مشاری الزیدی
17 جنوری 2018
کیا جہاد کے نام پر خودکش حملوں کے خلاف جاری ہونے والے یہ فتوے حقیقۃً ان شیطانی کارروائیوں کا سد باب کر سکتے ہیں؟
دہشت گرد تنظیموں سے وابستہ علماء اپنے اعمال کو مذہب کے دائرہ میں شامل کرنے کے لئے اپنے نظریات کی بنیاد متعدد دلائل اور قرآن و حدیث کی مختلف نصوص پر رکھتے ہیں ، خواہ وہ قران کی آیتیں ہو ، پیغمبر ﷺ کی احادیث ہوں ، یا سلف کے اقوال ہوں۔
یہ عنوان، علماء اور سرکاری اور نیم سرکاری مذہبی اداروں اور نظریہ کاروں یا "جائز افراد" کے درمیان ایک میدان جنگ رہا ہے ، جیسا کہ دہشت گرد جماعتیں انہیں یہ نام دیتی ہیں ، مثلا القاعدہ، طالبان، انصار الشریعہ ، انصار بیت المقدس ، داعش، لیبیائی اسلامی جنگجو گروپ، مصر کی جماعت التکفیر والہجرہ ، سعودی عرب کی المحتسبہ اور جہیمن گروپ۔
بالفاظ دیگر ، ہمیں یہ معلوم ہے کہ مصر میں الازہر کے شیوخ اور سعودی عرب کے سینئر علماء کونسل نے القائدہ، داعش اور اس جیسے دیگر جماعتوں کے خلاف بہت سے فتوے جاری کیے ہیں۔ تاہم، وہ فتوے مطلوبہ نتائج برآمد نہیں کر سکے۔
لہذا، کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ علماء اور فقہاء کو اس سلسلے میں اپنی کوششوں سے باز آ جانا چاہئے، یا انہیں اپنی کوششیں جاری رکھنی چاہئے؟ نہیں ! بالکل نہیں، انہیں اپنی کوششیں جاری رکھنی چاہئے۔ اس کی سب سے پہلی وجہ تو یہ ہے کہ یہ ایک مذہبی اور لازمی فریضہ ہے، اور دوسری وجہ یہ ہے کہ یہ ان قاتلوں کے خلاف دانشورانہ اور اخلاقی جدوجہد میں ایک محاذ ہے۔
پاکستان کا 1800 سالہ فتویٰ
چند دنوں قبل، پاکستان نے حکومت کی ایک سرکاری کتاب کا انکشاف کیا جس میں ملک کے مذہبی علماء کا ایک 1800 سالہ قدیم فتویٰ موجود ہے جس میں خود کش بم دھماکوں کی مذمت کی گئی ہے۔ پاکستانی صدر ممنون حسین نے کہا کہ، "یہ فتوی ایک مستحکم مسلم معاشرے کے لئے مضبوط بنیاد فراہم کرتا ہے۔"
پاکستانی علماء نے کہا، "کسی بھی گروہ یا فرد کو جہاد کا اعلان کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں۔ خودکش بم دھماکے بنیادی اسلامی تعلیمات کے خلاف ہیں اور اس وجہ سے ان کا شمار گناہ میں ہوتا ہے۔ "
اس کتاب کو اسلامی بین الاقوامی یونیورسٹی آف پاکستان نے شائع کیا تھا اور اس کا اجراء ایک ایسی تقریب میں کیا جانا تھا جس میں پاکستانی صدر بھی شریک تھے۔
لیکن کیا حقانی کے قاتل، پاکستان کے طالبان، افغانستان کے طالبان، لشکر طیبہ اور دیگر دہشت گرد جماعتیں اس فتوی کی وجہ سے خودکش بم دھماکوں سے باز آئیں گیں؟
اور کیا خودکش حملہ ہی صرف ایک مسئلہ ہے، یا کیا یہ ایک لڑکے کا دماغ ہے جو اپنے آپ کو اور دوسروں کو ایک بم دھماکے سے اڑانے کے لئے تیار ہے؟
بہ الفاظ دیگر، اصل مسئلہ صرف پاکستان میں نہیں ہے بلکہ یہ خرابی کچھ لوگوں کے دماغ میں ہے جو انہیں ورغلاتے ہیں ، اور اس میں کچھ کردار ان مسجدوں، اسکولوں اور گھروں کا بھی ہے جو نوجوانوں اور عورتوں کے دماغ کو متاثر کرتے ہیں۔ یہ اس بیماری کی جڑ ہے۔
انتہاء پسندی کو روکنے کے لئے کوئی بھی کوشش بلا شبہ قابل تعریف ہے، لیکن ہمیں اس میں غلو نہیں کرنا چاہئے۔ جو کچھ ہمارے ارد گرد ہو رہا ہے اس سے صرف یہی ثابت ہوتا ہے کہ ابھی ہم صرف علامات میں ہی الجھے ہوئے ہیں اور اب تک اصل مسائل کا سراغ لگانے میں ناکام رہے ہیں۔
ماخذ :
english.alarabiya.net/en/views/news/2018/01/17/Pakistani-fatwa-against-terrorism-what-s-new-.html
URL for English article: http://www.newageislam.com/radical-islamism-and-jihad/mashari-althaydi/pakistani-fatwa-against-terrorism,-what’s-new?/d/113976
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism