مولانا عبدالحمید نعمانی
8 جولائی 2021
ڈاکٹر موہن بھاگوت کا حالیہ بیان
(۴؍جولائی۲۰۲۱ غازی
آباد)کئی جہات سے قابل توجہ اور موب لنچنگ، فرقہ وارانہ تشدد ،ہندو مسلم اتحاد کے
تعلق سے قول و گفتار کی حد تک لائق خیر مقدم ہے۔موہن بھاگوت کے بیان کا تناظر سیاسی
کم ، تہذیبی ، سماجی ، تاریخی اور فلسفہ وجود پر مبنی روحانی زیادہ ہے ، جو ہندو فلاسفی
ادویت واد (تصور وحدت الوجود)کی بنیاد پر قائم ہے ،خطاب کے اہم نکات یہ ہیں ۔
(۱)تمام
ہندستانیوں کا ڈی این اے ایک ہے ،چاہے وہ کسی بھی دھرم کے ہوں ۔
(۲)جو لوگ موب لنچنگ میں ملوث ہیں ، وہ ہندوتو مخالف ہیں ، ایسے افراد کو سزا ملنا چاہیے ، اس کے لیے قانون اپنا کام کرے گا۔(۳)ہندو مسلم اتحاد کی بات بھرم ہے کیوں کہ ہندو مسلمان تو پہلے سے ہی ایک ہیں ، پوجا پاٹ کے طریقوں کے اختلافات کی بنیاد پر بھید بھائو نہیں کیا جاسکتا ۔(۴)مذہب سے قطع نظر ہندستانی ایک آباء و اجداد کے اولاد ہیں، وجود واحدہے اور وجود کی وحدت کاسچ ہے (۵)ملک میں اتحاد کے بغیر ترقی ممکن نہیں ہے ۔(۶)ہم جمہوری ملک میں رہتے ہیں یہاں ہندو یا مسلمانوں کا غلبہ نہیں ہوسکتا ،صرف اور صرف ہندستانیوں کا ہی غلبہ ہوسکتا ہے اگر کوئی ہندو یہ کہتا ہے کہ مسلمانوں کو یہاں نہیں رہنا چاہیے تو وہ ہندو نہیں ۔(۷)ہم وطن مفاد کے حامی ہیں ۔(۸)سیاست لوگوں کو متحد نہیں کر سکتی ہے ، سیاست لوگوں کو متحد کرنے کاہتھیار نہیں بن سکتی ہے لیکن سیاست ایکتا کو بگاڑنے کا ہتھیار ضرور بن سکتی ہے۔
ڈاکٹر موہن بھاگوت
-----
(۹)ہندو
ہیں تو ہندو راشٹر تو ہے ،بھاگوت کے خطاب میں کئی باتیں اہم اور سنگھ کے تاریخی تسلسل
سے کچھ الگ نظر آنے والی ہیں، کئی باتیں ذہانت اور گہری منصوبہ بندی پر مبنی ہیں کہ
مذہبی تہذیبی شناخت کے حوالے سے دیگر کے الگ وجود کو واضح اور باقاعدہ طور سے تسلیم
نہیں کیاگیا ہے ۔ دیگر کی آزادی اور وجود کو تنوعات والے بھارت اور ایک جمہوری نظام
میں ضروری ہے ، بھارت میںکوئی ایک تہذیب ، مختلف مذاہب اور روایات کے حامل باشندوں
کے اتحاد کی مشترکہ بنیاد نہیں بن سکتی ہے ان کے لیے مشترکہ بنیا د، وطن ہی بن سکتا
ہے ، اس لحاظ سے ملک کے سارے باشندے ہندی ہیں ، نہ کہ ہندو جیسا کہ ڈاکٹر موہن بھاگوت
اور سنگھ والے کہتے ہیں ، اس سلسلے میں مولانا آزادؒ ، مولانا مدنی ؒ اور گاندھی ،
نہرو کا راشٹرواد بہتر رہ نمائی کرتا ہے نہ کہ گولوالکر ، ساورکر اور بھاگوت کا ہندو
کمیونٹی پر مبنی تصور قومیت ،ہندو سے ہندی تک رسائی کے بعد راشٹر واد اور فرقہ وارانہ
اتحاد کی راہ کی بیشتر رکاوٹیں ختم ہوجائیں گی ۔
جہاں تک وجود کی وحدت کی سچائی
کا مسئلہ ہے اسے اسلام اور اس کے ذی علم نمائندے بہتر طور سے حل کر چکے ہیں ، قرآن
تمام انسانوں کو مکرم قرار دیتے ہوئے بغیر کسی فرق و امتیاز کے ان کی تکریم کا اظہار
و اثبات کرتا ہے ، ایک بے قصور کے قتل کو تمام انسانوںکا قتل قرار دے کر وحدت وجود
کے سچ کو واضح انداز میں جتلا دیا ہے رسول کائنات ﷺ کلکم بنو آدم کہہ کر تمام انسانوں
کو ایک ماں باپ کی اولاد کا اعلان و اظہار کر دیا ہے ۔ ایسی حالت میں مسلم ملت کے لیے
دنیا کے کسی بھی ملک یا خطے میں ڈی این اے کے حوالے سے کوئی بھی رائے و تحقیق وحدت
بنی آدم کے لیے سرے سے کوئی مسئلہ نہیں ہے ۔ ہندستانی فکرو فلسفہ کے تناظر میں ادویت
واد (تصور و حدت وجود) کے سلسلے میں وجود کی وحدت کا مسئلہ صرف نظریاتی حد تک ہے، عمل
تک آج تک نہیں آسکا ہے ، جس کی وجہ سے طبقاتی نظام کے تحت، سماج برہمن ، چھتری ،ویش
اور شودر میں تقسیم ہو گیا اور اس کی بنیاد میں دھرم شامل ہوگیا ۔ وجود کی وحدت کے
سلسلے میں گرو گولوالکر اور ڈاکٹر بھاگوت یکساں نظر یہ رکھتے ہیں ، لیکن شنکر آچاریہ
کی طرح دیگر وجود کو وہم (متھیا)قرار دینے کے باوجود عمل میں نہیں لا سکے، یہ پورے
ہندوتووادی سماج کا معاملہ ہے ،سوامی وویکا نند نے اس کا کھلا اعتراف کرتے ہوئے لکھا
ہے۔
’ میرا تجربہ ہے کہ اگر کبھی کوئی مذہب انسانی مساوات کی منزل تک قابل
لحاظ تک پہنچا ہے تو وہ اسلام اور صرف اسلام ہے ، میرا قطعی خیال ہے کہ عملی اسلام
کی مدد کے بغیر ویدانت کے نظریات خواہ کتنے ہی اچھے اور شاندار ہوں عام انسان کے لیے
بالکل بے فائدہ ہیں ، ہمارے مادر وطن کے لیے دو عظیم نظاموں کا میل ہندو مت اور اسلام
، ویدانت دماغ اور اسلام جسم،واحد امید ہے ، میں اپنے دل کی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں
کہ مستقبل کا معیاری ہندستان ، انتشار و افتراق سے نکل کر ، ویدانت دماغ اور اسلام
جسم کے ذریعہ کامیاب اور فتح مند ہو رہا ہے ‘ (Letters
of Swami Vivekananda صفحہ ۳۷۹سے
۳۸۰)یہ مکتوب ۱۰ جلدوں
میں شائع کلیات وویکانند کی مکتوبات پر مشتمل جلد میں بھی شامل ہے ۔
مسلم مفکرین و اکابر ، شیخ
ابن عربیؒ ، مولانا رومؒ ، مولانا جامیؒ ،فرید الدین عطار ؒ، علامہ مہائمیؒ ،شاہ ولی
اللہؒ ، اسماعیل شہید ؒ،حاجی امداد اللہؒ ، امام قاسم نانوتویؒ ،مولانا سندھیؒ وغیرہم
وجود کی وحدت کے سچ کو بہت تفصیل و وضاحت سے پیش کر چکے ہیں ، ہمیں گروگولوالکر اور
ڈاکٹر بھاگوت کے وجود کی وحدت کے نظریے سے کوئی دقت نہیں ہے ، البتہ اس کی تعبیر و
تشریح قابل بحث ضرور ہے ، جس کی بھارت کی طویل روایات و تواریخ میں بڑی گنجائش ہے ،
ما قبل تاریخ رام چندر اور جبالی رشی کا مکالمہ اور بعد کے دنوں میں آستک ، ناستک،
چار واک ،سناتنی اور بدھ ، جین ، متوں کے درمیان آزاد نہ مباحث اور ماضی قریب میں
دیا نند اور سناتن دھرمیوں کی باہمی بحثوں کی بہت سی مثالیں ہیں ، ڈاکٹر بھاگوت کے
خطاب کے ضروری نکات کے پیش بہتر ڈائیلاگ کا اچھا آغاز ہوسکتا ہے ۔ ڈاکٹر محمد منظور
عالم نے کئی بار باہمی ملاقات و مذاکرات کی ضرورت کی طرف توجہ مبذول کرائی ہے ، گزشتہ
دنوں جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی ڈاکٹر بھاگوت سے ملاقات کر کے عوامی
سطح پر امن و اتحاد کی کوشش اور بات کہنے پر توجہ مبذول کراچکے ہیں۔
اس تناظر میں ڈاکٹر بھاگوت
نے جو باتیں کہی ہیں ان کو بات چیت کر کے عمل تک لانے کی باہمی جدو جہد ملک کے حق میں
ہونا چاہیے ، اگر انھوں نے اپنی شبیہ بہتر کر نے کی کوشش کی ہے تو غلط کیا ہے ؟۔معاملہ
سیاسی کے بجائے انسانی تکریم کے پس منظر میں سماجی ، تہذیبی اور سب کی آزادی اور وجود
کا اقرار اور جیو اور جینے دو سے زیادہ ہے ۔ اسے ڈاکٹر بھاگوت بھی دہلی کی دو روزہ
،۱۷،
۱۸ ستمبر
۲۰۱۸ کے
تفصیلی خطاب میں اعلان و اظہار کر چکے ہیں۔ حالیہ خطاب سے کئی ہندو وادی تنظیمیں اور
سیاسی عناصر برہم ہیں اور گرو گولوالکر کی فکر سے انحراف قرار دے رہے ہیں،یہ آئندہ
بھی ہوگا ہمارے دانشوروںاور قائدین کو حالیہ خطاب اور ستمبر ۲۰۱۸کی تقریروں کے مجموعہ’ مستقبل
کا بھارت‘ کا سنجیدہ مطالعہ کر کے مبنی بر حقیقت تجزیہ قائم کرنا چاہیے۔نظریاتی بحث
تو سامنے ہے ، تاہم عملی حالت اور ہندو مسلم کے نام پر جاری نفرت اور پارٹی تنظیم سے
وابستہ لیڈروں کے بیانات اور ان کے خلاف موثر کارروائی نہ ہونے کی وجہ سے کئی طرح کے
سوالات و تضادات ، قول کو بے معنی کر دیتے ہیں ، جب تک عملی حالات اور بیانات میں موافقت
پیدا نہیں ہوگی ، تب تک نظریہ ،سوال کی زد میں رہے گا۔ ڈاکٹر بھاگوت کے فکرو عمل کے
تعلق سے بہت سی باتیں اور تحریریں ، کتابی شکل میں آچکی ہیں ، سب کے مطالعے اور جائزے
سے ماضی ، حال ،نظریہ وعمل کے رشتے کو زیربحث لانے اور صورت حال کو سمجھنے کی ضرورت
ہے ، یہ کہنے کی بھی ضرورت ہے کہ اگر بہ قول ڈاکٹر بھاگوت بھارت میں اسلام خطرے میں
نہیں ہے تو ہندو مت بھی خطرے میں نہیں ہے ان کی ہندوتو پر مبنی فلاسفی کے تحت، آزادی
کے حق کے تناظر میں کسی عقیدہ و عمل کو اختیار کرنا ، سچائی سے سچائی کی طرف آنا ہے
نہ کی تبدیلی مذہب ، سی اے اے وغیرہ کے ذریعہ شہریوں کے درمیان تفریق اور بھید بھائو،
آئین کے خلاف ہونے کے ساتھ ، ہندو مسلم کے ایک ہونے کے دعوے پر بھی سوال کھڑا کرتا
ہے۔ اس طرح کی تفریق کا خاتمہ ہی ڈاکٹر بھاگو ت کے نظریہ و دعویٰ کو با معنی اور ثمر
آور بنا سکتا ہے ۔
8 جولائی 2021، بشکریہ: انقلاب،
نئی دہلی
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism