مولانا عبدالحمید نعمانی
8 نومبر، 2016
اسلامی شریعت کی خصوصیات جہاں بہت سے دیگر معاملات میں ہیں، وہیں نکاح و طلاق کے معاملے میں بھی ہیں ۔ اس تعلق سے کئی جہات اور سطحوں پر بحث و گفتگو کی ضرورت ہے۔ اگر اہل لوگ، چرچے میں حصہ لیں گے تو انشاء اللہ اسلامی شریعت کی خوبیاں و خصوصیات ہی سامنے آئیں گی اگر بحث و گفتگو کے فریقین مسلم ہوں گے تو داخلی سطح پر اسلامی شریعت اسلامی احکام جج و ہدایت کی مختلف تعبیرات و تشریحات میں سے انتخاب کامسئلہ اہم ہے اور بحث میں حصہ لینے والے مسلم، غیر مسلم ہوں گے تو مسلم نمائندے کو سامنے والے کےمذہبی احکام و نظریات کا تقابلی تجزیہ بھی کرنا ہوگا کہ وہ اسلامی شریعت پر مبنی احکام و ہدایت پر مذہبی و عقلی نقطہ نظر سے کس جہت و لحاظ سے امتیاز و خصوصیت رکھتے ہیں ۔ اردو میں تو نہیں لیکن انگریزی ،ہندی اور علاقائی زبانوں کے ذرائع ابلاغ میں غیر مسلم لکھنے والے جس طرز و اسلوب اور واقفیت سےاظہار و خیال کررہے ہیں، اس سےمسئلہ صاف ہونے کے بجائے مزید بھرم ہی پھیل رہا ہے او ران کی خاموشی گویائی سےبہتر معلوم ہوتی ہے،بہت سےمسلمان نام والے کی آدھی ادھوری او رکچی پکی باتیں بھی بھرم کو تقویت دے رہی ہیں۔
وزیر اعظم نریندر مودی نے ،سنگھ بی جے پی سمیت تین طلاق کے معاملے کو مرد و عورت کے مساوی او رانسانی حقوق سے جوڑ کر دیکھا ہے،وہیں انہوں نے یہ اچھی رائےبھی دی ہے کہ قرآن کے ماہرین، متعلقہ معاملے پر اظہار خیال کریں، لیکن اب تک یہی نظر آرہا ہے کہ دینے کے بعد بھی تین طلاق کے وقوع ( ہونے) پر یا اس پر روک لگانے پر وہ لوگ اپنی رائے دے رہے ہیں جنہوں نے نہ تو باقاعدہ قرآن و سنت کے مستند اساتذہ سے تعلیم حاصل کی ہے اور نہ ہی انہوں نے اسلامی شریعت کامطالعہ علمی قواعد و ضوابط کے مطابق کیا ہے، بیشتر کو یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ مشروع اور موثر میں فرق کیا ہے؟ اور اب شیوسینا کےسابق او ربی جے پی کےموجودہ لیڈر پریم شکلا او رمسلم نام والے کچھ حضرات یہ کہنے لگے ہیں کہ قرآن حکیم میں تین طلاق کا ذکر ہی نہیں ہے ، دوسری طرف بغیر کسی صحیح سبب کے بیک وقت تین طلاق کو مجرمانہ اور قابل سزا کارروائی کا ذکر کیے بغیر طلاق کے فلسفہ اور اس کو خوبی و خصوصیت کے طور پر پیش کیا جارہا ہے حالانکہ وہ ایک محض ناگزیر ضرورت ہے۔ شوہر بیوی کےازدواجی تعلقات بگڑ جانے اور نباہ نہ ہونے کی صورت میں علیحدگی کے لیے طلاق کی ضرورت کو تمام مذاہب والے اور عالمی قوانین میں تسلیم کیا گیا ہے ، اس لیے نفس طلاق کی ضرورت اور فلسفے پر لکھنے بولنے کی فی الحال کوئی خاص ضرورت نہیں ہے، سردست اصل سوال یہ ہے کہ شریعت کی ہدایت کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ملی مہلت کو نظر انداز کرکے دی گئی تین طلاقیں ہوں گی یا نہیں اور وہ جرم ہے یا نہیں، کتاب و سنت اور فقہ اسلامی کی صحیح تعبیرات و تشریحات کے پیش نظر مذکورہ دونوں سوال و تشریحات کے پیش نظر مذکورہ دونوں سوال کا جواب ہاں میں ہے۔ تینوں طلاقیں ہوجائیں گی اور ایسا کرنا جرم بھی ہے ۔ وقوع (ہونے) کو تسلیم نہ کرنا، اور بغیر صحیح سبب تین طلاق دینے کو جرم قرار نہ دینا اور جرم مانتے ہوئے کسی قسم کی سزا کی بات کو نظر انداز کر دینا دونوں غلط اور صواب و صحت کے خلاف ہے۔ اصل میں غلط طریقے سےطلاق دینے پر روک لگانا ہر ممکن طور پر روکنا ضروری ہے ، نہ کہ ہونے سے روکنا۔ آدمی کے اختیار میں غلط عمل سے رک جانا ہے لیکن عمل کے بعد اس کے نتیجے اور وجود سے انکار نامعقول اور سراسر ہٹ دھرمی ہے۔ اسلامی مذہب و شریعت کے ساتھ تمام تر مذاہب او رعالمی قوانین میں صحیح و غلط عمل کو موثر اور اس کے نتیجے و وجود کو مانا گیا ہے۔ روز اسی کے مطابق حکم و کارروائی عمل میں لائی جاتی ہے، لیکن پتا نہیں کیا بات ہے کہ طلاق کےمعاملے میں اسے تسلیم نہیں کیا جاتاہے۔
یہ دعویٰ قطعی بے بنیاد ہے کہ قرآن میں تین طلاق کا ذکر نہیں ہے، قرآن کی آیات او راس کےاسلوب بیان سے الگ الگ وقفے اورمہلت سےطلاق دینے کی رونما ئی ملتی ہے ، اس کی پوری وضاحت و صراحت احادیث او رفقہ اسلامی میں ملتی ہے، میاں بیوی میں نامواقفت کی صورت میں پاکی کی حالت میں جس میں جسمانی تعلق قائم نہ کیا گیا ہو، ایک طلاق دے کر چھوڑ دیا جائے، یہ یہی بہتر اور احسن طریقہ ہے ، اس میں رجوع کی گنجائش اور سوچنے سمجھنے کاموقع رہتا ہے۔ اگر عدت کی مدت گزر جائے تو بغیر دوسرے مرد سے شادی کے تجدویز نکاح کیا جاسکتا ہے، دوسرا کم بہتر ( حسن) طریقہ یہ ہے کہ بغیر جنسی فطری تعلق بنائے وقفہ وقفہ سےہر مہینہ ، پاکی کی حالت میں بھی تیسری طلاق دینے سے پہلے تک سوچنے ، سمجھنے کی مہلت اور گنجائش رہتی ہے ۔ یہ طریقہ سنت ہے ، یعنی طلاق دینے پر گناہ نہیں ہوگا، یہاں سنت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ طلاق دینے پر ثواب ملے گا یا کوئی نیک کام ہے۔ نکاح یقیناً نیک کام او رنسل انسانی کی افزائش کے پیش نظر خالق کائنات کے تخلیقی مقاصد کی تکمیل میں معاون ہے، لیکن طلاق تو پختہ عہد ( قرآن کی اصطلاح میں میثاق غلیظ ) کو توڑنے والا ہے، وہ اصلا ناپسندیدہ رہ گی، اسے صرف ناگریز حالت میں ناخوشگوار اور ازدواجی زندگی سے نکلنے کی راہ اور ضرورت کے طور پر ہی دیکھا جاسکتا ہے۔
اسے خوبی کی شکل میں پیش کرنا کوئی راست رویہ نہیں ہے ، جیسا کہ کچھ لوگوں کی تحریروں او ربیانات سےمترشح ہوتا ہے۔ اس کےبرعکس طلاق کو ناموافق ازدواجی سےباہر نکلنے کی ناگزیر ضرورت کے بجائے انسانی اور صنفی مساوی حقوق کے تحفظ او ربحالی سےجوڑ کر دیکھنا بھی غلط اور خلاف حقیقت اور معاملے کو غلط سمت میں لے جانے کی غیر ضروری کوشش ہے۔ لیکن یہ ایسا لگتا ہے کہ سیاسی و سماجی محرکات کے پیش نظر جاری رکھی جائے گی، اس کامطلب یہ نہیں ہے کہ مسلم ملت اس کو نظر انداز کردے او رغلط عناصر کو ہر غلط صحیح بولنے لکھنے کی چھوٹ دی جائے ۔ بلکہ ایسے حالات کا صبر و تحمل اور پا مردی سے مقابلہ کرنا ہوگا او راسی بہانے سے شرعی احکام اور اسلامی عائلی قوانین کی خوبیوں او رمصلحتوں کو سامنے لانے کاکام کرنا چاہیے ، عقل و بصیرت کا تقاضا ہے کہ شر میں خیر کے پہلو کو تلاش کیا جائے جو کچھ بھی ہورہا ہے وہ قدرتی نظام کے نقشے کے مطابق ہے، شیطان بھی خالق کائنات کےتخلیقی منصوبے کا حصہ ہے تاہم اس کے شرو شرارت کی مخافت و مزاحمت کی خالق قدیر کی نازل کردہ شریعت نے ہدایت بھی دی ہے۔ یقینی طور سےاگلی منزل تین طلاق کےبہانے سے یونیفارم سول کوڈ کی توضیع و نفاذ ہے۔ مگر سردست اس کو لے کر مسلم اقلیت کو زیادہ پریشان ، ہونے کی ضرورت نہیں ہے کہ اس کے خاکہ اور قانونی مسودہ کی تیاری میں اس سے کہیں بہت زیادہ پریشانی متعلقہ حکومت کے سامنے ہے،دیگر اقلیتوں او ر مختلف روایات و مراسم کی حامی کمیونیٹز او راقوام و قبائل کو یونیفارم سول کوڈ کے قبول کرنے کے لیے تیار او رآمادہ کرنا آسان نہیں ہے۔
یہ تقریباؑ معلوم شدہ بات ہے کہ اکثریت کے لیے ہی بنائے قوانین کو ہی یونیفام سول کوڈ کی شکل میں ملک کے تمام مذاہب والے اور مختلف روایت و مراسم کی حامل اقوام و قبائل پر نافذ کیا جائے گا ۔ اس پر بہت سےشواہد ہیں، اس سلسلے میں تین سو صفحات پر مشتمل کتا ب ہندو تو، اہداف و مسائل میں بھی راقم سطور نے روشنی ڈالی ہے۔ ہندو تو وادی تنظیموں کےلیے الگ اسلامی شناخت ، ناقابل برداشت ہے۔ تین طلاق اور دیگر مسائل کے اٹھانے کا کوئی اور مقصد نہیں ہے، تیسرے چوتھے درجے کی قیادت کو کھلے عام ہندوتو کی روایات کاحصہ بن جانے پر پورے ملک کے باشندوں پر زور ڈال رہی ہے۔ لیکن اعلی اور دوسرے درجے کی قیادت کا طرز تخاطب و عمل تھوڑا شریفانہ او رہمدردانہ شکل لیے ہوئے ہے ۔ لیکن دونوں میں بنیادی طور پر کوئی فرق نہیں ہے ، جیسا کہ سنگھ نمائندہ ایم جی ویدیا کے بیان سے واضح ہوجاتاہے کہ مسلم پرسنل لاء اختیار کرنے پر ووٹ کے حق کو ترک کرنا ہوگا۔ اس ذہنیت کو تین طلاق کے متعلق سنگھ کی اعلی قیادت اور وزیر اعظم نریندر مودی کے علاوہ وینکیانائیڈو ، روی شنکر پرساد ، وجیندر گپتا جیسے درجنوں حضرات کی باقاعدہ تحریروں اور بیانات میں دیکھا جاسکتا ہے۔ اب اس سمت میں مسلم راشٹر یہ منچ کو بھی بڑھا دیا گیا ہے۔ اس سلسلے کی تمام تر سر گرمیوں اور تحریروں او ربیانوں کا علمی و قانونی جائزہ لے کر اصل حقائق و مسائل کو سامنے لانے کی بڑی ضرورت ہے، جذباتی رد عمل کا غلط سیاسی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اس سلسلے میں علمی و قانونی سنجیدہ بحث و تعبیر ہی نتیجہ خیز ہوگی ۔ تمام تنظیموں کی طرف سے اظہار یک جہتی اور دستخطی مہم سےبہتر اثرات و نتائج کی امید ہے، اس سلسلے میں او ربھی کئی پہلو ہیں جن پر توجہ کی ضرورت ہے۔
8 نومبر، 2016 بشکریہ : روز نامہ جدید خبر ، نئی دہلی
URL: