مولانا حفیظ الرحمٰن اعظمی
عمری
مئی،2012 (والیوم نبمر‑
9، اشیو نمبر‑1)
شریعت نے جس کو جو مقام دیا ہے، عدل وانصاف کے ساتھ اسے اسی طرح
انجام دینے کا نام ‘‘ترجیحات دین’’ ہے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم جو شریعت نازل
کی گئی اس میں دنیا وآخرت کی تمام مصلحتوں
کا لحاظ رکھا گیا ہے ۔( الحسبۃ فی الا سلام ، لامام ابن تیمیہ رحمتہ اللہ علیہ
)
قرآن مجید کے اندر دومختلف
احکام آئے ہیں ۔ ایک ہے: وَ أَ تِمُّو ا اُ لْحَجَّ وَ اُ لْعُمْرَ ۃۃ لِلہِ( البقرہ:196)‘‘
اور (دیکھو!) حج اور عمرے کی جب نیت کرلی جائے تو اسے اللہ کے لیے پورا کرنا چاہئے’’
اور دوسرا ہے: وَ أَ عِدُّ
و الَھُم مَّا اُ سْتَطَعْتُم مِّن قُوَّ ۃِِ وَمِن رِّ بَا طِ اُ لْخَیْلِ تُرً ھِبُونَ
بِہِ عَدُ وّۃ اُ للہِ وَ عَدُ وَّ کُمْ ۔(الا نفال :60) ‘‘ اور (مسلمانو!) اپنے مقدور
بھر قوت پیدا کر کے اور گھوڑے تیار رکھ کر دشمنوں کے مقابلے کے لیے اپنا سازو سامان
مہیا کیے رہو کہ اس طرح مستعدرہ کر تم اللہ کے (کلمۂ حق کے ) اور اپنے دشمنوں پراپنی دھاک بٹھائے رکھو گے’’۔
حج اسلام کا پانچواں رکن ہے،
لیکن یہ انفرادی کام ہے، جب کہ دفاعی قوت کی تیاری کا تعلق پوری ملت سے اور قومی عزت
وسلامتی سے ہے۔ ہمارے اہل علم نے حج وعمرہ پر پورا زور صرف کیا ۔اس کے نیتجے میں آج
حج پر حج اور عمرہ پر عمرہ کرنے والے نظر آتے ہیں ۔ اگر پابندیاں نہ ہوتیں تو شاید
کروڑوں مسلمان ارض ِ حرم میں حج وعمرہ کی ادائیگی کے لیے ہمیشہ حاضر رہتے۔ لیکن واعد
و الھم ما استطعتم ۔ کے قرآنی حکم کو ہم نےنظر انداز کردیا۔ یہ دین و ملت کے تحفظ
کے لیے کتنا ناگزیر تھا، اس طرف توجہ نہیں دی گئی اور اللہ تعالیٰ نے اس کا جو فائدہ
بتایا تھا : و انتم لا تظلمون ‘‘ تم ظلم نہیں کئے جاؤگے’’ ، اسے ہم نے قابل اعتنا
نہیں سمجھا ۔نتیجہ یہ ہوا کہ آج ہم مسلمان دشمن کے لیے ہر جگہ تو نوالا بنے ہوئے ہیں
اور ہمارا خون دنیا میں سب سے زیادہ سستا ، بلکہ ہر جگہ بے قیمت ہوکر رہ گیا ہے۔ ترجیحات
دین سے غفلت اور اس کے انجام کی یہ ایک مثال ہے۔ ایسی بے شمار مثالیں غور کرنے پر ہم
کو ملیں گی۔
اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ
وسلم نے اپنی عملی زندگی میں ترجیحات دین کا بڑا خیال رکھا ۔ صلح حدیبیہ کے موقع پر
مشرکین کے سارے شرائط آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مان لیے تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہ
رنجیدہ ہوگئے ۔ حضرعمر رضی اللہ عنہ نے سختی سے پوچھا: یا رسول اللہ ! کیا آپ اللہ
کے نبی نہیں ہیں؟ کیا اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ نہیں ہے؟ کیا ہمارا دین حق پرنہیں ہے
؟ یہ سب حق ہے تو پھر کیوں ہم دب کر اور ڈر کر مشرکین کے شرائط مانیں؟ لیکن آپ صلی
اللہ علیہ وسلم نے اسی بات کو ترجیح دی جو قرینِ مصلحت تھی۔
مشرکین کو سلام میں پہل کرنے
کے معاملے میں اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مکی زندگی میں فرمایا کہ مشرک اگر
تمہارے سامنے سے گزرتا ہے تو تم سلام میں پہل کرو، اور راستہ تنگ ہوتو تم ہٹ کر اسے
راستہ دو۔ اس کے بعد مدینہ میں جب اسلام غالب آگیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
: لا تبدؤ وھم بالسلام ، واِذ القیتموھم وی الطریق فاضطرو ھم اِلی أضیق الطریق
۔( ابوداؤد : باب فی السلام علی أھل الذمۃ) ‘‘جب راستے میں تمہاری ان سے ملاقات ہوتو
انہیں کنارے چلنے پرمجبور کرو’’۔
کس وقت آدمی کو کیا کام کرنا
چاہئے، یہ اسلام کی بڑی حکیمانہ تعلیم ہے۔
واقعہ ٔ افک میں منافقوں کا
سردار عبداللہ ابن ابی سب سے بڑا مجرم تھا، جس کے بارے میں اَلَّذِی تَوَلّٰی کَبْرَہ
( النور :11) کے الفاظ قرآن نے استعمال کیے ۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے
اس کو سزا نہیں دی ، کیوں کہ اس کے ساتھ ایک بڑی تعداد تھی، اگر اسے سزا دی جاتی تو
وہ بغاوت پر اتر آتے، اور اس سے اسلام اور مسلمانوں کا نقصان ہوتا۔ اس مصلحت کے پیشِ
نظر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے معافی کو ترجیح دی۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم
کے دور میں کعبۃ اللہ اس شکل میں نہ تھا جسے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تعمیر کیا
تھا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شدید خواہش تھی کہ کعبۃ اللہ اپنی اصل شکل میں
تعمیرہو۔ ایک موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا:
میری خواہش تو یہ ہے کہ کعبہ کی عمارت کو شہید کرکے دوبارہ اسے اس کی اصل شکل میں بناؤں
۔ اگر تمہاری قوم کی غلط فہمی کا اندیشہ نہ ہوتا تو میں ضرور ایسا کرتا’’۔
ایک موقع پر پوچھا گیا کہ
سب سے بہترین عمل کون سا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نماز کو اس کے اول
وقت پرپڑھنا ۔لیکن گرمی کے موسم میں نمازِ ظہر تاخیر سے پڑھنے کا حکم آپ صلی اللہ
علیہ وسلم نے دیا ہے۔ ایسا ہی نمازِ عشا کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد
ہے کہ لوگوں کی مشقت کا مجھے ڈرنہ ہوتاتو میں عشا کی نماز کو تاخیر سے ادا کرتا ۔ نماز
فجر کے بارے میں فرمایا کہ اس نماز کو غلس میں شروع کر کے اسفار میں ختم کرنا چاہئے
، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بچے کے رونے کی آواز سنتے تو نماز کو مختصر کردیتے۔
آپ نے نماز پڑھانے والوں کو بھی حکم فرمایا کہ وہ بوڑھوں ، بیماروں اور ضرورت مندوں
کا خیال کر کے نماز پڑھائیں۔
جمعہ کا دن خیر برکت کا دن
ہے۔ نماز جمعہ کے لیے صحیح حدیث کا حکم ہے کہ جو شخص جس قدر پہلے جائے گا اس کاثواب اسی حساب سے ہوگا۔ لیکن آپ خدمتِ خلق یا مخلوق
کی نفع رسانی کے کام سے وابستہ ہوں، اگر چہ کہ کاروبارہی سہی، تو اذانِ جمعہ تک اپنے
کام میں مصروف رہیں گے۔ اذان کے بعد کاروبار بند کرکے دوڑتے ہوئے مسجد پہنچیں گے، اور
سلام پھیر نے کے بعد دوسرے لوگ جہاں اذکارو وظائف میں بیٹھے رہیں گے، یہ مصروف لوگ
فوراً باہر نکل کر چلتے چلتے تسبیح و تحلیل اورذکر اذکار انجام دیں گے۔ سورۃ الجمعہ
کے دوسرے رکوع کی آیات سامنے رکھ کر اتنی بڑی بات کہنے کی جسارت کررہا ہوں۔ سورۂ
مزمل میں صلوٰۃ اللیل کی طویل رکعت اور طویل قرأت کی اہمیت پر بہت زور دینے کے بعد
مریض ، مجاہد اور روزگار کے متاشیوں کو مختصر ترین قرأت پراکتفا کرنے کا حکم دیا گیا۔
جہاد کے لیے ایک ایک مجاہد کی تلاش تھی، مگر آگے بڑھ کر آئے ہوئے ایک مجاہد کو یہ
کہہ کر واپس کردیا کہ تمہاری ماں تمہاری خدمت کی زیادہ محتاج ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ ترجیحات دین
میں لگے بندھے اصول اور احکام و قرائن سے قطع نظر وقت اور ضرورت کے تقاضوں کو پیشِ
نظر رکھنا کبھی کبھی بہت اہم ہوجاتا ہے ۔ بخاری حدیث ہے، مائی عائشہ رضی اللہ عنہ نے
پوچھا : پڑوسی دو ہیں، (چیز کم ہے) کس کودوں؟ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
: ‘‘ جس کا دروازہ تمہارے گھر سے قریب ہے’’۔
یہی حکم سب پر لازم ہے، لیکن
ہم یہ دیکھیں کہ نزدیک کا پڑوسی خوش حال ہے اور دور والا مفلوک الحال اور فاقہ زدہ
ہے تو اسے ترجیح دینا کسی بھی طور پر حدیث کی مخالفت نہیں کہلا ئے گی۔
یہی اسلامی تعلیم کی روح اور
حقیقت ہے ،لیکن موجودہ دور میں ہم اکثر معاملوں میں اس کے برعکس کرتے ہیں اور امت زبوں
حالی کے دلدل میں پھنسی جارہی ہے۔ مثالیں لاتعداد ہیں، لیکن میں صرف امام غزالی رحمۃ
اللہ علیہ کے حوالے سے ایک ہی چشم کشا مثال پر اکتفا کرتا ہوں۔ پانچویں صدی ہی میں امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے کیا بات کہہ دی، ملاحظہ
ہو، لکھتے ہیں:
‘‘ان دولت مندوں میں بہت سے لوگوں کو حج پرروپیہ صرف کرنے کا بڑاشوق
ہوتا ہے اور وہ بار بار حج کرتے ہیں۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ اپنے پڑوسیوں کو بھوکا
چھوڑ دیتے ہیں اور حج کرنے چلے جاتے ہیں۔ حضرت عبدا للہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے صحیح
فرمایا ہے کہ :‘‘ اخیر زمانے میں بلا ضرورت حج کرنے والوں کی کثرت ہوگی، سفر ان کو
بہت آسان معلوم ہوگا، روپیہ کی ان کے پاس کمی نہ ہوگی، وہ حج سے محروم وتہی دست واپس
آئیں گے ، وہ خود ریتوں اور چٹیل میدانوں کے درمیان سفر کرتے ہوں گے اور ان کا ہم
سایہ ان کے پہلو میں گرفتار بلا ہوگا، اس کے
ساتھ کوئی حسن سلوک اور غم خواری نہیں کریں گے۔ ابو نصر تمار کہتے ہیں کہ ایک شخص بشر
بن الحارث کے پاس آیا اور کہاکہ میرا قصد
(نفل) حج کا ہے،آپ کا کچھ کام ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ تم نے خرچ کے لیے کیا رکھا ہے؟
اس نے کہا : دوہزار درہم۔ بشر نے کہا کہ تمہارا حج سے مقصد کیا ہے؟ اظہار زہد، یاشوق
کعبہ یا طلب رضا، اس نے کہا : طلب رضا۔ انہوں نے فرمایا کہ اچھا اگر میں تمہیں ایسی
تدبیر بتلادوں کہ تم گھر بیٹھے اللہ کی رضا حاصل کرلو اور تم یہ دوہزار درہم خرچ کردو،
اور تم کو یقین ہوکہ اللہ کی رضا حاصل ہوگئی تو کیا تم اس کے لیے تیار ہو ؟ اس نے کہا:
بخوشی۔فرمایا کہ اچھا پھر جاؤ ، اس مال کو ایسے دس آدمیوں کو دے آؤ جو مقرو ض ہیں،
وہ اس سے اپناقرض ادا کردیں، فقیر اپنی حالت درست کرے، صاحب عیال اپنے بال بچوں کا
سامان کرے....اس نے کہا شیخ! سچی بات یہ ہے کہ سفر کا رجحان غالب ہے ۔ بشر سن کر مسکرائے
اور فرمایا کہ : ‘‘مال جب گندہ اور مشتبہ ہوتا ہے تو نفس تقاضا کرتاہے کہ اس سے اس
کی خواہش پوری کی جائے اوروہ اس وقت اعمال صالحہ کو سامنے لاتا ہے، حالاں کہ اللہ تعالیٰ
نے عہد فرمایا ہے کہ صرف متقین کے عمل کو قبول فرمائے گا’’۔( احیا العلوم ،جلد ۳، ص: ۳۵۱۔بحوالہ تاریخ دعوت وعزیمت
: ۱؍
۱۶۴تا ۱۶۵)
‘‘ بشر سے کسی نے کہا کہ فلاں دولت مند کثرت سے روزہ رکھتا ہے، اور
نماز یں پڑھتا ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ بےچارہ اپنا کام چھوڑ کر دوسروں کے کام میں مشغول
ہے۔ اس کے مناسب حال تو یہ تھا کہ بھوکوں کو کھلاتا ، مساکین پر خرچ کرتا۔ یہ اس سے
افضل تھا کہ اپنے نفس کو بھوکا رکھتا ہے اور اپنے لیے ( نفل ) نمازیں پرھتا ہے اور
ساتھ ہی ساتھ دنیا بھی سمیٹنے میں مشغول ہے اور فقیر کو محروم رکھتا ہے’’۔( احیا العلوم
،جلد ۳،ص:
۳۵۲۔بحوالہ تاریخ دعوت وعزیمت
: ۱؍۱۶۵)
یہ سچی بات بڑی سخت اور تلخ
ہے۔ صرف نقل کرنے میں میرا قلم پسینے میں شرا بور ہوگیا ۔ امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ
کے عہد میں حج وعمر ے پر عراق سے حجاز تک خر چ ہی کتنا آتا ہوگا، لیکن ان کی عارفانہ
نگاہ نے ہمارے دور کی تصویر کھینچنے میں کمال کردیا۔احیا العلوم بڑی معروف اور متداول
کتا ب ہے، ایک بڑی تعداد اسے تبرک اور تقدس کے طور پر پڑھتی پڑھاتی ہے، لیکن مذکورہ اقتباس سے خاص وعام کو روشناس
کرانا مولانا سید ابو الحسن علی ندوی رحمۃ اللہ علیہ کے درد مندانہ جذبہ کا عکاس ہے۔
عصر حاضر کے ایک مقبول ومشہور
مفکر کا بیان بھی پڑھ لیجئے : ‘‘ ایشیا اور افریقہ کے سلامی، رفاہی ادارے کے قیام کے
لیے ایک ہزار ملین ڈالر کی ضرورت تھی۔ ایڑی چوٹی کا زور لگا نے کے بعد بھی دس فیصد
رقم جمع نہیں ہوسکی، مگر نفل حج وعمرہ میں سالانہ اربوں ڈالر خرچ ہوجاتے ہیں۔ یہ بات
ذرا غور طلب ہے’’۔(العبادۃ فی الا سلام ، وکتو ر یوسف القر ضاوی ،ص: 87)
مذکورہ باتوں کے بیان کرنے
کا مقصد یہ ہے کہ ترجیحات کے سلسلے میں ہم سب کو اپنی عقل کے دروازے کھلے رکھنے کی
ضرورت ہے۔ اس امت کو امامت کے درجہ پر فائز رہنے کے لیے جو کام مفید ہوسکتے ہوں انہی
کو انجام دینا ترجیحات ِ دین کا تقاضا اور وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں امت کے
تمام طبقات کومل جل کر کوشش کرنی چاہئے ،تبھی یہ امت سربلند رہ سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ
ہمیں ان باتوں پر سوچنے اور اس کے مطابق لوگوں کو مسائل بتانے کی توفیق عطا فرمائے
۔آمین۔
مولانا حفیظ الرحمن بین الاقوامی
سطح کے معروف اسلامی اسکالر اور جامعہ دارالسلام، عمر ہ آباد، تمل ناڈو کے وزٹنگ پروفیسر
ہے۔
بشکریہ۔ راہ اعتدال
URL
for English article: http://www.newageislam.com/islamic-society/maulana-hafizur-rahman-azami-omeri/multiple-hajjs-and-umrahs-are-not-a-priority-in-islam/d/7497
URL
for Hindi article: https://newageislam.com/hindi-section/preferences-religion-/d/7519
URL: