The
author of this article Asmatullah Muawiyah is the former head of the banned
terrorist organisation Sipah-e-Sahaba (Militia of the Companions of the
Prophet) and the emir of Punjabi Taliban, Pakistan. In this article, he
reiterates the Taliban’s ideological stand echoing Maulana Maududi’s view on
democracy that it is an un-Islamic form of government and a system based on
kufr (non-belief). Of late, he has been trying to have a ‘meaningful dialogue’
with the Pakistan government for reasons known to him since his organisation
Taliban has declared the Pakistan government a government of kafirs though the
majority of the ministers are Muslims
and Islamic Shariah is the basis of the law of the land.
In
this article the Maulana has tried his best to drive home the point that all
the social, political and economic ills of Pakistan are the result of the 65
years of this democratic system based on non-belief (kufr) and only a system
governed by the Taliban will rid the country of the corruption the country is
mired in.
It
should be noted that in their writings, the Talibani scholars harp on common
issues of the people of the Pakistan and shed crocodile tears for them by
mentioning the poverty, corruption of their leaders, plundering the wealth of
the country by the feudal lords and nawabs who have captured power, and never
ever say anything on the issues of killing of Shias, destroying the Sufi
shrines and carrying out suicide attacks on civilians in the residential and
commercial areas. In this article the
Maulana has tried to show the human face of Taliban (though it has none) by
shedding tears on the plight of the common people. Like most Urdu writers, he
has used rhetoric and emotional rants spiced by Urdu couplets to arouse public
sympathy in favour of the Taliban covering up their inhuman terrorist
activities killing everyone who disagrees with them. They did not hesitate even
to attack a 13 year old Muslim girl for peacefully opposing their policy. This
article shows their duplicity in the worst form. We at New Age Islam will keep
exposing this duplicity of these terror mongers and enemies of Islam.—Edit
Desk, New Age Islam
اس مضمون کے مصنف ممنوعہ دہشت گرد تنظیم سپاہ صحابہ کے سابق سربراہ اور پنجابی طالبان کے امیر عصمت
اللہ معاویہ ہیں۔ اس مضمون میں انہوں نے جمہوریت
پر طالبان کے موقف کا اعادہ اور مولانہ مودودی
کے اس نظرئیے کی تائید کی ہے کہ جمہوریت ایک غیراسلامی اور کفر پر مبنی نظام حکومت ہے۔ فی
زمانہ وہ پاکستانی حکومت کے ساتھ ‘معنی خیز ’ گفتگو کے خواہاں ہیں جو کہ ناقابل فہم بات ہے کیونکہ طالبان حکومتِ پاکستان کو کافروں کی حکومت قرار دے چکے ہیں جبکہ اس میں وزیروں کی اکژیت مسلما ن ہے
اور ملک کے قانون کی بنیاد اسلامی شریعت پر ہے۔
اس مضمون میں مولانا نے یہ باور کرانے کی جی توڑ کوشش کی ہے کہ پاکستان
کے سماجی ، سیاسی اور معاشی مسائل اسی 65 سالہ جمہوریت کا ثمرہ ہے جو کفر پر مبنی ہے
اور یہ کہ صرف طالبان ہی اس ملک کو بدعنوانی
کے دلدل سے نکال سکتے ہیں۔
یہ امر قابل غور ہے کہ
طالبانی علماء پاکستان کےعوام کے عام
مسائل کا تذکرہ تو کرتے ہیں اور غریبی ، لیڈروں
کی بدعنوانی، حکومت پر قابض جاگیرداروں اور نوابوں کے ذریعہ ملک کی دولت کی لوٹ پر
عوام کی ہمدردی میں گھڑیالی آنسو بھی بہا تے ہیں
مگر وہ شیعوں کے قتل ، صوفیوں کے مزاروں
کی تباہی اور رہائشی اور تجارتی علاقوں میں شہریوں پر
خود کش حملوں کا کبھی ذکر نہیں کرتے۔
لہذاٰ، اس مضمون میں مولانا نےعوام کے دکھوں پر مگر مچھ کے آنسو بہا کر انہیں طالبان
کا انسانی چہرہ ( جو سرے سے ہے ہی نہیں ) دکھانے
کی کوشش کی ہے۔ اردو کے بیشتر شعراء کی طرح
انہوں نے جذباتی نعروں اور لچھے دار زبان کے ساتھ ساتھ اشعار کااستعمال کر کے
طالبان کی انسانیت سوز سرگرمیوں اور مخا لفین کے قتل کی پالیسی پر پردہ ڈالنے اور طالبان کی حمایت میں عوامی ہمدردی بٹورنے کی کوشش کی ہے۔ مگر یہ بات بھلائی نہیں جا سکتی
کہ انہیں انکی پالیسی کی پرامن طور پر مخالفت
کرنے والی ایک 13 سالہ لڑکی پر جان لیوا حملہ کرنے میں بھی شرم نہیں آئی۔ اس مضمون
میں بھی انکی دوغلی پالیسی پوری طرح ظاہر ہو
گئی ہے۔ نیو ایج اسلام انکی اسی دوغلی پالیسی
کو بے نقاب کرتا رہے گا۔۔۔۔ نیو ایج اسلام ایڈٹ ڈسک
--------------
مولانا عصمت
اللہ معاویہ
یہ جس جمہوریت کے علم بردار
ہیں ۔ رب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی قسم ، وہ جمہوریت کفر ہے، ظلم ہے، رب کی بغاوت
ہے۔ اس کا اسلام سے قطعاً کوئی تعلق نہیں
۔ معاف کیجئے ، گستاخی کاارتکاب نہیں سچ کا اظہار کررہا ہوں ۔ کیا قرآن کا حکم واضح نہیں؟ قرآن کریم میں ارشاد ہے۔
وَاِنْ تُطِعْ اَکْثَر مَنْ
فیِ الْاَ رْض یُضِلُّوْکَ عَنْ سَبِیلِ اللہِ اِنْ یَتَّبِعُوْنَ اِ لاَّ الْظَّنَّ
وَ اِنْ ھُمْ الَّا یَخْرَ صُوْن ( الا نعام : آیت 116)
اور اگر آپ زمین والوں کی
اکثریت کی اطاعت کریں گے ۔ تو وہ آپ کو اللہ تعالیٰ کے راستے سے گمراہ کردیں گے۔
1۔ تفسیر روح االمانی، جلد نمبر 4 ، ص 11 پر علامہ آلوسی رحمۃ اللہ
علیہ لکھتے ہیں:
ھِیَ الضَلاَلُ وَ الْاِ ضْلَالُ
و اِتّباَعُ الْظُنُوْنِ الْفَا سِدَ ۃِ اَلنَّاشِی مِنَ الْجَھْلِ وَ الْکِذْبِ عَلَی
اللہِ تعالیٰ۔
یہ خود بھی گمراہ ہونا ہے
اور دوسروں کو بھی گمراہ کرنا ہے۔ اور فاسد شکوک ہیں جہاں جہالت اور اللہ تعالیٰ پر جھوٹ گھڑنے سے پیدا ہوتی ہے ۔ (اِنْ بتَّبِعُوْن
) مِنَ الشِّرکِ و الْضَلَال ( وہ پیروی کرتے ہیں) شرک اور گمراہی کی ۔
2۔ شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ
نے حجتہ اللہ البالغہ میں وَاِن تُطِعْ اَکْثَرَ مَنْ فیِ الْاَرْض کی تشریح
میں جمہوریت کار د فرمایا ہے۔
3۔ فطری حکومت ، میں قاری طیب قاسمی دیوبندی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
‘‘ یہ (جمہوریت ) رب تعالیٰ کی صفت ملکیت میں بھی شرک ہے اور صفتِ علم میں بھی شرک ہے’’۔
4۔ مولانا ادریس کا ندھلوی
رحمۃ اللہ علیہ : عقائد اسلام ، ص 230 میں لکھتے ہیں:
‘‘ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہ مزدور او ر عوام کی حکومت ہے ایسی حکومت بلاشبہ حکومت کا فرہ ہے’’۔
حضرت مولانا مفتی محمود رحمۃ
اللہ علیہ نے مینگور ہ سوات میں ایک وکیل کےسوال کے جواب میں فرمایا :
‘‘ ہم جمہوریت پر لعنت بھیجتے ہیں۔ اس میں تو دو مردوں کی آپس میں شادی کی اجازت
ہے ۔ جیسا کہ برطانیہ نے اس کابل کثرت رائے سے پاس کیا ہے’’ (اسلامی خلافت، ص 177)۔
مولانا مفتی محمود رحمۃ اللہ علیہ کے اس آفاقی شان والے جملے کو بھلا کون بھُلا سکتا ہے کہ ‘‘ میں اسلام کے علاوہ ہرازم کو کفر
سمجھتا ہوں ’’ تو کیا جمہوریت اسلام کے مقابل ایک نیاد ین ایک نیا مذہب اور اسلام سے
ایک علیحدہ ازم نہیں ہے۔
5۔ مولانا محمود الحسن گنگو ہی رحمۃ اللہ علیہ ، فتاویٰ محمودیہ ، ج
20، ص 415 میں لکھتے ہیں :
‘‘ اسلام میں اس جمہوریت کا کہیں وجود نہیں (لہٰذا یہ نظام کفر ہے)
اور نہ ہی کوئی سلیم العقل آدمی اس کے اندر خیر تصور کرسکتا ہے ’’۔
6۔ ملفو ظات تھانوی رحمۃ اللہ
علیہ ، ص 252 پر حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ
کے یہ جملے درج ہیں:
‘‘ایسی جمہوری سلطلنت
جو مسلم اور کافر ارکان سے مرکب ہو۔ وہ تو غیر مسلم (سلطنت کافرہ) ہی ہوگی،،۔
7۔ احسن الفتاویٰ از مفتی رشید احمد رحمۃ اللہ علیہ ، 6 ص 26 میں لکھتے ہیں :
‘‘ یہ تمام برگ و بار مغربی جمہوریت کے شجرہ خبیثہ کی پیداوار ہے ۔
اسلام میں اس کافرانہ نظام کی کوئی گنجائش نہیں ’’۔
8۔ مولانا یوسف لدھیانوی رحمۃ اللہ علیہ آپ کے مسائل اور ان کا حل
، ج 8 ص 176 میں لکھتے ہیں :
‘‘ جمہوریت کا نہ صرف یہ کہ اسلام سے کوئی تعلق نہیں بلکہ وہ اسلام کے سیاسی نظریے کی ضد ہے (ظاہر ہے
اسلام کی ضد کفر ہی ہے)’’۔
9۔ مولانا عاشق الٰہی بلند
شہری رحمۃ اللہ علیہ ، تفسیر انوار البیان
، ج 1 ص 518) میں لکھتے ہیں :
‘‘ ان کی لائی ہوئی جمہوریت بالکل
جاہلانہ جمہوریت ہے جس کا اسلام سے
کوئی تعلق نہیں ۔ ( جس چیز کا تعلق اسلام سے نہ ہو تو ظاہر ہے وہ کفر ہی ہو گی)’’
10۔ فتح الملھم ، ص 284 ج 3 میں مولانا مفتی تقی عثمانی صاحب لکھتے
ہیں :
‘‘ اسلام کا نظام سیاسی ڈیمو کریسی اور ڈکٹیٹر شپ سے جدا ہے۔ (گویا
جمہوریت الگ ہے اور اسلامی نظام الگ ہے اس کا
اُس سے کوئی تعلق نہیں)’’۔
11۔ مولانا فضل محمد دامت بر کاتھم ، اسلامی خلافت، ص 117 میں لکھتے
ہیں :
‘‘ اسلامی شرعی شوریٰ او رموجودہ جمہوریت کے درمیان اتنا فرق ہے جتنا
آسمان او رزمین میں ، وہ مغربی آزاد قوم کی افراتفری کا نام ہے۔ جس کا شرعی شورائی
نظام سے دور کا واسطہ بھی نہیں ’’۔
12۔ مفتی ابولبابہ شاہ منصور ، عالمی یہودی تنظیمیں ، ص 197 پر ‘‘ جمہوریت
یہودی ایجاد ’’کی سرخی دینے کے بعد لکھتے ہیں :
‘‘درحقیقت یہ نظام حکومت نہ کسی عقلی کسوٹی پر پورا اتر تاہے نہ عملاً مفید ثابت ہوا۔
نہ فطری طور پر درست اسے یہودی دماغوں نے گڑھا
ہے’’۔
ہم جب جمہوریت کی اسلام دشمنی کا پردہ چاک کرتے ہیں۔ تو کچھ لوگ ہمیں
معتوب نظروں سے دیکھتے ہیں۔ شاید ہم
جمہوریت کو خواہ مخواہ اسلام دشمن ثابت کررہے ہیں ۔ حالانکہ ہم تو صرف جمہوریت کے کفر
کا آشکار ا کر رہے ہیں۔ اگر تفسیر روح المعانی
میں علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ ،
حجتہ اللہ البالغہ میں شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ
علیہ، عقائد اسلام میں مولانا ادریس کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ، مولانا اشرف علی تھانوی
رحمۃ اللہ علیہ ، مولانا محمود الحسن گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ ، مفتی رشید
احمد رحمۃ اللہ علیہ ، مولانا یوسف
لدھیانوی رحمۃ اللہ علیہ ، مولانا تقی عثمانی حفظہ اللہ، مولانا فضل محمد حفظہ اللہ
تک سب جمہوریت کو اسلام دشمن اور کفر قرار دیتے ہیں ۔ تو ہم اس غلیظ کفر کو گلے کیسے لگالیں ۔ سچ تو یہ ہے کے عام کفر نے جمہوریت
کو اسلام کے متبادل کے طور پر پیش کیا ہے
۔ اسلام میں جو حیثیت قرآن و سنت کو حاصل
ہے ۔ وہی حیثیت جمہوریت میں آئین کو حاصل
ہے۔ قرآن و سنت کی بغاوت موت ہے تو جمہوریت کے ماننے والے آئین کے باغی کو موت کی سزا دیتے ہیں۔فرق صرف اصطلاحوں او رلفظوں
کا ہے۔ اسلام جائز اور ناجائز ، حلال و حرام کی اصطلاح پیش کرتا ہے او رجمہوریت میں قانونی اور غیر قانونی کی اصطلاح کو متعارف کروایا گیا ہے۔ جمہوریت میں
حلال اور جائز کی جگہ قانونی اور حرام اور ناجائز کی جگہ غیر قانونی ، غیر آئینی کالفظ استعمال کیا جات
ہے ۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ جمہوریت
کو اسلام کے ساتھ نتھی کرنے کاجرم سرعام کیا
جاتا ہے ۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان! افسوس صد
افسوس کہاں اسلام کی پاکیزگی اور کہاں جمہوریت
کی غلاظت ، اسلامی جمہوریہ کہنا غلط ہے ۔ اس کا برعلمائے کرام نے بھی گرفت فرمائی ہے۔
1۔ مولانا یوسف لدھیانوی رحمۃ اللہ علیہ ، آپ کے مسائل اور اُن کا حل، ج 8 ص 176 میں لکھتے
ہیں :
‘‘کبھی یہ نعرہ بلند کیا گیا کہ
اسلام جمہوریت کا علم بردار ہے۔ او رکبھی اسلامی جمہوریت کی اصطلاح وضع کی گئی
۔ حالانکہ مغرب جس بت کا پجاری ہے۔ اس کا نہ صرف اسلام سےکوئی تعلق نہیں ۔ بلکہ
یہ اسلام کے سیاسی نظریے کی ضد ہے۔ اس لیے
جمہوریت کے ساتھ اسلام کا پیوند لگانا اور
جمہوریت کو مشرف بہ اسلام کر صریحاً غلط ہے’’۔
2۔ اسلامی خلافت، ص 176 میں مولانا فضل محمد دامت برکاتھم لکھتے ہیں
:
‘‘کچھ حضرات یہ کہتے ہیں کہ اسلامی جمہوریت ، یہ کہنا ایسا ہی ہے جیسے کہ کوئی کہے کہ اسلامی شراب ’’۔
3۔ احسن الفتاویٰ ، ج 6 ص 94 میں مولانا مفتی رشید احمد رحمۃ اللہ علیہ لکھتےہیں :
‘‘ جمہوریت کو مشاورت کے ہم معنیٰ
سمجھ کر لوگوں نے یہ کہنا شروع کردیا کہ جمہوریت عین اسلام ہے۔ حالانکہ بات اتنی
سادہ نہیں ہے۔ درحقیقت جمہوری نظام حکومت کے پیچھے ایک مستقل
فلسفہ ہے۔ جو دین کے ساتھ ایک قدم بھی نہیں چل سکتا ۔ اور جس کے لیے سیکولرازم
پر ایمان لانا تقریباً لازمی شرط کی حیثیت
رکھتا ہے ۔ جمہوریت میں اکثر یت جو
کہہ دے وہ قانون ہے، حلال ہے ، وہ جائز ہو گیا ۔ اسلام میں یہ اختیا ر تو پیغمبر کوبھی نہیں
ہے۔ کہ وہ کسی چیز کو حلال و حرام قرار دے دیں۔ تو ایک عام شخص کے پاس یہ اختیار کیسے آگیا ۔ اللہ تعالیٰ تو فرماتے
ہیں ۔ وَلَکِنَّ اکْثَرَ النَّاسِ لاَ یَعْلَمُوْن ۔ اکثریت عوام کی تو علم ہی نہیں رکھتی ۔ جو علم و
عقل ہی نہیں رکھتے ہیں۔ جمہوریت تمہاری تقدیر کا وارث انہیں قرار دیتی
ہے’’۔
در اصل جمہوریت پارلیمنٹ کو
یہ اختیار دیتی ہے کہ وہ نئے قانون بنائیں ۔ حالانکہ یہ اختیار صرف اور صرف شریعت اسلامیہ
کو حاصل ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ۔ اِتَّخَذُو ا اَحْبَا رَ ھُمْ وَ رُ ھْبَا نَھُمْ
اَرْ بَاباً مِنْ دُونِ اللہ ۔ ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر علمائے یہود اور
علمائے نصاریٰ کے درویشوں کو رب بنالیا ہے۔
حضرت عد ی بن حاتم رضی اللہ عنہ جو پہلے نصرانی تھے ۔ (بعد میں مسلمان
ہوئے) اُنہوں نے بیان فرمایا ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اُس
وقت میری گردن میں سونے کی صلیب لٹک رہی تھی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عدی
اس بت کو اپنی گردن سے نکال پھینکو ۔ واپس آیا تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم یہ آیت (اِتَّخَدُوا اَحْبَا رَھُمْ وَرُ ھْبَا
نَھُمْ اَرْ بَا باً مِن دُونِ اللہِ) تلاوت فرمارہے تھے ۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
ہم اپنے علماء اور درویشوں کی عبادت تونہیں کرتے ۔ پھر یہ کیوں فرمایا کہ احبار اور رھبان کو رب بنالیا ہے۔ آپ
صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ بات نہیں
ہے کہ یہ اُس چیز کو حرام کرتے ہیں جس کو اللہ تعالیٰ نے حلال کیا ۔ پس تم بھی
حرام سمجھ لیتے ہو۔ اور اُس چیز کو حلال کرتے
ہیں۔ جس کو اللہ تعالیٰ نے حرام کیا تو تم بھی اس کو حلال سمجھ لیتے ہو۔ پھر آپ صلی
اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ ذَلِکَ عِبَادَ تُھُمْ، یہ ان کی عبادت ہی تو ہے ۔ (معالم
التنزیل ، ص 285 ج 2)
( اَرْبَا باً مِن دُونِ اللہ ) کی تفسیر میں علامہ آلوسی رحمۃ اللہ
علیہ لکھتے ہیں:
بِاَنْ اَطَا عُوْھُمْ فِی
تَحْرِیْمِ مَا اَحَلَّ اللہُ وَ تَحْلِیْلِ مَا حَرَّ مَہُ سبحانہ تعالی
کہ وہ اُن کی اطاعت کرتے ہیں
اُس چیز کے حرام ہونے میں جس کو اللہ تعالیٰ نے حلال کیا ہے اور اُس چیز کے حلال ہونے
میں جس جو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے حرام کیا ہے۔ (تفسیر روح المعانی ، ج 5 ص 123)
تمام مفسرین نے اس آیت کی
تفسیر یہی کی ہے ۔ حلال و حرام کا اختیار سوائے
اللہ تعالیٰ کے کسی کو حاصل نہیں ۔ وہی اختیار
پارلیمنٹ کو دے دیا گیا ۔آج علمائے یہود و نصاریٰ کی طرح یہاں پارلیمنٹ کو معبود بنادیا ۔ پھر خود ہماری پاکستانی پارلیمنٹ نے کیا کیا گل کھلائے ۔ جو سزا اسلام میں چور ڈاکو کی ہے اس کو تبدیلی کاشکار کردیا گیا ۔ جو
سزا شرابی کو اللہ نے مقرر کی۔ اس پارلیمنٹ
نےاس کو تبدیل کردیا۔ شراب کے پرمٹ قانونی اور غیر قانونی شراب کو متعارف کروایا
گیا ۔ زنا کے لائسنس دیے گئے ، یہ قانون کس
نے بنایا۔ آج یہی پارلیمنٹ نیٹو سپلائی کی
بحالی کافیصلہ کر کے باقاعدہ مسلمانوں کے خلاف کفار کی جنگ کی معاون بن گئی ۔ (جاری)
نوائے افغان جہاد ، جنوری ، 2013
URL: