؟ جہاں تک شرعی نقطۂ نظر کی بات ہے تو اس کو تو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح فرمادیا ہے کہ اخیر زمانہ میں ایسے لوگ ظاہر ہوں گے جو نوجوان ہوں گے، ( حدثاء الاسنان) عقل و شعور کے اعتبار سے کم تر درجہ کے ہوں گے، بات تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نقل کریں گے لیکن وہ اسلام سے اس طرح نکلے ہوئے ہوں گے ، جیسے تیر کمان سے نکل جاتا ہے، ان کا ایمان ان کے حلق سےنیچے نہیں ہوگا تو تمہار ا جہاں کہیں ان سے مقابلہ ہو، ان سے جنگ کرو اور وہ جس کو قتل کریں، وہ قیامت کے دن اجر کا مستحق ہوگا، (بخاری ، عن علی، کتاب فضائل القرآن، حدیث نمبر :4770) گویا ایسے لوگ حقیقت میں مسلمان نہیں ہیں یہ دراصل ان لوگوں میں شامل ہیں، جن کو قرآن مجید نے ‘ منافقین’ کہا ہے یعنی ایسے لوگ جو اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرتے ہوں، لیکن حقیقت میں وہ مسلمان نہیں ہیں، جو بعد میں اس طرح کے جو لوگ مسلمانوں کی صفوں میں داخل ہوجائیں، ان کو فقہاء نے ‘زندیق’ سے تعبیر کیا ہے اور زندیق کا وہی حکم ہے جو کافر کا ہے ، بلکہ عام لوگوں کے کفر سے ان کا کفربڑھا ہوا ہے، اس لئے کہ بعض فقہاء کے نزدیک زندیق کی تو بہ بھی ناقابل قبول ہے، ( الموسوعۃ الفقہیہ: 126:14) اس لئے مسلمانوں کو ہر گز یہ خیال نہیں کرناچاہئے کہ یہ ( داعش ) اسلام کی سر بلندی کےلئے کام کررہے ہیں ، یا خلافت قائم کررہے ہیں ، بلکہ یہ زمین میں فساد مچا نے کی بد ترین کوشش ہے، یہ اسلام کو بدنام کرنے کی سازش ہے اور یہ خلافت نہیں ہے، جنگل راج ہے، خلافت کامطلب یہ نہیں ہے کہ کوئی دبنگ شخص کچھ غنڈوں کو ساتھ لے کر لاٹھی تلوار کے زور سے زمین کے کسی خطہ پر قابض ہوجائے اور اپنی خلافت کا اعلان کردے، خلیفہ مسلمانوں کا منتخب نمائندہ ہوتا ہے اور وہ معتبر علماء اور اصحاب رائے کے مشورہ سے فیصلہ کرتا ہے ،احکام شریعت کے دائرہ میں رہتے ہوئے دوستوں اور دشمنوں کے ساتھ سلوک کرتاہے، وہ انصاف ، عفو و درگزر ، صلح جوئی اور اقلیتوں کے ساتھ حسن سلوک کا نمونہ ہوتاہے، داعش جو کچھ کررہی ہے ، وہ ایک ظالم او رقانون سے آزاد ڈکٹیٹر کا عمل تو ہوسکتا ہے ، شریعت اسلامی کے نگہبان خلیفہ کا عمل نہیں ہوسکتا ۔
ان حالات میں مسلمانوں کی دو اہم ذمہ داریاں ہیں: ایک یہ کہ وہ نوجوانوں کو صحیح صورت حال سے باخبر کریں، انہیں بتائیں کہ یہ تحریک مکمل طور پر اسلام کے مزاج سے ہٹی ہوئی ہے ، اس کا مقصد اسلام کو رسوا کرنا او رمغربی قوتوں کے لئے اس بات کاجواز فراہم کرنا ہے کہ وہ مسلم ملکوں میں اندھا دھند بم باری کریں اور اپنے ناپاک وجود کو وہاں برقرار رکھیں ۔ دوسرا ضروری کام یہ ہے کہ غیر مسلم بھائیوں کے سامنے اسلام کی صحیح تصویر پیش کریں، جہاد کی حقیقت کیا ہے، جہاد کن لوگوں سے ہے، صلح و امن کا اسلام میں کیا مقام ہے، غیر مسلم ہم وطنوں کے ساتھ اسلام نے کس طرح زندگی گزارنے کی تعلیم دی ہے، جن صورتوں میں جنگ کی نوبت آجائے، ان میں بھی اسلام کا قانون جنگ کیاہے؟ ان امور کی مدلل وضاحت کو غیر مسلم بھائیوں تک پہنچا نا اور اس کےلئے میڈیا خاص کرسوشل میڈیا کا سہارا لینا وقت کی اہم ضرورت اور ایک دینی فریضہ ہے، خصوصاً ائمہ و خطباء کو جمعہ کے خطبات میں اس کی وضاحت کرنی چاہئے ، دینی جلسوں میں اس پر روشنی ڈالنی چاہئے، دینی معاملات میں اس پر اظہار خیال ہوناچاہئے، عصری درسگاہوں کے طلبہ کی ذہنی تربیت پر بھی توجہ دینی چاہئے کیونکہ مسلمان اس وقت پوری دنیا میں جس ظلم و جور او ر محرومی و نا انصافی کاشکار ہیں اس سے اگر نوجوانوں کا گرم خون کھول اٹھے تو باعث حیرت نہیں، اس ماحول میں انسان ہر چمکتی ہوئی چیز کو سونا اور تریاق نما زہر کواکسیر سمجھنے لگتا ہے اور نادانستہ طور پر ایسی سازشوں کا شکار ہوجاتا ہے۔
تیسرا ضروری کام یہ ہے کہ علماء او رمختلف مکاتب فکر کے مذہبی قائدین اپنے رویہ میں احتیاط پیدا کریں۔ بد قسمتی سے بر صغیر میں بعض حضرات کے یہاں اسلام کا ایسا تصور ہے کہ وہ اپنے گروہ کے سوا کسی کو مسلمان نہیں سمجھتے ، ان کی نظر میں ان کے سوا ہر فرقہ اور ہر مذہبی جماعت ایمان کے دائرہ سے باہر نکل چکی ہے، اسی طرح ایک اور ایسا گروہ ابھر رہاہے، جو نہ صرف موجودہ دور کے مسلمانوں کو مشرک ٹھہرا رہا ہے او راُمت کے سواداعظم کو دائرہ اسلام سے باہر نکالنے پر تلا ہوا ہے، بلکہ سلف صالحین کی غالب اکثریت کو بھی وہ ضال و مضل ٹھہراتا ہے ۔ یہ حضرات بیک قلم ان سب کو گمراہ اور گمراہی کا مبلغ قرار دیتے ہیں بلکہ بعض تو ان کو مشرک بھی ٹھہراتے ہیں، اگر ایسے غلو پسند او رکم فہم لوگوں کی بات درست مان لی جائے تو مسلمانوں کی تعداد نہ صرف موجودہ دور میں بلکہ عہد ماضی میں بھی بہت کم رہ جائے گی، یہ غلو، کم فہمی، مزاجِ دین سے ناآگہی اور تنگ نظری ہے ، ان حالات میں ضروری ہے کہ علماء اور ارباب افتاء ، مسلمان مفکرین او رمذہبی قائدین موجودہ حالات کا گہرائی کے ساتھ تجزیہ کریں، دوسروں کو کافر و مشرک ٹھہرا نے کے فتنہ پر قابو پائیں او راپنے عمل سے اسلام دشمن طاقتوں کی تقویت کا سبب نہ بنیں ۔
اللہ تعالیٰ اس نئی اسلام دشمن سازشی تحریک سے امت کی حفاظت فرمائے او رمغرب کی طرف سے مسلط کی جانے والی اس خونریز جنگ سے باہر لائے، جس کو تیسری جنگ عظیم قرار دیا جارہا ہے ۔ وباللہ التوفیق و ھو المستعان۔
8 جنوری، 2016 بشکریہ: انقلاب ، نئی دہلی
URL: https://newageislam.com/urdu-section/acts-isis-violating-islamic-teachings/d/105940