مولانا عبدالحمید نعمانی
4 جولائی، 2013
مرد ، عورت کارشتہ جب تک اس میں تقدس نہ ہو باتو قیر نہیں ہوسکتا۔ خصوصاً جسمانی اور جنسی تعلق اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی ذمہ داریوں کا معاملہ بہت نازک ہوتا ہے، اگر اس رشتے پر مذہب یا سماج، کسی بھی طرف سے انگلی اُٹھے ،یا حقارت کی نظر پڑے تو باہمی رشتے کا مقصد ٹوٹ جاتا ہے۔ اس سلسلے میں اصل اہمیت مذہب یا سماج کی طرف سے ملنے والی اجازت اور توقیر و تکریم کی ہے، اس میں کوئی بھی قانون بہت بعد میں سامنے آتا ہے ، سماج او رمذہب کو نظر انداز کر کے آج تک کوئی بھی قانون، اپنی معنویت و افادیت ثابت نہیں کرسکا ہے او رنہ ہی با اعتماد اور بہتر معاشرے کی تشکیل کر سکا ہے۔
اس سلسلے میں جذباتی ہونے کے بجائے پیدا شدہ مسئلے کا سماجی اورا قتصادی طور پر مرتب ہونے والے اثرات کا جائزہ لینا چاہیے کہ اس کےکیا مثبت و منفی تنائج برآمد ہورہے ہیں او رمذہب اس میں کہاں تک رہنمائی کرتا ہے۔ یورپی مغربی تہذیب و روایت اور کچھ مشکوک و مبہم مشرقی روایات کے مد نظر سماج کے ایک حصے میں مذہب او ربہتر سماجی اقدار کو نظر اندازکرنا یا ان پر تنقید ، ایک فیشن کی شکل اختیار کرتی جارہی ہے،بغیر شادی کے دو بالغ مرد و عورت کے جسمانی تعلق کو جرم کے زمرے سےباہر رکھنا یا قانونی جواز فراہم کر نے کا معاملہ اسی ذیل میں آتا ہے، مگر مدراس ہائی کورٹ کا اس کےمتعلق فیصلہ کےجنسی تعلق، شادی کے ہم معنی ہے، کے دور رس اثرات مرتب ہوں گے اور کئی طرح کے ایسے سماجی و اقتصادی مسائل پیدا ہوں گے جن کی زد میں وہ افرا دبھی آئیں گے جو کسی لڑکی/ عورت سے جنسی جسمانی تعلق کو محض عیاشی و تفریح سمجھتے رہے ہیں۔
مدراس ہائی کورٹ کے فیصلے پر ایسے افراد بھی اعتراض کررہے ہیں ، ان کی تنقید کے پس پشت ایک خاص ذہنیت کار فرما ہے ، آزاد جنسی تعلق کے حامی لوگوں کو لگ رہا ہے کہ اس عدالتی فیصلے سے ہم بری طرح پھنس جائیں گے اور آوارگی کامحفوظ راستہ بند ہوجائے گا کہ محض جنسی و جسمانی تعلق ہی شادی کے ہم معنی ہے، جو شوہر بیوی کے رشتے کو بتانے کےلئے کافی ہوگا اور جائیداد میں حق بن جائے گا ۔ سماج کے اس غیر ذمہ دار اور مادر پدر آزاد ا س طقبہ کو دوغلے پن اور جنسی آوارگی پر قدغن لگانے کی اور کیا کیا صورتیں ہوسکتی ہیں، جو عمل میں شامل تو ہوتا ہے لیکن اس کے نیتجے اور ذمہ داریوں کو قبول کرنے سے راہِ فرار اختیار کرتاہے۔ عورت کی آزادی ،اختیار اور عزت و حیثیت کی بات کرتا ہے، مگر اسے استعمال کی وقتی شے تصور کرتے ہوئے کچھ دنوں کے بعد استعمال کر کے سماج کے کوڑے دان میں پھینک دیتا ہے۔
مدراس ہائی کورٹ کا فیصلہ اصلاً اسی طبقے کے شادی سے پرے جاکر مرد، عورت کے درمیان قائم جنسی و جسمانی رشتے اور اس کے نتیجوں کو لے کر ہے، اور اتفاق کی بات ہے کہ مرد، عورت دونوں مسلمان نام والےہیں، عائشہ بنام وزیر حسن مقدمہ کایہ فیصلہ جہاں کئی سوالات کی دعوت دیتاہے، وہیں کئی معاشرتی و آئینی مسائل بھی پیدا کرتا نظر آتا ہے۔ یہ معاملہ صرف مذہبی تناظر میں حلال و حرام سے ہی تعلق نہیں رکھتا ، بلکہ آئینی و سماجی اعتبار سے بھی مرد و عورت کے رشتے کی غلط تشریح و تعبیر کی طرف بھی لے جاتاہے۔ اس طرح کے فیصلے سے مذہب و سماج کی فراہم کردہ راہ سے الگ ڈگر پر زندگی گزارنے والی عورت کو برائے نام اقتصادی اور آئینی تحفظ یقیناً مل جاتا ہے ، لیکن اس سے شادی بیاہ جیسے عالمی ادارہ اور نظام کو تباہ کرنے کی راہ بھی ہموار ہوتی ہے اور اس کی ضرورت و افادیت کے انکار و انہدام کی راہ بھی ہموار ہوتی ہے ۔
حالانکہ ا س قسم کے واقعات بذاتِ خود شادی بیاہ کے عالمی نظام کی اہمیت و ضرورت پوری طرح ثابت کررہے ہیں، مذہب خصوصاً اسلامی شریعت کے حوالے سے جنسی و جسمانی تعلق کے لیے شادی کی ضرورت ، ایک تسلیم شدہ بات ہے،اس میں شادی ایک معاشرتی معاہدہ کےساتھ مذہبی عمل او ر عبادت کا پہلو بھی رکھتی ہے ۔ ایک مسلمان ہونے کے ناتے مسئلے کا یہ پہلو ہمارے لیے سب سے اہم اور اوپر ہے، تاہم مرد، عورت کے رشتے کا سماجی تقدس و توقیر کے حوالے سے بحث و گفتگو زیادہ نتیجہ خیز اور بلا امتیاز مذہب و فرقہ سب کے لیے زیادہ قابل فہم توجہ ہے، ‘‘ لو اِن رلیشن شپ’’ پر یقین رکھنے والے مرد و عورت ، مذہب اور اس کے تصور حلال و حرام پریقین کہا ںرکھتے ہیں کہ اس کے حوالے سےبات چیت کی جائے ۔ لو اِن رلیشن شپ کےمعاملے پر بالغ لڑکیوں ، عورتوں کو سوچنا چاہیے کہ یہ رشتہ انہیں کہاں پہنچا رہا ہے، مذہب کا نام اور حوالے کے بغیر اگر زندگی کی معنویت و توقیر کے تناظر میں شادی سے پرے جاکر محض دو بالغوں کی اپنی مرضی سے جنسی تعلق کی پائیدار ی اور تحفظ کو دیکھا جائے تو لو اِن رلیشن شپ کا اصلاً وجود کہاں ہے؟
جس تعلق کا آغاز ہی کسی بھی وقت ختم ہو جانے کے کھٹکے او ر دھڑ کے کے ساتھ ہو ،اسے محبت کا تعلق ورشتہ قرار دینا سراسر حماقت ہے، آغاز ہی میں انجام کا خوف، آدمی کی زندگی کو موت میں بدل دیتا ہے، اس میں عدالتی فیصلے معاون ثابت ہورہے ہیں، قانون عمر میں لڑکا، لڑکی کے معروف شادی کےبغیر جسمانی و جنسی تعلق سپریم کورٹ بھی بار ہا جواز فراہم کرچکا ہے، اس سلسلے میں رادھا ، کرشن کے تعلق کا حوالہ بھی سپریم کورٹ کے فیصلے میں دیا جاتا رہا ہے، یہ تو سب کومعلوم ہے کہ رادھا ،کرشن کی معروف معنی میں بیوی نہیں تھی، اور خصوصی تعلق کے بعد بھی، بیوی نے اُس وقت او رنہ آج بھی تسلیم کی گئی ہے۔
گزشتہ دنوں ‘‘ لو اِن رلیشن شپ ’’ کے تناظر میں شائع رپورٹ میں دکھا یا گیا ہے کہ کس طرح سماجی اور اقتصادی لحاظ سے کمزور طبقے کی عورتوں سے جسمانی و جنسی تعلق بنانے کے بعد ان کو بچوں سمیت ، وقت کی تکلیف دہ مار کھانے کےلئے چھوڑ دیا گیا ہے، ان عورتوں کا تعلق کمزور دلت سماج سے ہے۔ کیرالہ کے ایس سی/ اسی ٹی شعبہ نے اس سروے میں ایسی 563 دلت عورتوں کا ذکر کیا ہے، جو مردوں کے جنسی تعلق کے بعد درکنار کردیے جانے کے بعد تنہا تنہا اپنی او راپنے بچوں کی زندگی کی گاڑی کھینچ رہی ہیں، دیگر سروے میں بھی صورتِ حال کا جائزہ پیش کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ چھوڑ دی گئی ایسی عورتوں کی اکثریت کا تعلق دلت اور آدی واسی سے ہے، اس پس منظر میں بھی مدراس ہائی کورٹ کےفیصلے کو دیکھا جارہاہے، یقیناً فیصلے کا یہ پہلو بالکل نیا ہے کہ بالغ مرد اور عورت کامرضی سےجنسی تعلق اور شادی یکساں ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ ایسے مردوں کو سزا دینے اور اپنے کیے کامزہ چکھانے کا اور کیا طریقہ ہوسکتا ہے، جو لڑکیوں ، عورتوں سےجنسی تعلق بنا کر لطف و لذت حاصل کرتے ہیں اور پھر عورت اور بچے کو چھوڑ کر منہ اُٹھا کر دوسری سمت چل پڑتے ہیں۔ یقینی طور سے ایسے لوگ مذہب او رسماج کی مقدس عالمی قدر و روایت کے انہدام کے مجرم ہیں، ان دونوں جہت سے انہیں سزا کا سامنا کرنا ہی ہوگا۔ موجودہ آئینی نظام کے تحت بھی وہ اپنے عمل کےنتیجے سے خود کو بچا نہیں سکتے ہیں۔
مدراس ہائی کورٹ کے فیصلہ کا خاص زوراس پر ہے کہ جب ایک بالغ مرد، عورت جسمانی تعلق قائم کرچکے ہیں ، اور اس کانتیجہ بھی اولاد کی شکل میں آچکا ہے تو مرد محض اس بنیاد پر خود کو ذمہ داری سے بچا نہیں سکتا ہے کہ عورت کے پاس شادی کا کوئی ثبوت یا دستاویز نہیں ہے، ایسی صورت حال، اسلامی شریعت کےمطابق انجام پانے والی شادی میں پیدا نہیں ہوتی ہے کہ اس میں مجلس ، دو گو اہ اور دیگر ثبوت ہوتےہیں، اس سے عورتوں کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ مذہب اور سماج کی بہتر مسلمہ جاری روایات و اقدار ، ان کے حقوق و عصمت کی ، نام نہاد تہذیب سے زیادہ محافظ ہیں، اگر مذہب اور جاری روایت کے مطابق عائشہ کا رشتہ وزیر حسن سےقائم ہوتا تو اسے عدالتوں میں اپنے رشتے کو ثابت کرنے کےلیے اتنے پاپڑ بیلنے کی زحمت نہ کرنی پڑتی ۔ اس طرح کے سماجی مسئلے پر وسیع پیمانے پر بحث و گفتگو کی ضرورت ہے کہ کون سا نظام حیات انسان ( مرد، عورت) کے لیے اپنانے کے لائق ہے اور آج اور آنے والے دنوں میں بھی بہتر زندگی گزارنے کےلئے مؤثر و مفید ہے؟ مدراس ہائی کورٹ کے فیصلے کے اثرات و نتائج کو لے کر مختلف جہات سےبحث و گفتگو ہورہی ہے ، لیکن اس کے کئی پہلو اور سوالات ایسے بھی ہیں جو چھوٹ رہے ہیں ۔ بہت ممکن ہے کہ مدراس ہائی کورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جائے ۔ چنددنوں پہلے خاکسار کے پاس حضرت نظام الدین سےعرفان ملک نامی آدمی کافون آیا کہ ایک درجن سے زائد اولاد ہونے پر کیا نکاح پڑھانا ہوگا۔ کلکتہ جیسے بڑے شہر تک میں کالی دُرگا کی مورتی بنانے والوں کی بڑی تعداد مسلمان نام والے ہیں، ہم کہاں دعوت و تبلیغ کاکام کررہے ہیں ،مدراس ہائی کورٹ کا فیصلہ بھی سماج کے ایک تاریک پہلو کو ظاہر کرتاہے کہ ہم اب بھی کہاں کھڑے ہیں؟ اور کہاں تک جانے کی ضرورت ہے۔
4 جولائی، 2013 بشکریہ : انقلاب ، نئی دہلی
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/madras-high-court-order-raises/d/12610