مولانا عبدالحمید نعمانی
14 مارچ، 2013
بدلتے حالات میں ، وقت کے تقاضوں کی تکمیل کے مد نظر رہنمائی کا بندوبست اسلامی شریعت اور فقہ اسلامی میں بہت معقولیت سے کیا گیا ہے۔ احکام و تعلیمات کا حالات پر انطباق کرتےہوئے انسانی سماج کے مسائل و مشکلات کاحل جس طرح ہمارے فقہا و مجتہدین نے پیش کیا ہے اس کی نظیر مسلم سماج کے سوا کہیں اور نہیں ملتی ۔ علم اصول فقہ کا تصور اسلامی شریعت فقہ کی خصوصیت ہے ، اہل علم کے درمیان مسائل کا حل بتانے کے طریقوں میں اختلاف تو پایا جاتاہے، اور یہ ایک فطری بات ہے، لیکن جہاں تک نفس مسئلہ کےحل کا معاملہ ہے، اس میں فقہا و مجتہدین خصوصاً ائمہ اربعہ حتیٰ کہ حضرت امام جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ کی طرف منسوب فقہ جعفر یہ میں بھی پورا پورا خیال رکھا گیا ہے کہ خلق خدا کو مشکل سے نکال کر اس کے لیے راحت و سہولت فراہم کی جائے، اس لیے یہ سوال اُٹھانا کہ اسلام میں بد لاؤ اور جدید یت و عصریت کے لیے کوئی جگہ ہے؟ با لکل بے معنی اور بھرم پیدا کرنے والا ہے۔ کچھ حضرات ایک مخصوص سوچ کے تحت سطور اور بین السطور میں یہ بتانے کی کوشش کرتے ہیں کہ علماء مولانا حضرات اور مفتیان کرام حالات او رزمانے کے تقاضوں کو ہمدردی سے سمجھے بغیر، اپنی کہے جاتے ہیں، جس کے سبب جمود و تعطل اور انتشار و کنفیوژن کی صورت پیدا ہوگئی ہے ۔ یہ بھی کہا جاتاہے کہ علماء اور ان کے ذریعے قائم کردہ ادارے اور مدارس کا کوئی خاص فائدہ نہیں ہے، خاص طور سے عورتوں کو اس لیے ان کی ضرورت بھی نہیں ہے۔
ظاہر ہے کہ منفی او رمعاندانہ سوچ کے تحت آدمی اصل حقیقت تک رسائی حاصل نہیں کر پاتا ہے، لیکن غلط فہمیاں اور باہمی دوری پہلے سے سوار ہوجاتی ہے ، ایسے لوگوں کو عموماً یہ خوش فہمی ہوجاتی ہے کہ وقت کے تقاضے کو ہم سمجھتے ہیں اور زمانے کی لہروں کو شمار کرنے کی صلاحیت صرف ہم میں ہے۔ رہے علماء اور اہلِ افتاء تو وہ مکھی پر مکھی اور جھک مارتے ہیں۔ وہ حالات کو ہمدردی سے سمجھنے کے بجائے ، پرانی لکیریں پیٹنے کا کام کرتے ہیں ۔ لیکن وہ یہ باور نہیں کراپا تے ہیں کہ علماء کی ضرورت سماج کو نہیں ہے، اور بدلتے حالات کے تقاضوں اور خلقِ خدا کی مشکلات اور مسائل کا شرعی حل پیش کرکے اس کے لیے سہولت فراہم کرتےہیں، فتاویٰ اور قابل ذکر علماء اہل افتاء کی کاوشوں کا پورا ذخیرہ عار مذکورہ حضرات کے دعوے کی تردید و تغلیط کرتا ہے۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ بدلتے حالات میں درپیش مسائل کے حل سے متعلق جو تحقیقات اور آراپیش کی ہیں، ان کا شمار علماء و فقہا ء ہی میں ہوتا ہے۔ شرعی قوانین میں تبدیلی کی بات حد مروجہ موسیقی کوجائز ٹھہرانے کے لیے کی جاتی ہے، لیکن اس سوال کا جواب ان علماء و فقہا ء کے حوالے سے نہیں دیا کہ کیا وہ زیر بحث مروجہ موسیقی کے جواز کے قائل تھے۔اس سلسلے میں حضرت نظام الدین اولیا رحمۃ اللہ علیہ کا ذکر و حوالہ دیا جاتا ہے، لیکن یہ بہت بڑا بہتان او رجھوٹ ہوگا کہ آلات ( باجا وغیرہ) کے ساتھ وہ مروجہ موسیقی کے جواز کے قائل تھے ۔ واضح رہے کہ حالیہ بحث کشمیر کی کچھ لڑکیوں کی طرف سے موسیقی پروگرام پیش کرنے کو وہاں کے ایک مفتی کا شرعاً ممنوع قرار دینے سے شروع ہوئی تھی۔
اسے کچھ حضرات حضرت نظام الدین جیسے بزرگ کے حوالے سے جائز قرار دیتے ہوئےکہتے ہیں کہ ‘‘ کشمیر کےمفتی فتوے کے تناظر میں اتنا ہی کہا جاسکتا ہے کہ وہ مسلمانوں کے ایک حصے کی رائے ہوسکتی ہے، لیکن اسے اسلامی نہیں کہا جاسکتا ہے ۔ پوری دنیا میں کہیں بھی کسی بھی مسجد میں عبادت کے وقت مقامی زبان میں اجتماعی گان نہیں ہوتاہے، لیکن کشمیر کی مسجدوں میں نماز کے بعد فاتحہ کا اجتماعی گان ہوتا ہے ۔ یہ گانا کشمیریوں کی عبادت کا حصہ ہے، ایسے میں کشمیر میں لڑکیوں کے گانے پر پابندی بد قسمتی ہے۔ اس کے علاوہ علماء کو شدت پسند اور بنددماغ بتاتے ہوئے یہ نصیحت کی ہے کہ ہم مسلمان مرد عورت اپنے طور سے اسلام کو سمجھ کر عمل کریں تاکہ علماء پر انحصار کم یا ختم ہوجائے ۔
یہ تو صحیح ہے کہ گزرتے وقت کے ساتھ تغیر و تبدیلی فطرت کا حصہ ہے ، لیکن سوال یہ ہے کہ اس کی نوعیت کیا ہے؟ انسانی سماج اور قانون میں ایک رشتہ ہے، اس میں انسانی ضروریات کی تکمیل اور تنگی کو دور کرنے کا لحاظ رکھا جاتا ہے، لیکن اس کا مروّجہ موسیقی کے فروغ اور جواز سے کیا تعلق ہے؟ یہ بھی کہا جاتاہے کہ انسانی سماج کی سطح حیات بدل جانے کے نیتجے میں اس کی فلاح و بہبود کے پیمانے بھی بدل جاتے ہیں ، یہ تو صحیح ہے، لیکن ایسے حضرات علماء سے متعلق منفی سوچ میں ڈوبے ہونے کی وجہ سے وہ یہ سمجھ نہیں پاتے کہ انسانی سماج کی بہتری کے لیے قانون سازی میں لحاظ سے ان تبدیلیوں کاکوئی لینا دینا نہیں ہے، جن کی توقع ، علما ء وقت کے برعکس یہ لوگ رکھتے ہیں۔ ان جیسے حضرات کو ان مشکلات و مسائل کی ایک فہرست تیار کرنی چاہیے ، جن کے بارے میں یہ کہا جاسکے کہ سہولت نکالنے کی شرعی گنجائش کے باوجود اہل علم و افتاء نے توجہ نہیں دی اور جمود کو روارکھ کر انسانی سماج کو مشقت و تکلیف میں مبتلا رکھا ۔
بدلتے حالات میں پیدا ہونے والے نئے مسائل میں سے شاید ہی کوئی مسئلہ ہو، جس پر مذاکرہ او ربحث و گفتگو کر کے اس کا حل پیش نہ کیاہو، اس پر کتب خانے بھر ے پڑے ہیں، لیکن علماء اور مفتیانِ دین متین ان مزعومہ تبدیلیوں کی قطعی تائید نہیں کرسکتے ہیں، جن کی امید تجدد پسند حضرات کررہے ہیں۔اہل علم اچھی طرح جانتے ہیں کہ مذکورہ امور کا تعلق خصوصی حالات کے تحت احکام شرعیہ کے نفاذ و انطباق یا مشقت اور اضطراری حالت میں وقتی طور سے انسانی ہمدردی و مفاد میں نفاذ کو ملتوی یا جاری کرنے سے ہے ، نہ کہ کتاب وسنت پر مبنی احکام و اصول اور قوانین میں تبدیلی سے ، ایک مجتہد حاکم جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ تھے، کسی مخصوص علت کے مد نظر جو حکم نافذ کرتا ہے یا اسے کچھ وقت کے لیے ملتوی کرتاہے، اس کا کتاب و سنت کے اصول و قوانین میں تبدیلی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ہے، بلکہ اس کا تعلق حالات و زمانے کی رعایت سےہے۔ شرعی احکام کے نفاذ یا وقتی عدم نفاذ کی علتوں کی بحث یا حکم کے ارتفاع ( حلال و حرام کا اُٹھ جانا) کے جو باریک مسائل ، علم کلام اور اصول فقہ کی کتابوں میں پائے جاتےہیں، ان کو بغیر مستند استاذ کی تعلیم و رہنمائی کے اپنے طور سے محض کتابیں پڑھ کر سمجھنا مشکل ہوتا ہے۔
معاملے کے فرق کو نظر انداز کر کے کچھ ایسی باتیں کہہ دی جاتی ہیں جو حددرجہ مغالطہ انگیز اور منزل سے بھٹکا نے والی ہیں۔ حضرت نظام الدین اولیا رحمۃ اللہ علیہ یا دیگر موقر صوفیہ کا سماع او رمروجہ موسیقی با لکل دونوں الگ الگ چیزیں ہیں۔ ترمذی او رابن ماجہ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی یہ روایت موجود ہے ، جس میں انہوں نے گانے والی عورتوں کی اُجرت اور گانا دونوں کو حرام قرار دیا ہے۔ حضرت مشائخ چشتیہ خصوصاً حضرت نظام الدین اولیا رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک سماع کے جائز ہونے کی یہ شرائط ہیں کہ محفل سماع میں سنانے والا معمر ، جوان ہو، بے ریش (بغیر داڑھی ) لڑکا یا عورت نہ ہو، سننے والا یا دِ حق سے خالی نہ ہو۔ کلام ، اشعار فحش او ربیہودہ نہ ہوں۔ آلات سماع مزا میر ، چنگ رباب وغیرہ نہ ہوں۔ ( دیکھیں حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے مرید سید مبارک کرمانی کی تالیف سیر الا ولیا ء ص 491 ،فارسی مطبوعہ محب ہند) اس کا اُردو ترجمہ بھی شائع شدہ ہے۔
اس کےمد نظر کشمیری لڑکیوں کی مروّجہ موسیقی کی تائید میں صوفیہ خصوصاً حضرت نظام الدین رحمۃ اللہ علیہ کا حوالہ قطعی طور سے نادرست ہے۔ نادرست کو درست قرار دینے کے لیے کتاب و سنت پر مبنی اصول و قوانین میں تبدیلی کے لیے ماحول سازی کو راست رویہ قرار نہیں دیا جاسکتا ہے ۔ بدلتے حالات میں مسائل کا حل پیش کرن با لکل دوسری بات ہے۔
14 مارچ، 2013 بشکریہ : انقلاب ، نئی دہلی
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/tampering-with-laws-quran-sunnah/d/10840