مولانا حسین احمد قاسمی
12مئی،2017
شریعت طلاق کو ’’ ابغض المباحات‘‘ یعنی جائز چیزوں میں سب سے ناپسند دیدہ قرار دیا گیا ہے لیکن چونکہ حقوق و فرائض کے بارے میں اکثر نزاع پیدا ہوجاتی ہے او رمیاں بیوی کی ہمہ وقتی رفاقت کی وجہ سے نزاع کاامکان زیادہ ہوتا ہے ، اس لیے جب اس نزاع کے نتیجہ میں نفرت اس درجہ کو پہنچ جائے کہ اصلاح کی ساری کوششیں ناکام ہوجائیں اور حدود اللہ پر قائم رہتے ہوئے ازدواجی زندگی گزار نا دشوار ہوجائے ، تو آخر ی چارۂ کار کے طور پر علیحدگی کے لیے شریعت اسلام نے مرد کو طلاق کا اختیار دیا ہے، اورطلاق کا سب سے احسن طریقہ یہ بتایا کہ ایسی پاکی کی حالت میں جس میں یکجائی کی نوبت نہیں آئی ہو، ایک طلاق دے دے اور بس،مزید کی ضرورت نہیں ہے۔ عدت گزر نے کے بعد بیوی اپنے نفس کی مجاز ہوجائے گی، اور یہ طریقہ بھی جواز کے دائرے میں آتا ہے کہ الگ الگ طہر میں تین طلاقیں دے، لیکن یہ طریقہ تو ناجائز ہے کہ کوئی اپنی بیوی کو ایک ساتھ تین طلاقیں دے دے،کیونکہ اس کے نتائج سماج کے لیے بہت ہی تباہ کن ہیں، تو کیا جائز طریقہ پر ایک ساتھ تین طلاق دینے پر سزامقررکی جاسکتی ہے؟کس نوعیت کی سزا مقرر کی جاسکتی ہے او رکس نوعیت کی نہیں؟
جب ہم اس پر غور کرتے ہیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ سزائیں دو طرح کی ہیں، متعینہ و غیر متعینہ ،شریعت میں بعض جرائم کے ارتکاب پر سزا کومتعین کر دیا گیا ہے ، ان جرائم کے ارتکاب پر وہ متعینہ سزا حاکم وقت مجرم کو دے گا، اس میں کمی یا بیشی کا اختیار کسی کو نہیں ہے،ایسی سزا کوحدود کہا جاتاہے جیسے ، حد زنا، حد سرقہ اور حد شرب وخمر وغیرہ ، اور جن جرائم پر شریعت نے کوئی سزا مقررنہیں کی ہے، ان کو حاکم وقت کی صواب دید پر موقوف رکھا ہے، ان کو تعزیر کہا جاتا ہے اور یہ سزا کئی نوعیت کی ہوسکتی ہے۔
ایک ساتھ تین طلاق دینا اگرچہ شرعاًجرم ہے، لیکن شریعت کی جانب سے کوئی سزامقرر نہیں ہے جسے ’’ حد‘‘ کہاجائے البتہ نفسیاتی سزا کے طور پر حکم دیا گیا کہ تین طلاق کے بعد اس کی بیوی بالکلیہ علیحدہ ہوگئی اور اگر واپسی ہوگی بھی تو ایسی ذلت کے ساتھ کہ اس سے بڑھ کر کوئی ذلت نہیں ہے او ریہ بہت بڑی نفسیاتی سزا ہے۔
اس کے علاوہ قرآن و حدیث میں تین طلاق پر کوئی سزا نہیں ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ساتھ تین طلاق دینے پر بہت زیادہ برہمی کا اظہار فرماتے ہوئے فرمایا: ’’کیا کتاب اللہ سے کھلواڑ کیا جائے گا جب کہ میں تمہارے درمیان موجود ہوں ‘‘ ( نسانی :5594) مگر اس کو کوئی مالی یاجسمانی سزا نہیں دی۔
لیکن ایک ساتھ تین طلاق کے سد باب کے لیے تعزیر ہوسکتی ہے’’ تعزیر کسی مخصوص فعل یا مخصوص قول کے ساتھ خاص نہیں ہے ‘‘ ( معین الحکام :195) لہٰذا اب ہمیں یہ دیکھناہے کہ ایک ساتھ تین طلاق دینے پر کون سی تعزیر (سزا) ہوسکتی ہے۔
طلاق ثلاثہ پر جسمانی سزا:
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں روایات ہے کہ وہ تین طلاق دینے والوں کو جسمانی سزا دیتے تھے ، چنانچہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : جب عمررضی اللہ عنہ کے پاس کوئی ایسا شخص لایا جاتا جس نے اپنی بیوی کوایک ساتھ تین طلاقیں دی ہوتیں ، تو اس کی پٹائی فرماتے ۔ ( المصنف لابن ابی شیبہ حدیث نمبر :17790)
ایک دوسری روایت ہے: ایک شخص کو جس نے اپنی بیوی کو ہزار طلاقیں دی تھیں، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں لایا گیا تو اس شخص نے کہا : میں نے ویسے ہی مذاق کیا ہے، حضرت عمررضی اللہ عنہ نے اس کو درے سے مارا اور فرمایا :’’ تیرے لیے ان میں سے تین طلاقیں کافی ہیں‘‘ ( مصنف عبدالرزاق :393/6حدیث :1134)
حضرت مفتی رسید احمد فرماتے ہیں:’’ان وجوہ کی بنا پر طلاق کا مروج دستور بلا شبہ واجب التعز یر جرم ہے حکومت پر فرض ہے کہ ایسے جرم پر عبرتناک سزا دے ، حکومت کی طرف سے غفلت کی صورت میں برادری کی طرف سے مقاطعہ (بائیکاٹ) کی تعزیر مناسب ہے۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم‘‘ ( احسن الفتاوی :195/5)
مشہور فقیہ مفتی محمدتقی عثمانی ایک ساتھ تین طلاق دینے والوں کے لیے حکومت وقت کامشورہ دیتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:
’’ پھر خصوصیت کے ساتھ اس طلاق کے مسئلہ میں یہ بات بہت مفید ہوگی کہ تین طلاقیں بیک وقت دیناقانونی جرم کا ارتکاب کرے اس کے لیے کوئی مناسب سزا مقرر کردی جائے ( ہمارے عائلی مسائل: 156بحوالہ ’’ نکاح و طلاق اور ہماری ذمہ داریاں‘‘: ص:131)
حضرت مولانا مفتی عبدالرحیم لاجپوری رحمۃاللہ علیہ تین طلاق دینے والوں کے بارے میں فرماتے ہیں:
ایک ساتھ تین طلاق دینے کا رواج غلط ہے اور خلاف سنت ہے اس پر پابندی عائد کی جاسکتی ہے اگر بازنہ آئے تو با اثر لوگ قطع تعلق او ربائیکاٹ کرلیں۔ (فتاویٰ رحیمیہ :316/5)
حضرت مولانا مفتی احمد خانپوری ،طلاق کی بے راہ روی پر سماجی بائیکاٹ (مقاطعہ) سے متعلق ایک استفتاکا تفصیلی جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں :
’’ آپ کے لیے ایک ہی صورت رہ جاتی ہے او روہ ہے سماجی بائیکاٹ کی، لیکن اس سلسلہ میں دو باتیں ملحوظ رہیں پہلی یہ کہ حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ کے بقول ’’ جماعت سے خارج کرنا گناہوں کے ارتکاب سے ہوتا ہے جو قطعی حرام ہیں اورجن سے مسلمانوں کی سوسائٹی پر برااثرپڑتا ہے۔ ( کفایت المفتی :95,94/9) اس لیے طلاق دینے کی وہ صورتیں جو شرعاً حرام ہیں ان میں تو آپ یہ سزا تجویز کرسکتے ہیں، اس کے علاوہ صورتوں میں نہیں ‘‘۔ ( محمود الفتاوی :450/4)
ہندوستانی سماج میں طلاق ثلاثہ پر کون سی سزا اپنائی جائے :
مذکورہ بالا تعزیرات میں سے کس نوعیت کی سزا کو موجودہ حالات میں ہندوستانی سماج میں عملاً اپنایا جاسکتا ہے ۔ مالی جرمانہ تو جائز ہی نہیں ہے،لہٰذا طلاق ثلاثہ پر مالی جرمانہ عائد نہیں کیا جاسکتا ۔ جسمانی سزا ( مار پیٹ) ،جلا وطنی اور قید کی سزا کے نفاذ کے لیے قوت قاہرہ کی ضرورت ہے، اور ہندوستان میں فی الحال مسلمانوں کوقوت قاہرہ حاصل نہیں ہے لہٰذا یہاں طلاق ثلاثہ پر ان تینوں سزاؤں کا عملاً نفاذ نہیں ہوسکتا ہے۔
مفتی تقی عثمانی اور مفتی رشید احمد رحمۃ اللہ علیہ نے جو دردناک سزا کی وکالت کی ہے، تو ان کی پیش نظر حکومت پاکستان ہے جہاں مسلم حکمراں ہیں لہٰذا وہاں یہ سزا ممکن ہے۔
طلاق ثلاثہ پر سماجی بائیکاٹ (مقاطعہ) کی سزا موجودہ حالات میں ہندوستانی سماج میں عملاً ممکن ہے، چنانچہ ایک ساتھ طلاق اور دیگر سماجی برائیوں کے سدباب کے لیے ایسی انسدادی کمیٹی تشکیل دی جاسکتی ہے جو ایک ساتھ تین طلاق جیسی برائیوں کے ارتکاب کرنے والوں کے خلاف ایک مدت معینہ تک سماجی بائیکاٹ کااعلان کرے۔
لیکن دو باتوں کا خاص خیال رکھا جائے ، پہلا عدل و انصاف کی سزا صرف انہیں برائیوں پر ہوجو شر عاً حرام ہیں، جیسا کہ مفتی کفا یت اللہ رحمۃ اللہ علیہ کے فتویٰ میں اوپر گزرچکا ۔
کیا طلاق ثلاثہ پر ہندی عدلیہ سے سزا کا مطالبہ کیا جاسکتا ہے:
حالیہ دنوں میں میڈیا اور اسلام مخالف طاقتوں کی جانب سے اسلام کے تین طلاق کے قانون پر نکتہ چینی اور پرپیگنڈہ سے گھبر ا کر بہت سارے مسلم دانشور حکومت ہند او رعدلیہ سے ایک ساتھ تین طلاق پر سزا کا مطالبہ کر بیٹھے ، واضح رہے کہ یہ محض بھولاپن ہے، جو حکمت و مصلحت کے سراسر خلاف ہے، او رحکومت اور عدلیہ کوشریعت میں مداخلت کی دعوت دینے کے مرادف ہے۔
اصل کام:
مفتی محمود حسن گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
’’انسداد جرائم کے لیے ارشاد ، تلقین ، تذکیر ، تزکیۂ باطن کی ضرورت ہے، تاکہ دل میں خوف وخشیت پیدا ہو، جنت و دوزخ کا استحضار ، قبر ،قیامت ، حشر ، حساب، کتاب،خدائے قہا ر کی عظمت او راس کے انعامات کا مراقبہ لازم ہے، تاکہ اعمال صالحہ اور اخلاق فاضلہ کی رغبت ہو ورنہ محض سختی سے اصلاح نہیں ہوتی، اگر ہوتی ہے تو عارضی ہوتی ہے‘‘ ( فتاوی محمودیہ :185/5)
مذکورہ عبارت کو نقل کرنے کے بعد مولانا مفتی احمد خان پوری صاحب فرماتے ہیں:
اس لیے تمام ذمہ دار حضرات کوچاہیے کہ کہ اسی روش پر گامزن ہوں ، یہی اصل علاج ہے علماء حضرات اس مقصدکو اپنا مشن بنائیں، اور اس کے لیے اپنے کو فارغ کریں کبھی ضرورت پیش آئے تو تعزیری کارروائی حدود شرح کے اندر رہ کرانجام دیں، باقی محض تعزیرات والا طریقہ دیرپا نہیں ہے، بلکہ ایک مدت کے بعد شریعت او رذمہ داران کے خلاف بغاوت کا علم اٹھانے کا ذریعہ ہے اور عورتوں کی اشک شوئی بھی حقیقی طور پر نہیں ہوگی، بہت بہت تواتنا ہوا کہ طلاق کاسد باب ہوگا لیکن ازدواجی زندگی کی تلخی میں اضافہ ہوگا۔ ( محمود الفتاوی:453/4)
12مئی،2017 بشکریہ : راشٹریہ سہارا ، نئی دہلی
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/is-punishment-possbile-triple-talaq/d/111142
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism