شریعت کا نفاذ طالبان کا مشن ہے مگر اس مشن کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ان کے خیال میں شریعت کے نفاذ کا مطلب شریعت کے ان کی تفسیر یعنی وہابی اسلام کا جبری اور پر تشدد نفاذ ہے جس میں دین کے معاملے میں انسان کی شخصی آزادی جو کہ قرآن میں واضح طور سے موجود ہے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
ان کی حکومت میں ہر موڑ، ہر گلی ، بازاروں ، مدرسوں ،اسکولوں حتی کہ گھروں میں لوگ کوڑوں اور بندوقوں کے ساتھ گھومتے ملیں گے اور لوگوں کو نیکی اور بدی کے اپنے تصور کے مطابق عمل کرنے پر مجبور کریں گے۔ مثال کے طور پر گلیوں میں ‘امر با لمعروف نہی عن المنکر’ کے لوگ لڑکیوں کو اسکو ل جانے سے روکیں گے کیونکہ ان کے مذہب میں لڑکیوں کا تعلیم حاصل کرنا غیر شرعی عمل ہے۔ لہذا، اسی ۔نہی عن المنکر۔ کے تحت انہوں نے پاکستان میں ایک اسکول جانے والی لڑکی پر جان لیوا حملہ کیا۔
شریعت کے پر تشدد اور جان لیوا نفاذ کی مثالیں زندگی کے دوسرے شعبوں میں بھی دکھائی دیں گی۔اس مضمون کی بنیاد حضور صلی اللہ و علیہ وسلم کی ایک حدیث ہے جس میں مسلم معا شرے میں ایک ایسے گروپ کی وکالت کی گئی ہے جو لوگوں کو بھلے کاموں کی ترغیب دے اور برے کاموں سے منع کرے۔ مگر اس حدیث کو طالبانی عا لم نے ایک ایسے گروپ کی تشکیل کی بنیاد بنا یا جو قانون ہاتھ میں لیکر لوگوں کو سزا دینے کا مجاز ہوگا اور اس طرح سے ہر شخص سماج میں پولس میں بن جائیگا۔ پاکستان، افغانستان اور سیریا کے خانہ جنگی کے شکار علاقے میں اس طرح کے واقعات کی خبریں آئی ہیں کہ جہادی تنظیموں نے ’امر بالمعروف ‘ کے نام پرقانون اپنے ہاتھ میں لیکر انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی اور شریعت کی ‘خلاف ورزی ’ کرنے والوں کو سزا دی۔
اسی طرح کے ایک گروپ کا ایک ممبر ایک شخص کے مکان میں بلا اجازت گھس گیا اور اس سے کہا کہ تم نے اسلامی شریعت کی خلاف ورزی کی ہے اس لئے تمہیں سزا دی جائیگی۔ جب مکان مالک نے اس سے پوچھا کہ آپ بلا اجازت میر ے مکان میں کیسے دا خل ہوئے تو اس خدائی فوجدارنے فلمی انداز میں جواب دیاکہ ۔ ہمیں کسی کی اجازت کی ضرورت نہیں۔لہذا، طالبان کے یہ خدائی فوجدار لوگوں کے مکان میں بھی شریعت کی خلاف ورزی کی تفتیش کرنے کے لئے بلا اجازت داخل ہو جائیں گے اور مجرموں کو اپنی مرضی کے مطابق سزا دیں گے۔
ہم ذیل میں طالبان کے ترجمان رسالے نوائے افغان جہاد شمارہ جون 2013 میں مطبوعہ مضمون فریضۂ امر با لمعروف ونہی عن المنکر۔ قسط ۲ پیش کررہے ہیں تاکہ قارئین کو اندازہ ہوسکے کے طالبان اور ان جیسی دہشت گرد تنظیمیں شریعت کے نفاذ کے نام پر کس طرح کا نظام قائم کرنا چاہتی ہیں۔۔۔ نیو ایج اسلام ایڈٹ ڈیسک
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مولانا عبدالوہاب ہاشمی حفظہ اللہ
جون، 2013
ایک گاؤں اور قریہ کے اندر اگر کوئی بزرگ موجو د ہے تو وہ امر نالمعروف و نہی عن المنکر کا فریضہ سر انجام دے گا ........ اگر اسلام نظام قائم ہے تو ایک علاقے کا جو والی اور سربراہ ہوتا ہے، اُس کے ذمہ داری ہے کہ وہ ہاتھ سے برائیوں کو روکے ...... اگر وہ لوگ جنہیں سُلطہ حاصل نہیں ہے، امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا فریضہ ادا کرتے ہیں تو یہ ‘غیر مسلطہ’ لوگ زبان سے امر بالمعروف و نہی عن المنکر کریں گے ........ اور اگر کمزوری اور ضعف اس قدر ہے کہ زبان سے بھی یہ فریضہ انجام دیناممکن نہ ہو تو اس وقت آخری درجہ ہے .......کہ دل سے امر بالمعروف و نہی عن المنکر کرے .... دل سے کس طرح کرے؟ دل سے بر ا ماننا ، دل سے بغض رکھنا، برائیوں کو ختم کرنے کی تمنا دلوں میں بسائے رکھنا، یہ تیسرا درجہ ہے ...... یہ اُن کمزور لوگوں کے لیے ہے جو نہ ہاتھ سے کرسکتے ہیں اور نہ زبان سے اس فریضہ کی ادائیگی کے قابل ہیں .....
تہی تقسیمات یعنی ہاتھ سے ، پھر زبان سے اور پھر قلب سے ،انہیں ایک دوسرے تناظر میں دیکھنا بھی ضروری ہے ......کہ اس منکر کو روکنے کے بعد جو نتائج مرتب ہوں گے اُن کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ تین طریقے اختیار کیے جائیں ...... بے شک آپ کو سُلطہ حاصل ہے ، باپ ہیں سُلطہ ہے آپ کے پاس ، استاد ہیں سُلطہ ہے آپ کے پاس، امیر ہیں سُلطہ ہے آپ کے پاس ....... لیکن اگر آپ ہاتھ سے منع کریں گے تو ہاتھ سےمنع کرنےکے نتیجے میں اس منکر سےبڑھ کر ایک او رمنکر سامنے آجائے تو ایسی صورت میں صاحب سُلطہ ہونے کے باوجود بھی اس کو ہاتھ سے نہیں منع کریں گے بلکہ زبان سے یہ فرض ادا کریں گے۔ اور اگر زبان سے منع کرنے کی وجہ سے اس منکر سے بڑھ کر کوئی اور مصیبت آتی ہے ، کوئی اور فساد برپا ہوتا ہے تو اگرچہ آپ صاحب سُلطہ ہوں لیکن اس صورت میں آپ زبان سے نہیں کریں گے بلکہ قلب سےکریں گے ...... کہنے کامطلب یہ ہے کہ سُلطہ اور قدرت وہ ہے جسے مخاطب بھی تسلیم کرے ...... یعنی قدرت اور سُلطہ ‘رِٹ’ کے ہم معنی ہیں ....... مثلاً آپ میں سے ابھی کوئی کہے کہ آپ نے قدرت کی بات کی کہ جب قدرت ہو تو ہاتھ سے منع کیا جائے گا ....... تو یہاں ہم سب مجاہدین کے پاس کلاشن کوف ہے ...... اب ہم سب کے ہاتھ میں قدرت ہے یا نہیں؟ اب اگر ہم میں سے کوئی اپنے ہمسائے میں موسیقی کی آواز سنے اور جاکر دیکھے کہ کون ہے جو موسیقی سننے کا گناہ کررہا ہے ...... وہاں ایک آدمی نکلتا ہے جو کہتا ہے کہ میں یہ موسیقی بند نہیں کروں گا ، آپ کون ہیں مجھے منع کرنے والے ...... تو کیا آپ اُسے گولی ماردیں گے ؟؟ جس چیز سےآپ منع کررہے ہیں وہ ہے موسیقی ....... موسیقی حرام ہے ...... موسیقی ایک فساد ہے ...... لیکن اگر آپ اپنے اُس ہمسائے کو اس بنیاد پر ماردیں تو یہ کسی طرح بھی جائز نہیں ....... موسیقی یقینی طور پر حرام ہے ایک مسلمان کا قتل زیادہ بڑا گناہ اور جرم ہے یا موسیقی ؟ مسلمان کے خون کی حرمت اُس سےکہیں زیادہ ہے ....... لہٰذا اس صورت میں سمجھ لیں کہ آپ کے پاس سُلطہ موجود نہیں ہے ...... آپ ہاتھ سے نہیں منع کریں گے بلکہ آپ جاکر زبان سے اُسے روکیں گے ...... ایک او رمثال سے سمجھیں کہ گھر کے اندر آپ تین بھائی ہیں اور آپ کے والد بھی موجو د ہیں ...... بالفرض آ پ کا ایک بھائی خدا نخواستہ بے حیا ہے، دینی تعلیمات سے منحرف ہے اور اُس نے اپنے گھر میں ٹی وی کیبل لگوا رکھی ہے ...... وہ بلند آواز سے موسیقی اور فلمیں گھر میں لگاتا ہے ....... ظاہر ہے یہ سب منکرات ہیں ...... والد جو گھر کا سربراہ ہے اور اُسے سُلطہ حاصل ہے ، وہ آتا ہے اور اپنے بیٹے کو کہتا ہے کہ بند کرو یہ فحش کام او ر ٹی وی کو گھر سےنکال باہر پھینکتا ہے، وہ یہ کام بخوبی او ربا آسانی کرسکتا ہے ....... لیکن آپ اُس کے بھائی ہیں ..... اب آپ بتائیں کہ آپ وہی عمل جو آپ کے والد صاحب نے کیا آپ کریں اور اپنے بھائی کے کمرے میں جاکر ٹی وی اٹھائیں اور اُسے زمین پر پٹخ دیں تو اس کا کیا نتیجہ نکلے گا ؟ کیا آپ کے پاس اپنے گھر میں سُلطہ ہے؟ ظاہر ہے کہ نہیں ہے ...... اس صورت میں وہ آپ کے ساتھ دست گریبان ہوجائے گا ، مارکٹائی شروع ہوجائے گی ...... اس لڑائی کی وجہ سےپورے گھر کانظام درہم برہم ہوجائے گا..... یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بات بڑھتے بڑھتے آتشیں ہتھیار وں کے استعمال تک پہنچ جائے ......قتل و مقاتلہ تک نوبت جا پہنچے ...... لہٰذا سوچیں کہ اس وقت آپ کو سُلطہ حاصل نہیں ہے ...... لیکن اگر آپ کہیں کہ نہیں جناب ! میرے پاس پستول موجود ہے ، میں جاؤں گا اور اپنے اسلحے کے زور پر اُس کی خرافات کو روک دونگا ...... یاد رکھیں کہ یہ سُلطہ ایسا سُلطہ نہیں ہے کہ جس کے سامنے آپ کا بھائی سرتسلیم خم کرلے ...... عین ممکن ہے کہ وہ آپ کے ساتھ اس قدر الجھ جائے اور بات بڑھتے بڑھتے قتل تک پہنچ جائے تو اس صورت میں آپ کو ہاتھ سےمنع کرنا جائز نہیں بلکہ قدرت نہ ہونے کی وجہ سےیا بڑا فساد بر پا ہونے کی وجہ سے آپ دوسری صورت اختیار کریں گے ، یعنی زبان سے اُسے روکیں گے ........ ( جاری ہے)
بشکریہ: نوائے افغان جہاد، جون ، 2013
URL for English article:
https://newageislam.com/radical-islamism-jihad/the-duty-enjoin-good-forbid-part-2/d/12088
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/the-duty-enjoin-good-forbid-part-2/d/12092