جسٹس (ر) مارکنڈے کاٹجو
4 جنوری ، 2021
جن شہروں میں گونجی تھی
غالب کی نوا برسوں
ان شہروں میں اب اردو بے
نام و نشاں ٹھہری
آزادئ کامل کا اعلان ہوا
جس دن
معتوب زباں ٹھہری غدار
زباں ٹھہری
جس عہد سیاست نے یہ زندہ
زباں کچلی
اس عہد سیاست کو مرحوم کا
غم کیوں ہے
غالبؔ جسے کہتے ہیں اردو
ہی کا شاعر تھا
اردو پہ ستم ڈھا کر غالبؔ
پہ کرم کیوں ہے
(۱۹۶۹ء
میں آگرہ میں غالب کی برسی کی تقریب میں ساحر لدھیانوی کی نظم)
ہمارے ملک میں اردو کے
ساتھ بہت ظلم ہوا ہے۔ یہ عظیم زبان ، جس نے جدید ہندوستان میں شاید سب سے بہترین
شاعری پیش کی۔ میر ،غالب ، فراق ، فیض وغیرہ کی لازوال شاعری جو ہندوستانی ثقافت
کے خزانے میں ایک چمکنے والا جوہر ہے ، آج نظراندازکی جارہی ہے اوراسے شک کی نظروں سے
دیکھاجاتا ہے۔ میں اس سے بڑی حماقت کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔اردو کے ساتھ یہ
ناانصافی دو جھوٹے خیالات کی وجہ سے ہوئی ، جس کاپروپیگنڈہ چند مفادات عناصر
کے ذریعہ کیا گیا۔اول یہ کہ اردو غیر ملکی
زبان ہے اور دوئماردو صرف مسلمانوں کی زبان ہے۔ انگریزوں کی پھوٹ ڈالو اورراج کرو کی پالیسی کے ایک حصے کے طور پر یہ
خیال عام کیا گیا کہ ہندی ہندوؤں کی زبان ہے ، اور مسلمانوں کی زبان اردو ہے۔یہ
بات کہ اردو غیر ملکی زبان ہے ، واضح طور پر غلط ہے۔ عربی اور فارسی بے شک غیر
ملکی زبانیں ہیں لیکن اردو ایک ایسی زبان ہے جو مکمل طور پر دیسی ہے۔ یہ یہاں
ہندوستان میں پیداہوئی اور اس کی آسان شکل کھڑی بولی ہندوستان اور پاکستان کے بڑے
حصوں میں عام آدمی کی زبان ہے۔اس زبان کی سبھی نمایاں شخصیات ہندوستان میں ہی
رہیں ، اور انہوں نے لوگوں کی پریشانیوںکا مداواکرنے ، دکھ کے وقت میں ہمدردی اور
انسانی دل کو چھو لینےکیلئے شاعری کا سہار الیتے ہوئے ہماری ثقافت میں نمایاںتعاون
پیش کیا۔ صرف جاہل لوگ ہی اردو کو غیر ملکی زبان کہہ سکتے ہیں۔دوسرا خیال کہ اردو
صرف مسلمانوں کی زبان ہے ، یہ بھی غلط ہے۔ در حقیقت ہمارے ملک میں اردو شہری
ہندوستان کے بڑے حصوں میں تعلیم یافتہ ہندو ، مسلمان ، سکھ، عیسائی اور سبھی پڑھے لکھے لوگوں کی زبان تھی۔ میرے
اپنے خاندان میں میرے والد تک ہر ایک اردو میں بہت عبور رکھتا تھا۔ سابق ہندوستانی
وزیر اعظم منموہن سنگھ نے مجھے بتایا کہ وہ اپنی تمام تقریریں اردو میں لکھتے ہیں۔
میں یہاں یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ میںصرف کشمیری پنڈتوں کو اپنے آباؤ اجدادکے
طور پر نہیں مانتا ،بلکہ میں کالی
داس،امیر خسرو، راجہ اشوک،شہنشاہ اکبر ، سور اور تلسی کو بھی اپنے آباو اجداد کے
طور پر دیکھتا ہوں۔ میر اور غالب بھی میرے آباؤ اجداد کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اصل
نسب ثقافتی نسب ہے نہ کہ خون کا نسب ہے۔اردو وہ زبان ہے جوہندوستانی زبان کھڑی
بولی میں فارسی لغت اور اس کی چند خصوصیات کو اختیار کرنے کی وجہ سے پید اہوئی۔ اس
طرح اردو ایک ایسی زبان ہے جو دو زبانوں فارسی اور ہندوستانی کے امتزاج سے پیدا
ہوئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک زمانے میں اسے ’’ ریختہ ‘‘ کہا جاتا تھا جس کا مطلب
ہائبرڈ ہے۔چونکہ اردو زبان فارسی اور ہندوستانی کے امتزاج سے پیدا ہوئی۔اس لئے
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اردو ایک خاص قسم کی فارسی یاخاص قسم کی ہندوستانی
زبان ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ ایک خاص قسم کی ہندوستانی ہے ، خاص قسم کی فارسی
نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ جاننے کے لئے کہ ایک جملہ کس زبان سے تعلق رکھتا ہے
ہمیں یہ جاننا ہوگا کہ اس کا فعل کس زبان سے تعلق رکھتاہے۔ یہ فعل ہے جو اس کا
تعین کرتا ہے۔ اسم یا صفت نہیں۔ ہم کسی بھی اردو شاعر کاشعر (مصرعہ) لے سکتے ہیں
اور پائیں گے کہ اس کے فعل ہندستانی میں ہیں۔ میں اس پر زور دے رہا ہوں کیونکہ اگر
اردو ایک خاص قسم کی فارسی ہوتی تو یہ غیر ملکی زبان ہوتی۔ یہ حقیقت ہے کہ یہ ایک
خاص قسم کی کھڑی بولی (یا ہندوستانی) ہے کہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ دیسی زبان ہے ،
اور اس وجہ سے یہ پروپیگنڈا غلط ہے کہ یہ غیر ملکی زبان ہے۔کھڑی بولی آسان یا
بولی جانے والی ہندی ہے ،جو ادبی نوعیت کی سنسکرت جیسی ہندی کے برعکس ہے جس کا
استعمال کئی قلمکار اور مقرر کرتےہیں۔چونکہ اردو ہندوستانی (یا کھڑی بولی) اور
فارسی کے امتزاج سے تشکیل دی گئی ہے ، اس لئے آئیے ان دو زبانوں پر غور
کریں۔ہندستانی سادہ یا بولی جانے والی ہندی ہے جو ادبی نوعیت کی سنسکرت والی ہندی
کے برعکس ہے جسے چندہندی ادیب اورمقرر
استعمال کرتے ہیں۔
ہندوستانی ایک شہری زبان
ہے (دیہی علاقوں میں مختلف بولی پائی جاتی ہے)۔ یہ ہندی بولنے والے بیلٹ (اتر
پردیش ، بہار ، راجستھان ، مدھیہ پردیش ، دہلی ، ہریانہ ، ہماچل پردیش وغیرہ) کے
شہروں میں عام آدمی کی پہلی زبان ہے اورغیر ہندی بیلٹ کے مختلف شہروں میں دوسری
زبان ہے ۔ نہ صرف ہندوستان میں بلکہ پاکستان میں بھی یہی زبان ہے۔پاکستانی غلط
کہتے ہیں کہ وہ اردو بولتے ہیں۔ حقیقت میں وہ ہندوستانی یا کھڑی بولی بولتے
ہیں۔ہندوستانی (یاکھڑی بولی) ، جو اردو کی بنیاد ہے ، کیسے وجود میں آئی؟ یہ ایک
دلچسپ سوال ہےجس کا گہرائی سے تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔ہندوستان کے بڑے حصوں (اور
پاکستان میں بھی) دیہی علاقوں میں مختلف بولی بولی جاتی ہے ، جبکہ ایک ہی زبان
’ہندوستانی‘ شہروں میں بولی جاتی ہے۔ اس طرح میرے آبائی شہر الہ آباد میں ،
ہندوستانی بولی جاتی ہے ، لیکن الہ آباد کے آس پاس کے دیہی علاقوں میںاودھی بولی
جاتی ہے،جس میں تلسی داد نے رام چرتر مانس لکھا ہے ۔متھرا میں ہندوستانی بولی جاتی
ہے ، لیکن اس کے آس پاس کے دیہی علاقوں میں
برج بھاشابولی جاتی ہےجس میں سورداس نے لکھاہے۔ مشرقی یوپی (بنارس وغیرہ)
اور مغربی بہار میں شہروں میں ہندوستانی بولی جاتی ہے ، لیکن دیہی علاقوں میں بولی
بھوج پوری ہے۔ شمالی بہار میں شہروں میں ہندوستانی بولی جاتی ہے ، لیکن ان کے آس
پاس کے دیہی علاقوں میں بولی میتھلی ہے۔جس میںودیاپتی نے شاعری کی ہے۔ پٹنہ شہر
میں ہندوستانی بولی جاتی ہے ، لیکن دیہی علاقوں میں بولی مگھئی ہے۔ مغربی راجستھان
(جودھپور وغیرہ) میں شہروں میں ہندوستانی بولی جاتی ہے ، لیکن دیہی علاقوں میں
بولی مارواڑی ہے۔ شہروں میں جنوبی راجستھان (ادے پور وغیرہ) میں ہندوستانی بولی
جاتی ہے ، لیکن دیہی علاقوں میں بولی میواڑی ہے۔ایسا کیوں ہے کہ شہری علاقوں کے
بڑے حصے میں لوگ ایک عام زبان بولتے ہیں ، لیکن دیہی علاقوں میں بولی الگ الگ ہے
،جو بہت سے ہندوستانی بولنے والوں کے لئے ناقابل فہم ہے؟اس کا جواب یہ ہے کہ بیشتر
شہروں کی ابتدا منڈیوں (زرعی مارکیٹ کیجگہ) سے ہوئی ۔ جب اجناس کی پیداوار میں
اضافہ ہوا (پیداواری قوتوں کی ترقی کی وجہ سے) تو اشیاء فروخت کرنے والوں کو انہیں غیر مقام پر فروخت کے لئے لے جانا پڑا
، اور یہ وہ شہر تھے، لیکن بیچنے والے اور خریدار کیلئے ایک مشترکہ زبان کا جاننا
ضروری تھا ، ورنہ فروخت اور خریداری ا ور لین دین نہیں ہوسکتا ہے۔شہروں میں بولی
جانے والی یہ عام زبان (جو اصل میں منڈیوں کی زبان تھی) ہندوستانی ہوگئی، اور اسی
طرح معاشی قوتوں کی وجہ سے ہندوستانی زبان وجود میں آئی۔ مغلوں کے آنے سے پہلے
ہی (بہت زیادہ پیداواری قوتوں کی ترقی کی وجہ سے) بیشتر ہندوستان میں ایک بہت بڑی
مشترکہ منڈی پیدا ہوگئی تھی اور اس کے لئے مشترکہ زبان کی ضرورت تھی۔اب آئیے اردو
کے دوسرے جزو پر غور کریں جو فارسی ہے۔ فارسی ، آخر کار ، فارس کی زبان ہے۔ یہ
ہندوستان میں کیسےآئی؟اس کی وضاحت کے لئے یہ ذکر کیا جاسکتا ہے کہ معاشرے کا
اشرافیہ اکثر ایسی زبان بولتا ہے جو عام آدمی کی زبان سے الگ ہوتی ہے (کیوں کہ
اشرافیہ اپنے آپ کو عام لوگوں سے الگ کرنا چاہتا ہے)۔ اس طرح ، ہندوستان اور
پاکستان میں اشرافیہ انگریزی بولتے ہیں (عام آدمی کی زبان بولنے کے علاوہ)۔ یورپ
میں ۱۹؍
ویں صدی تک جرمنی ، روس وغیرہ کی اشرافیہ اکثر فرانسیسی زبان میں ہر ایک سے بات
کرتے تھے (حالانکہ وہ اپنے خادموں کے ساتھ اپنی مادری زبان میں بات کرتے تھے)۔
ٹالسٹائی کی تصنیف ’جنگ اور امن‘میں روسی کمانڈر ز(جو اشرافیہ تھے) ایک دوسرے کے ساتھ
فرانسیسی میں گفتگو کرتے ہیں ، حالانکہ ان کا دشمن نپولین ایک فرانسیسی ہے۔(جاری)
4 جنوری ، 2021،بشکریہ:انقلاب، نئی دہلی
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/urdu-language-facing-great-oppression-part-1/d/123978
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism