مولانا سید جلال الدین عمری
12اپریل، 2017
اسمبلیوں کے انتخابات بالعموم ہوتے ہی رہتے ہیں لیکن اس مرتبہ جو انتخابات ہوئے اس نے پورے ملک کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے۔اور ایسا محسوس ہورہا تھا خاص طور پر یوپی کے الیکشن میں کہ یہ کسی ایک ریاست کا نہیں بلکہ پورے ملک کا الیکشن ہے اور پورا ملک نتائج کا انتظار کررہا ہے۔ یہ کہنا شاید غلط نہ ہوگا کہ ملک سے باہر بھی اس کے نتائج کا انتظار تھا۔ بہر حال الیکشن ہوا ، او رملک کی جو بڑی پارٹیاں ہیں سب نے اپنی توانائی لگادی۔ خاص طور پر ملک کے وزیر اعظم نریندر مودی صاحب نے یوپی میں ایک طرح سے ڈیرا ڈال دیا اور پوری قوت و توانائی پارٹی کو کامیاب بنانے میں لگادی ۔ دیگر پارٹیوں نے بھی اپنی قوت صرف کی، لیکن جو تنائج آئے ، وہ بہت ہی حیران کن تھے ۔ تنائج کے بعد جو صورت حال بنی ہے وہ بھی تعجب خیز اور سب کے لئے قابل غور ہے۔ اتر پردیش میں پہلے تو یہ خیال تھا کہ شاید ہنگ (معلق) اسمبلی بنے گی لیکن یہ نہیں ہوا۔ کچھ لوگوں کا یہ بھی خیال تھا کہ بی جے پی بڑی پارٹی تو ہوگی لیکن اسے اکثریت حاصل نہیں ہوگی۔ یہ تمام قیاس آرائیاں غلط ثابت ہوئیں اور بی جے پی کو یوپی میں چار سو تین (403) میں سے تین سو بارہ (312) سیٹیں ملیں ۔ اس کی شاید خود بی جے پی کو بھی توقع نہیں تھی۔
اس کے ساتھ اترا کھنڈ میں بھی الیکشن ہوا ۔ وہاں بی جے پی سب سے بڑی پارٹی کے حیثیت سے سامنے آئی ۔ وہ ستر (70) میں سے چھپن (56) سیٹیوں پر کامیاب ہوئی ۔ان کا چیف منسٹر بھی مقرر ہوگیا ۔ گوا میں اسمبلی کی چالیس (40) سیٹیں کانگریس پارٹی بڑی پارٹی کی حیثیت سے ابھر کر سامنے آئی ۔اس کو سترہ (17) سیٹیں ملیں اور بی جے پی کو تیرہ (13) لیکن وہاں گورنر کے سامنے بی جے پی نے دعویٰ کیا کہ اکثریت اس کے ساتھ ہے او راس نے اسے ثابت بھی کردیا۔ کانگریس اپنی اکثریت ثابت کرنے میں ناکا رہی ، کانگریس میں اختلافات بھی رونما ہوگئے ، کچھ لوگوں نے استعفیٰ دے دیا۔ پنجاب میں کانگریس حکومت بنانے میں کامیاب ہوگئی ، منی پور میں بی جے پی اقلیت میں تھی وہ ساٹھ (60) میں اسے اکیس (21) سیٹوں پر کامیاب ہوئی اور کانگریس نے اٹھائیس (28) سٹیں حاصل کیں لیکن گورنر نے حکومت بنانے کی دعوت بی جے پی کو دی،اس نے اپنی اکثریت ثابت کردی ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یوپی الیکشن کے بعد پورے ملک میں ہوا چلی، کہ لوگوں نے سمجھا کہ اب اقتدار اس بی جے پی کے ہاتھ میں ہے۔ ایک پورا ماحول سا بن گیا اور لوگ ٹوٹ کر ادھر جانے لگے اور جو گورنر ہیں، آپ جانتے ہیں کہ وہ بھی بی جے پی کی تائید میں ہیں۔ ان تنائج کے بعد بہت سی باتیں کہی جارہی ہیں، کہا جارہا ہے کہ الیکشن فیئر نہیں ہوا، کبھی کہا جاتا ہے کہ یوپی میں جو اتنا وقفہ دیا گیا یہ جوڑ توڑ کے لیے تھا، اتنے وقفے کی ضرورت نہیں تھی، اسی طرح ایک بات یہ بھی کہی جاتی ہے کہ ای وی ایم کی جو مشینیں ہیں وہ بی جے پی کے حق میں ہی رائیں رکارڈ کرتی تھیں ۔لیکن الیکشن کمیشن نے ان باتوں کی تردید کردی ہے۔وہ اسے ماننے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اس نے کہا ہے کہ اگر ایسی کوئی بات ہے تو آپ اس کا ثبوت دیجئے ، ان مقامات پر بھی جہاں یہ مشینیں استعمال نہیں کی گئیں ،مخالف پارٹیوں کا پرفارمنس اچھا نہیں تھا، جہایں یہ مشینیں استعمال نہیں کی گئیں اس کی تعداد بھی اس نے بتائی ہے کہ وہاں یہ مشینیں استعمال نہیں ہوئی تھیں ،لیکن رزلٹ آپ کے حق میں نہیں بی جے پی کے حق میں رہا ، بہر حال الیکشن کمیشن نے کسی بھی اعتراض کو تسلیم نہیں کیا ۔ اب ہمیں یہ مان لینا چاہئے کہ بی جے پی اقتدار میں آگئی ہے۔ مختلف ریاستوں میں جو الیکشن ہوئے ہیں اور جہاں اقلیت میں تھی وہاں بھی اس نے اپنے آپ کو اکثریت میں تبدیل کرلیا ہے۔ یہ صورت حال ملک کی سیکولر طاقتوں خاص طور پر مسلمانوں کے لیے تشویش کی ہے۔
اس کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ S.Pکے اکھلیش اور کانگریس کا جو اتحاد ہوا تھا ، بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کا رجحان اس کی طرف تھا، اسی طرح بہت سے لوگوں کو یقین تھا کہ بی جے پی سب سے بڑی پارٹی ہوگی۔ چنانچہ ایک صاحب جن کا بی ایس پی سے تعلق تھا اور یوپی کا جائزہ لے کر آئے تھے انہوں نے کہا کہ ہمیں تو صد فیصد یقین تھا کہ بی ایس پی آئے گی۔ لیکن نتائج کو دیکھنے کے بعد ہمت نہیں ہورہی ہے کہ عوام کا کیسے سامنا کریں۔ خاص بات یہ ہے کہ مسلمانوں کی بعض نمایاں شخصیتیں بی ایس پی کی حمایت کا بہت پہلے سے اعلان کرتے رہے ۔ مسلمانوں کی ایک تنظیم نے تو اس الیکشن کی حد تک اپنے آپ کو بی جے پی ایس پی میں ضم کردیا۔ اس نے اپنے اکنڈیڈیٹس کو ہٹا لیا ۔ آخری وقت تک مختلف تنظیمیں بی ایس پی کی حمایت کرتی رہیں ۔ لیکن اس کے باوجود بی ایس پی کامیاب نہیں ہوئی او ربہت کم سیٹیں اسے ملیں ۔ اس کا افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مسلمانوں کا او ران کی نمایاں شخصیات کا کتنا وزن ہے؟ وہ سب مل کر ایک پارٹی کی حمایت کررہے ہیں لیکن اس کا کوئی اثر نہیں ہورہا ہے۔
ایک بات یہ بھی کہی جاتی ہے کہ مسلمان فیصلہ کن حیثیت میں ہیں۔ خاص طور پر مغربی یوپی میں اگر کسی پارٹی کے حق میں ان کا ووٹ ہوگا تو وہ پارٹی کامیاب ہوجائے گی۔ یعنی مسلمان اپنے طور پر تو کامیاب نہیں ہوسکتے،کسی پارٹی کی تائید کریں تو وہ پارٹی کامیاب ہوجائے گی۔ اس الیکشن کے بعد بی جے پی کے لوگوں نے کہا کہ یہ مفروضہ اب ختم ہوگیا کہ مسلمان جس طرج جھک جائیں گے وہ پارٹی کامیاب ہوجائے گی۔ اب معلوم ہوگیا کہ مسلمانوں کااتنا وزن نہیں ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ( میں ان علاقوں کا ذکر نہیں کررہا ہوں جہاں مسلمان بڑی اکثریت میں ہیں جیسے آسام ، بنگال یا کیرلا میں مالاپورم ، اس وقت یوپی کا ذکر ہورہا ہے مسلمان یوپی میں مردم شماری کے حساب سے اٹھارہ بیس فیصد ہیں ) اس میں شک نہیں اگر مسلمان متحد ہوں تو وہ انتخابی نتائج پر اثر انداز ہوسکتے ہیں۔ وہ جس کی تائید کریں گے اس کی کامیابی کے امکانات زیادہ ہیں ۔ لیکن یہ ایک واقعہ ہے کہ مسلمانوں کے درمیان اتحاد نہیں ہے۔ وہ مختلف سیاسی پارٹیوں سے وابستہ ہیں اور خود ان کی بھی سیاسی پارٹیاں ہیں ۔ اس لیے ان کا اتحاد عمل میں نہیں آتا۔ یہ بات سیاسی پارٹیاں بھی جانتی ہیں اس لیے وہ ان کو زیادہ اہمیت نہیں دیتیں ۔ یہاں تک یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہئے کہ مسلمان متحد ہوں گے تو دوسرے بھی متحد ہوں گے۔ آپ یہ خیال نہیں کرسکتے کہ آپ متحد ہوجائیں اور دوسرے متحد نہ ہوں، او ریہ مسلمانوں کے حق میں نقصاندہ ہوسکتا ہے ۔ میں بہت سادہ سی مثال دیتا ہوں کہ آپ بیس فیصد ہیں ،فریق مخالف یا فریق ثانی اسی فیصد ہے ۔ آپ اگر متحد ہوگئے (مسلمانوں کی اس وقت جو حالت ہے اس میں اس کا امکان نہیں ہے کہ سب ایک ہوجائیں اور کسی ایک کنڈیڈیٹ پر تمام مسلمان متفق ہوجائیں) تو دوسری طرف جو اسی فیصد ہیں ان میں سے اگر آدھے بھی متحد ہوگئے تو آپ کو ہرا دیں گے۔ آپ بیس فیصد ہوں گے وہ چالیس فیصد ہوں گے ۔ اس لیے یہ سوچنا اور تقریروں میں کہنا کہ ہم بادشاہ گر ہیں، ہم جسے چاہیں تخت پر بٹھائیں اور جسے چاہے تخت سے نیچے اتاریں ، یہ سب ہوائی باتیں ہیں ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے نہ مسائل کو سمجھا ہے نہ سوچا ہے کہ اس مسائل پر کیسے غور کرنا چاہئے۔ یہ جو صورت حال ہے ظاہر ہے کہ بہت تشویش ناک ہے۔ اسی لیے جتنی پارٹیاں ہیں سب اکثریت ہی دیکھتی ہیں کہ ان کے ووٹ کدھر جارہے ہیں؟
اس الیکشن میں آپ نے دیکھا ہوگا کہ صرف مایاوتی نے بار بار مسلمانوں کا نام لیا۔ اور اٹھانوے (98) افراد کو اپنی پارٹی کا کنڈیڈیٹ بنا دیا، یہی چیز ان کے گلے کی ہڈی بھی بن گئی ۔ وہ کہتی رہیں کہ مسلمان اور بی ایس پی کے جو حمایتی طبقات ہیں مل کر حکومت بنالیں گے لیکن اس کا الٹا ہی اثر ہوا۔ اس کے علاوہ کسی پارٹی نے مسلمانوں کا نام تک لیناپسند نہیں کیا۔ پورے الیکشن میں اکھلیش او رراہل نے کہیں یہ نہیں کہا کہ مسلمانوں کا یہ مسئلہ ہے اسے حل ہونا چاہیے ۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ سوچتے ہیں کہ ایسا کرنے سے اکثریت کے ووٹ سے محروم ہوجائیں گے ۔ ان کے مسائل کا ذکر کریں گے تو لوگ سمجھیں گے کہ ہم ان کے حامی ہیں ۔ آپ کے حق میں کوئی کلمۂ خیر بھی کہتا ہے تو لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ مسلمانوں کا حامی ہے۔ ابھی الیکشن ہوا ، اگر یہ تمام پارٹیاں ایک ہوجاتیں تو ظاہر ہے کہ الیکشن کا رزلٹ دوسرا ہوتا ۔ یعنی اس بات کو یوں سمجھئے کہ بی جے پی کو یوپی میں چالیس فیصد ووٹ ملے ہیں اور ساٹھ فیصد ان پارٹیوں کو ملے ہیں لیکن چونکہ یہ بکھرے ہوئے تھے ، اس لیے رزلٹ دوسرا آیا۔ یعنی چالیس فیصد کی بنیاد پر وہ حکومت کررہی ہے اور ساٹھ فیصد میں سے کچھ ایس پی کے حق میں گئے کچھ بی ایس پی کے حق میں اور کچھ کانگریس کے حق میں گئے ۔ کچھ دوسری پارٹیوں کے کھاتے میں گئے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمان اس الیکشن میں پوری طرح نظر انداز کیے گئے۔ جہاں تک بی جے پی کاسوال ہے تو اس نے کہیں مسلمانوں کا ذکر نہیں کیا۔ وہ اب بھی نہیں کرتی ، جب بھی اس سے کہا جاتا ہے تو موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی صاحب کہتے ہیں کہ میں کسی گروہ یا طبقہ کی بات نہیں کرتا۔ میں تو ایک سو تیس کروڑ انسانوں کی بات کرتا ہوں، کسی بھی مسئلہ میں ، وہ مسلمانوں کے حوالہ سے کچھ کہنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ بہر حال آپ کو یہ ماننا ہوگا کہ ایک بڑی طاقت کی حیثیت سے بی جے پی موجود ہے۔ یوپی میں بھی ہے اور بعض دوسری ریاستوں میں بھی ۔ مسلمانوں کی تشویش بالکل فطری ہے۔ جو سمجھتے ہیں کہ بی جے پی ہماری انفرادیت ، ہماری تہذیب او رہمارے کلچر کو ختم کرنا چاہتی ہے۔ اس کا اپنا ایک فلسفہ ہے ، اس کی بنیاد پر وہ اس ملک کی تعمیر چاہتی ہے، اس میں ہمارے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ اس لیے ہمیں سوچنا ہوگا کہ اس صورت حال میں ہمیں کرنا کیا ہے؟
ایک بات تو یہ دیکھئے کہ آج بی جے پی جو برسر اقتدار ہے تو یہ اس کی ستر اسی (70-80) سال کی کوششوں کا نتیجہ ہے۔ مسلسل وہ اپنے نظریات کو فروغ دینے اور عام کرنے میں لگی رہی ۔ نشیب و فراز اس پر بھی آتے رہے ۔ اندراگاندھی کے ایمر جنسی کے دور میں ان کی گرفتاریاں ہوئیں او ربعد میں اندراگاندھی سے تعلقات بھی اس نے بڑھائے ۔ یہ سب کچھ ہوتا رہا۔ اس کے باوجود اس نے اپنے مقصد اور نصب العین کے حصول کے لیے مسلسل کوشش کی۔ اس دنیا کا قاعدہ ہے کہ جو انسان بھی کوشش کرتا ہے وہ کامیاب ہوتا ہے۔ مودی صاحب نے اس پہلو سے اپنا تعارف کرایا کہ وہ ملک کے سب ہی طبقات کو لے کر آگے بڑھیں گے اور سب ہی کی ترقی ان کے پیش نظر ہے۔ انہوں نے خاص طور سے کمزور طبقات کے ساتھ لینے کی کوشش کی ۔ انہوں نے کہا کہ میں بھی ایک غریب آدمی ہوں ، میرا تعلق بھی نچلے طبقے سے ہے، تم نے بی ایس پی کا تجربہ کیا، اب میرا بھی تجربہ کرو۔ آپ کو سن کر حیرت ہوگی کہ اس کا اثر ہوا یعنی یوپی میں جو کمزور طبقات کے لئے ریزرو سیٹیں ہیں وہ اڑسٹھ (68) کے قریب ہیں ۔ ان میں سب کے سب بی ایس پی کے بجائے بی جے پی کے حق میں گئیں او رکسی نے بی ایس پی کی طرف توجہ نہیں کی۔
ہم مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ کسی خاص نصب العین کے تحت ہماری کوششیں نہیں ہوتیں۔ جب الیکشن کا موقع آتا ہے تو ہم گفتگو کرتے ہیں کہ کس پارٹی کاساتھ دیا جائے۔ لیکن شاید سنجیدگی کے ساتھ غور نہیں کرتے کہ اس جمہوری ملک میں ہماری کامیابی کا کیا راستہ ہے او رہم کیسے یہاں مؤثر ہوسکتے ہیں ؟ امت کے اتحاد کی بات ہوتی ہے، اس سلسلہ میں مختلف تنظیموں اور پارٹیوں کے درمیان تبادلۂ خیال بھی ہوتا رہا لیکن کوئی خاص نتیجہ نہیں نکلا۔ ایسے موقع پر یہ احساس بھی ہوتا ہے کہ ہم سب کی یہ کمزوری ہے کہ ہر شخص دیکھتا ہے کہ قیادت کس کے ہاتھ میں رہے گی؟ ظاہر ہے کہ جب قیادت کی فکر ہوگی تو آپ قربانی نہیں دے سکتے ۔ آپ کو ہر وقت یہ فکر ہوگی کہ قیادت ہمارے ہاتھ میں رہے؟ اس کمزوری کی وجہ سے ہم اس پر بہت زیادہ توجہ نہیں کرپاتے ۔ ابھی الیکشن کے نتائج نہیں آئے تھے ، میں نے بعض دوستوں سے کہا: الیکشن کے جو بھی نتائج آئیں مسلمانوں کے ذمہ دار افراد کو بیٹھ کر سو چنا چاہئے کہ ہماری سیاسی حکمت عملی یہاں کیا ہوگی؟ اندازہ یہ ہے کہ سیاسی نتائج جو بھی آئیں ، وہ ہمارے حق میں نہیں ہوگے ۔ ہر پارٹی اکثریت ہی کو دیکھتی ہے ۔ اسی وجہ سے آپ کانام تک نہیں لیتی۔ بہار میں مسلمانوں نے اتحاد کامظاہرہ کیا ،ایک ہوگئے ،نتیجہ بہت اچھا نکلا ، وہاں بھی ہم سے یہ کہا جاتا تھا کہ آپ ہماری تائید کیجئے لیکن سامنے نہ آئیے ۔ ہر پارٹی یہی کہتی ہے ، آپ ووٹ دیجئے لیکن آپ سامنے آئیں گے تو ہمارے لیے مسئلہ کھڑا ہوجائے گا۔ اگر کھل کر آپ سامنے آئیں گے تودوسرا فریق اس سے فائدہ اٹھائے گا۔ چنانچہ وہاں مسلمانوں نے یہی حکمت عملی اختیار کی اور وہ سامنے نہیں آئے،آپ کا سامنے آنا کسی کوبھی گوار نہیں ہے۔ او ریہاں بھی یہی صورت حال ہے کہ کوئی بھی پارٹی نہیں چاہتی کہ آپ سامنے آئیں اور اپنے مسائل پر کھل کر بات کریں۔
اس انتخاب کے بعد یہ خیال ہورہا ہے اور مسلمان بھی یہ سوچتے ہیں کہ اب بی جے پی کو ہوسکتا ہے کہ راجیہ سبھا میں بھی اکثریت حاصل ہوجائے ۔ لوگ سبھا میں تو اسے اکثریت حاصل ہی ہے۔ راجیہ سبھا میں بھی اس کی اکثریت ہوجائے گی تو وہ کوئی بھی قانون پیش کرسکتی ہے او راسے منظور کراسکتی ہے۔ دستور میں بھی تبدیلی کرسکتی ہے ۔ میں اس بحث میں نہیں پڑتا کہ دستور میں بنیادی تبدیلی ہوگی یا نہیں ، اس کی وجہ یہ ہے کہ ملک کا دستور ہی ہے جو اس کے مختلف طبقات کو جوڑے ہوئے ہے۔ بہر حال مسلمان یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ہمارے خلاف کوئی بھی قانون پاس کراسکتی ہے ۔ یہ تشویش فطری ہے۔ آپ پرسنل لاء بورڈ میں ترمیم کرادیں ، آپ کی اور چیزوں پر پابندی لگادیں، ان سب چیزوں کی وجہ سے مسلمانوں کی تشویش بجا ہے۔
ایک بات تو یہ ہے کہ بہر حال ہمیں یہ کوشش کرنی ہوگی کہ مسلمانوں میں جو انتشار ہے جس حد تک ممکن ہے کم ہو ، جب کسی بھی پارٹی کو معلوم ہوگا کہ آپ متحد ہیں تو آپ کو وہ اہمیت دے گی او رآپ کا بہر حال خیال کرے گی۔ لیکن اگر آپ انتشار میں مبتلا ہوں تو وہ یہی سمجھیں گی کہ آپ کے پاس کوئی طاقت نہیں ہے۔ اس لیے اپنے مفادات کوچھوڑ کر مسلمان جس حد تک بھی متحد ہوں گے توقع ہے کہ اس کا اثر پڑے گا او ر مختلف پارٹیاں مسلمانوں کو اہمیت بھی دیں گی۔
ایک بات یہ ہے کہ اب اس کا وقت نہیں ہے کہ ہم ایک دوسرے پر تنقید کریں، کہ فلاں فرد نے غلطی کی ، فلاں پارٹی سے یہ فروگزاشت ہوئی اور اس کی وجہ سے مسلمانوں کے ووٹ بٹ گئے اور فلاں نے جو یہ بات کہی اس کی وجہ سے لوگ بی جے پی کی طرف چلے گئے، اس طرح کی باتوں کا اب کوئی فائدہ نہیں ہے۔ جو کچھ ہوناتھا وہ ہوچکا۔ ہمیں ان باتوں کو نظر انداز کر کے اپنی قوتوں کو یکجا کرنا ہوگا۔
آپ جانتے ہیں کہ جنگ اُحد میں مسلمانوں سے غلطی ہوئی ، تو جیتی ہوئی بازی شکست میں تبدیل ہوگئی، ظاہر ہے کہ جن لوگوں کی کوتاہی کی وجہ سے شکست ہوئی ان سے شکایت بھی ہوگی اور لوگوں کے اندر سخت جذبات بھی رہے ہوں گے لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت کی گئی ( دیکھئے کتنی بڑی بات کہی گئی! فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَهُمْ وَشَاوِرْهُمْ فِي الْأَمْرِ ( آل عمران :159) کہا گیا کہ ان سے جو غلطی ہوئی اسے معاف کر دیجئے ۔ آگے اس سے بڑی بات کہی گئی وَاسْتَغْفِرْ لَهُمْ ان کے لیے معافی طلب کیجئے اللہ سے کہیے کہ اے اللہ! میرے اس ساتھیوں سے غلطی ہوگئی ہے ، تو انہیں معاف کردے ! یہ کتنی بڑی بات ہے! جن سے غلطی ہوئی ، انہیں معاف کردینا آسان ہے، لیکن ان کے حق میں دعا کرنا اتنا آسان نہیں ہے۔ اس سے بڑی بات کہی گئی وَشَاوِرْهُمْ فِي الْأَمْرِ سمجھ کر کہ یہ غلط کار اورنا سمجھ لوگ ہیں، انہیں الگ نہ کیجئے بلکہ معاملات میں ان سے مشورہ کیجئے ۔ وہ یہ نہ سمجھیں کہ ہمیں کاٹ دیا گیا ، ہمیں الگ کر دیا گیا۔ بات کہا ں سے چلی ہے او رکہا جارہا ہے کہ ان سے مشورہ کرو، انہوں نے غلطی کی ، لیکن ان کی غلطی اجتہادی غلطی تھی، جان بوجھ کر نہیں کی۔ حالانکہ اس کا اتنا بڑا نقصان ہوا کہ ہر ستر مسلمان شہید ہوگئے ۔ اس زمانے میں ستر مسلمانوں کا شہید ہوجانا بہت بڑی بات تھی۔ فرمایا گیا ان حالات میں بھی تمہیں ان سے تعلق رکھنا چاہیے ۔ بہر حال اب ہمیں یہ کوشش کرنی ہوگی کہ کس طرح سب کو متحد کیا جائے کیوں کہ ہر کسی کا اپنا الگ دائرہ ہے اس کے اثرات ہیں ۔ ہر جماعت کا ایک اثر ہے۔ ان سب کو یکجا کرنے سے ہی ہماری طاقت بڑھ سکتی ہے۔
ایک بات یہ ہے کہ بی جے پی مسلمانوں کو ایک حریف طاقت کی حیثیت سے دیکھتی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس کا پورا فلسفہ ہی اس بنیاد پر ہے کہ یہاں مسلمان ہیں ۔ اور ان کا وجود ملک کے لیے کار آمد نہیں ہے بلکہ شاید وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ملک کے لیے وہ نقصان دہ ہیں۔ اگر وہ رہیں بھی تو ہمارے کلچر میں ضم ہوجائیں ۔ ایک صاحب نے بہت پہلے لکھا تھا کہ ’’شاید دنیا میں ہندوستان ہی وہ ملک ہے جہاں اقلیت سے اکثریت ڈرتی اور خوف کھاتی ہے کہ یہ ہمارے لیے خطرہ ہیں ‘‘۔ اس کے اسباب چاہے جو بھی ہوں بہر حال وہ آپ کو ایک حریف قوم کی حیثیت سے دیکھتے ہیں ۔ آپ کو یہ بتانا ہوگا کہ آپ ان کے حریف نہیں ہیں، نہ ان کے دشمن ہیں، نہ اس ملک کے دشمن ہیں ۔ ایک بات یہ بھی ہے کہ آپ کی افادیت انہیں اس ملک میں سمجھ میں نہیں آتی۔ آپ اس ملک میں ہیں کوئی بھی پارٹی یہ نہیں کہتی کہ مسلمان اگر یہاں سے ہٹ گئے یا ختم ہوگئے یا چلے گئے تو اتنے سائنٹسٹ چلے جائیں گے ،اتنے فلاسفر چلے جائیں گے ،اتنے انجینئر چلے جائیں گے ،اس ملک کانظام کیسے چلے گا،صحافت میں اتنے قابل لوگ موجودہیں پھر ایسے لوگ صحافت میں کہا ں ملیں گے ۔ کوئی گروہ آپ کی افادیت محسوس نہیں کرتا۔ صرف بی جے پی ہی نہیں کوئی بھی طبقہ آپ کی افادیت محسوس نہیں کرتا۔ جو آپ کی حمایت کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ مسلمان یہاں کے باشندے ہیں ان کو یہاں رہنے کا دستور نے حق دیا ہے، لہٰذا غیر ملکی سمجھ کر ان سے معاملہ نہیں کیا جاسکتا ۔ کوئی یہ نہیں کہتا کہ ان کے نہ رہنے سے ملک کا بڑا نقصان ہوگا۔ آپ نے کسی بھی وجہ سے یہ مقام نہیں حاصل کیا۔ اس کے اسباب ہیں، غور کیجئے ۔ ہم حکومتوں پر الزام لگاتے ہیں ، کیا لیکن اپنے آپ کا بھی ہمیں جائزہ لینا چاہیے ۔ آپ اس پوزیشن میں نہیں رہے کہ ملک یہ سمجھے کہ ان کے جانے سے کیا ہوگا؟ دو فیصد یہودیوں کے بارے میں امریکہ سوچتا ہے لیکن پندرہ فیصد آبادی کے بارے میں کوئی نہیں سوچتا ہے کہ ان کے جانے سے ہم قابل اور با صلاحیت افراد سے محروم ہوجائیں گے؟اس پوزیشن میں آپ کسی سے کیا بات کریں گے! ظاہر ہے کہ یہ ایک طویل منصوبہ ہے جس میں آپ کو سوچنا ہوگا کہ کیسے آپ اس پوزیشن میں آئیں گے کہ لوگ آپ کی افادیت محسوس کریں ۔ بعض اوقات ملک کی تعمیر و ترقی میں ماضی میں مسلمانوں کے غیر معمولی کارناموں کا ہم حوالہ دیتے ہیں ۔ بہت سے غیر جانب دار لوگ اس سے اتفاق بھی کرتے ہیں ۔ لیکن اس وقت ہماری تاریخ زیر بحث نہیں ہے۔ اس سے ہم موجودہ دور میں اپنی افادیت ثابت نہیں کرسکتے ۔
ہر معاملے میں ہم جذباتیت کا جو مظاہرہ کرتے ہیں ، یہ صحیح نہیں ہے۔ بلکہ بہت سنجیدگی کے ساتھ ہمیں اپنے بارے میں غور کرناچاہئے ۔ او راپنے آپ کو ملک کے لیے اور پوری دنیا کے لیے خیر الناس ثابت ہونا ہوگا۔
ایک بات یہ عرض کرنی ہے کہ حالات ہر طرح کے آتے ہیں ۔ پہلے بھی آتے رہے ہیں، آئندہ بھی آسکتے ہیں ،لیکن نازک سے نازک حالات میں بھی آپ کو جرأت او رہمت کا مظاہرہ کرناہوگا۔ اگر آپ نے جرأت اور ہمت کھودی تو پھر آپ کامیاب نہیں ہوسکتے ۔ جرأت او رہمت سے ہی آپ حالات کامقابلہ کرسکتے ہیں ۔ جنگ احد میں مسلمانوں کی شکست ہوگئی، اس کے باوجود قرآن نے کہا وَلَا تَهِنُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَنتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ (آل عمران :139) یعنی دل شکستہ نہ ہو کمزوری نہ دکھاؤ او رغم نہ کرو۔ تم ہی سر بلند رہوگے ۔ قرآن نے ان کی کمزو ری کی بھی نشاندہی کی جسے آپ سورۂ آل عمران میں دیکھیں گے ، لیکن اس کے ساتھ کہا کہ شکست سے ہمت ہارنے او ربددل ہونے کی ضرورت نہیں تم ہی سر بلند رہوگے اگر تمہارے اندر ایمان ہے، اگر خدا پر یقین ہے، اس کی ذات پر بھروسہ ہے تو تمہیں کوئی دبا نہیں سکتا ۔ تمہیں زیر نہیں کرسکتا ۔ تم سر بلند رہنے کے لیے آئے ہو اور سربلند رہوگے ۔ قرآن نے اس سلسلہ میں کہا :إِن يَمْسَسْكُمْ قَرْحٌ فَقَدْ مَسَّ الْقَوْمَ قَرْحٌ مِّثْلُهُ یعنی یہ کہ تمہارے مخالفین بھی اس سے پہلے تمہارے ہاتھوں ( جنگ بدر میں ) شکست کھا چکے ہیں پھر بھی وہ ہمت ہار کر نہیں بیٹھ گئے اور تمہارے خلاف صف آرا ہوگئے۔پھر تم کیوں ہمت ہار رہے ہو او رطرح طرح کے خدشات میں مبتلا ہو۔ ا س کامطلب یہ ہے کہ حالات کا مقابلہ جرأت او رہمت سے ہی کرنا ہوگا۔ اپنے اندر حوصلہ پیدا کیجئے کہ ہم ان حالات میں بھی اپنے نظریات پر او راپنے اصول پر قائم رہیں گے او ردین کے جس حصے پر عمل کرسکتے ہیں اس پر لازماً عمل کیجئے ۔ آپ کو آزادی ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ کی بندگی کریں ، نماز ، روزہ، حج و زکوٰۃ کا اہتمام کریں ۔ یہ عبادات آپ کو اللہ سے قریب کرتی ہیں، مشکلات میں اللہ دین پر استقامت کا جذبہ پیدا کرتی ہیں ۔ پرسنل لاکا تذکرہ کرتے ہیں اس پر عمل کیجئے ۔ اس کے خلاف کوئی قانون موجود بھی ہے تو قانون اس پر کام کرے گا جب کوئی شخص اس کا نفاذ چاہے۔ فرض کیجئے نکاح، طلاق، مہر ،خلع ، وراثت اور نان و نفقہ کے احکام پر آپ عمل کرتے ہیں تو کوئی اس پر پابندی نہیں لگا سکتا ۔ بہر حال دین کے جس حصے پر آپ عمل کررہے ہیں اس پر عمل کیجئے ۔ او راللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے کہ جو رکاوٹیں ہیں وہ دور ہوں ۔ اے اللہ جس حصے پر ہم عمل کرسکتے ہیں ، کررہے ہیں او رجس حصے پر ہم عمل نہیں کر پارہے ہیں ، اس میں توہماری مدد فرما۔
اب تو بی جے پی کی کئی ریاستوں میں حکومت ہے۔ ہم نے دیکھا کہ کرناٹک میں بی جے پی کی بھی حکومت رہی اور اس وقت کانگریس کی حکومت ہے۔ کرناٹک کے مسلمانوں نے بی جے پی کے دور میں بھی اپنی ملّی اوردینی خدمات جاری رکھیں ۔ ہم اس سے یہ سبق لے سکتے ہیں کہ جو آزادی آپ کو حاصل ہے اس میں آپ راہیں نکال سکتے ہیں ۔ دوسری بات یہ ہے کہ تجربہ بتاتا ہے کہ اگر آپ بی جے پی سے روابطہ قائم کریں ، ان سے بات کریں اور آپ کے کاموں کی وہ افادیت محسوس کریں کہ جو کام آپ کررہے ہیں وہ ملک کی بھلائی کا ہے تو ان کی مخالفت میں کمی آتی ہے۔ اس کا بڑا اچھا تجربہ مہاراشٹر میں جماعت کو ہوا ہے۔ آپ جانتے ہی ہیں وہاں شیو شینا او ربی جے پی کی حکومت ہے ۔ شیو شینا تو بی جے پی سے زیادہ سخت ہے۔ لیکن امیر حلقہ مہاراشٹر کا تجربہ ہے کہ : ’’ جب ہم بتایا کہ ہمارے یہ یہ پروگرام ہیں تو انہوں نے اس کی افادیت محسوس کی ، اس کی تائید کی۔ بعض پروگراموں میں ان کی شرکت بھی رہی۔‘‘ بجائے اس کے ہم ان سے بالکل الگ تھلگ رہیں، ان سے بات چیت کریں۔ یہ بات بھی آپ ذہن میں تازہ رہے کہ اس ملک میں آپ کی حیثیت داعی کی ہے۔ آپ ایک داعی امت ہیں ۔ اس سے مرادیہ ہے کہ آپ اللہ کے دین کی دعوت دینے والے ہیں ۔ آپ کی یہ حیثیت بہر حال باقی رہنی چاہیے ۔ دشمن ہو یا دوست سب تک اللہ کا پیغام پہنچانے کی کوشش کیجئے ۔ اس کے لیے راستے نکالیے ۔ اسے بتائیے کہ یہ اللہ کا دین ہے، ہم اس پر عمل کررہے ہیں، آپ بھی اس پر غور کیجئے ۔ یہ دنیا اور آخرت کی فلاح کا ذریعہ ہے، ورنہ ظاہر ہے آپ اس معاملے میں کوتاہ ہوں گے۔
آخری بات یہ ہے کہ قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ نازک حالات میں انسان کو اللہ سے رجوع کرنا چاہیے ۔ یہ مومن کی پہچان ہے۔ افسوس ہے کہ ہم مادی تدابیر کے بارے میں تو غور کرتے ہیں۔ اس میں ہمارا دماغ خوب کام کرتا ہے۔جب ہم گفتگو کرتے ہیں توسیاسی پارٹیوں کی طرح کرتے ہیں ۔ یہ بات ہمارے ذہن میں نہیں آتی کہ زندگی کے ہر نازک مرحلہ میں اللہ کی طرف رجوع کرنا چاہئے ۔ اللہ کے بندوں کی پہچان یہ بتائی گئی :الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُم مُّصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّـهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ ۔ أُولَـٰئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَوَاتٌ مِّن رَّبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ (البقرہ :156) ’’یہ اللہ کے وہ بندے ہیں کہ جب ان کو تکلیف پہنچتی ہے تو کہتے ہیں کہ ہم اللہ کے ہیں ۔ ہم اللہ کی طرف رجوع کرتے ہیں۔‘‘ یہ بات ہماری زندگی میں بھی آنی چاہیے ۔
تندئی باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لیے
بادِ مخالف چل ہی رہی ہے لیکن ہمیں سمجھنا چاہیے کہ یہ ہمیں اونچا اٹھائے گی۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہماری مدد فرمائے ۔ اور ہمارے حالات کو بہتر کرے او رہمارے اندر اتفاق و اتحاد پیدا کرے ، او رہمیں ایک مضبوط طاقت بننے کی توفیق عطا فرمائے ۔ و آخر وعوانان الحمد للہ رب العالمین۔
12اپریل،2017 بشکریہ :روز نامہ خبریں ،نئی دہلی
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/recent-elections-muslim-ummah-/d/110786
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism