مولانا عبدالحمید نعمانی
23 اگست 2016
تین طلاق کے متعلق کچھ باتوں کو صاف کرنا ضروری ہے، میں پہلے لکھتا کہتا آرہا ہوں کہ تین طلاق کے بہانے سے طلاق کے عمل کو بے اثر وبے معنی بنانے کی کوشش کامقصد پورے ملک میں یونیفارم سول کوڈ کے نفاذ کی راہ ہموار کرناہے، ساتھ ہی شریعت کے ماہرین، فقہاء و علما ء کے متعلق بے اعتمادی پھیلاتے ہوئے سماج میں ان کے اثر کو کم یا ختم کرنا بھی ہے، تاکہ من مانی باتوں کے خلاف مزاحمت کی آواز نہ اٹھ سکے ۔ یہ بڑی دلچسپ بات ہے کہ گزشتہ دنوں کئی تحریریں ایسی شائع ہوئی ہیں، جن میں سواد اعظم اورائمہ اربعہ کےاصول و تشریحات کو بے معنی بتانے کی کوشش کی گئی ہے ، او ر اس پر خوشی کا اظہار کیا گیا کہ سماج سے علماء کا اثرکم ہورہا ہے اورلوگ اپنے طور پر قرآن و سنت کو براہِ راست سمجھنے کی سعی کررہے ہیں ، تقلید کی مذمت کرتے ہوئے عام افراد میں آزادانہ روش و ذہن کو پروان چڑھانا کوئی اچھی علامت نہیں ہے۔ اس کےمد نظر راقم سطور نے تین طلاق کو ایک قرار دینے سےمتعلق کئی تحریروں میں اظہار خیال کیا تھا۔ اصل مسئلہ بغیر صحیح سبب کے تین طلاق کو روکنا ہے، جس سے گھر، خاندان تباہ اور معاشرتی تانا بانا بکھر جاتا ہے ، نہ کہ تین طلاق کو ایک قرار دے کر تین طلاق دینے والے کو بے قصور مانتے ہوئے ، رجوع کا حق دینا ۔ میں نے ایسے تین طلاق دینے والوں کے خلاف کسی مؤثر سزاکے بندبست کرنے کی بات کہی تھی، اس کے لئے قاضی ایکٹ بنوانے کی از سر نو کوشش کرنے کی ضرورت ہے، حالیہ دنوں کےمطالعہ کےدوران ایسے اہل علم حضرات کے نام سامنے آئے ہیں، جو مناسب سزا کی تجویز کی رائے رکھتے ہیں ،اس سلسلے میں دارالعلوم ندوۃ کے استاذ فقہ، عظیم عالم دین مولانابرہان الدین سنبھلی ، عظیم محقق اور دانشور عالم مولانا مفتی تقی عثمانی ، مولانا سیّد عروج احمد قادری خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔ انہوں نے اپنی اپنی تحریروں میں بنا کسی وجہ کے ایک ساتھ بدعی تین طلاق کو روکنے کےلیے مذکورہ سزا کی تجویز رکھی ہے۔
اس کے بجائے کچھ لوگ بالکل غلط طریقے سےتین طلاق کو ایک قرار دینے کی وکالت کررہے ہیں ۔یہ لوگ حیض کی حالت میں غلط اور حرام طلاق کو روکنے کی جگہ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ کی تقلید میں مسئلہ کا حل بتاتے ہیں کہ طلاق ہونے سےانکار کردیا جائے ۔ کسی برائی کو روکنے کا یہ کون سا طریقہ ہے کہ اس کے وجود ہی سے انکار کردیا جائے ، کہیں شترمرغ کے ریت میں سردے دینے سے طوفان رک جاتا ہے کیا؟ کچھ لوگ ہماری باتو ں کو سمجھےبغیر دریدہ دہنی کے ساتھ غیر علمی تنقید کرکے بھرم پھیلانے کی کوشش کررہے ہیں اور ہماری طالب علمانہ باتو ں پر استادی دکھاتےہوئے نا قابل اعتبار باور کرانے میں لگے ہوئے ہیں ۔ اس کانمونہ ایک صاحب کی کچھ اردو اخبارات میں شائع تحریر ہے۔ اس نےکتاب و سنت کی دلیلوں کو پس پست ڈالنے کی بات کرتے ہوئے ہمیں علم حدیث سےلاعلم بھی قرار دے ڈالا ہے۔ ایسا وہ اس لیے کہہ رہا ہے کہ راقم سطور نے اس کے دیے حوالے پر اظہار خیال کردیا تھا، جناب نے صحاحِ ستہ میں شامل حدیث کی کتاب ابن ماجہ کے حوالے سےایسی روایت و حدیث کا ذکر کیا تھا، جو اس میں سرے سے ہے ہی نہیں اور جو ہے وہ اس کے دعوے کے خلاف ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں ہمیں علم حدیث سےلا علم قرار پانا ہی تھا۔
مزید یہ کہ ایسے لوگوں نے حدیث او راس پر عمل کے دعوے کواپنے لیے پٹینٹ کرا رکھا ہے ۔ مضمون نگار نے حدیث کی صحیح کتابوں میں ابن ماجہ سے اور ابو داؤد میں اپنے دعوے پر دلیل والی حدیث کاحوالہ دیا تھا ، اس پر راقم سطور نے لکھا تھا کہ امام ابو داؤد نے اس کی پیش کردہ حدیث کے بالمقابل حدیث کو اصح قرار دیا ہے۔ اس کا صاف مطلب ہے کہ تین طلاق کو ایک طلاق رجعی قرار دے کر رجوع کرنے والی روایت غیر اصح یعنی ضعیف ہے۔ ایسا میں نے ائمہ حدیث اور ماہرین کی تشریح کے مد نظر لکھا تھا ، اگر وہ حدیث رکانہ کے متعلق شارحین حدیث اور فن کے ماہرین کے نقد و تبصرے کا مطالعہ کرلیتے تو مجھے علم حدیث لا علم قرار دینے کے بجائے اپنی بے خبری اور ضد پر نظر ثانی کرکےاپنے موقف کی اصلاح کرتے۔ روایت رکانہ کی سند اور راویوں پرجو بحث ہے، اس کے مد نظر روایت نقل و عقل کسی بھی طرح قابل استدلال نہیں رہ جاتی ہے۔مسلم شریف کے شارح او رماہرین فن حدیث امام ابوزکریا نووی رحمۃ اللہ علیہ نے رکانہ والی متعلقہ روایت کو واضح طور سے ضعیف قرار دیا ہے: اما،روایۃ التی رواھا المخالفون ان رکانۃ طلق ثلاثا فجعلنا واحد ۃ فروایۃ ضعیفۃ عن قوم مجہولین ( شرح مسلم کتاب النکاح ) مجھے یاد پڑتا ہے کہ ابن باز نے بھی روایت کو اپنے مجموعہ ‘فتاویٰ’ میں ضعیف قرار دیا ہے۔اس کتاب کا ترجمہ اہل حدیث کےمکتبہ سے شائع ہوا ہے۔ میں نے کوئی اپنی طرف سے مضمون نگار کی پیش کردہ روایت کو ضعیف قرار نہیں دیا تھا۔ کسی کو بز عم خود علم حدیث سے لاعلم قرار دینا کوئی راست رویہ نہیں ہے۔
یہ تو بات چیت اور تحریر بتا دیتی ہے کہ آدمی کہاں کھڑا ہے۔ مجھے بہت سے ذی علم اہل حدیث علماء مولانا مقبول صلاح الدین ، مولانا عبدالوہاب خلجی، مولانا اصغر علی امام مہدی سلفی جیسے حضرات جانتے ہیں، میں نے اہل حدیث اور حنفی اساتذہ دونوں سے پڑھا ہے۔ دارالحدیث ہرنکول سے لے کر دارالعلوم دیوبند تک مستند و معتبر اساتذہ سے تعلیم حاصل کی ہے،مولانا عبیداللہ مبارک پوری رحمۃ اللہ علیہ صاحب مرعاۃ کے شاگرد مولانا عبدالرحمن سلفی سے حافظ بن حجر عسقلانی کی کتاب حدیث بلوغ المرام ( اور اس کی عربی فارسی شروحات) پڑھنے کے دوران ہی حدیث رکانہ کی حیثیت معلوم ہوگئی تھی۔ علمی بحث میں ذاتی حملہ شریفانہ طریقہ نہیں ہے۔ روایت رکانہ چاہے ابو داؤد ووالی ہو یا مسند احمد و مسند یعلی والی، راویوں پر جوکلام ہے اس کے پیش نظر دلیل بنانے کے لائق نہیں رہ جاتی ہے۔ محمد ابن اسحاق ، داؤد بن حصین ، عکرمہ کے ذریعے روایات کاحال اہل علم کو معلوم ہے ۔ تاریخ و سیر کے حوالے سےمحمد بن اسحاق کا درجہ چاہے جتنا بڑاہو ، لیکن احکام شرع اور حلال و حرام کےمعاملے میں ( جیسا کہ رکانہ کامعاملہ ہے) کل ملا کر ناقابل استدلال و احتجاج ہے۔ اس پر تفصیلی بحث تہذیب التہذیب ، لسان المیز ان اور میزان الاعتدال میں علامہ ابن حجر اور امام ذہبی نے کردی ہے۔ (رجال کےسب سے بڑے ماہر امام ذہبی نے طویل بحث کےبعد لکھا ہے کہ حلال و حرام کےمعاملے میں محمد بن اسحاق سےاستدلال و احتجاج صحیح نہیں ہے۔ دیکھیں تذکرۃ الحفاظ ، جلد ۱ ، ص 163) انہیں امام ذہبی نے امام ابو داؤد سےنقل کیا ہے کہ داؤد بن حصین کی عکرمہ سےروایت صحیح نہیں ہوتی ہے۔ بذاتِ خود امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے متعلقہ روایت رکانہ کو داؤد بن حصین کے مناکیر میں شمار کیا ہے۔ (میزان الاعتدال ، جلد اوّل ، ص 317)
مضمون نگار کی رونما شخصیات میں شامل امام شوکانی رحمۃ اللہ علیہ نے ‘نیل الاوطار (کتاب النکاح) میں لکھا ہے کہ رکانہ نےطلاق بتہ ( جس میں نیت کااعتبار ہوتا ہے) دی تھی نہ کہ تین طلاق ، اور یہی ثابت ہے۔ واثبت ماروی فی قصۃ رکانہ انہ طلقہا البتہ لا ثلاثا۔ بحث کے پہلو او رحوالے اور بھی ہیں۔ ضرورت ہوئی تو وہ بھی پیش کردیئے جائیں گے۔ اس روایت کو صحیح یا حسن قرار دینے والوں میں مضمون نگار نے امام بخاری ، ابن حزم، امام حاکم، امام ذہبی ، حافظ ابن حجر وغیر متعلق ہے۔ مسند احمد یا کسی اور کتاب کی کسی روایت (مثلا ابن اسحاق) کی توثیق کرنے سے روایت کی تصحیح و تحسین لازم نہیں آتی ہے ۔ روایت تو ضعیف ہے،جیسا کہ میں نے حوالے سےلکھا ہے۔ بسا اوقات حدیث کی سند صحیح ، حسن ہونے کے باوجود متن میں کچھ ایسی علت اور گڑبڑی ہوتی ہے جس کے سبب روایت قابل عمل و استدلال نہیں رہ جاتی ہے۔ زیر بحث روایت رکانہ کا شمار بھی اسی قسم کی روایتوں میں ہوتا ہے ۔ حافظ ابن حجر نے صریح طور سے لکھا ہے ، یہ روایت معطل ہے ( تلخیص الحبیر ،ص 319) پھر وہ کیسے روایت کو صحیح یا حسن قرار دے سکتے ہیں ؟ مضمون نگار نے یہ نام مغالطہ اور قارئین کو مرعوب و متاثر کرنے کےلئے لکھے ہیں ، ورنہ حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔
اسی طرح مضمون نگار نے تین طلاق کو ایک ماننے والوں میں جن صحابہ رضی اللہ عنہ ، زبیر بن عوام ، عبدالرحمٰن بن عوف، علی ابن ابی طالب ، عبداللہ بن مسعود، ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہم کے نام لکھے ہیں، اس کاکوئی مستند حوالہ معلوم نہیں ہے۔ یہ صرف ہوائی بات ہے۔ اس کے لیے انہوں نے ابن قیم کی اعلام الموفقین جلد 3، صفحہ 386، 387 کا حوالہ دیا ہے۔ مذکورہ صفحات پر تین طلاقوں کو ایک ماننے والے کسی ایک صحابی کا بھی نام نہیں ہے۔ ان مذکورہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے فتاویٰ و روایات تین طلاقوں کو تین قرار دینے کے متعلق موطا امام مالک، مصنف ابن ابی شیبہ ، مصنف عبدالرزاق کےکتاب الطلاق میں موجو د ہیں ، مضمون نگار بتائیں کہ حدیث کون سی مشہور و معروف صریح اور صحیح سند سے مذکورہ صحابہ کی روایات یا فتاویٰ ہیں؟ ابن قیم یقیناًاپنے استاذ امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کی حمایت میں پھسل گئے ہیں، لیکن وہ اتنے کچے اور نا پختہ نہیں تھے کہ مذکورہ صحابہ رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سےبے بنیاد دعویٰ کردیں ۔ و ہ ذہین اور وسیع المطالعہ تھے ۔
انہوں نے تو اپنی کتاب اغاثۃ اللہفان (176۔140) میں واضح طور سے اعتراف کیا ہے کہ مجھے تمام تر تلاش و جستجو کے باوجود حضرت ابن عباس رحمۃ اللہ علیہ کے سوا کسی بھی صحابی کا نام تین طلاق کو ایک قرار دینے والوں میں نہیں ملا۔راقم سطور نے اس کا اردو ترجمہ ‘تہذیب الایمان’ 35۔36 سال پہلے مطالعہ کیا تھا، پھر دارلعلوم دیوبند کے کتب خانہ اصل عربی کامطالعہ کیا تھا۔ بڑی حیرت ہے کہ مضمون نگار کے قبیلے کے لوگ دوسروں سے تو صحیح اور صریح و مرفوع روایت او رمستند حوالے کے مطالبہ کرتے ہیں جب کہ اپنے متعلق اسے فراموش کرجاتے ہیں ۔ تابعین میں عکرمہ اور طاؤس اور تبع تابعین میں سے محمد بن اسحاق ، حارث عسکلی کے سلسلے میں بھی ایک طرفہ طور سے تین طلاقوں کو ایک طلاق دینے والی بات ثبوت اور وضاحت طلب ہے۔ حدیث کی مشہور کتاب مصنف عبدالرزاق اور سنن سعید بن منصور میں عکرمہ اور حارث عسکلی کا فتویٰ و بیان تین طلاقوں کے تین واقع ہونے سے متعلق موجود ہے۔الروضہ الندیہ کوئی حدیث اور اصل ماخذ والی کتاب نہیں ہے ۔ یہ امام شوکانی کی کتاب ہے، لیکن اس میں بھی کوئی مستند حوالہ نہیں ہے۔ البتہ محمد ناصر الدین البانی نے کتاب کی تعلقات میں کچھ دیگر حضرات کی طرح رواروی میں کچھ نام لیے ہیں، لیکن اسے باقاعدہ حوالہ اور ثبوت نہیں کہا جاسکتا ہے۔ شوکانی رحمۃ اللہ علیہ ، البانی رحمۃ اللہ علیہ تو تین طلاق کو ایک ماننے والے فریق سے تعلق رکھتے ہیں ۔ ان کے نام لینے سےبات نہیں بنتی ہے ۔ یہ ائمہ اربعہ کے موقف سے الگ موقف رکھنے والے بہت بعد کے امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کے موقف سے متعلق و متاثر ہونے والوں میں سے ہیں ۔ اصلی معاملہ تو ثبوت کا ہے۔
مضمون نگار نے ہمارے اوپر جارحانہ انداز میں دو الزمام لگاتے ہوئے کہا کہ ہم نے بغیر مطالعہ کے تدلیس و تلبیس سےکام لیا ہے۔
(1) الزام یہ ہے کہ میں نےحضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کو محض ‘‘ایک آدمی’’ کہہ کر صحابی کی تحقیر و تنقیص کی ہے، یہ سراسر بے بنیاد اور غیر ذمہ دارانہ دعویٰ ہے۔ میں نے ‘‘ایک آدمی’’ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کےلیے نہیں بلکہ طاؤس (ابن طاؤس) کے لیے استعمال کیا تھا۔ ہماری شائع تحریر میں دیکھا جاسکتا ہے۔ ہر صحابی عادل ہوتا ہے، راوی کے طور پر اس پر نہ کوئی سوال کیا جاسکتا ہے، نہ تنقید ۔ بحث تو بعد کے راویوں پر ہوتی ہے۔ اتنی چھوٹی سی بات بھی مضمون نگار مسئلے کو تعصب و عناد کے سبب نہیں سمجھ رہے ہیں۔
(2) دوسراالزام اس طرح ہے کہ نعمانی نے بغیر مطالعہ کے اہل حدیثوں اور شیعوں کے موقف کو ایک بتادیا ہے، جب کہ شیعوں کے یہاں ایک مجلس کی تین طلاقیں ایک بھی واقع نہیں ہوتی ہے۔ اس پر ہمارا کہنا ہے کہ دیگر بہت سے حضرات کی طرح مضمون نگار اہل تشیع کی اصل کتابیں پڑھے بغیر بات کررہے ہیں ، اور دوسروں پر مجھے بغیر مطالعہ کے بات کرنے کا الزام لگا کر ناقابل اعتبار باور کرانا چاہتے ہیں، اگر مضمون نگار اپنے گھر کی کتاب فتاویٰ ثنائیہ ( کی دوسری جلد، ص 219) ہی مطالعہ کر لیتے تو میرے اوپر غلط تبصرہ و الزام نہ عائد کرتے ۔ اس میں مولانا ابو سعید شرف الدین دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے تین طلاقوں کو ایک ماننا محدثین کا مسلک بتانے کو غلط قرار دیتے ہوئے نواب سیّد صدیق حسن خاں کی کتاب ‘اتحاف النبلاء’ کے حوالے سے لکھا ہے کہ ‘‘جب شیخ الاسلام ابن تیمیہ ’’ نے تین طلاق کی ایک مجلس میں ایک طلاق ہونے کا فتویٰ دیا تو بہت شور ہوا۔ شیخ الاسلام اور ان کے شاگرد ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ پر مصائب برپا ہو ئے ، ان کو اونٹ پر سوار کر کے درّے مار مار کر شہر میں پھرا کر توہین کی گئی، قید کئے گئے ، اس لیے کہ اس وقت یہ مسئلہ علامت رواقض کی تھی ۔ (ص 318)۔
میں نے اپنی تحریر میں لکھا تھا کہ شیعہ اہل علم کی قلیل تعداد ایک مجلس کی تین طلاقوں کو کالعدم مانتی ہے، لیکن اکثر یت تین کو ایک مانتی ہے، پہلے طبقہ کےموقف کی نمائندگی شیعہ عالم علامہ الحلی نے شرائع الاسلام میں کی ہے، جب کہ جمہور شیعہ کے موقف کا ذکر مسلک کی بنیادی کتاب فروع من الکانی ، جلد 6، ص 71۔70 ، مطبوعہ 1361ھ) پر ہے ، اس کےعلاوہ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ شیعہ مسلک کی بنیادی کتب جامع المدارک اور المبسوط میں بھی یہی لکھا گیا ہے ، نیز اصل اصول شیعہ صفحہ 146 کے علاوہ سیّد امیر محمد کاظمی قزوینی کی کتاب ‘شیعہ احکام و عقائد کے آئینہ میں’ ص 279 سے 281 تک حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر سخت تنقید کرتے ہوئے لکھا گیا ہے: ‘‘تین طلاقوں میں ایک واقع ہوتی ہے، تین طلاق کا رائج کرنے والا خلیفہ دوم عمر ہے۔’’ ( مطبوعہ انصاریان پبلشر، قم جمہوری اسلامی ایران)
اصل میں مغالطہ اور بھرم امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ اور امام ابن قیم رحمتہ اللہ علیہ کے وقت سے ہی چلا آرہا ہے ، جسے بعد کے حنفی ، اہل حدیث، اہل علم اصل کی طرف رجوع کیے بغیر نقل کرتے چلے آرہے ہیں۔ امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ اور امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی مصلحت سےجمہوریہ شیعہ کے موقف کو نقل نہیں کیا، لیکن بات مخفی نہیں رہ سکی ، جیسا کہ فتاویٰ ثنائیہ کے حوالے سے ظاہر ہوتا ہے۔ گزشتہ دنوں جب راقم سطور کی تحریر شائع ہوئی تودیوبند اور ندوہ حلقے سے بھی کئی نے فون پر مضمون نگار کی طرح خاکسار سے کہا کہ تم نے یہ کیسے لکھا کہ شیعہ مسلک میں تین طلاقوں کو ایک قرار دیا گیا ہے، مشہور عالم اور محقق مولانا تقی عثمانی دامت برکاتہم سمیت متعدد حضرات نے تو یہی لکھا ہے کہ شیعوں کے یہاں ایک مجلس کی تین طلاقیں ایک بھی واقع نہیں ہوتی ہیں ، کالعدم ہوتی ہیں، مولانا عثمانی کی کتاب تکملہ فتح الملہم جلد1 ، اور درس ترمذی جلد 3، مدارس کے حلقے اور اساتذہ ، طلبہ میں بہت پڑھی جاتی ہے، لیکن اصل مسئلہ وہی ہے جو راقم سطور یہ بتانا چاہتا ہے کہ دیگر حضرات کے برعکس مشہور بریلوی عالم مولانا رسول سعیدی نے اپنی تفسیر بتیان القرآن جلد اوّل اور شرح مسلم جلد3 میں مسئلے کو حوالے کےساتھ صحیح لکھا ہے ۔ میں مضمون نگار کاشکر گزار ہوں کہ ان کی جارحانہ تنقید کے سبب اپنی بات سامنے رکھنے کاموقع ملا ۔
23 اگست، 2016 بشکریہ : جدید خبر ، نئی دہلی
URL: https://newageislam.com/urdu-section/scholarly-analysis-being-aggressive-issue/d/108412