مولانا عبدالحمید نعمانی
19 مئی ، 2016
آج سے 30،35 برس پہلے تک ، دیوبند کا نیا دین، بریلی کا نیا دین اور دیوبند سے بریلی تک وغیرہ کے عنوانات سےکتابیں لکھی جاتی تھیں ۔ جن میں ایسی باتیں درج ہیں لہجن سے دیوبند ، بریلی سےاور بریلی دیوبند سے پہلے سے بھی زیادہ دورہوجانے کی راہ ہموار ہوتی تھی ۔حالانکہ دیوبند بریلی کا فاصلہ بدستور 299 کلومیٹر کا باقی ہے ، لیکن 11/9 کے بعدعالمی سطح پر خصوصا ہندوستان میں دہشت گردی کے نام پر جس طرح مسلمان ، مدارس، مساجد کو مصائب و مشکلات کی شکل میں پیش کرنے کا سلسلہ شروع ہوا ، اس نےدیگر کےساتھ اہل بریلی، اہل دیوبندی دونوں کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیا ہے۔ جیسا کہ شیعہ سنی میں سے بہت سو ں کو خصوصاً عوام او رنوجوانوں میں کم از کم ملی و سیاسی اور سماجی طور سے اتحاد کی ضرورت بڑی شدت سےمحسوس کی جارہی ہے ۔ ملک و ملت کے مشترکہ مسائل و امور پر منعقد ہونے والے بڑے چھوٹے اجلاس، کانفرنسوں میں مختلف مکاتب فکر کے نمائندے مسائل پر ایک آواز میں بولتے نظر آتے ہیں ۔ اس کے بر عکس علاحدگی اور مخالفت کی آوازیں لگا نے والے عموماً کنارے لگ جاتے ہیں یا اپنی باتیں بین السطور میں اس انداز سے کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ لگے کہ اتحاد کی کوشش کی جارہی ہے۔
گزشتہ دنوں ایک دو پروگراموں کی الگ لگنے والی باتوں سے بلا امتیاز مسلک و فرقہ، مسلم امت کےبڑے حلقے میں ایک بے چینی سے نظر ٓاتی تھی ۔ یہی وجہ ہےکہ جب خانوادہ اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خاں کےمولانا توقیر رضا خاں نے اچانک دیوبند جاکر مشترک ملی امور میں فرقہ پرستی کامقابلہ کرتے ہوئے اتحاد کا پیغام دیا تو ماحول میں امید ومسرت کی ایک لہر سی دوڑ گئی ۔ ہم یہ ذاتی طور سے جانتے ہیں کہ مولانا توقیر رضا خاں ارد گرد کے موافق ماحول کے باوجود ہندتو کے پھیلتے دائرے اور صہیونی طاقتوں کے پیدا کردہ حالات میں اپنے مسلک و عقیدے کو ترک کیے بغیر ملک و ملت کےمشترکہ امور جیسے دہشت گردی کی روک تھام کے نام پر مسلم نوجوانوں کی گرفتاری اورمسلم سماج میں دہشت و مایوسی پیدا کرنے کی کوششوں کےخلاف جد وجہد وغیرہ میں اتحاد کی ضرورت و اہمیت کو بڑی شدت سےمحسوس کررہے ہیں ۔ کئی نشستوں کی بات چیت میں بذات خود دیکھا کہ وہ مسلکی اختلافات کی شدت کے پیش نظر کام کو مشکل محسوس کرتے ہوئے بھی مشترک ملی و سیاسی امور میں ضروری حد تک اتحاد چاہتے ہیں ۔ لیکن کچھ لوگ ہیں جو آج بھی ایسا نہیں چاہتے۔ مولانا توقیر رضا خاں کے دیوبند جاکر پیغام اتحاد دینے کے عمل کو بھی اسی نظر سے دیکھا جارہا ہے ۔ ایسے لوگ مخالفت کے جوش میں یہ جاننے سمجھنے کی زحمت نہیں کرر ہے ہیں کہ اتحاد ہمیشہ مشترک امور پر ممکن ہوتا ہے ، نہ کہ متنازع مسائل پر ۔ دیوبند کے چنداکابر کی تکفیر (کافر قرار دینے) کامسئلہ متنازع ہے۔ اس پر بحث و مناظرہ کی ایک طویل تاریخ ہے اور اس پر سوال در سوال اور جواب در جواب میں دونوں طرف سے اتناکچھ کہالکھا جاچکا ہے کہ ایک بڑی لائبریری تیار ہوسکتی ہے ۔ جب نظریاتی اختلافات پر مبنی چاہے اس کےمحرکات و اسباب کچھ بھی ہوں ۔ کوئی مکتب فکر یا مسلک وجود میں آجاتا ہے ، تو اس کو ختم کرنا عملاً ممکن نہیں ہوتا ہے۔صرف انفرادی سطح پر کچھ افراد ہی ادھر ادھر ہوتے ہیں، اس کو مولانا توقیر رضا خاں بھی جانتے سمجھتے ہیں ۔ اسی لیے دو عقائد و مسالک کی تبدیلی اور خاتمہ پراتحاد کی بات نہیں کررہے ہیں، بلکہ ایسے مشرک امور میں اتحاد کی بات کررہے ہیں ، جن کے نفع و نقصان کا تعلق بلا امتیاز مسلک و فرقہ پوری ملت اسلامیہ سے ہے۔
اس واضح موقف کے باوجود غیر متعلق دوسری تیسری باتوں کو بنیاد بنا کر اتحاد کی راہ میں دیوار کھڑی کرنا کوئی مخلصانہ رواست رویہ نہیں ہوسکتا ۔ ملت ، مسلک سےبڑی ہے، یقیناً مسلکی شدت پسندی او راس کے زیر اثر کافر قرار دینے کے موقف سے اتحاد کے فروغ میں رکاوٹ او رغلط اثر پڑتا ہے۔ اسےموجودہ حالات میں اوپر رکھنا ملت کےحق میں خیر خواہی نہیں کہی جاسکتی ہے۔ اگر ایمان داری او ردیانت داری سےمتنازعہ مسائل کا جائزہ لیا جائے تو وثوق سےکہا جاسکتا ہے کہ شدت میں 50 فیصد کی کمی یقیناً آجائے گی۔ زیادہ تر مسائل میں تعبیرات اور الفاظ کے طریق استعمال کا دخل ہے۔ راقم السطور نےبریلوی دیوبندی اختلافات پر مبنی بیشتر تحریروں کا مطالعہ کیا ہے۔
نمائندہ شخصیات کی قریب قریب تمام اہم تحریروں کا مطالعہ کیا ہے۔ اس بنیاد پر کہہ سکتا ہے کہ بیشتر اصل باتوں میں تقریباً اتفاق ہے۔ دونوں فریق زیادہ تر اصل معاملے میں ایک جگہ کھڑے ہوجاتے ہیں ۔ زائد جو باتیں ہیں ان کےمتعلق بیشتر دعوے کے مطابق کتاب و سنت ، محدثین ، مجتہدین ، فقہا سے صریح حوالے اور غیر متعارض دلائل نہیں ہیں ۔ اسی صورت میں اسی شدت پسندی کاکوئی جواز نہیں رہ جاتا ہے، جو دونوں طرف سے جان لینے دینے کی حد تک کی ‘جنگ وجہاد’ شروع کردیا جائے ۔ ویسے بھی دیوبند ی حلقے کی طرف سے عموماًاس سلسلہ میں پہل نہیں ہوتی ہے۔ اب تو کھلی آنکھوں دیکھا جاسکتا ہے کہ چالیس، پچاس ، ستر سال پہلے والی گرما گرمی او رمناظرے نہیں ہوتے ہیں ۔ زبان و تقریر کا اسلوب بھی خاصا بدل چکا ہے ۔ 1972 سےاس کا آغاز مولانا ارشد القادری کی کتاب ‘ زلزلہ’ سے ہوا ۔ جس میں تکفیری انداز اور فتوی کی زبان کے بجائے سوال در سوال سے اپنےموقف کو صحیح ثابت کرنے اور فریق ثانی سے منوانے کی فن کارانہ کوشش کی گئی ہے۔ اس کی بہت سی باتوں میں ادبی اور افسانویت کی قدرے آمیزش کے باوجود زلزلہ اور زیرو زبر نے طویل عرصے تک جاری طرز بحث و تحریر میں ایک خاص طرح کی تبدیلی کاآغاز کیا ۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہمارے حلقے میں مسائل پربحث و گفتگو کاجو طرز و روایت ہے، اس میں بہتر تبدیلی کی ضرورت ہے۔اس کا ثبوت مولانا قادری کے پوتے مولانا خوشتر نورانی کے زیر ادارت شائع ہونے والا ماہنامہ جام نور اور ان کی لکھی کتابیں ، علامہ فضل حق خیر آبادی چند عنوانات ، تحریک جہاد اور برٹش گورنمنٹ ایک تحقیقی مطالعہ وغیرہ ہیں ۔ ہم نے تو ذاتی ملا قاتوں اور مشاہدوں سے بہتر تبدیلی محسوس کی ہے۔ اسی زمرے میں شہید مولانا اسید الحق بدایونی ذیشان احمد مصباحی وغیرہ کو بھی رکھا جاسکتا ہے۔ ان نوجوانوں فضلا کے اوپر کے بریلوی علما میں مولانا پیرکرم شاہ ازہری او رمولانا غلام رسول سعیدی وغیرہ ہم آتے ہیں ،جنہوں نے اپنے سے الگ افکارو اراء رکھنے والوں سےاختلاف کا اظہار شرافت اور علمی اسلوب میں کیا ہے۔ اس کے لیے تفسیر ضیاء القرآن ، ضیاء النبی ، بتیان القرآن اور ترجمہ و شرح مسلم شریف وغیرہ کو دیکھا جاسکتا ہے۔
اگر علمی انداز میں سنجیدگی سے اپنے موقف کو پیش کرنے اور ایک دوسرے کو سمجھنے کی کوشش ہوگی، تو مسلکی اختلافات کی شدت میں بھی کمی آئے گی اور مشترک مسائل میں مل بیٹھنے کی راہ بھی ہموار ہوگی ۔ جس کی طرف مولانا توقیر رضا خاں نے بھی اشارہ کیا ہے ۔ اگر پہلے کی شدت میں حالات کا دخل تھا، تو آج کے بدلتے مختلف نوعیت کے حالات کا تقاضا ہے کہ شدت و جارحیت کے بغیر بھی ملی سیاسی اور سماجی مشترک امور میں اتحاد ویکجہتی کا مظاہرہ کیاجائے۔ مولانا توقیر رضا خاں آج کی فرقہ پرستی کے زیر اثر پیدا صورت حال کو اچھی طرح سمجھتے ہیں ۔ گزشتہ دنوں بریلی میں فساد کے بعد ان کی گرفتاری پر مختلف مسلم تنظیموں نے بریلی جانے کافیصلہ کیا ، گرچہ پولیس انتطامیہ نے اسے شہر میں داخل ہونے نہیں دیا، تاہم مختلف مکاتب فکر کے اتحادی اقدام کا پیغام بہت صاف تھا ۔ جس طرح مسلم تنظیموں کے مشترکہ وفد نے بریلی دورے کا اچھا اثر ہوا تھا،اسی طرح امید کی جانی چاہئے کہ مولانا توقیر رضا خاں کے دیوبند دورہ کاملک و ملت کے حق میں بہتر اثرات و نتائج مرتب ہوں گے۔ بریلوی علماء کی ایک بڑی تعداد ہے، جو یہ کہہ رہی ہے کہ اگر مولانا توقیر رضا خاں کی طرف سےاتحاد کی کوشش اسی طر ح جاری رہی تو آنے والے دن اچھے ہوں گے، جب ایسا ہوگا تو یہ سوال زیادہ اہم نہیں رہ جائے گا کہ دیوبند ، بریلی میں سے زیادہ قریب کون ہے؟ کم از کم و سیاسی اور سماجی طور سے دیوبند سےبریلی تک اور بریلی سے دیوبند تک کا راستہ مشکل نہیں رہ جائے گا۔
19 مئی ، 2016 بشکریہ : انقلاب ، نئی دہلی
URL: