New Age Islam
Sat Mar 25 2023, 01:24 PM

Urdu Section ( 14 May 2018, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Extremism and the Search for Identity in the Arab World عالم عرب میں انتہا پسندی اور شناخت کی تلاش

ماریہ دوبوویکووا

2 مئی 2018

21 ویں صدی عالم عرب کو ایسے چیلنجوں سے روشناس کرا رہا ہے جو آنے والے کئی برسوں تک ان کی شناخت کو متاثر کر سکتے ہیں۔ مشرق وسطی کے ماہرین اس بارے میں فکر مند ہیں کہ مغرب پر انحصار کئے بغیر کسی طرح اپنی ثقافتی شناخت برقرار رکھی جائے ، کہ تعلیم اور ذرائع ابلاغ کے نظام کی بدولت مغرب کے اثر و رسوخ کو بالا دستی حاصل ہے اور گلوبلائزیشن کو نہ تو روکا جا سکتا ہے اور نہ ہی کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔

اگرچہ بہت سے عرب دانشوروں نے مغرب سے آزادی کی ضرورت پر بہت سے مضامین اور کتابیں لکھی ہیں ، لیکن عرب اور اسلامی ثقافت کی مغرب سازی کے خطرات ناقابل ضبط ہیں۔ اگرچہ گلوبلائزیشن کو مثبت طور پر دیکھا جاسکتا ہے ، لیکن بہت سے دانشور اسے استعماریت اور ثقافتی حملے کی علامت سمجھتے ہیں ، جس سے لوگوں کی شناخت اور ثقافتی انفرادیت کو خطرہ ہے۔ اسی طرح ، القاعدہ اور داعش کی تخلیق صرف عراق اور شام کی فوجوں کو تباہ کرنے کے لئے نہیں ہوئی تھی بلکہ اس کا مقصد ان کے ثقافتی اور تاریخی ورثہ اور ان کی قومی شناخت کو بھی تباہ کرنا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ داعش نے ان دونوں ممالک کے تاریخی مقامات کو تباہ کر دیا ہے۔

اب عالم عرب بے گھر ہو چکا ہے اور وہ دانشورانہ انتشار ، ثقافتی فقدان اور انحصار کی حالت میں ہے۔ اسی لئے بہت سے نوجوان دور خلافت کی اپنی قدیم عظمت اور وقار کو دوبارہ بحال کرنا چاہتے ہیں، کیونکہ وہ یہ محسوس کرتے ہیں کہ انہوں نے ‘‘تہذیبوں کے تصادم’’ میں اپنی شناخت کھو دی ہے۔ وہ ایک ایسی جدید ریاست قائم کرنا چاہتے ہیں جو اسلام کے نعرے کے تحت ان سب کو متحد کر دے۔ یہ داعش اور القاعدہ کا بجھایا ہو ایک جال ہے جس نے ان نوجوانوں کو گمراہ اور انتہا پسند بنا دیا ہے جو اسلام اور جدیدیت کی شناخت کے درمیان پس رہے ہیں۔

سموئیل ہنٹنگٹن نے اپنی کتاب "تہذیبوں کا تصادم (The Clash of Civilizations)" میں یہ لکھا ہے کہ مغرب اپنے افکار و نظریات اور اخلاقیات کو پھیلا کر اس دنیا پر حکمرانی کرنے کی کوشش کرے گا۔ عرب اور مسلم نوجوان اسے مسترد کر رہے ہیں جس کے نتیجے میں مشرق وسطی اور دیگر خطوں میں مغربی مفادات کے خلاف انتہا پسندی اور اقدامات کو فروغ حاصل ہو رہا ہے۔

عرب نوجوانوں اور مسلمانوں کے اندر انتہاپسندی اور دہشت گردی کے فروغ کی وجہ ثقافتی، اقتصادی ، سیاسی اور فوجی اعتبار سے مغرب اور ان کے اپنے تمدن کے درمیان تصادم ہے۔

انتہا پسندوں کی حکمت عملی اور فکر و نظر کے تعین میں تاریخی شناخت کو قومی مفادات کے ساتھ جوڑنا کافی اہم ہے۔ اگرچہ اکیسویں صدی میں مختلف ممالک کے درمیان سیاسی تعلقات اہم ہیں لیکن انتہا پسند گروہ اسے ضروری نہیں سمجھتے۔

عالم عرب اور مسلمانوں کو عالمی سطح پر ثقافتی شناخت کے بحران کا سامنا ہے اور انتہا پسند تنازعات بھڑکانے کے لئے اس کا استعمال کر رہے ہیں۔ یہ نئی سرحدیں کھینچنے کے لئے تہذیبوں کی جنگ ہے۔

تیونس، مصر، لیبیا، یمن اور شام میں عرب بہاریہ کا آغاز اور اس کے نتیجے میں شناخت کی جدوجہد میں لاکھوں افراد کی جانیں تلف ہوئی ہیں اور لاکھوں لوگ نقل مکانی پر مجبور ہوئے ہیں۔ دریں اثنا ، ان میں سے کسی نے بھی لڑنا نہیں چھوڑا اور وہ اچھی طرح اس بات کو سمجھتے ہیں کہ وہ کس کے لئے لڑ رہے ہیں اور کس کے خلاف لڑ رہے ہیں ۔ شام اس کی ایک بہترین مثال ہے۔

ان کے مخصوص سماجی، شناختی اور مذہبی حالات ہیں جو ایک معاشرتی اور ثقافتی ساخت میں باقی رہ سکتے ہیں اور وقتاً فوقتاً اس کے نتیجے میں تصادم بھی رونما ہوسکتا ہے۔ لیکن ایک تاریخی تناظر میں متعدد وجوہات کی بناء پر اس کا نتیجہ شناخت پر متعدد جماعتوں کے درمیان خونریز تصادم کی شکل میں بھی سامنے آ سکتا ہے۔

ماخذ:

arabnews.com/node/1295386

URL for English article: http://www.newageislam.com/islam,terrorism-and-jihad/maria-dubovikova/extremism-and-the-search-for-identity-in-the-arab-world/d/115129

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/extremism-search-identity-arab-world/d/115244

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


 

Loading..

Loading..