مولانا اسرارالحق قاسمی
5 جنوری، 2017
قرآن کریم اور احادیث میں فرائض و واجبات کے علاوہ بہت سارے ان امور کی نشان دہی کی گئی ہے جو اعمال خیر ہیں اور ان کے کرنے سے اللہ تبارک و تعالیٰ اجر و ثواب سے نوازتا ہے ۔ البتہ اس بارے میں ایک چیز ذہن میں رکھنی چاہیے کہ قرآن ایک اصول کتاب ہے او راس میں زیادہ تراصول بتائے گئے ہیں ، چنانچہ مختلف مقامات پر ارشاد ہوا ہے کہ ’’تم جو بھی (اللہ کے راستے میں ) مال خرچ کروگے اللہ کو اس کا علم ہے‘‘۔ (البقرہ) یا یہ کہ ’’ اگر کسی نے ذرہ برابر بھی خیر کا کام کیا ہوگا تو وہ اسے دیکھے گا‘‘ ( الزلزال)یعنی اسے اس کا بدلہ دیا جائے گا ۔ یا یہ کہ ’’ اگر کسی نے نیک عمل کیا تو اس نے اپنے لئے کیا اور جس نے کوئی برا عمل کیا تو اس نے اپنے لیے کیا ‘‘ ( فصلت) علامہ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ اس کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں : یعنی جس نے کوئی اچھا عمل کیا تو اس کا نفع اسی کوہوگا، جب کہ اگر کسی نے برا عمل کیا تواس کا وبال بھی اسی کو ہوگا ۔ اسی آیت میں آگے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’ اور تیرا رب بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں ہے‘‘۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی بھی بندے کو بے وجہ سز ا یا عذاب نہیں دے گا، اسی طرح اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی بندے کی نیکی دوسرے کے کھاتے میں نہیں ڈالے گا ، جو عمل جس شخص نے کیا ہے اسی کواس کا بدلہ ملے گا۔ ان آیات پاک سے اصولی طور جو باتیں معلوم ہوتی ہیں وہ یہ ہیں کہ خیر کا کام کوئی ایک نہیں ہے اس کی متعدد شاخیں اور جہتیں ہیں، اسی طرح یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ بڑا سے بڑا اور چھوٹا سے چھوٹا ہر طرح کا نیک عمل اللہ کے یہاں اجر و ثواب کے اعتبار سے اہم ہے اور ہر بندے کو اس کے کیے ہوئے عمل کا اجر پورا پورا ملے گا ۔
اسلام نے اپنے ماننے والوں کی تربیت ایسی کی ہے کہ وہ اعمال خیر کے خود بھی عادی ہو جائیں اور معاشرے میں اسے پھیلانے کا بھی سبب بنیں۔ یہی وجہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ رضی اللہ عنہ کو ایسے کاموں پر ابھارنے کے لیے خود بھی ان کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے او رانہیں تلقین کرتے تھے ۔ کبھی کبھی انہیں رغبت دلانے کے لیے گزشتہ قوموں کے نیک لوگوں کے قصے بھی سناتے تھے ۔ صحابہ بھی وقتاً فوقتاً آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کرتے تھے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کون سا عمل اللہ کے نزدیک زیادہ اجر والا اور بہتر ہے اور موقع کی مناسبت سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم انہیں مختلف جواب دیا کرتے تھے ۔ چنانچہ ایک متفق علیہ حدیث میں حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا ’’ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! کون سا عمل افضل ہے؟‘‘تو آپ نے جواب دیا : ’’ اللہ پر ایمان لانا اور اس کے راستے میں جہاد کرنا ‘‘۔ہم لوگ چونکہ مسلم خاندان میں پیدا ہوئے اور اسلام ہمیں گویا وراثت میں ملا ہے اس لیے اس کی اہمیت اتنی اچھی طرح ہمیں سمجھ نہیں آئے گی ۔ لیکن غو ر کیجئے کہ ایک ایسا معاشرہ ہو جہاں تمام لوگ اللہ کی وحدانیت کا انکار کرتے ہوں او راس کے ساتھ بہت سی دوسری چیزوں کو شریک کرتے ہوں اور وہاں ایک معبود کو ماننے کاکوئی تصور بھی نہ ہو، تو ایسے معاشرے میں رہتے ہوئے پہلے تو ایمان کی اہمیت کا ادراک کرنا اور پھر خدا ئے واحد کو ماننا او راس کا اعلان کرنا کتنا مشقت بھرا کام ہوگا۔
اس سلسلے میں ہمارے لیے قرنِ اول کے مسلمانوں کی مثال کافی ہونی چاہئے کہ اسلام کے ابتدائی دور میں جب اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کی دعوت تبلیغ شروع کی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر ایمان لانے کا فیصلہ کیا تو انہیں کتنی جوکھم اٹھانی پڑی ، وہ اپنے ہی گھر، معاشرے اور شہر میں اجنبی بنا دیے گئے ، انہیں طرح طرح کی ایذائیں دی گئیں او رنوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ انہیں اپنا محبوب وطن تک چھوڑ نا پڑا۔ ایسے ماحول میں یقیناًایمان لانا افضل ترین عمل ہوگا ۔ اس کے کچھ نمونے تو ہمارے زمانے میں بھی سامنے آتے رہتے ہیں ، ہم دیکھتے ہیں یا خبروں کے ذریعے سے پتا چلتا ہے کہ جب کوئی نیک بخت انسان اللہ کی توفیق سے اسلام کے دامن میں پناہ لیتاہے تو اس کے لئے بے پناہ پریشانیاں کھڑی ہوجاتی ہیں۔سب سے پہلے تو اپنے گھر اور خاندان سے جدا ہونا پڑتا ہے ، اس مرحلے سے نکلے تو پھر آج کے دور میں بے شمار قانونی پریشانیاں پیش آتی ہیں مگر جو لوگ پورے ہوش و حواس کے ساتھ اور دین اسلام کی اہمیت و حقانیت کو سمجھ کر اس کے آغوش میں پناہ لیتے ہیں وہ ان تمام حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنے دین پر قائم ہیں، ایسے میں یقیناًایمان لانا افضل اعمال کی فہرست میں نمبر اول پر ہونا چاہئے ۔ حدیث پاک میں دوسرا افضل عمل اللہ کے راستے میں جہاد کو بتلادیا گیا ہے۔ یہ اسلام کے اولیں عہد کے مطابق قتال کے معنی میں ہے کہ اس وقت مسلمانوں کے خلاف کفار مکہ نہ صرف اندرونی و بیرو نی سازشوں میں مصروف تھے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ وہ اس کوشش میں بھی رہتے تھے کہ اگر مسلمان اپنی عادت سے باز نہ آئیں تو انہیں تلوارکے زور پرپست کیا جائے اور اسلام کا ( نعوذ باللہ) خاتمہ کردیا جائے ۔ ایسے ماحول میں لوگوں میں استقامت کا جذبہ پیدا کرنے کے لیے یہ کہنا ضروری تھا کہ اللہ کے راستے میں لڑنا بھی ایک افضل عمل ہے۔ پھر حالات او رمواقع کے حساب سے یہ عمل قیامت تک کے مختلف ادوار میں افضل ہوگا ۔
اگر مسلمانوں کے ساتھ دنیا کے کسی بھی خطے میں ایسی صورت حال پیدا ہوجائے کہ اسلام باطل کے نرغے میں ہو اور اسلام دشمن طاقتیں مسلمانوں کو مٹانے کے لیے آمادۂ پیکار ہوں تو اس وقت ان سے مقابلہ کرنا افضل عمل ہوگا ۔ جہاد کا ایک او رمفہوم جو احادیث سے ہی ثابت ہے، یہ ہے کہ ہم اپنے نفس اور نفس کی برائیوں سے لڑیں او راپنے آپ کواسلام کے احکام و آداب کا عادی بنانے کی کوشش کریں ۔ بلکہ ایک حدیث میں تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نفس سے لڑنے کو جہاد اکبر قرار دیا ہے یعنی یہ سب سے بڑا جہاد ہے کہ انسان اپنے نفس کو قابو میں رکھے اوراسے راہ راست نہ بھٹکنے دے ۔ آگے حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ اللہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کرتے ہیں کہ ’’ کون سے غلام کو آزاد کرنا افضل ہے؟‘‘ تو اس کے جوا ب میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ’’ جو غلام اپنے آقا کی نگاہ میں سب سے زیادہ نفیس ہو او رجو قیمت میں بھی سب سے زیادہ ہو‘‘ اس سے یہ تعلیم دی گئی کہ اللہ کے راستے میں عمدہ اور نفیس اور قیمتی چیز خرچ کرنی چاہئے ، جیسا کہ ایک موقع پر اللہ تعالیٰ فرمایا ہے کہ ’’ تم نیکی کو نہیں پاسکتے یہاں تک کہ تم اپنی پسندیدہ چیز خرچ کرو‘‘(آل عمران)لیکن چونکہ ہر آدمی کی تو اتنی استطاعت ہے نہیں کہ وہ ایک عمدہ ، نفیس اور قیمتی غلام کو خرید کر آزاد کرسکے، حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کے ذہن میں بھی یہ خیال آیا چنانچہ انہوں نے دریافت کیا ’’ اگر میں ایسا نہ کرسکوں تو؟‘‘ تو آپ نے فرمایا ’’ پھر کسی کام کرنے والے انسان کی مدد کرو یا کسی معذور کے لیے کام کرو ‘‘ اس میں دو باتیں بیان کی گئی ہیں ۔ ایک تو یہ کہ کوئی شخص اپنے بال بچوں اور گھر خاندان کے لیے محنت مشقت کرکے روزی حاصل کرنے کی کوشش کررہا ہے لیکن وہ اس کے لئے کافی نہیں ہو رہا تو آپ اس کا ہاتھ بٹائیے، اس کے کام میں آپ مدد کردیجئے تاکہ وہ اتنا کما سکے کہ اس کا گھر بار چل سکے۔
دوسری بات یہ ہے کہ ایک شخص ایسا ہے جو کوئی کام کرنا نہیں جانتا یا وہ کسی ایسے جسمانی عذر کا شکار ہے جس کی وجہ سے اس سے کوئی کام نہیں ہو پارہا ہے ،تو آپ اپنی طرف سے محنت مشقت کر کے یا مال کے ذریعے اس کے لیے روزی کا انتظام کردیجئے ۔ اس کے بعد بھی حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ نے ایک سوال کیا، پوچھا ’’ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! اگر میں کوئی کام نہ کر سکوں تو ؟‘‘ تو آپ نے جواب دیا ’’ پھر تم اپنی جانب سے کسی کو تکلیف نہ پہنچنے دو، یہ تمہارے لیے اپنی ذات پر صدقہ ہے ‘‘ ۔ اس حصے میں نیکی اور عمل صالح کی آخری حد بتادی گئی ہے کہ اگر آپ کے اندر اتنی بھی استطاعت نہیں ہے کہ کسی صاحب ضرورت کی ضرورت میں کام آسکیں توپھر کم سے کم اپنے آپ کوایسا بنائیے کہ کسی ذات کو آپ سے تکلیف نہ پہنچے ، کوئی ایسا عمل نہ کیجئے جو کسی کی رنجید گی کا باعث ہو اور آپ کا یہ عمل بھی عند اللہ صدقے کی فہرست میں لکھا جائے گا ۔
اس حدیث پاک سے معلوم ہوا کہ اسلام نے نیک عمل کا دائرہ محدود نہیں رکھا ہے بلکہ وہ حالات اور انسانی طاقت و استطاعت کے حساب سے پھیلا ہوا ہے اور جو شخص بھی ان میں سے کوئی عمل کرے گا تو وہ عنداللہ ماجور ہوگا۔ اس سے ایک چیز اور سمجھ میں آتی ہے کہ ہم اگر کوئی بڑا اور اہم نیک عمل کررہے ہیں اور دوسرے لوگ نہیں کررہے ہیں یا وہ کسی دوسرے عمل سے وابستہ ہیں تو اس پر ان کی تحقیر نہیں کی جاسکتی ، یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اس کے عمل کی کوئی اہمیت نہیں یا یہ کہ اسے کوئی اجر نہیں ملے گا ۔ جیسا کہ آج کل دیکھنے میں آتا ہے کہ اگر کچھ لوگ دینی علوم کی تدریس واشاعت میں مشغول ہیں تو دوسرے شعبے کے کام کو اتنی اہمیت نہیں دیتے یا بہت سے دعوت تبلیغ کے بھائی علماء اور طلباء کو کم تر خیال کرتے ہیں یا اسی طرح اگر کوئی شخص مالدار ہے اور اپنے مال کے ذریعے بہت سے لوگوں اور اداروں کی مدد کرتا ہے تو وہ دوسرے لوگوں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ اس کے علاوہ انفرادی وسماجی زندگی کے مختلف شعبوں میں ہم اولاً تو نیکی کے کاموں سے جی چراتے ہیں یا اگر کرتے ہیں تو ساتھ ہی نہ کرنے والوں کو طعنہ دینا یا انہیں کمتر سمجھنا بھی ہماری عادت ہوچکی ہے۔ ہمیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کو ذہن میں رکھنا چاہیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کس طرح انسانی فطرت اور اس کی وسعت و صلاحیت کا خیال رکھتے ہوئے بھر پور گنجائش رکھی اور یہاں تک فرمایا کہ اگر آپ کوئی بھی بڑا یا چھوٹا نیک عمل کرسکنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں، تو کم از کم اپنی ذات سے کسی کو تکلیف نہ پہنچنے دیں اور اسے بھی صدقہ قرار دیا ۔ پس ثابت ہوا کہ اللہ کے نزدیک کوئی بھی عمل حقیر اور چھوٹا نہیں ہے اور ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ اخلاص و للّٰہیت کے ساتھ اپنی وسعت کے مطابق نیک اعمال کرتے رہیں تاکہ دنیا و آخرت میں ہمیں ان کا اچھا سے اچھا بدلہ مل سکے۔
5 جنوری، 2017بشکریہ: روزنامہ اخبار مشرق ، نئی دہلی
URL: https://newageislam.com/urdu-section/every-good-deed-valued-near/d/109642
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism