New Age Islam
Fri Jan 17 2025, 06:33 AM

Urdu Section ( 2 Feb 2013, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

System Based on Atheism and Democracy is not Acceptable Part 3 (ہمیں نظامِ کفر قبول نہیں (قسط 3

 The author of this article Asmatullah Muawiyah is the former head of the banned terrorist organisation Sipah-e-Sahaba (Militia of the Companions of the Prophet) and the emir of Punjabi Taliban, Pakistan. In this article, he reiterates the Taliban’s ideological stand echoing Maulana Maududi’s view on democracy that it is an un-Islamic form of government and a system based on kufr (non-belief). Of late, he has been trying to have a ‘meaningful dialogue’ with the Pakistan government for reasons known to him since his organisation Taliban has declared the Pakistan government a government of kafirs though the majority  of the ministers are Muslims and Islamic Shariah is the basis of the law of the land.

In this article the Maulana has tried his best to drive home the point that all the social, political and economic ills of Pakistan are the result of the 65 years of this democratic system based on non-belief (kufr) and only a system governed by the Taliban will rid the country of the corruption the country is mired in.

It should be noted that in their writings, the Talibani scholars harp on common issues of the people of the Pakistan and shed crocodile tears for them by mentioning the poverty, corruption of their leaders, plundering the wealth of the country by the feudal lords and nawabs who have captured power, and never ever say anything on the issues of killing of Shias, destroying the Sufi shrines and carrying out suicide attacks on civilians in the residential and commercial areas.  In this article the Maulana has tried to show the human face of Taliban (though it has none) by shedding tears on the plight of the common people. Like most Urdu writers, he has used rhetoric and emotional rants spiced by Urdu couplets to arouse public sympathy in favour of the Taliban covering up their inhuman terrorist activities killing everyone who disagrees with them. They did not hesitate even to attack a 13 year old Muslim girl for peacefully opposing their policy. This article shows their duplicity in the worst form. We at New Age Islam will keep exposing this duplicity of these terror mongers and enemies of Islam.—Edit Desk, New Age Islam

اس مضمون کے مصنف  ممنوعہ دہشت گرد تنظیم  سپاہ صحابہ کے سابق سربراہ اور پنجابی طالبان کے  امیر  عصمت اللہ معاویہ ہیں۔ اس مضمون میں  انہوں نے جمہوریت پر طالبان کے موقف  کا اعادہ اور مولانہ مودودی کے اس  نظرئیے کی تائید کی ہے کہ جمہوریت  ایک غیراسلامی اور کفر پر مبنی نظام حکومت ہے۔ فی زمانہ وہ پاکستانی حکومت کے ساتھ ‘معنی خیز ’ گفتگو کے خواہاں ہیں جو کہ ناقابل فہم  بات ہے کیونکہ طالبان حکومتِ پاکستان کو  کافروں کی حکومت قرار دے  چکے ہیں جبکہ اس میں وزیروں کی اکژیت مسلما ن ہے اور ملک کے قانون کی بنیاد اسلامی شریعت پر ہے۔

اس مضمون میں مولانا نے  یہ باور کرانے کی جی توڑ کوشش کی ہے کہ پاکستان کے سماجی ، سیاسی اور معاشی مسائل اسی 65 سالہ جمہوریت کا ثمرہ ہے جو کفر پر مبنی ہے اور یہ کہ صرف طالبان ہی   اس ملک کو بدعنوانی کے دلدل سے نکال  سکتے ہیں۔

یہ امر قابل  غور ہے کہ  طالبانی علماء پاکستان کےعوام کے  عام مسائل کا تذکرہ تو کرتے ہیں   اور غریبی ، لیڈروں کی بدعنوانی، حکومت پر قابض جاگیرداروں اور نوابوں کے ذریعہ ملک کی دولت کی لوٹ پر عوام کی ہمدردی میں گھڑیالی آنسو بھی بہا تے ہیں  مگر وہ شیعوں کے قتل ، صوفیوں کے مزاروں  کی تباہی اور رہائشی اور تجارتی علاقوں میں  شہریوں پر  خود کش حملوں کا کبھی  ذکر نہیں کرتے۔ لہذاٰ، اس مضمون میں مولانا نےعوام کے دکھوں پر مگر مچھ کے آنسو بہا کر  انہیں  طالبان کا انسانی چہرہ  ( جو سرے سے ہے ہی نہیں ) دکھانے کی کوشش کی ہے۔ اردو کے بیشتر شعراء کی طرح  انہوں نے جذباتی نعروں اور لچھے دار زبان کے ساتھ ساتھ اشعار کااستعمال کر کے طالبان کی انسانیت سوز سرگرمیوں اور مخا لفین کے قتل کی پالیسی  پر پردہ ڈالنے اور  طالبان کی حمایت میں عوامی ہمدردی بٹورنے  کی کوشش کی ہے۔ مگر یہ بات بھلائی نہیں جا سکتی کہ انہیں  انکی پالیسی کی پرامن طور پر مخالفت کرنے والی ایک 13 سالہ لڑکی پر جان لیوا حملہ کرنے میں بھی شرم نہیں آئی۔ اس مضمون میں بھی انکی  دوغلی پالیسی پوری طرح ظاہر ہو گئی ہے۔ نیو  ایج اسلام انکی اسی دوغلی پالیسی کو بے نقاب کرتا رہے گا۔۔۔۔ نیو ایج اسلام ایڈٹ  ڈسک

------------------------

مولانا عصمت اللہ معاویہ

فروری، 2013

اے اہل پاکستان ! آسمان سے نازل  کردہ قوانین  کے حلال او رحرام کو ، جائز او رناجائز کو پاکستانی پارلیمنٹ میں بدل دیا گیا ۔  کاش اے حکمرانو!  تم اللہ تعالیٰ  سے ڈرتے  روزمحشر پر ایمان رکھتے ۔ کاش تم پیغمبر  عربی صلی اللہ علیہ وسلم کا نام پاکستانی مسلمانوں  کو دھوکہ دینے کے لیے استعمال نہ کرتے۔ کاش تم انگریز سامراج کی چھوڑ ی راہوں  پر چلنے کے بجائے اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  کی شریعت  پر عمل پیرا  ہوتے۔ مگر  تم نے تمام حدود ہی توڑ ڈالیں۔ اسلامی  ملک  کی حکمران عورت  تک بن بیٹھی ۔ چیف جسٹس ایک ہندو بھگوان داس تک کو بنا ڈالا  ۔ کیا  اب بھی وقت  نہیں آیا کہ تم شریعت کی طرف لوٹ آؤ؟  اللہ تعالیٰ نے تمہیں  قانون سازی کا حق  قطعاً  نہیں دیا۔ اب بھی بغاوت سے باز  آجاؤ،اسلام دشمن  جمہوریت کو چھوڑ کر نظام خلافت کو گلے لگا لو۔ اگر ہم قانون  سازی کے اختیار کو خدانخواستہ  قبول کرلیں اور تمہیں یہ حق دے دیں کہ تم جو چاہو قانون بناؤ کیونکہ تمہاری  اکثریت ہے۔ ہاں  تمہارا  تو ہم سے مطالبہ ہی یہی ہے کہ اس آئین کو قبول  کرلو ہم تم  سے بات کرنے کو تیار ہیں ۔ گویا ہم تمہارے  اس آئین  کو مان  کر پہلے اپنے ایمان کاسودا کردیں۔

وَ دُّوْ الَوْ تَکْفُوْ وْنَ کَمَا کَفَرُوْ افَتَکُوْ نُوْ نَ سواءً

 ‘‘یہ تو چاہتے ہیں کہ  تم بھی  ان کی طرح کافر ہوجاؤ ۔ پس پھر تم  برابر ہوجاؤگے ’’۔

یاد رکھو ہم نے آئین  شریعت اسلامی کو مان لیا۔ دل و جان سے قبول کرلیا۔ ہمارے تمہارے  آئین  کو ماننا مشکل  ہی نہیں  بلکہ ناممکن  ہے۔ تم  آئین  شریعت  کو مسترد کرتے ہو۔ ہم تمہارے  اس شرک کو قطعاً قبول نہیں کرسکتے ۔

اَمْ لَھُمْ شُرَ کٰو ءُ شَرَعُوْ ا لَھُمْ مِنْ الدَّینِ ماَ لَمْ یَاْ ذَنَ بِہٖ اللہ وَ لَوْ لاَ کَلِمَۃُ الْفَصْلِ لَقُضِیَ بَیْنَھُمْ وَ اِنَّ الضَّا لِمِیْنَ لَھُمْ عَذَابُ الْاَ لِیْم

 ‘‘ کیا ان کے لیے  اللہ تعالیٰ کے ایسے شریک ہیں۔ حنہوں نے ان کے لیے  دین کے وہ قانون  بنائے جس کی اللہ تعالیٰ نے اجازت نہیں دی۔ اور اگر  قیامت کا دن نہ ہوتا ۔ تو ان کے درمیان  فیصلہ کردیا جاتا ، اور بے شک ظالموں کے لیے درد ناک عذاب ہے،،۔

تفسیر  ابن کثیر  میں علامہ  ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ  لکھتے ہیں :

‘‘ یہ مشرکین  دین کی پیروی  نہیں کرتے بلکہ  جن شیاطین  اور انسانوں  کو انہوں نے بڑا سمجھ  لیا ہے،  وہ  انہیں  جو احکامات بتاتے  ہیں، یہ  اُنہیں کے احکامات کو دین سمجھتے  ہیں ۔  حلال اور حرام اپنے بڑوں کے کہنے پر سمجھتے ہیں’’۔

یہاں مشرکین ان لوگوں کوکہا گیاجو دین اسلام سے ہٹ کر اپنے بنائے گئے قانون  او رغیر قانونی یعنی حلال او رحرام کے بکھیڑوں میں جا پڑے ۔مجھے حیرت  ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی قبر ، کسی درخت کو سجدہ کرنے کو سب  نے شرک مان لیا۔ مگر اس واضح  آیت قرآنی کےاترنے کے بعد ذات الہٰ کے اس اختیار میں  کسی کو حصہ  دے دینے  کو آخر شرک کہنے  سےکیوں  عاجز  ہیں؟  ہمارا موقف  اسلاف سے ہٹ کر نہیں بلکہ  اسلاف  ہی کی کاوشوں کاثمرہ  ہے۔ رب  محمد صلی اللہ علیہ وسلم  کی قسم! ایک مسلمان تو قطعاً  رب  کی شریعت  پر مکمل  عمل کرہی نہیں سکتا  جب تک شریعت  نافذ نہ ہو۔ کیونکہ اسے معاشرے میں رہنا  ہے، لوگوں  سے معاملات کرنے ہیں ، جھگڑے  ،اختلافات کا سامنا  کرناپڑتا ہے جب ایسا ہوگا  ، تو اسے کسی کو جج اور قاضی بھی ماننا ہوگا۔ اگر جج اور قاضی  شریعت  اسلامی  کے ضابطے  کے مطابق فیصلہ کرے تو بہت خوب اور اگر وہ  ضابطہ  شریعت  اسلامی نہیں  تو پھر کیا وہ جاہلیت کے صابطے  پر ایک مسلمان کا فیصلہ  کرے گا؟ اللہ تعالیٰ کاقرآن کیا کہتا ہے ۔اَ فَحُکَمْ الْجَا ھِلِئۃِ یَبْغُوْنَ وَ مَنْ اَحْسَنُ مِنْ اللہِ حُکْماً لِقَومٍ یُوْ قِنُوْن۔ (المائدہ : 50)

‘‘اگر یہ لوگ اللہ تعالیٰ  کے نازل کردہ قانون  سے منہ موڑ لیں تو کیا جاہلیت کا فیصلہ چاہتے  ہیں۔ یقین رکھنے والوں کے لیے اللہ تعالیٰ سے بہتر فیصلہ کرنے والا کون ہے’’۔

تفسیر ابن کثیر  میں صاحب  تفسیر علامہ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ  لکھتے ہیں:

‘‘ یہاں اللہ تعالیٰ  نے اس شخص  پر گرفت کی ہے جو اللہ تعالیٰ کے ان محکم  احکامات سےرو گردانی اختیار  کرے۔ جوہر خیر پر مشتمل  اور شر سے روکنے والے  ہیں  ۔ پھر  ان  احکامات الہٰیہ کو چھوڑ کر ان خواہشات ، اصطلاحات اور آرا  کی پیروی  کرنے لگے  جن کو انسانوں نے وضع کیا ہے۔ اور جن کی پشت پر کوئی  شرعی دلیل  بھی نہیں ۔ یہ شخص  بالکل دور جاہلیت  کے اُن لوگوں کی مانند  ہے۔ جو  اپنی آرا،خواہشات پر مبنی گمراہیوں اور جاہلیتوں  کی روشنی  میں فصیلے کرتے تھے یا ان تاتاریوں کی طرح اپنے بادشاہ چنگیز خان کی  وضع کردہ کتاب یا سق کو فیصلہ کن مانتے ہیں’’۔

یاسق مختلف شریعتوں سے اخذ کردہ احکامات کا مجموعہ ہے کچھ احکامات یہودیت سے ماخوذ  ہیں، کچھ  نصرانیت سے، کچھ اسلام سے اور بہت سے احکامات ان کے ذاتی نظریات و خواہشات کے نمائندہ ہیں۔ یہ مجموعہ اُس کی اولاد کے نزدیک ایک ایسی شریعت  کی حیثیت  اختیار کرچکا ہے جسے یہ کتاب اللہ اور سنت رسول علیہ السلام پر ترجیح دیتے ہیں۔ آگے فرماتے ہیں۔

وَ مَنْ فَعَلْ ذَالِکَ مِنْ ھُمْ فَھُوَ کَا فِر یَجِبُ قِتَا لُہُ حَتّٰی یَرْ تَرْ جِعَ اِلٰی حُکْمِ اللہِ وَ رَسُوْ لِہٖ فَلاَ یُحَکَّمُ سَوَاہُ فِی قِلِیْلٍ وَ لاَ کَثِیرٍ

 ان میں سے جو شحص بھی ایسا  کرے وہ کافر ہے۔ اور  اس  سے قتال کرنا واجب ہے ۔ یہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ  اور اس کے رسول کے احکامات کی طرف لوٹ  آئیں ۔ اور ہر چھوٹے بڑے  معاملے  میں اُنہی  کو حاکم  مانیں۔ البدایہ و النھایہ میں  علامہ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ  لکھتے ہیں :

‘‘ یہ تمام قوانین ان شریعتوں  کی مخالفتوں پر مبنی ہیں، جو اللہ تعالیٰ نے اپنے  انبیاء  پر نازل فرمائی ۔ جو شخص  خاتم الانبیا محمد صلی اللہ علیہ وسلم  پر نازل کردہ محکم  شریعت  کو چھوڑ کر اپنے فیصلوں کے لیے منسوخ  شدہ شریعت  کی طرف گیا اس نے کفر کیا’’

 سبحان اللہ ....... امام المفسرین امام ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ  نےجس انداز پر تفسیر  فرمائی ۔ میں  تو کہوں گا ..... اہل پاکستان پران کا خاص  احسان ہے۔ جب ہم 1973  کے آئین  کا رد کرتے  ہیں تو کچھ  لوگ کہہ اُٹھتے  ہیں کہ اس  میں تو اسلامی  دفعات بھی شامل ہیں۔ہاں تاتاری چنگیز خان کی یا سق میں بھی تو کچھ اسلامی دفعات شامل تھیں ، میرے  ان دلائل کا مقصد 64 سال کے غلامی کے اندھیرے میں شریعت اسلامی کے نور سے آزادی  کا دیپ روشن کرنا ہے۔ رب وحدہ لا شریک  کی قسم! یہ سامراجی  غلام  ہمارے  حکمران، میری قوم کے شیروں  کو ان کے  کچھار  سے نکال کر گیدڑوں  کی غاروں  میں لے گئے ہیں۔ اب  ان شیروں  کو انہیں غاروں میں رہنے پر آمادہ  کرنے پر تلے بیٹھے ہیں۔ تھپکیاں  او رلولی پاپ دیے جاتےہیں، کہتے ہیں یہاں تمہارے بنیادی  حقوق کا  تحفظ ہوگا۔

ظالمو! تم نے اللہ تعالیٰ  کا حق مار دیا...... تم انسانوں کو ان کے حقوق کیسے دو گے؟ تمہیں آزادی  اظہارِ رائے کاحق ہوگا  جیسے اُنہوں نے ڈاکٹر عافیہ اور سلیم شہزاد کو بھی آزادی اظہار رائے  کاحق  دیا۔ انسانی حقوق کا تحفظ ہوگا جیسا  کہ سیالکورٹ  میں منیب  او رمغیث کے حقوق  کا تحفظ  کیا،  جیسا  کہ ڈیرہ غازی خان کے حافظ عبد اللہ رحمۃ اللہ علیہ  اور اخروٹ آباد میں چیچن  مہاجر بہنوں  کےحقوق کاتحفظ  کیا۔ لوگو!  اگر آپ پاکستان کی کسی عدالت میں قرآن  لے جائیں اور جج سے کہیں کہاآپ میرا  یہ فیصلہ  قرآن  کے مطابق  کردیں...... تو وہ نعوذ باللہ آپ  کے اس  مطالبے کو مسترد کردے گا گویا اس نے تو اللہ تعالیٰ کے فیصلوں  کو مسترد کردیا، اللہ تعالیٰ کے قرآن  کو مسترد کردیا،جیسا کہ بارہا حکمران حدود اللہ کا مذاق اُڑا چکے ، ہاتھ کاٹنے اور کوڑوں کی سزا کو دور جاہلیت  اور وحشیانہ تک کہہ  کر مسترد کرچکے ۔ اللہ تعالیٰ کا قرآن کہہ رہا ہے:

فَلاَ وَ رَبَّکَ لاَ یُوْ مِنُوْ نَ حَتّٰی یُحَکَّمُوْ کَ فِی مَا شَجَرَ بَیْنَھُمْ ثُمَ لاَ یَجِدُو ْ افِی اَنْفُسِھِمْ ْحَرَ جًا مِمَّا قَضَیْتَ وَ یُسَلَّمُوْ تَسْلِماً

‘‘آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) رب کی قسم  یہ لوگ مومن نہیں ہوسکتے۔ جب تک وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کو اپنے باہمی  جھگڑے میں فیصل نہ مان لیں۔ پھر جب آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم) فیصلہ کردیں  تو وہ اپنے  دلوں میں  تنگی  محسوس نہ کر یں اور (دل و جان سے) اُسے تسلیم کرلیں’’۔

(1)  صاحب احکام القرآن  امام ابوبکر جصاص  رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :

‘‘ یہ آیت اس بات پردلالت کرتی ہے۔ کہ جو شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک حکم  کو بھی رد کردے ، وہ اسلام سے خارج ہوجاتاہے ۔ خواہ  یہ (شک) اس بنیاد پر کرے کہ  اسے اس حکم کےدرست ہونے میں شک  ہو یا پھر شک نہ ہو۔ لیکن پھر بھی اس حکم کے ماننے  اور اس کے آگے سر جھکانے  سےانکاری ہو’’( احکام القرآن ، ج 3 ص 118)

(2) علامہ آلوسی  رحمۃ اللہ علیہ  اس آیت کی تفسیر کے ضمن  میں لکھتے ہیں :

‘‘کوئی بطور اعتراض  یہ کہے  کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کیوں  کیا! یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی حکم  کے متعلق  دل میں تنگی  محسوس  کرے تو صوم و صلوٰۃ  او راعمال صالحہ  ہونے کے باوجود  وہ کافرو مشرک کےحکم میں ہے’’ (تفسیرروح المعانی ، ؎ج5 ص 65)

(3) مفتی اعظم پاکستان مفتی  محمد شفیع رحمۃ اللہ علیہ اس آیت  کی تفسیر  فرماتے ہیں:

‘‘ وہ شْخص مسلمان نہیں  ہے ۔ جو اپنے ہر جھگڑے او رہرمقدمے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے پر مطمئن نہ  ہو۔یہی وجہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ  نے اُس شخص  کو قتل کرڈالا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے  پر راضی نہ ہوا’’ ۔(معارف القرآن ، ج 2 ص 461)

حضرت مولانا عاشق  الہٰی  بلند شہری  رحمۃ اللہ علیہ  صاحب انوار  البیان  فرماتے ہیں :

‘‘ جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے پر دل  و جان سے  راضی نہ ہوں اور فیصلے کو پوری طر ح تسلیم نہ کرلیں تو ایسے لوگ مومن نہ ہوں گے’’۔ (انوار البیان ،ج 1 ص 645)

 مولانا اشرف عالی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں:

‘‘ اس آیت نے اس کا فیصلہ  کردیا کہ ایمان  اس وقت میسر  نہیں ہوتا ۔ جب تک احکام الہٰیہ کو دل سے نہ مانے او رکسی قسم کی دل میں تنگی  نہ ہو۔ اس طرح  دل سے  ماننے کی علامت  یہ ہے کہ عمل  شروع کردیا اور اگر دل  میں تنگی ہوئی یا تسلیم نہ کیا تو وہ مومن  نہیں ہے’’۔ (نظام شریعت ، ص 261)

