مولانا اسرار الحق قاسمی
7 مئی، 2013
ہندوستان میں مسلمانوں کی پسماندگی کا سلسلہ بدستور جاری ہے ۔ حالانکہ اس طرح کی خبریں منظر عام پر آتی رہتی ہیں کہ مسلمانوں میں تعلیمی بیداری بڑھ رہی ہے اور سرکاریں بھی مسلمانوں کی تعلیم کے تعلق سے کوششیں کرتی رہتی ہیں، مگر صورت حال یہ ہے کہ ابھی تک ایسی صورت حال سامنے نہیں آتی ہے، جس کی روشنی میں یہ کہا جاسکے کہ مسلمان تعلیمی میدان میں آگے بڑھ رہے ہیں اور وہ پستیوں سے جلد باہر نکل آئیں گے۔ دراصل معاملہ یہ ہے کہ جہاں مسلم طبقہ میں تعلیم کے تعلق سےقدر ے بیداری بڑھ رہی ہے، وہیں اب تعلیم کے حصول کا مسئلہ بھی پیچیدہ ہوگیا ہے ۔ جب تعلیم کمر شیلائزڈ نہیں تھی، اس وقت حصول علم کی اتنی زیادہ دقت نہ تھی۔ اساتذہ اچھے طالب علموں کو بے لوث پڑھانے کےلیے ہمہ وقت تیار رہتے تھے ،بلکہ انہیں پڑھاتے ہوئے خوشی محسوس کرتے تھے، کتنے اساتذہ تو طلبا کو ڈھونڈتے اور انہیں تعلیم حاصل کرنے کاشوق دلاتے ، لیکن وہ زمانہ بھی عجیب تھا کہ تعلیم مفت ملتی تب بھی طلبا کم ہی اس طرف متوجہ ہوتے اور والدین بھی ا پنے بچوں کی تعلیم پر خاص توجہ نہ دیتے تھے۔ گنے چنے خاندانوں میں ہی تعلیم ہوتی تھی۔ اب جب کہ ماحول بدلا، تعلیم کی ضرورت و افادیت کو محسوس کیا گیا، تعلیم مخصوص خاندانوں سے نکل کر عام گھروں تک پہنچی ، اسکولز اور کالجز کھولے گئے، توتعلیم حاصل کرنا ایک بڑامسئلہ بن گیا ۔
اب سےکچھ سال پہلے تک سرکاری اسکولوں و کالجوں کےذریعہ بچوں کو تعلیم دی جاتی تھی ، لیکن بڑھتے وقت کا چلن عام ہوتا جارہا ہے ۔ پرائیویٹ اسکولوں وکالجوں کی بڑھتی مقبولیت سے تعلیم کے میدان میں فائدہ بھی ہوا اور نقصان بھی ۔ فائدہ یہ ہوا کہ تعلیم کا دائرہ قدرے وسیع ہوااور تعلیم کے معیار میں بھی ا ضافہ ہوا ، لیکن فائدہ سےبڑھ کر نقصان زیادہ ہوا۔ پہلا نقصان یہ سامنے آیا کہ تعلیم کے تعلق سے نظر یہ تبدیل ہوگیا۔ پہلے تعلیم کو برائے خدمت سمجھا جاتا تھا، اب تعلیم کو برائے تجارت تصور کیاجاتا ہے۔ نظریہ کی اس تبدیلی نے تعلیم کے نتائج پر گہرا اثر ڈالا ۔ اس تبدیلی سےتعلیم یافتہ لوگوں کی تعداد تو بڑھی مگر خدمت کا جذبہ ماند پڑگیا اور جس طرح تعلیم یافتہ لوگوں کو عوام الناس کے لیے نمونہ ہوناچاہئے تھا، وہ نمونہ نہ بن سکے۔ مثلاً تعلیم یافتہ شخص کو نہ صرف خود ایماندار ہوناچاہئے ، بلکہ دوسروں کو بھی ایمانداری کا درس دینا چاہئے ، اسی طرح تعلیم یافتہ لوگوں کو دیانت دار، انسان درست ہوناچاہیئے ، لیکن ایسانظر نہیں آتا ۔ آج کے تعلیم یافتہ لوگ پیسہ کمانے پر زیادہ توجہ مرکوز رکھتے ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ ان کی اپنی زندگی عیش و عشرت میں گزرے ، لوگوں کے مسائل اور پریشانیوں سے انہیں کچھ خاص لینا دینا نہیں ہوتا۔اس نظریہ کے فروغ پانے کی وجہ سے تعلیم اور تعلیم یافتہ لوگوں کی افادیت کا دائرہ سکڑ گیا ، کیونکہ اب تعلیم یافتہ شخص کی تعلیم صرف اس کی اپنی ذات یا زیادہ سےزیادہ اس کے اپنے بچوں کے لیے مفید بن کر رہ گئی، جب کہ اگر نظریہ نظریہ خدمت خلق کاہوتا تو یقیناً ایک تعلیم یافتہ شخص سے نہ صرف ایک خاندان یا چند خاندانوں کو فائدہ ہوتا، بلکہ ان گنت لوگ اس سے استفادہ حاصل کرتے ۔ اس کے علاوہ آج کے تعلیم یافتہ لوگوں کو بڑی تعداد بد عنوانی، فحاشی، زنا کاری، شراب نوشی ، وعدہ خلافی ، عہد شکنی اور دھوکہ دہی میں ملوث ہوگئی ۔ گویا کہ ایسے لوگوں نے تعلیم کے مقصد ہی کے خلاف علم بغاوت بلند کر ڈالا۔
سرکاری نظام تعلیم کےکمزور ہونے اور پرائیویٹ نظام تعلیم کے مضبوط ہونے کی وجہ سے ایک بڑا نقصان یہ ہوا کہ تعلیم مہنگی ہوگئی ۔ کیونکہ پرائیویٹ اسکولز فیس کے نام پرخاصی رقمیں لینے لگے۔ ہندوستان میں بہت سےاسکول آج ایسے ہیں، جو طالب علموں کے والدین سےاتنے روپے لیتےہیں ، جتنے غریب لوگ کماتےبھی نہیں ۔ ظاہر سی بات ہےکہ ایسے اسکولوں میں غریب یا متوسط طبقے کےلوگ اپنے بچوں کو چاہنے کے باوجود بھی نہیں پڑھا سکتے ۔ اب رہے وہ اسکولز جو اتنے مہنگے نہیں ہیں، یعنی جن میں ہزار پانچ سو روپے ماہانہ کی فیس ہے تو اتنی فیس ادا کرنے کی استطاعت بھی تمام والدین نہیں رکھتے ہیں۔ جن بچوں کے والدین صرف پانچ ہزار روپے یا اس سےکچھ زیادہ کماتے ہیں، وہ ماہانہ ہزار پانچ سو روپے کیسے ادا کرسکتے ہیں ، اگر بچے دو، تین چار یا اس سےزیادہ ہیں تو مجموعی طور پر سب کی فیس دوہزار کےآس پاس ہوگی ، جس کی ادائیگی کے وہ متحمل نہیں ہوسکتے ، فیس کے علاوہ ڈریس، کتابوں وغیرہ کا خرچ الگ ہے ۔ اب رہے وہ اسکولز جہاں سو پچاس روپے کی فیس ہے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ اتنی فیس کی ادائیگی کا اہتمام تو غریب لوگ بھی کرسکتے ہیں ، مگر مسئلہ یہ کھڑا ہوتا ہے کہ ان اسکولوں میں پڑھائی کاکیامعیار ہے؟جو اسکول و کالج محض سو پچاس روپے بچے سےلیں گے ، کیا وہ ماہر و قابل اساتذہ کا انتظام کرسکتے ہیں اور تعلیم سے متعلق دیگر سہولتیں اپنے طالب علموں کو فراہم کرسکتے ہیں؟ ظاہر سی بات ہےکہ اس کاجواب نفی میں ہی ہوگا ۔ سرکاری اسکولوں کی حالت یہ ہے کہ وہاں اساتذہ پڑھانے کے لیے نہیں آتے ، یعنی وقت پر اسکول نہیں پہنچتے یا اگر پہنچتے ہیں تو اپنے فرض منصبی کو ڈھنگ سےنہیں نبھاتے ۔ بچے کیا کررہے ہیں ؟ ان میں صلاحیت پیدا ہورہی ہیں یا نہیں؟ اس سےکوئی سروکار نہیں ہوتا ۔
المیہ یہ ہے کہ مسلمان اپنے بچوں کو یا تو ایسے ہی سرکاری اسکولوں میں پڑھانے کے لیے بھیج رہے ہیں یا پھر سو پچاس روپے فیس والے اسکولوں میں بھیج رہے ہیں، جہاں تعلیم کا کوئی نظام نہیں ہے۔ یہ ان کی مجبوری ہے، لیکن یہ بات ذہن نشین رہنی چاہئے کہ آج کل جن اسکولوں میں مسلم بچوں کی بڑی تعداد زیر تعلیم ہے ، ان سے یہ توقع کرنابے سود ہے کہ وہاں ان کے بچے بہترین صلاحیت پاکر نکلیں گے۔ اگر کوئی بچہ اپنی فطری ذہانت کے سبب اپنی صلاحیت کو اجاگرکرنے میں کامیاب ہوجائے تو الگ بات ۔ گویا کہ معاملہ جو ں کا توں ہے۔ یا تو مسلمانوں میں تعلیمی بیداری نہیں تھی اور اگر پیدا ہورہی ہے تو اس کا خاطر خواہ نتیجہ سامنے نہیں آرہا ہے۔ ایسے میں مسلم بچے کس طرح اپنے مستقبل کو بہتر بنانے میں کامیاب ہوں گے، کیسے خدمت خلق کے لائق ہوں گے، کیسے بہتر ین ملازمتیں ومرتبے حاصل کریں گے؟ یہ سوال ہنوز باقی ہے۔
اگر مسلمان تعلیمی سطح پر ترقی حاصل کرنا چاہتے ہیں تو انہیں ٹھوس منصوبہ بندی کرنی ہوگی اور یہ منصوبہ بندی انفرادی سطح پر بھی ہونی چاہیے اور اجتماعی سطح پر بھی ۔ انفرادی سطح پر یہ کہ والدین اپنے بچوں کو بہتر تعلیم دلانے کےلیے اسکولوں و اداروں کا انتخاب کریں، جہاں معیاری تعلیم دی جاتی ہو ۔ اگر یہ ادارے مہنگے ہوں تو اس کی فیس کی ادائیگی کاکوئی بند وبست کرنے کی کوشش کریں ۔ اگر والدین غریب ہیں لیکن پڑھے لکھے ہیں تو وہ اپنے بچوں کو اسکولوں و اداروں میں تو بھیجیں ہی، مگر خود بھی ضرور پڑھائیں۔ غریب والدین تعلیم کےمعاملے میں دوسرے لوگوں سےبھی مدد لےسکتے ہیں ، لیکن اس کےلیے مسلمانوں میں معاونت کےجذبہ کو فروغ دینا چاہیے ۔ اجتماعی کوششوں کے تحت مسلمانوں کو چاہیے کہ ایسے اسکولز و ادارے قائم کریں، جہاں تعلیم بہتر سے بہتر ہو اور وہاں فیس اتنی کم ہو جسےغریب ومتوسط طبقے کے لوگ آسانی سے ادا کرسکیں ، اسکول و ادارے کے اخراجات کے لیے وہ لوگوں سےمدد لیں گے ، گویا کہ وہ اسکول و ادارے مسلمانوں کے باہم تعاون سےچلنے چاہیئں ۔ ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ مسلمانوں میں جو لوگ صاحب ثروت ہیں، وہ اپنی حیثیت کےمطابق غریب بچوں کی تعلیم کاخرچ اٹھائیں اور جہاں ان کےبچے پڑھتے ہیں وہیں انہیں بھی پڑھانے کی کوشش کریں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلمانوں کی بڑی تعداد غربت و مفلوک الحالی کی شکار ہے، لیکن یہ بھی اپنی جگہ سچائی ہےکہ مسلمانوں کے درمیان اچھے خاصے لوگ ایسے ہیں جو صاحب ثروت ہیں اور وہ درجنوں بچوں کی تعلیمی کفالت کرسکتے ہیں ۔ ایسے لوگوں کو آگے آنا چاہیے ۔ اس طرح بہت سے غریب والدین کے بچوں کو تعلیمی میدان میں آگے بڑھایا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ دیگر طریقے بھی ہوسکتے ہیں ، جن کے بارے میں غور و فکر کیاجانا چاہیے ۔ یہ بات بڑی اہم ہےکہ تعلیم کے باب میں جو کچھ کیا جائے ،وہ منصوبہ بندی کےتحت کیاجائے ۔ اندھا دھند یا یونہی بنا سوچے سمجھے بچوں کو تعلیم دلانے سے بہتر نتائج کی توقع نہیں کی جاسکتی ، کیو نکہ عام طور سے دیکھا جاتا ہے کہ جو والدین بنامنصوبہ بندی کےبچوں کو تعلیم دلاتے ہیں، وہ کسی خاص نتیجہ پر پہنچنے میں کامیاب نہیں ہوتے ۔ ایک اور یہ چیز ہونی چاہیے کہ ہر شہر وبستی میں تعلیم یافتہ لوگوں کی ایک جماعت ہو، جو بچوں کے والدین سےبچوں کی تعلیم کےبارے میں مذاکرات کرے، انہیں بہتر مشورے دےاور ضرورت ہو تو ان کےبچوں کے لیے تعلیمی منصوبہ بندی بھی کرے۔ تعلیمی میدان میں جوجس طرح کا تعاون دےسکتا ہے ،اسےدینا چاہیے ۔ اسی طرح مل جل کر ہی مسلمان اپنے تعلیمی پسماندگی کو دور کرسکتے ہیں۔
7 مئی، 2013 بشکریہ: روز نامہ راشٹریہ سہارا، نئی دہلی
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/educational-planning-imperative-muslims-/d/11695