مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
24 اکتوبر، 2014
آپ کے شرعی مسائل
قرض کی ادائیگی میں تاخیر اور تبدیل شدہ کرنسی کا حکم
سوال: میرے ایک دوست دبئی میں تجارت کرتے تھے، انہوں نے ستمبر 2008 میں تین ماہ بعد یکمشت لوٹادینے کی شرط پر قر ض لیا اور انہوں نے وہ برابر ٹال مٹوٹ سےکام لیتے رہے ، آخر میں نے تنگ آکر غصے میں کہہ دیا کہ میں تمہارا معاملہ اللہ کے سپرد کرتا ہوں، میرا مقصد یہ تھا کہ انہیں عند اللہ جوابدہی کا احساس پیدا ہو، پھر ایک ملاقات میں میں نے ان سے سوال کیاکہ کیا میں رقم کو بھول جاؤں؟ تو انہوں نے ادا کرنے کا وعدہ کیا، حالانکہ ان کے پاس کافی جائداد ہے، اب سوال یہ ہے کہ :
(الف) کیا اب میرا ان سے قرض کی ادائی مطالبہ جائز ہوگا ، جب کہ میں نے کہہ دیا کہ میں اس معاملہ کو اللہ کے سپرد کرتا ہوں؟
(ب) قرض کی رقم ڈیڑھ لاکھ درہم ہے ، جو 2008 کے شرح مبادلہ کے لحاظ سے تقریباً اٹھارہ لاکھ بنتی ہے اور موجودہ شرح کے لحاظ سے 23 لاکھ ، تو اب انہیں مجھ کو 18 لاکھ ادا کرنا چاہئے یا 23 لاکھ ؟
(ج) قرض کی ادائیگی سے پہلے اگر میری موت ہوجائے تو کیا میری یہ رقم ترکہ میں شمار ہوگی اور میرے ورثہ کو اس کے مطالبہ کا حق حاصل ہوگا؟
(مرزا محی الدین بیگ)
جواب :۔ ضرورت مندوں کو قرض حسنہ بغیر سود کے قرض دینا نہایت ہی اجر کا کام ہے ، قرض کا واپس کرنا واجب ہے ، ٹال مٹول سے کام لینا اور قرض واپس نہیں کرنا سخت گناہ ہے ، اس لئے ان صاحب کو چاہئے کہ اپنی جائداد فروخت کر کے فوری طور پر ادا کردیں ، جتنی تاخیر کریں گے، اتنے ہی گنہگار ہوں گے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ٹال مٹول کو ظلم قرار دیا ہے ‘‘ مطل الغنی ظلم ’’ ( بخاری ، کتاب الا ستقراض الخ ، باب، مطل الغنی ظلم ، حدیث نمبر : 2400) اور قرآن مجید نے کفر کے بعد سب سے زیادہ جس گناہ کی مذمت کی ہے، وہ ظلم ہے، بہر حال آپ کے سوالات کے جوابات حسب ذیل ہیں:
(الف) یہ کہنے کے باوجود کہ میں معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد کرتا ہوں، آپ کی طرف سے قرض کی ادائی کامطالبہ کرنا بالکل درست ہے، کیو نکہ ‘‘ میں اللہ کے سپرد کرتا ہوں’’ کے معنی یہ نہیں کہ میں قرض کو معاف کرتاہوں، او رنہ آپ کی یہ نیت تھی، بلکہ اس کا مقصد یہ تھا کہ آپ جو وعدہ خلافی کررہے ہیں، اس زیادتی کے معاملہ کو میں اللہ کے حوالہ کرتا ہوں ۔
(ب) قرض جس کرنسی میں دیا جائے ، اسی کرنسی میں اس کو واپس کرنابھی ضروری ہے ، لہٰذا جب آپ نے ان کو اٹھارہ لاکھ روپے نہیں دیئے، ڈیڑھ لاکھ درہم دیئے ، تو ان پر ڈیڑھ لاکھ درہم ہی واپس کرنا واجب ہے ، خواہ انڈین کرنسی کے لحاظ سے اس کی قیمت زیادہ ہو یا کم، البتہ اگر آپ اپنی خوشی سے اس میں سے کچھ معاف کردیں تو ا س میں کچھ حرج نہیں ۔
(ج) آپ کی یہ رقم یا کوئی دوسری رقم لوگو ں کے ذمہ باقی ہو، اور وصول ہونے سے پہلے آپ کا انتقال ہوجائے تو وہ رقم آپ کے ترکے میں شامل ہے، وہ آپ کے تمام ورثا میں حصہ میراث کے مطابق تقسیم ہوگی اور آپ کے ورثا کو اس کے مطالبہ کرنے اور اس سلسلہ میں اخلاقی اور قانونی دباؤ ڈالنے کا پورا پورا حق حاصل ہوگا ، جیسے کہ اس وقت آپ کو حاصل ہے۔
سود کا مصرف
سوال :۔ اپنی ملازمت کے درمیان میں نے زیادہ تر بچت ‘‘ دبئی اسلامک بینک ’’ میں بطور مضاربت رکھی ، یا پھر ہندوستان میں ( N.R.I) اکاؤنٹ میں ، ہندوستان میں جو رقم رکھی گئی اس پر سود بھی اکاؤنٹ میں جمع ہوتا رہا، میں نے حساب کر کے وہ رقم ایک علاحدہ اکاؤنٹ میں رکھ دی، اس کے علاوہ 1980 کے دہے میں کچھ ہندوستانی کمپنیوں نے N.R.I کو حصص کا پیشکش کیا تھا، اس دوران I.T.C نے Convertible Bonds جاری کئے تھے ، میں نے بھی 500 روپئے کے پانچ Bond خرید لئے ، کمپنی نے پہلے دو سال کے دوران سود کی رقم کے عوض 10 روپیے مالیت کے غالباً 10 شیئر ز دیئے، اس طرح 2010 تک شیئرز کی تعداد غالباً 19 ہزار ہوگئی ، 2013 میں یہ سارے حصص میں نے 63 لاکھ روپئے میں فروخت کئے اور یہ رقم بھی اسی اکاؤنٹ میں رکھی ہے، جس میں سود کی رقم جمع ہے، سوال یہ ہے کہ اس رقم کا مصرف کیا ہونا چاہئے ، میں وقتاً فوقتاً حسب ذیل مدات میں خرچ کرتا رہتا ہوں : مظفر نگر فسادات کے متاثرین کی مدد ، حال ہی میں آئے کشمیر کے سیلاب سے متاثرین کی مدد، آئےدن اخبارات میں غربا کے علاج و معالجہ کے لئے جو اپیل شائع ہوتی رہتی ہے ان کی مدد، صفابیت المال کے ذریعہ رمضان راشن، وظیفہ بیوگان اور میڈیکل کیمپ کے لئے مدد، حیدر آباد زکوٰۃ اینڈ چیرٹیبل ٹرسٹ کے ذریعہ بیوگان کی مدد، متفرق مستحقین میں خیرات ، غریب بچیوں کے لئے اسکول کا فیس ، غریب لڑکیوں کی شادی کے لئے مال مدد، وغیرہ (مرزا محی الدین بیگ)
جواب : ۔ بینک یا کسی اور سرکاری یا غیر سرکاری اسکیم میں سود حاصل کرنے کے لئے رقم جمع کرنا جائز نہیں ، لیکن اگر سود حاصل کرنے کی نیت نہ ہو، کسی اور ضرورت یا جائز مقصد کے تحت رقم جمع کی گئی اور اس پر اس ادارے کے قاعدے کے مطابق سود کی رقم مل گئی تو اس رقم کو وصول کر لینا چاہئے، لیکن اس کو اپنے استعمال میں لانا جائز نہیں، اسے کسی غریب یا مستحق شخص پر صدقہ کردینا چاہئے ، دوسرے درجہ میں خدمت خلق اور فاہی کاموں کے لئے بھی خرچ کرنے کی گنجائش ہے، بعض فقہا نے صرف صدقے کر نے کی تلقین کی ہے اور بعض نے دوسرے رفاہی اور عوامی کاموں میں خرچ کرنے کی اجازت دی ہے، ہندوستان کے اکابر علما و ارباب افتا کے یہاں بھی دونوں طرح کے فتاویٰ ملتےہیں، اس لئے صدقہ کرنا اور کسی غریب شخص کو اس کا مالک بنا دینا بہتر ہے اور گنجائش خدمت خلق کے دوسرے کاموں میں بھی خرچ کرنے کی ہے، جو رقم آپ کو ( N.R.I) اکاؤنٹ میں سود کے طور پر حاصل ہوئی اور جو بانڈ آپ نے خرید ے، اس میں اصل رقم کے علاوہ سود کی رقم کے بدلہ آپ نے شئیرز خرید لئے اور پھر اس شیئرز کو بیچ کر رقم حاصل کی، ان سب کا ایک ہی حکم ہے کہ ان کو یا تو غربا پر خرچ کردیا جائے، یا فاہی کاموں میں، آپ نے سوال میں جن مدات کا ذکر کیا ہے ، مذکورہ تفصیل کے مطابق وہ تمام مدات ایسے ہیں کہ ان میں یہ رقم خرچ کی جاسکتی ہے۔
سود کی رقم دے کر قرض وصول کرنا
سوال :۔ ایک صاحب کو میں نے اس لئے قرض دیا کہ وہ سودی قرض سے نجات پا جائیں اور شرط طے پائی کہ وہ اپنی تنخواہ سے ماہانہ دو ہزار درہم لوٹا یا کریں گے ،آٹھ دس ماہ تک انہوں نے پیسے ادا کئے ، پھر صحت اور معاشی حالات کی وجہ سے قرض بڑھتے بڑھتے ایک لاکھ درہم ہوگیا، اس لئے میں نے مزید قرض دینے سے انکار کردیا اور ان کو عمرہ کرنے کا مشورہ دیا، کیونکہ میں نے سنا تھا کہ عمرہ سے رزق کا دروازہ کھلتا ہے ، وہ عمرہ سے آتے ہوئے میرے لیے کرتا، پائجامہ کا کپڑا لیتے آئے اور یہ کہتے ہوئے دیا کہ یہ ایک لاکھ درہم کا ہے، میں نے اس کو مذاق سمجھ کر قبول کرلیا، سوال یہ ہے کہ کیا تحفہ قبول کرنے سے ان کا قرض ادا ہوگیا ، اب وہ ہندوستان واپس ہوکر سرکاری ٹیچر ہوچکے ہیں اور اتنا بڑا قرض ادا کرنے کے موقف میں نہیں ہیں، کیا اس بات کی گنجائش ہے کہ میں سود کی رقم میں سے ان کو دوں اور اپنا قرض وصول کرلوں۔ ( احمد علی)
جواب :۔ قرض ادا کرنا واجب ہے اور عمرہ کرنا ایک نفل عمل، اس لئے ایسے مقروض شخص کو عمرہ کرنے کی ترغیب نہیں دینی چاہئے تھی ، تاہم جب آپ دونوں کے درمیان باضابطہ خرید و فروخت کامعاملہ طے نہیں پایا تو وہ کپڑا ایک لاکھ کا شمار نہیں کیا جائے گا اور اسے ایک مذاق ہی کی بات سمجھی جائے گی، نیز آپ کے لئے اس بات کی گنجائش ہے کہ آپ ان کو سود کی رقم میں سے دیں ، کیونکہ وہ صدقہ کے مستحق ہیں او راپنا قرض وصول کرلیں ، بلکہ سود کی رقم دینے کے بعد آپ ان سے جبراً بھی رقم وصول کرسکتے ہیں ، کیونکہ اگر مقروض قرض ادا نہ کرے تو شریعت کے دائرہ میں رہتے ہوئے اس پر دباؤ ڈالا جاسکتا ہے ۔
میچول فنڈ کی رقم
سوال : چند سال قبل ہمیں بینک میں لاکر کی ضرورت تھی ، بینک والوں نے کہاکہ اگر آپ کچھ رقم فکس ڈپازٹ میں رکھیں گے یا اسی طرح کی کسی اور اسکیم میں اپنا سرمایہ لگائیں گے تو آپ کو لاکر دیا جائے گا ، ضرورت کے تحت میں نے اس کی ایک اسکیم میں سرمایہ لگایا ، جس کے لئے مجھے تین سال کے لئے سالانہ تین لاکھ روپئے بطور پریمیم کے دینے پڑے، جس کے عوض انہوں نے ایک لائف انشورنس پالیسی جاری کی اور نولاکھ کی جو رقم میں نے دی تھی، اسے دو میچول فنڈ میں انوسٹ کیا، دونوں فنڈس کی مشترکہ N.A.V وقت تقریباً پندرہ لاکھ ہے، کیا میرے لئے یہ جائز ہوگا کہ ان دونوں فنڈس میں اپنے یونٹ فروخت کردوں اور جو اصل سرمایہ نو لاکھ کا میں نے لگایا ہے، اسے واپس لے لو، کیا یہ بھی جائز ہوگا کہ فنڈ کے پورٹ فولیو میں اگر اسی کچھ کمپنیوں کے حصص کے تناسب سے چھ لاکھ کی اضافی مالیت ہے، اس میں سے رقم اپنے استعمال میں لائی جائے ، مثلاً اگر فنڈ کے پورٹ فولیو میں ایسی کمپنیوں کے حصص کا تناسب 25 فیصد ہو تو چھ لاکھ کی اضافی مالیت میں سے ڈیڑھ لاکھ اپنے لئے لے کر باقی ساڑھے چار لاکھ خیرات کردیئے جائیں ۔ ( محمد اخلاق)
جواب : ۔ موجودہ دور میں اشیا اور دستاویز ی کاغذات کے حفاظت کے لئے بعض اوقات لاکر کا حاصل کرنا ایک ضرورت بن جاتا ہے ،اس لئے لاکر حاصل کرنا ایک ضرورت بن جاتا ہے، اس لئے لاکر حاصل کرنا جائز ہے۔ اس میں جو آپ کی اصل رقم نو لاکھ کی لگی ہے، اس کا واپس لینا درست ہے، اور میچول فنڈ میں جو رقم بینک کے ذریعہ مشغول ہوئی ہے ، اس کو فروخت کرنا اور جو کمپنیاں حلال کاروبار کرتی ہیں، ان کے حصص کی رقم کو اپنے استعمال میں لانا جائز ہے اور جن کمپنیوں کا کاروبار شریعت سے ہم آہنگ نہیں ہے ، اس کی فروخت پر جو زائد رقم حاصل ہوئی ہے، اسے سود کی رقم کی طرح غربا پر رفاہی کاموں میں خرچ کر دینا واجب ہے۔
نکاح میں ماموں کا وکیل ہونا
سوال : میری ایک بہن ہے جس سے اس کے شوہر نے تقریباً بائیس سال قبل ترکِ تعلق کرلیا تھا ، وہ اور اس کی تیس سالہ لڑکی میری ہی کفالت میں ہے، انشاء اللہ فروری میں اس کی شادی ہوگی ، کیا باپ کی غیر موجودگی میں میں وکیل کی حیثیت سے اپنی بھانجی کا نکاح کروا سکتا ہوں ؟ (محمد فیاض)
جواب : ۔ بالغ لڑکی کسی کو بھی اپنے نکاح کا وکیل بنا سکتی ہے اور آپ تو ا س کے ماموں اور سر پرست ہیں، اس لئے آپ بہ درجہ اولیٰ اس کے وکیل بن سکتے ہیں، البتہ ایجاب و قبول کے وقت لڑکی کے والد کی حیثیت اس کے والد ہی کا نام دیا جائے گا۔
سود کی رقم سے معلقہ کی اعانت
سوال :۔ میری بہن کا نہ تو خلع ہوا ہے اور نہ ہی طلاق اور نہ اس کا شوہر اس کا نقفہ ادا کرتا ہے ، بائیس سال سے وہ اسی ظلم کے سائے میں زندگی گزار رہی ہے، کیا میں سود کی رقم سے کچھ اپنی بہن کے لئے مختص کرسکتا ہوں جو میرے بعد اس کی کفالت کے کام آسکے ۔ ( گلا ب اشرف)
جواب :۔کوشش تو کرنی چاہئے کہ آپ کوئی حلال رقم اپنی اس بہن کے لئے محفوظ کردیں، انشا ء اللہ یہ آپ کے لئے بہترین صدقہ جاریہ ہوگا، اس میں صدقہ کا بھی ثواب ملے اور صلہ رحمی کا اجر بھی حاصل ہوگا، لیکن اگر ایسی رقم مہیا نہ ہو، یا کم ہو، یا اس میں دشواری ہو تو چونکہ سود کی رقم محتاجوں اور ضرورت مندوں کے لئے جائز ہے ، اس لئے آپ اپنی بہن کے لئے بھی اس کا کچھ حصہ مختص کرسکتے ہیں۔
کچھ جائیداد بیوی کے نام تو کردی لیکن مالک بنانے کی نیت نہیں تھی
سوال :۔ میں نے کچھ جائداد اپنی بیوی کے نام رکھی ہے ، لیکن اس کو مالک بنانے کی نیت نہیں تھی، اسی طرح بینک اکاؤنٹ میں بحیثیت دستخط کنندہ ہم دونوں کے نام ہیں ، تو میری موت کے بعد اس جائداد کی اور بینک میں موجود رقم کی کیا حیثیت ہوگی؟ او راگر مجھ سے پہلے میری بیوی کی موت واقع ہوجائے تو جو جائداد میں نے اس کے نام پر رکھی ہے ، وہ اس کے ترکہ میں شمار ہوگی یا میری ملک ہوگی؟ ( محمد شمشیر عالم)
جواب : جب آپ کی نیت بیوی کو مالک بنانے کی نہیں تھی تو وہ آپ ہی کی ملکیت ہے، لہٰذا آپ کے انتقال کے بعد وہ آپ کا ترکہ شمار ہوگا اور حصص شرعی کے مطابق اس کی تقسیم عمل میں آئے گی، اگر آپ کی بیوی کا انتقال پہلے ہوجائے ، تب بھی وہ آپ ہی کی ملکیت ہے، بیوی کے ورثہ میں اس کی تقسیم نہیں ہوگی ، بہتر ہوگا کہ آپ کم سے کم اسٹامپ پیپر پر تحریر لکھ دیں اور اپنی اہلیہ سےاس پر دستخط کرالیں کہ ان چیزوں کے مالک آپ ہی ہیں ، تاکہ آپ کی اہلیہ کی وفات کے بعد کوئی اختلاف کی شکل پیدا نہ ہو۔
بالغ لڑکوں پر ان کی والدہ کو وصی بنانا
سوال:۔ میرے چار لڑکے ہیں، جن کی عمریں 26 سال، 23 سال، 19 سال، 18 سال ہیں، میرے اپنے مشاہدہ کی بنا پر سمجھتاہوں کہ میری فوری موت کی صورت میں ترکہ کی تقسیم کے بعد وہ اس کا دانشمندانہ طور پر اس کا استعما نہیں کرسکے گا تو کیا میں وصیت کے ذریعہ اپنی بیوی کو ان پر نگراں مقرر کر سکتا ہوں؟ ایسی صورت میں بچے کس حد تک اس وصیت کے پابند رہیں گے؟ کیا انہیں یہ اختیار ہوگا کہ چاہیں تو اپنی ماں کو بطور نگراں قبول کرنے سے انکار کردیں؟ ( محمد نوشاد)
جواب : ۔ آپ نے بچوں کی جو عمریں لکھی ہیں ، اس کے مطابق آپ کے تمام بچے بالغ ہیں اور اپنے حصہ میراث کے خود مالک ہوتے ہیں، سوائے اس کے کہ خدانخواستہ ان کا دماغی توازن متاثر ہو، اس لئے اگر آپ اپنی اہلیہ کو ان پر نگراں بنا کر جائیں گے تو اس کی حیثیت اخلاقی ہوگی او ران کو اس کا قبول کرنا شرعاً یا قانوناً ضروری نہیں ہوگا ، ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ آپ اپنی املاک کے کچھ حصہ کا اپنی اہلیہ کو مالک بنادیں اور ان سے کہہ دیں گہ یہ ان کی ملکیت ہے، تاہم میری خواہش ہے اس کو تم میرے بعد بچوں پر ان کی مصلحت او رمفاد کے مطابق خرچ کرو۔
24 اکتوبر، 2014 بشکریہ : انقلاب، نئی دہلی
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/a-matured-girl-appoint-anyone/d/99692