قرآن  مجید کی ان آیات او رمفسرین اور علمائے  امت کے استدلال  سے چند باتیں واضح  ہوگئیں ۔ قانون  سازی کا حق صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کا ہے۔ جب کہ  جمہوریت  اللہ تعالیٰ  کا  یہ حق  پارلیمنٹ  کی غالب اکثریت کو دیتی ہے  لہٰذا یہ پارلیمنٹ  اور جمہوری  ادارے  اسلام سے متصادم اور اسلام کے دشمن ادارے  ہیں۔ پاکستان میں رائج نظام نہ صرف غیر شرعی ہے بلک شریعت  اسلامی کا مخالف اور دشمن  نظام ہے۔ اے لوگو! میں نے آغاز میں کہا کہ پاکستان  میں انتشار  ، بدامنی  ، اور ناانصافی  پرمبنی  رویوں  کی وجہ کیاہے؟  وجہ صرف اور صرف  یہ ہے کہ یہاں  اس نظام کو مسترد کردیا گیا، جو اللہ تعالیٰ  نے فطرت  انسانی کے عین مطابق بنایا ہے۔ جب آپ پٹرول  والی گاڑی  کو ڈیزل پر چلانے لگیں گے تو کیونکر  ممکن ہے کہ وہ گاڑی  چل سکے؟ انسانیت  کی اس گاڑی کے جانب سفر گامزن  رہنے کے لئے  جو اسباب رب ارض  و سماء  نے پیدا کیے ..... ہم نے ان اسباب کو چھوڑ کر بس  اسٹالن کے نظام  بدی کو قابل تقلید جانا۔ ہمارے لیے  یورپ،  برطانیہ  او رامریکہ  کے قوانین  اور نظام  ہائےباطلہ  زندگی معیار  بن گئے۔ پھر کیسے ممکن  ہو کہ ہم سکون  ڈھونڈ یں  اور ہمیں سکون  ملے۔ہم  راحت  اور اطمینان تلاش  کریں اور  ہمیں اطمینان  حاصل ہوجائے۔ یاد رکھو شرابی کو آخر شراب راس آہی جاتی ہے ۔زانی کو زنا سے لذت  عارضی ملنے ہی لگتی ہے ۔ حرام خور  آخر حرام  خوری کا عادی ہو ہی جاتاہے۔ مگر ایک مسلمان پاک باز،  پاک سرِ شت، ان  نجاستوں  اور غلاظتوں  سے کیسے مطمئن  ہوسکتا ہے۔ اگر امریکہ،  برطانیہ اور ان کے حواری  اس نظام کو گلے لگا ئے بیٹھے ہیں  تو یہ ایسے ہی  ہے جیسے گندے  کیڑوں  کا مسکن گندہ  جوہڑہی ہوتا ہے ۔ بدبو کاعادی  دل خوشبو سےمتلانے لگتا ہے۔ مگر ہمارے  بزرگوں نے جس ملک  کو صرف اور صرف اسلام  کے لیے  حاصل کیا۔ ہم اپنے بزرگوں  کی قربانیوں  کے ثمرہ  کو کیوں نہ ضائع کریں ۔ کیا یہ ملک  اس لیے حاصل  کیا گیاتھا کہ اس کے حکمران  سر ظفر اللہ، ایوب ، یحییٰ ، بھٹو، مشرف، زرداری ، کیانی اور گیلانی  ہوں گے۔ ان میں  او رمنموہن سنگھ  میں فرق ہی کیا ہے ۔ وہ بھی برِٹش  نظامِ  حکومت کا پجاری او ررکھوالا ہے اور یہ  بھی برٹش نظام حکومت کے غلام ہیں۔  وہاں بھی  جمہوریت ، اور یہاں  بھی جمہوریت  ہے۔ آخر ہم نے ملک علیحدہ  حاصل کرکے  کیا بدلا؟ بس اب تبدیلی کا وقت آپہنچا  ہے۔ اب  فراعنہ وقت کا للکار  ا جائے گا۔ ان نام نہاد مسلمانوں کو جو دراصل سامراجی نظام  کے پٹھوں ہیں اور افر نگ  کے غلام ہیں۔ ان کے گریبانوں  میں ہاتھ  اور آنکھوں  میں آنکھیں  ڈال کر ظلم کا بدلہ چکایا جائے گا۔ اے اہل اسلام! اسلام اور کفر کی بنیادی جنگ ہی نظام پر ہے۔ اگر کوئی  کافر اسلام قبول  نہ کرے مگر نظام اسلام قبول  کرکے بحیثیت ذمی  رہے تو اسے اسلامی سلطنت میں رہنے  کی اجازت  ہی نہیں بلکہ  اس کی عزت  و آبرو، مال و متاع  کی حفاظت  اسلامی حکومت کے ذمہ ہو جاتی ہے۔(جاری ہے)

ماخز: نوائے افغان جہاد ، فروری، 2013

URL:

 https://newageislam.com/urdu-section/system-based-atheism-democracy-acceptable/d/10249

 

Loading..

Loading..