معصوم مراد آبادی
23اکتوبر ، 2012
جاوید حبیب کے انتقال سے دہلی
کی سیاسی، ملی اور صحافتی فضا ویران ہوگئی ہے ۔ انہوں نے ایک ایسے وقت میں آنکھیں موندی
ہیں، جب ان جیسے بیدار مغز ، باشعور اور دو ر اندیش قائدین کی ملک وملت کو سب سے زیادہ
ضرورت ہے۔جاوید حبیب کا سب سے قیمتی اثاثہ ان کی وہ بصیرت تھی ، جس سے موجودہ دور کی
مسلم قیادت محروم نظر آتی ہے ۔ ان کے ویژن کو اگر بروئے کار لایا جاتا تو بہت سے ایسے
پیچیدہ مسائل کا ازالہ ممکن تھا ، جس سے ہم آج بحیثیت قوم دو چار ہیں ۔ جاوید حبیب
قطعی اور یجنل فکر اور سوچ کے انسان تھے ۔ وہ دوسروں کے خیالات مستعار لینے کے بجائے
اپنی راہ خود بناتے تھے ۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کی بنائی ہوئی کسی بھی راہ نے نہیں منزل
تک نہیں پہنچا یا او رکئی لو گ ان کی دکھائی ہوئی راہ پر چل کر ان سے بہت آگے نکل گئے
۔
مرحوم جاوید حبیب
-------
جاوید حبیب کے ناقدین ان پر
بابری مسجد تنازعے کے سلسلے میں بعض ایسے الزامات عائد کرتے ہیں ، جن کی کبھی کوئی
تصدیق نہیں ہوسکی۔ہاں اتنا ضرور ہے کہ وہ اس پیچیدہ مسئلے کا ایک باوقار حل تلاش کرنے
کی جستجو میں دردر کی ٹھوکریں کھاتے رہے ، لیکن کامیابی انہی لوگوں کے ہاتھ آئی جو
شروع دن سے اس مسئلے کا سیاسی استحصال کررہے تھے ، عجیب المیہ ہے کہ بابری مسجد کی
شہادت کا الزام اپنے سینے پر لینے والے جاوید حبیب نے جب دنیا سے منہ موڑ ا تو ان کے
پاس نہ تو کوئی عہدہ تھا ، نہ اثاثہ ، نہ ہی گاڑی ، گھوڑا اور بنگلہ ۔ جب کہ بابری
مسجد کے مسئلے کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے والے آج بھی اقتدار کی اونچی مسندوں
پر بیٹھے ہیں۔ جاوید حبیب نے بابری مسجد کی شہادت کے بعد 20سال کا طویل عرصہ جس اذیت
، تنہائی، بے کسی اور بیماری میں گزارا ہے،اس کو بیان کرنے کیلئے پورا دفتر چاہئے
۔ بابری مسجد کی شہادت کا ان پر اتنا گہرا اثر تھا کہ انہوں نے 20برس کے اس عرصے میں
کبھی عید نہیں منائی او رنہ ہی نیا لباس زیب تن کیا حتی کہ شدید گرمی کے موسم میں اپنے
کمرے کا کولر چلانے سے بھی اس لئے گریز اں رہے کہ نہ جانے کتنے لوگ گرمی کی شدت سے
سڑکوں پر بے حال پھر رہے ہیں ۔ جاوید حبیب سرسید کو عظیم دانش گاہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی
کے روحانی فرزند تھے اور ان کی شخصیت میں وہ تمام خوبیاں موتیوں کی طرح جھلکتی تھیں
، جن کا خواب سرسید نے مادر علمی کے فرزندوں کے لیے دیکھا تھا۔ تحریرو تقریر کی بہترین
صلاحیتوں سے آراستہ جاوید حبیب میں اعلیٰ انسانی اقدار اور خوبیوں کا بھرپور عکس تھا۔
وہ کبھی کسی کی اہانت نہیں کرتے تھے اور ایسے لوگوں کو بھی خندہ پیشانی کے ساتھ گلے
لگاتے تھے جنہوں نے ان کے گلے پر چھری پھیرنے کی کوششیں کیں۔
جاوید حبیب سے اپنی تیس سالہ
رفاقت کو یاد کرتا ہوں تو بے شمار ایسی باتیں ذہن میں کلبلا نے لگتی ہیں جنہیں یہاں
رقم کیا جاناچاہئے۔ میں نے اپنی زندگی میں اتنا مخلص ،باشعور ،معاملہ فہم اور صاف گو
انسان نہیں دیکھا ۔ وہ جہاں ایک طرف اپنے بزرگوں اور اکابرین کا احترام کرتے تھے ،
وہیں اپنے چھوٹوں کے ساتھ بڑی محبت اور شفقت کا برتاؤ کرتے تھے۔ ان کی مجلس میں بار
بار اور لگاتار بیٹھنے کو جی چاہتا تھا۔ وہ مسلمانوں کے ان قائدین میں ہر گز نہیں تھے
جو ہوا کا رخ دیکھ کر اپنا راستہ طے کرتے ہیں،بلکہ وہ مخالف اور تیز ہواؤں کے سامنے
ٹھہر کر بات کرتے تھے ۔ عام طور پر مسلم قائدین مسلمانوں کا موڈ بھانپ کر اپنا موقف
طے کرتے ہیں مگر جاوید حبیب ہمیشہ حق باتیں کہتے تھے اور وہ سچائی بیان کرنے کیلئے
ہر خطرہ مول لینے پر آمادہ نظر آتے تھے۔
مسلم مسائل پر گفتگو کرتے
ہوئے وہ اکثر رنجیدہ ہوجاتے تھے ۔ مسلمانوں کے بارے میں ان کا واضح موقف یہ تھا کہ
اکثر اوقات ہم دوسروں میں تمام خامیاں تلاش کرتے ہیں او رہر مسئلہ کا دوش دوسروں کے
سر پر ڈالتے ہیں ، لیکن خود اپنی خامیوں ، کوتاہیوں اور بے عملی پر نظر نہیں ڈالتے
۔ وہ خود احتسابی کے طرفدار تھے اور اکثر مسائل میں ان کی رائے بڑی دور اندیشانہ ہوتی
تھی۔ بابری مسجد کے مسئلہ پر ان کا موقف یہی تھا کہ اس مسئلہ کو اشتعال انگیزی کے بجائے
مفاہمت اور دانش مندی سے حل کیا جانا چاہئے ، لیکن افسوس کہ اس معاملہ میں ان کی ایک
نہ چلی اور بابری مسجد شہید کردی گئی۔
جاوید حبیب کی ایک بڑی کمزوری
یہ تھی کہ وہ اپنے نجی معاملات کو بھی کسی سے پوشیدہ نہیں رکھتے تھے۔ ہر سچائی کو بیان
کرنا ان کی عادت تھی۔ اسی لیے انہوں نے نرسمہاراؤ اور اٹل بہاری باجپئی سے اپنے ذاتی
تعلقات پر کبھی کوئی پردہ نہیں ڈالا ۔ یوں تو انہیں وی پی سنگھ اور چند شیکھر سے بھی
قربت حاصل رہی، لیکن جن دوسابق وزیر اعظم سے تعلق کی بنیاد پر انہیں ڈھیروں الزامات
کا سامنا کرنا پڑا وہ نرسمہا راؤ او رباجپئی ہی تھے۔
جاوید حبیب کو خود داری اور
عزت نفس کا بہت پاس تھا اور وہ اپنے ذاتی مفاد کے لئے کسی کے آگے جھکنے کو تیار نہیں
تھے۔ ’خدا اعتماد ی اور خود اعتمادی ‘ان کا نعرہ تھا اور وہ ارباب اقتدار سے آنکھوں
میں آنکھیں ڈال کر بات کرتے تھے ۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اپنے چند احباب کے ساتھ
وہ سابق وزیر اعظم اٹل بہاری باجپئی سے ملنے پی ایم ہاؤس گئے ۔ اتفاق سے میں بھی اس
قافلہ میں شامل تھا ۔ جاوید حبیب نے باجپئی سے جس بے باکی اور جرأت مندی کے ساتھ مسلم
مسائل پر گفتگو کی اس کی کوئی دوسری نظیر موجود نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ آپ اپنے وزیر
اعظم ہونے پر نازاں نہ ہوں۔ حکومت تو اس ملک میں کھڑاؤں رکھ کر بھی چلائی گئی ہے۔ لیکن
اگر مظلوموں ، بے کسوں او ربے بس لوگوں کے حقوق غصب ہوں گے تو تاریخ آپ کو معاف نہیں
کرے گی۔ اسی طرح کی گفتگو انہوں نے ایک مرتبہ سابق وزیر اعظم چندر شیکھر سے بھی کی
تھی ، جس کا میں عینی گواہ ہوں۔
جاوید حبیب سیاست کی تمام
باریکیوں کے نبض شناس تھے ۔انہوں نے اپنی پوری زندگی سیاست کی نذر کی، لیکن باضابطہ
کسی پارٹی میں شامل نہیں ہوئے بلکہ ایک پریشر گروپ بنا کر اقتدار اعلیٰ کو اپنی بات
ماننے پر مجبور کرتے رہے۔اگر وہ چاہتے تو پارلیمنٹ کی رکنیت سے لے کر وزارت کی کرسی
تک بہت آسانی سے پہنچ سکتے تھے ، لیکن جاوید حبیب اقتدار کو ٹھوکر مارنے اور عوام کو
گلے لگا نے کے حامی تھے۔
جاوید حبیب کی ذہنی تربیت
مفتی عتیق الرحمن عثمانی، ڈاکٹر عبدالجلیل فریدی، مولانا محمد تقی امینی ، مولانا افتخار
فریدی جیسے بزرگوں او رمولانا محمد مسلم اور جمیل مہدی جیسے صحافیوں نے کی تھی ۔ وہ
سب سے زیادہ انہی ا کابرین سے متاثر تھے ۔ ان کی شخصیت اور کردار میں بلا کی کشش تھی۔
اعلیٰ اخلاقی قدروں کی پاسداری ان کا شعار تھا ۔ اچھے لوگوں سے ملنا تو عام بات ہے۔
جاوید حبیب برے اور بے کار لوگوں کو بھی گلے لگاتے تھے۔ ان کی شخصیت میں ان بزرگوں
کا پرتو تھا جو انسان کو انسان کی حیثیت سے پرکھتے اور جانچتے ہیں۔ جاوید حبیب نے زندگی
کے تجربات سے جو کچھ سیکھا اسے بے دریغ دوسروں تک پہنچا یا۔ ان میں بخل اور تنگ نظری
نام کی کوئی چیز نہیں تھی، جس کو کوئی ٹھکانہ نہیں ملتا تھا وہ جاوید حبیب کی کٹیا
میں آرام کی نیند سوتا تھا۔ اونچی مسندوں پر بیٹھے ہوئے کئی لوگوں کو میں نے بار ہا
جاوید حبیب کی اس کٹیا میں سیاست کے منتر سیکھتے ہوئے دیکھا۔
جاوید حبیب نے تمام زندگی
اپنے اصولوں اور اعلیٰ انسانی اقدار سے کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔ ایک طرف جہاں وہ ملی
معاملات میں معاملہ فہمی کارویہ اختیار کرتے تھے ، وہیں ذاتی معاملات میں وہ اصولوں
پر سچے اور کھرے ثابت ہوتے تھے ۔ جاوید حبیب کا سب سے بڑا وصف یہ تھا کہ وہ مشکل حالات
میں براہِ راست قرآن کریم سے رہنمائی حاصل کرتے تھے اور اسوۂ رسول کو اپنا شعار بناتے
تھے ۔ ’نہج البلاغہ‘ ان کی سب سے پسندیدہ کتاب تھی۔ ان کی بیٹھک میں دور حاضر کے بڑے
بڑے سیاستداں ، صحافیوں اور عالموں کے ساتھ بالکل عام آدمیوں کو بھی دیکھا جاسکتا تھا۔
انہیں کسی سے کوئی گریز نہیں تھا۔ وہ انسانوں کی قدر وقیمت کا تعین ان کے عہدے اور
پہنچ سے نہیں کرتے تھے، بلکہ اگرکوئی معمولی انسان ان سے رجوع کرتاتھا تو وہ اسے بھی
یکساں اہمیت دیتے تھے۔
جاوید حبیب نے علی گڑھ سے
دہلی آکر سب سے پہلے مسلم یوتھ کنونشن کی داغ بیل ڈالی۔ وہ ملت کے نوجوانوں کو یکجا
کرکے ایک ایسی لڑی میں پرونا چاہتے تھے ، جس کے ذریعے ان سے ملک وملت کی فلاح کاکام
لیا جاسکے ۔ وہ ناکارہ سے ناکارہ آدمی کو کام میں لگانے کا ہنر جانتے تھے ۔ ہفتہ وار
’ہجوم‘ کی اشاعت کے لیے انہوں نے صحافیوں اور قلم کاروں کی جو ٹیم ترتیب دی تھی، اس
نے ’ ہجوم‘ کو اپنے دور کا مقبول اخبار بنادیا۔انہوں نے ٹاڈا قیدیوں کی رہائی کے لیے
انتھک جدوجہد کی۔ طوبیٰ کالونی (اوکھلا) کی بازآدبادکاری کا بیڑہ اٹھایا اور ہزاروں
انفرادی لوگوں کے مسائل اپنی جیب خاص سے حل کیے۔ وہ ضرورت مندوں ، غریبوں اور مسکینوں
کو اپنا عزیز تصور کرتے تھے اور کسی کو خالی ہاتھ نہیں لوٹا تے تھے۔
جاوید حبیب کی شخصیت میں متانت
، سنجیدگی اور بردباری کے ساتھ ساتھ بلا کی شوخی، بذلہ سنجی اور حس مزاح تھی۔ بات میں
بات پیدا کرنے کا ہنر انہیں خوب آتا تھا اور بگڑی ہوئی بات کو بنانا بھی وہ خوب جانتے
تھے ۔ محسن قوم سرسید احمد خاں کے یوم وفات پر خواجہ الطاف حسین حالی کا لکھا ہوا مرثیہ
یاد آتا ہے اور اسی کا ایک شعر میں اپنے محسن جاوید حبیب کی نذر کرنا چاہتا ہوں:
تمہیں کہتا ہے مردہ کون ،
تم زندوں کے زندہ ہو
تمہاری نیکیاں زندہ، تمہاری
خوبیاں باقی
23اکتوبر ، 2012 بشکریہ : روز نامہ راشٹریہ سہارا ، نئی دہلی
URL: https://newageislam.com/urdu-section/jawed-habib-good-deeds-qualities/d/9092